چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

٭……٭……٭
”فنکار تھیٹر گروپ“ ایک انٹرنیشنل تھیٹر گروپ تھا۔ یہاں اردو اور انگل زبان میں تھیٹر ڈرامے آرگنائز کئے جاتے۔
اداکاری، ڈائریکشن اور رائٹنگ کے حوالے سے ورک شاپس کا انعقاد بھی کیا جاتا۔
اندرون اور بیرون ملک کئی Festivals بھی منعقد کئے جاتے۔
رانیہ نے ملٹی میڈیا میں ماسٹرز کیا ہوا تھا اور ایکٹنگ اور فلم میکنگ کی کئی ورک شاپس میں بھی حصہ لیا ہوا تھا۔
اُسے Performing Arts میں بے حد دلچسپی تھی اور تھیٹر اُس نے اپنے شوق کی وجہ سے جوائن کیا تھا۔ اُسے مختلف روپ اپنانے اور چیلنجنگ کردار نبھانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔
کبھی اُسے گاؤں کی لڑکی کا کردار ملتا جو ریشمی اور رنگین کپڑے پہنتی، بالوں میں گھنگھرو والا پراندہ ڈالتی، پیروں میں پازیب اور ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں پہنتی۔
کبھی کسی انگلش ڈرامے میں وہ فرل والی میکسی اور تاج پہننے والی شہزادی بن جاتی۔
گوٹے والے چولی لہنگے پر کرن لگا دوپٹہ اوڑھے، چمکتے دمکتے زیور پہنے اُس نے ہیر کا کردار بھی نبھایا تھا۔
وہ اپنی زندگی میں خوش اور مطمئن تھی کہ اُس نے زندگی میں وہ سب کچھ کیا جو وہ کرنا چاہتی تھی۔ اُس کی خواہش حسرتیں نہیں بنیں۔ وہ خود کو ایک صبح نو بجے سے پانچ بجے تک آفس کی جاب کے لئے بالکل ہی غیر موزوں سمجھتی تھی۔
وہ ان لوگوں میں سے نہیں بننا چاہتی تھی جو اپنے شوق مجبوریوں کے لئے قربان کردیتے ہیں۔ اُسے اپنے گھر والوں کی سپورٹ حاصل تھی اور کسی نے کبھی اُس پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔
اُس کے گھر والے بے حد عجیب قسم کے کردار تھے۔ کم از کم اُسے تو ایسا ہی لگتا تھا۔ اُس کے گھر میں ہر وقت چہل پہل سی لگی رہتی۔
یہ گھر اُس کے مرحوم نانا کا تھا جسے کسی زمانے میں ایک نامور آرٹسٹ نے بنایا تھا۔
اونچی چھتوں اور جھڑکوں والا پرانے زمانے کا گھر، لکڑی کے دروازے، نقش و نگار والی کھڑکیاں، گول ستونوں والا برآمدہ اور وسیع صحن جس کے کنارے پر مٹی کی کیاریاں بنی ہوئی تھیں۔ جن میں چنبیلی کے پھولوں کے پودے لگے ہوئے تھے۔
کونے میں لگا جامن کا درخت بہت سے پرندوں کا مسکن تھا۔
اس گھر میں وہ لوگ کچھ عرصہ پہلے ہی آئے تھے۔ اس سے پہلے رانیہ کی فیملی چاند حویلی میں رہتی تھی، پھر ابو اور داداکے انتقال کے بعد جیمو ماموں رانیہ، امی اور عنایا کو یہاں نانا کے گھر لے آئے اور حویلی کو کرائے پر دے دیا۔
ابو کے انتقال کے بعد امی بلڈپریشر کا شکار رہنے لگی تھیں۔ انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آجاتا۔ اُن کی ڈانٹ ڈپٹ سارا دن جاری رہتی۔
رانیہ کے ابو کے انتقال کے بعد اُن پر دہری ذمہ داریاں آن پڑی تھیں۔ وہ بہت عرصہ ڈپریشن میں مبتلا رہیں اور سارا دن رانیہ کے ابو کو یاد کرتی رہتیں۔ یہ یادیں انہیں غمزدہ کئے رکھتیں۔ وہ رانیہ اور عنایا کی طرف دیکھیں تو اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے بھرجاتیں۔ پھر انہوں نے یادوں اور ڈپریشن سے فرار حاصل کرنے کے لئے خود کو مختلف کاموں میں مصروف کرلیا۔
کچن کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد اُن کا ایک ہی واحد مشغلہ ہوتا تھا۔ ٹی وی پر مہینوں چلنے والے سوپ اور ڈرامے دیکھنا۔ وہ رات کو آٹھ بجے ٹی وی کے آگے بیٹھتیں تو دس بجے ہی اُٹھتیں۔ اُن کے ڈراموں کے دوران کسی کو ٹی وی کا ریموٹ اٹھانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ اُن کی اِس ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے سارے گھر والوں کو مجبوراً وہ ڈرامے دیکھنے پڑتے۔
امی بے حد ملنسار خاتون بھی تھیں۔ انہیں لوگوں سے ملنے جلنے اور اُن سے باتیں کرنے کا شوق تھا۔ اس طرح وہ لاشعوری طور پر اپنی تنہائی کو ختم کرنے اور اپنی زندگی کے خلاء کو پر کرنے کی کوشش کرتی تھیں۔ اسی لئے تو انہوں نے رانیہ کو ناچاہتے ہوئے بھی تھیٹر میں پرفارم کرنے کی اجازت دے دی تھی،کہ رانیہ بھی کہیں ان کی طرح ڈپریشن کا شکار نہ ہوجائے۔
امی گھر میں اپنے پسندیدہ لوگوں کی آمد کا انتظار کرتی رہتیں جن میں سرفہرست امی کی رشتے کی خالہ فردوس جہاں عرف فردوسی بیگم اور اُن کی بیٹی روشنی تھیں۔
فرووسی خالہ اپنے محلے اور خاندان کی مشہور و معروف سوشل ورکر تھیں اور اِس سوشل ورک کا آغاز انہوں نے اپنے گھر سے کیا تھا۔ وہ گورنمنٹ سکول کی ریٹائرڈ پرنسپل تھیں، اور ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی تنہائی سے خوفزدہ تھیں مگر اب تو صبح و شام اُن کے گھر میں میلہ سا لگا رہتا تھا۔
محلے اور خاندان والے صدقہ، خیرات، گھر میں استعمال نہ کی جانے والی چیزیں خالہ کے گھر بھجوادیتے۔ خود تو وہ اکیلی رہتی تھیں مگر اُن کے گھر ہر وقت مستحقین کا آنا جانا لگا رہتا۔ اُن کے گھر میں لوگوں کی بھجوائی گئی چیزوں کے ڈھیر جمع ہوتے۔ گرمی، سردی کے کپڑے، جوتے، سوئیٹر، چادریں، کمبل، تکیے، رضائیاں، پرانے پردے، بستر، برتن، بچوں کی کتابیں، کاپیاں وغیرہ…… جس کو جس چیز کی بھی ضرورت ہوتی تو وہ خالہ فردوسی سے رابطہ کرتا۔
بڑھاپے کا تو کوئی علاج نہیں تھا مگر تنہائی سے خوفزدہ تھیں مگر اب تو صبح و شام اُن کے گھر میں میلہ سالگا رہتا اُن کا بیٹا اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا میں رہتا تھا اور اُن کی بیٹی روشنی بیگم، کی برسوں پہلے شادی ہوگئی تھی اور وہ رانیہ کی امی کی گہری سہیلی تھیں۔اُن کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ شوہر بھی سارا دن باہر رہتے تو وہ اکثر یہاں آجاتیں۔ اُن کا گھر یہیں قریب ہی تھا۔
یوں تو جیمو ماموں کا نام جمیل احمد تھا مگر وہ جگت ماموں تھے۔ رانیہ اور عنایا کی دیکھا دیکھی محلے اور خاندان کے سب لڑکے لڑکیاں انہیں جیمو ماموں ہی کہتے تھے۔
وہ ریڈیو پاکستان سے ریٹائر ہوئے تھے۔ کچھ سال پہلے اُن کی بیگم کا انتقال ہوگیا تھا۔ انہیں اپنی بیگم سے عشق تھا۔ اُن کے انتقال کے بعد وہ ٹوٹ گئے اور انہوں نے بہت مشکل سے خود کو اور اپنے بچوں کو سنبھالا مگر اُن کی زندگی میں ایک خلاء رہ گیا جو پھر کبھی پورا نہیں ہوسکا۔
انہوں نے اپنے دکھوں اور غموں کو زندہ دلی کی آڑ میں چھپا لیا اور لوگوں کے اصرار کے باوجود انہوں نے دوسری شادی نہیں کی۔ اس عمر میں بھی ان کے بے شمار شوق تھے۔ انہیں آرٹ، شاعری اور موسیقی میں بے حد دلچسپی تھی۔ وہ خود تو شاعر نہیں تھے مگر انہیں شاعری پڑھنے اور سننے کا بے حد شوق تھا۔
اُن کے کمرے اور لاؤنج کے ریک میں فیض، فراز، پروین شاکر، غالب کی کتابیں رکھی تھیں جنہیں ان کے علاوہ کسی اور کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔
شہر میں ہونے والے ہر کتابی میلے میں ان کی شرکت لازمی تھی۔
وہ اکثر چاندنی راتوں میں صحن میں چنبیلی کے پھولوں کے پاس بیٹھ کر بانسری بجایا کرتے۔
وہ خاندان اور محلے بھر میں ایک باذوق شخصیت کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے تھے۔
وہ ہر اُس بندے کو پسند کرتے جو چپ چاپ بغیر احتجاج کئے اُن کی پڑھی گئی غزلیں اور شعر سنتا رہتا۔
رانیہ کی امی انہیں کہتی رہتیں کہ جیمو گھر بسا لو تو وہ مسکرا کر کہتے کہ آپا میرا گھر تو بسا ہوا ہے۔ امی چپ کر جاتیں۔ ساری دلیلیں ماموں کے ایک جملے کے سامنے صفر ہوجاتیں۔ انہوں نے اپنے غم اور تنہائی کو دور کرنے کے لئے خود کو مصروفیات میں گم کرلیا۔
وہ جینا چاہتے تھے، اپنے لئے، اپنے بچوں کے لئے، رانیہ اور عنایا کے لئے۔ انہیں زندگی سے محبت تھی۔ وہ تنہائی کے آسیب سے خوفزدہ تھے۔ اسی لئے تو مختلف سرگرمیوں میں مصروف رہتے۔ وہ خود کو مصرو ف رکھنے کی کوشش کرتے۔
اُن پر ثمن اور ٹیپو کے ساتھ رانیہ اور عنایا کی ذمہ داری بھی آن پڑی تھی۔ انہیں بہن کی بیوگی کا بھی غم تھا۔
انہوں نے اپنی زندہ دلی کوبرقرار رکھا۔ وہ اپنا غم چھپا کر مسکراتے، ہنستے ہنساتے تاکہ چاروں بچے بھی خوش رہیں۔
ثمن ایک ٹام بوائے جیسی لڑکی تھی۔ وہ اور ٹیپو صحن میں کرکٹ کھیلتے، جامن کے درخت پر چڑھ کر جامن توڑتے چھت پر پتنگیں اڑاتے، لڈو اور کیرم کھیلتے، کبھی کبھار عنایا بھی اُن کے ساتھ شامل ہوجاتی۔
امی کو گھر کے چارو ں بچوں کی سرگرمیوں اور عادتوں پر اعتراض تھا مگر ماموں کی وجہ سے وہ کسی کو روک ٹوک نہ پاتیں۔
وہ بچوں کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوجاتے۔
عنایا ہوم اکنامکس میں ماسٹرز کررہی تھی۔ اُسے کوکنگ کا بھی شوق تھا۔ اُس کی کوکنگ کی بدولت گھر والوں کو اٹالین، چائینز کھانے کھانے کا موقع مل جاتا تھا۔
لاؤنج میں دن کے اِس پہر بڑی گہما گہمی تھی۔ یہ لاؤنج پرانی طرز کے اِنٹریئر کا حامل تھا۔
سرخ ایرانی قالین، وکٹورین طرز کے صوفے، اخروٹ کی لکڑی کی میزیں، پیتل کے گلدان، ریشمی پردے اور پرانے زمانے کی Paintings……
وسیع و عریض لاؤنج کے کئی حصے تھے۔ ایک حصے میں ڈائیننگ ٹیبل اور کرسیاں پڑی تھیں۔
دوسرے حصے میں ٹی وی اور صوفوں کے ساتھ سٹینگ ایریا بنا ہوا تھا۔ ایک کونے میں دیوار کے ساتھ ساٹن کے تخت پوش اور گاؤ تکیوں سے سجا ماموں کا مخصوص تخت رکھا تھا۔
فردوسی بیگم روشنی کے ساتھ رانیہ کے گھر آئی تھیں۔ عنایا سب کے لئے چائے بنارہی تھی۔ ثمن اور ٹیپو ایک کونے میں بیٹھے لڈو کھیلنے میں مصروف تھے۔
روشنی اور فردوسی خالہ رانیہ کے موبائل پر تھیٹر ڈرامے کی تصویریں دیکھ رہی تھیں۔
جیمو ماموں انہیں ہر سین کی تفصیل بتاتے جارہے تھے۔
”رانیہ تو بالکل اصل والی ملکہ لگ رہی ہے۔“ فردوسی خالہ نے عینک درست کرتے ہوئے دلچسپی سے تصویریں دیکھتے ہوئے کہا۔
”بہت اچھی لگ رہی ہو رانیہ۔ تصویروں سے اندازہ ہورہا ہے کہ تمہارا تھیٹر ڈرامہ بھی زبردست ہوگا۔“
روشنی نے ہر تصویر کو دیکھتے ہوئے اُس کی تعریف کی۔
”تھینک یو روشنی باجی، آپ بھی آجاتیں، میں نے تو آپ سے اور فردوسی خالہ سے کہا بھی تھا!“ رانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تمہیں تو پتا ہے تمہارے دلہا بھائی کہاں مجھے تھیٹر آنے جانے دیتے ہیں۔“
روشنی نے منہ بناکر جواباً کہا۔
”حالانکہ خود تو وہ ہر دوسرے تیسرے روز اپنے دوستوں کے ساتھ سینما پہنچے ہوتے ہیں۔“ ماموں بے ساختہ بولے۔
”ہاں جی…… سب پابندیاں تو بس بیوی کے لئے ہی ہوتی ہیں۔“ روشنی نے گہرا سانس لے کرکہا۔
”ارے بھئی میں تو کبھی تھیٹر نہیں گئی۔ ہاں جب سکول میں جاب کرنا شروع کی تھی تو چھٹی کے بعد اپنی سہیلیوں کے ساتھ شبنم اورندیم کی فلمیں دیکھنے سینما جایا کرتی تھی۔“ فردوسی خالہ مسکرا کر بولیں۔
”واہ خالہ آپ تو اپنے زمانے میں بہت ماڈرن ہوتی تھیں۔“ عنایا نے انہیں چائے کاکپ پکڑاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”ہاں بھئی…… جوانی میں ہر کوئی تھوڑا بہت تو ماڈرن ہوتا ہی ہے۔“ خالہ نے مسکرا کر کہا۔
”یہ تاج تو بہت خوبصورت ہے۔ کہاں سے لیا؟“ روشنی نے تصویر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”انارکلی سے۔“
جواب چائے بناتی عنایا نے دیا۔ یہ ساری شاپنگ دراصل اُسی نے کی تھی۔
”اور یہ لباس کہاں سے بنوایا؟“
سب لوگ باتوں میں مصروف تھے۔
”صدر بازار والے درزی سے…… اور ڈیزائن انٹرنیٹ سے لیا تھا۔“
یہ ثمن تھی۔
رانیہ کو جواب دینے کی ضرورت ہی نہ پڑی۔ اُس کے گھر والے ہر انفارمیشن پاس کرنے میں ماہر تھے۔
”اور یہ عمدہ انگوٹھیاں، جیولری ہم نے ایک ریڑھی والے سے لی تھیں؟“
عنایا نے سوال کرنے سے پہلے ہی مزید معلومات دے دیں۔
”واہ بھئی…… خیر یہ بتاؤ کہ تھیٹر میں کوئی پیسے وغیرہ بھی ملتے ہیں یا صرف واہ واہ ہی ہوتی ہے۔“
خالہ نے رازداری سے پوچھا۔
”تھوڑے بہت پیسے تو مل ہی جاتے ہیں مگر تھیٹر میرا شوق ہے۔“رانیہ نے کہا۔
”بس اس کے شوق کی وجہ سے ہم میں سے کسی نے اسے منع نہیں کیا۔“امی نے کہا۔
”اچھی بات ہے۔ شوق پورے کرلینے چاہیے۔“ خالہ مسکرا کر بولیں۔
”میں بھی آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔“ ماموں بھی مسکرائے۔
”جیمو میاں! یہ بتاؤ…… کہ تم آج کل کون سے شوق پورے کررہے ہو۔“ خالہ نے پوچھا۔
”ماموں آج کل چاندنی راتوں میں صحن میں بیٹھ کر بانسری بجاتے رہتے ہیں۔“ جواب عنایا نے دیا۔
”اور جھاڑیوں میں چھپے جگنوؤں کو دیکھ کر غزلیں پڑھتے رہتے ہیں۔“ ثمن نے مسکرا کر کہا۔
”واہ بھئی واہ۔“ خالہ متاثر ہوگئیں۔
”جیمو ماموں اور بانسری کی تانیں۔“ رانیہ نے مسکرا کر شوخی سے کہا۔
گھر کے سب لوگ ماموں کو چھیڑنے کے عادی تھے۔
”جیمو ماموں اور تازہ غزلیں۔“ عنایا مسکرا کر بولی۔
”جیمو ماموں اور چمکتی چاندنی۔“ رانیہ نے ایک اور عنوان پڑھا۔
”جیمو ماموں اور ستار……“عنایا نے ہنسی کے دوران کہا۔
ماموں مسکرا مسکرا کر یہ القابات سن رہے تھے۔ ان لوگوں کی دلچسپ باتیں جاری تھیں اور امی سارے گھر کی تلاشی لے کر ایک گٹھری میں چیزیں جمع کرکے لارہی تھیں۔ یہ اُن کا پسندیدہ کام تھا۔
وہ صدقہ و خیرات کا بے حد اہتمام کرتیں اور کارِ خیر میں بے حد شوق سے حصہ لیتیں۔
فردوسی خالہ نے عینک درست کرتے ہوئے پرس میں سے چھوٹی سی ڈائری نکالی اور سوچ کر لکھنے لگیں کہ کون سی چیز کس کو دینی چاہیے۔
امی باری باری گٹھری میں سے چیزیں نکال کر فردوسی خالہ کو دے رہی تھیں۔ لاؤنج میں موجود سب لوگوں کی نظریں گٹھری پر ہی مرکوز تھیں۔
”میرا نیا کرتا!“
اپنا کڑھائی والا کرتا امی کے ہاتھ میں دیکھ کر جیمو ماموں نے مقدور بھر احتجاج کیا۔
امی نے انہیں گھور کر دیکھا۔
”دو مہینوں سے تو تم نے اسے پہنا ہی نہیں، یہ تو آج میں نے ڈھونڈ لیا تو تمہیں کرتا یاد آگیا۔ اچھا ہے کسی غریب کے کام آجائے گا۔ بہت کرتے ہیں تمہارے پاس۔“
امی نے ان کے احتجاج کی پروا نہیں کی۔ وہ بھی بادل نخواستہ فردوسی خالہ کے سامنے خاموش ہوگئے۔ ورنہ بس نہ چلتا تھا کہ کسی طرح فوراً اپنا کرتا کھینچ لیں۔
فردوسی خالہ نے کرتے کو ستائشی نظروں سے دیکھا پھر ڈائری میں لکھنے لگیں۔
”کڑھائی والا کرتا تو میں فضلو دودھ والے کو دے دوگی۔ بے چارہ غریب آدمی ہے۔
ماموں چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کہہ سکے۔ سب کی نظریں اس گٹھری پر مرکوز تھیں جس میں امی نے چیزیں جمع کرکے رکھی ہوئی تھیں۔ اور یہ خزانہ وہ فردوسی خالہ کے حوالے کرنا چاہتی تھیں۔
”پھپھو! میرے جوتے!“ ٹیپو نے احتجا ج کیا۔
”چھوٹے ہوگئے ہیں تمہیں۔ کسی ضرورت مند کے کام ہی آجائیں گے۔ بھلا ہوجائے گا کسی کا۔“
امی نے ٹیپو کے احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے خود ہی فیصلہ کرلیا۔
”یہ جوتے میں فضلو دودھ والے کے بیٹے کو دے دوں گی وہ بھی سکول جاتا ہے۔“
فردوسی خالہ نے ڈائری میں لکھتے ہوئے اطمینان بھرے انداز میں کہا۔
”جی ٹھیک ہے۔“
امی نے بھی اطمینان بھرے انداز میں کہا پھر کہکشاں کے رنگوں والا سوٹ گٹھری میں سے نکال کر فردوسی خالہ کی طرف بڑھایا۔ عنایا تو اُچھل ہی پڑی۔
”امی! یہ تو میرا نیا سوٹ ہے۔“
عنایا نے ہاتھ بڑھا کر سوٹ لینے کی کوشش کی مگر ناکام ہوئی۔
امی نے اُس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
”نئی چیزیں بھی صدقہ کردینی چاہیے۔ صرف پرانی یا فالتو چیزیں ہی ضرورت مندوں کو نہیں دینی چاہیے۔“
امی نے اُسے ڈانٹ دیا۔ انہیں سخاوت کا شوق بھی تھا اور انہیں غریبوں کا بڑا خیال بھی رہتا تھا۔ فکر بھی رہتی تھی کہ کسی طرح ثواب مل جائے۔
”ہاں …… فضلودودھ والے کی بیٹی کو دے دوں گی…… وہ نیا سوٹ لے کر خوش ہوجائے گی۔ صرف بچوں کی ضرورتیں پوری کرنا ہی اہم نہیں ہوتا بیٹا! لوگوں میں خوشیاں بھی بانٹنی چاہیے۔“ فردوسی خالہ نے مسکرا کر کہا۔
”کون ہے یہ فضلو دودھ والا؟ مجھے تو اس آدمی سے نفرت ہوگئی ہے۔ اور یہ اتنا بھی غریب بے چارہ نہیں ہوگا۔ کاروباری آدمی ہے، اپنی بھینسیں ہوں گی، گاہک بھی خوب ہوں گے اس کے……یہ آدمی آپ کو بے وقوف بنارہا ہے خالہ!“ماموں نے خفا سے انداز میں کہا۔
”قرض دار ہے بے چارہ…… بیٹی کی شادی پر قرض لیا تھا جسے ابھی تک نہیں ادا کرپایا اور پھر گاؤں سے آتا ہے غریب، گرمی سرداری کی پرواہ کئے بغیر…… مال مویشیوں کے بھی بڑے اخراجات ہوتے ہیں ……اور ایماندار ایسا کہ دودھ میں ایک قطرہ بھی پانی کانہیں ملاتا۔“
خالہ نے ان لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی۔
”آپ کو کیا پتا خالہ کہ وہ دودھ میں پانی ملاتا ہے یا نہیں؟“ رانیہ نے بے ساختہ کہا۔
”ارے مجھے خالص دودھ کی پہچان ہے۔ یہ بال میں نے دھوپ میں سفید نہیں کئے۔ ایماندار اور بے ایمان کو دیکھ کر پہچان لیتی ہوں۔“
خالہ اپنی بات پر قائم تھیں۔ انہیں اپنے اندازوں پر بڑا یقین تھا۔
”اب تو فضلو دودھ والا آہستہ آہستہ امیر ہوجائے گا۔“
ٹیپو بھی بڑبڑایا۔
”اس کے امیر ہونے کے چکر میں کہیں ہم غریب نہ ہوجائیں۔“ عنایا نے کہا۔
”ارے خالہ یہ لوگ تو یونہی بولتے رہیں گے۔ آپ لسٹ بنالیں اور ضرورت مند لوگوں تک یہ چیزیں پہنچادیں۔“
امی نے ان لوگوں کی باتوں سے عاجز آکر کہا۔ خالہ اپنی ڈائری کے ساتھ مصروف ہوگئیں۔
موقع پاکر روشنی نے جیمو ماموں سے سرگوشی کے سے انداز میں کہا۔
”جیمو بھائی! مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔“
ماموں ذرا چونکے۔
انہوں نے اُن کی مدھم آواز سے اندازہ لگایا کہ وہ کوئی راز کی بات بتانا چاہتی ہیں۔ وہ الرٹ ہوگئے کہ ان کی راز کی باتیں بڑی خطرناک ہوتی تھیں۔
”بتائیں …… آپ کے میاں کے حالات کچھ بہتر ہوئے؟ میری بتائی گئی تدابیر کارگر ثابت ہوئیں؟“ وہ دھیمی آواز میں بولے۔
روشنی نے افسوس سے نفی میں سرہلایا۔
”نہیں …… اُن کی تو وہی حرکتیں ہیں۔ میں نے ثاقب کے موبائل سے اُس عورت کا نمبر نوٹ کرلیا ہے۔ جس سے اُن کی دوستی ہے۔ میں آپ کو وہ نمبر سینڈ کرتی ہوں۔ آپ اُس عورت سے دوستی کرلیں۔“
روشنی نے دھیمی آواز میں مشورہ دیا۔
جیمو ماموں بوکھلا گئے۔
”میں ایک شریف آدمی ہوں۔ روشنی بی بی؟“
ماموں برا مان گئے۔
”دیکھیں! کسی کا گھر بچانا بھی توضروری ہے نا۔ اس طرح اس عورت کی توجہ ثاقب سے ہٹ جائے گی۔ میں جانتی ہوں آپ یہ کام کرلیں گے۔ آپ کو گفتگو کا فن آتا ہے۔“
وہ اپنی بات پر اڑی رہیں۔
”اس طرح گھر نہیں بچائے جاتے…… کیا پتا کہ وہ کون عورت ہے۔ کہیں میں ہی نا پھنس جاؤں! اور میں تو یہ کہوں گا کہ قصور اس عورت کا نہیں بلکہ آپ کے میاں کا ہے۔“
ماموں دھیمی آواز میں بولے۔
روشنی پھر بھی اصرار کرتی رہیں۔
لوگوں کے مسئلے تو آپ فوراً حل کرلیتے ہیں۔ مجھے نہیں پتا بس میرا مسئلہ بھی حل کریں آپ۔ کیا آپ کو نہیں پتا کہ میں کتنی دکھی ہوں۔ آپ کو میرا کوئی احساس نہیں ہے۔“
وہ ناراض ہوگئیں۔
”مجھے تو احساس ہے مگر آپ کے میاں کو احساس نہیں ہے۔ آپ کو تو وہ برقعے کے بغیر گھر سے باہر نکلنے نہیں دیتے اور خود ابھی تک لڑکوں کی طرح دوستوں کے ساتھ گھومتے پھرتے رہتے ہیں، غیر عورتوں سے دوستی کرتے ہیں، افیئرز چلاتے ہیں …… اب میں ایسے لوگوں کو کیا کہوں؟“
ماموں عاجز آگئے۔
”بس مجھے کچھ نہیں پتا، آپ تو میرے ہے کچھ کرنا ہی ہوگا۔“
انہوں نے ضد کی۔
”ورنہ آپ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گی۔“
ماموں بے ساختہ بولے۔
”کبھی نہیں۔“
وہ جذباتی ہوگئیں۔
”چلیں میں کچھ سوچتا ہوں۔“
انہوں نے سہولت سے بات سمیٹی۔
روشنی کو ذرا تسلی ہوئی۔
ماموں چائے پیتے ہوئے کسی سو چ میں گم ہوگئے۔
لوگوں کے مسائل حل کرنا بھی کون سا آسان کام تھا۔
٭……٭……٭

Loading

Read Previous

ماں کا آکاش

Read Next

چنبیلی کے پھول” (قسط نمبر2)“

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!