رئیس کے انتقال کے بعد عفت بیگم بڑی insecureہوگئی تھیں اس لئے انہوں نے ساری توجہ زوار پر مرکوز کردی تھی۔ اُن کے پروپیگنڈا اور جھوٹی سچی باتوں نے زوار کو ماں سے متنفر کردیا۔ ماہم زوار کے ساتھ سائے کی طرح رہتی اور وہ بھی عفت بیگم کی رشتہ دار تھی۔
عفت بیگم زوار پر سب سے زیادہ اپنا حق سمجھتی تھیں، پھر ناصرہ کی زندگی میں نیا موڑ آیا۔
فیکٹری کے ایک معمولی مگر ہوشیار ملازم نے اُسے کے آگے پیچھے پھرنا شروع کردیا۔ وہ بڑھ چڑھ کر اُس کے کام کرتا۔وہ یہ جان چکا تھا کہ یہ عورت اکیلی ہے۔ دنیا کی ستائی ہوئی ہے۔ اسے توجہ اور محبت کی ضرورت ہے۔ اُس نے ایک بیوہ عورت کے اکیلے پن سے فائدہ اٹھایا۔ اس کی نظر اُس کی دولت پر تھی۔ وہ منصوبے بناتا کہ کسی طرح ناصرہ کو ٹریپ کرکے راتو ں رات امیر ہوجائے۔ پہلے وہ سمجھتا تھا کہ جوان ہوتے بچوں کی ماں کو بے وقوف بنانا اتنا آسان نہیں ہوگا مگر جب اُس نے ناصرہ کو ٹریپ کرنے کی کوشش کی تو اُسے اندازہ ہوا کہ یہ کام تو کم عمر ، جوان لڑکیوں کو بے وقوف بنانے سے بھی زیادہ آسان ہے۔
اکیلے، تنہا، heart brokenاور ٹوٹے ہوئے دل والے لوگوں کو بے وقوف بنانا بہت سہل اور بڑا آسان ہوتا ہے۔ صرف محبت، توجہ اور ان کے وعدوں کی ضرورت ہی تو ہوتی ہے۔
پہلے پہل اُں دونوں میں صرف بات چیت ہوتی تھی۔ بڑی معمولی اور عام سی باتیں، ایک دوسرے کا حال چال پوچھنا، بچوں کے بارے میں پوچھنا، چھوٹے موٹے سوال کرنا… کچھ مخصوص جملے…
”آپ کیسی ہیں؟”
”دن کیسا گزرا؟”
”طبیعت کیسی ہے؟”
”آپ پریشان نہ ہوں، میں اوور ٹائم کرلوں گا۔ آپ کو آرڈر تیار ملے گا۔ میںہوں نا آپ کا رائٹ ہینڈ۔”
وہ مسائل کو منٹوں میں حل کرلیتا۔ اُسے گفتگو کا فن آتا تھا۔
پھر بات چیت بڑھتے ہوئے فون کالز تک آگئی۔ وہ خواہ مخواہ کے وعدے کرنے لگ گیا۔
”آپ فکر نہ کریں ۔ میں ہمیشہ آپ کے ساتھ کھڑا رہوں گا۔ ہمیشہ آپ کا ساتھ دوں گا۔”
”آپ ہمیشہ مجھے اپنے ساتھ مخلص اور وفادار پائیں گے۔ آپ اکیلی نہیں ہیں خود کو تنہا نہ سمجھیں۔”
”ہر انسان اپنی اپنی جگہ مشکلات سے مقابلہ کررہا ہے۔ آپ حوصلہ نہ ہاریں۔ مجھ سے جو بھی ہوسکا وہ آپ کے لئے کروں گا۔ ”
یہ سارے ڈائیلاگز وقتاً فوقتاً بول کر اُس نے ناصرہ کا دل جیت لیا۔ ٹوٹے ہوئے لوگوں کا دل جیتنا اتنا مشکل بھی نہیں ہوتا، بعض دفعہ تو یہ کام بہت ہی آسان ثابت ہوتا ہے… اتنا آسان کہ لوگوں کے لئے ہنسی کھیل ہی بن جاتا۔
پھر اُس فیکٹری ورکر کی باتوں میں زنگ جھلملانے لگے۔ باتوں کا اندازہ بدل گیا۔
”آپ اس دنیا کی سب سے حسین خاتون ہیں۔”
”آ پ نے جس محنت اور لگن سے اس فیکٹری کو سنبھالا ہے اس کی تو کہیں مثال ہی نہیں ملتی۔”
”میں نے تو آپ جیسی جامہ زیب خاتون آج تک نہیں دیکھی۔ آپ پر تو ہر رنگ سج جاتا ہے۔”
وہ اس کے حسن کے قصیدے پڑھتا ۔
وہ سرجھٹک کر کہتی۔
”مگر میں دو بچوں کی ماں بھی ہوں اور میرے بچے بڑے ہورہے ہیں۔”
”تو کیا دو بچوں کی ماں بن کر عورت خوبصورت نہیں رہتی!”
وہ باتوں کے دائو پیچ خوب جانتا تھا۔
ناصرہ اپنا مسئلہ خود بھی نہ سمجھ سکی تھی۔ وہ تنہائی کا شکار، ڈپریشن میں رہنے والی ایک ٹوٹے دل والی عورت تھی۔ اُسے ایک دوست کی ضرورت تھی جو اُسے Understandکرسکے۔ اُس کی عزت کرے، اُسے اہمیت دے۔ وہ کسی سے بات کرنا چاہتی تھی۔
اُسے لگا جیسے اندر سے وہ ابھی تک ایک ٹین ایجر لڑکی ہی تھی۔ وہ کئی بار خود کو سرزش کرتی کہ اُسے یہ سب زیب نہیں دیتا۔ اس عمر میں کسی مرد سے یوں باتیں کرنا بہت خطرناک تھا۔ وہ اس راستے پر نہیں جانا چاہتی تھی مگر لوگوں سے لڑتے لڑتے وہ تھک چکی تھی۔ اُس آدمی سے بات کرکے اُس کا ڈپریشن کم ہوجاتا ۔ وہ جیسے اُس کا معالج بن گیا تھا۔
اُس نے اپنی ساری زندگی نفرتوں اور محرومیوں میں گزاری تھی ۔ جس کی وجہ سے اس کی شخصیت پر بے حد بُرا اثر پڑا تھا ۔ وہ کس کو قصور وار سمجھتی! لوگ انسانوں سے محبت نہیں کرتے۔
وہ جاہل ماں باپ کی بیٹی تھی۔ بھلا عقلمند ی کا فیصلہ کیسے کرتی!
پھر اس نے اُسے پروپوز کردیا۔ وہ محبت کا بلند و بانگ دعوے کرنے لگا۔
”میرا دل نہ توڑیں ۔ میں آپ کو دنیا کی ہر ممکنہ خوشی دوں گا۔”
”خوشی؟”
وہ اس لفظ کو سن کر گم صم ہوجاتی۔
”میری خوشیاں میرے بچوں سے وابستہ ہیں۔” اُس نے اس ایک جملے میں اُسے اپنا code of lifeبتا دیا ۔
”میں آپ کے بچوں کو باپ کا پیار دوں گا۔ میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ کا ساتھ چاہتا ہوں۔ میں آپ کی اور آپ کے بچوں کی ساری ذمہ داریاں اٹھائوں گا۔ہم یہاں سے کہیں دور چلے جائیں گے۔ کسی دوسرے ملک… وہاں جاکر اپنی نئی زندگی شروع کریں گے۔ خوشیوں بھری پرسکون زندگی۔”
”یہ اتنا آسان نہیں ہے۔”
وہ تذبذب کے عالم میں کہتی۔
وہ اُسے تسلی دیتا۔
مشکل بھی نہیں ہے۔ خالی جیب پھرنے والوں کے لئے ہر کام مشکل ہوتا ہے۔ آپ تو خود مختار ہیں ۔دولت مند ہیں۔ فیکٹری کی مالک ہیں۔”
”میں اکیلی تو فیکٹری کی مالک نہیں ہوں۔ میرے بچے بھی تو وارث ہیں اور فیکٹری تو میرے بیٹے کی ہے۔”
”بچے بھی تو آپ ہی کے ہیں تو پھر یہ سب کچھ آپ ہی کا ہوا۔ مجھ پر اعتبار کریں ۔ میں آپ کو چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔”
ناصرہ نے اپنے آنسو چھپا لئے۔
”لوگ کیا کہیں گے؟ اس عمر میں شادی؟”
اس کی آواز دھیمی پڑگئی۔
”ابھی بھی آپ شادی کرسکتی ہیں۔ کوئی بوڑھی تو نہیں ہوگئی آپ… اب بھی آپ کے پاس ایسا حسن ہے جو دیکھنے والے کی آنکھ کو مبہوت کردے۔ دین، مذہب، شریعت نے بیوہ کو دوسری شادی کا حق دیا ہے پھر لوگ کون ہوتے ہیں آپ کو دوسری شادی سے روکنے والے… شادی میں عمروں کا حق نہیں دیکھا جاتا۔ جب ایک بڑی عمر کا آدمی خود سے کئی سال چھوٹی لڑکی سے شادی کرسکتا ہے تو پھر ایک عورت خود سے کئی سال چھوٹے لڑکے سے شادی کیوں نہیں کرسکتی۔”
اُس کے پاس بڑی دلیلیں تھیں۔
وہ جانتا تھا کہ آہستہ آہستہ وہ اسے قائل کرلے گا۔
”اس معاشرے کے روا ج بہت بے رحم ہیں۔”
پھر بھی ناصرہ کے دل میں خوف تھا۔
”ہم نے ہی معاشرے کے ان رواجوں کو بدلنا ہے۔ اپنی خوشیوں کے لئے، اپنی آئندہ نسلوں کی بقاء کے لئے… ان بے رحم رواجوں نے معاشرے کے لوگو ں کو ذہنی مریض بنادیا ہے۔ وہ خوشیوں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ عورتیں بیوہ ہوجائیں اور اُن کی عمر بڑھ جائے تو کیا اُن کی خواہشات بھی ختم ہوجاتی ہیں؟
کیا بیوگی اُن کے حقوق بھی غضب کرلیتی ہے۔ آ پ کیا چاہتی ہیں کہ صبح فیکٹری جائیں، وہاں سر کھپاتی رہیں، فائلوں کے انبار کے درمیان بیٹھی رہیں اور شام کو تھکی ہاری واپس گھر آجائیں ۔ یہ زندگی کا کون سا ڈھنگ ہے۔ لوگ تو ڈپریشن میں مبتلا لوگوں کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں تو آپ کیا دنیا والوں کو ایسے خوش کریں گی؟”
وہ غضب کا مقرر تھا۔
ناصرہ عجب دوراہے پر کھڑی تھی۔
برسوں پہلے اُس نے رئیس سے شادی کی تھی، وہ ایک ٹین ایجر لڑکی کا فیصلہ تھا، اور یہ ایک ٹوٹے دل والی depressedعورت کا فیصلہ تھا۔ پھر فیصلہ ہوگیا۔
بات پھیل گئی۔ لوگوں نے بڑی باتیں بنائیں۔ اُسے اُس فیکٹری ورکر کے ساتھ اسکینڈلائنزکردیا گیا۔ زوار تک یہ باتیں بہت غلط انداز تک پہنچیں۔
زوار کالج میں اور سارہ سکول میں پڑھتی تھی۔ زوار اٹھارہ سال کا اور سارہ گیارہ سال کی تھی۔
وہ مڈل کلاس کے بچے نہیں تھے جو بس سارا وقت گھر میں ہی بیٹھے پڑھائی کرتے رہتے۔ اُن کی اپنی activitiesتھیں، اپنی دلچسپیاں تھیں ۔ سکول اور کالج ، ٹیوشن ٹیچر، فرینڈ، پارٹیز، tripsاور ٹوئورز… پھر بھی وہ اپنی ماں کی دوسری شادی اتنی آسانی سے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ رئیس کے خاندان کے لوگوں نے ناصرہ سے قطع تعلق کرلیا۔ ہر جگہ باتیں ہونے لگیں۔
لندن اور امریکہ گھومنے والے ایلیٹ کلاس کے لوگ ناصرہ کی دوسری شادی کے معاملے میں گلی محلے میں رہنے والے لوگوں کی طرح تنگ نظر بن گئے اور ناصرہ کی دوسری شادی خاندان کی غیرت کا مسئلہ بن گئی۔
ہر جگہ یہی باتیں ہونے لگیں۔
”ناصرہ دوسری شادی کیسے کرسکتی ہے!”
”وہ بھی فیکٹری کے معمولی ملازم سے!”
”ناصرہ کو شرم آنی چاہیے۔”
”وہ جوان بیٹے کی ماں ہے۔ چلو سارہ تو چھوٹی ہے مگر اُسے زوار کے بارے میں بھی تو سوچنا چاہیے۔”
”آخر ہے نا! سبزی فروش کی بیٹی! اپنی اوقات تو دکھائے گی ہی۔”
ناصرہ تو ساری زندگی اُن لوگوں کے لئے سبزی فروش کی بیٹی ہی رہی تھی۔ اُسے تو کبھی آفندی خاندان کی بہو سمجھا ہی نہ گیا تھا۔
سلیولیس پہننے والی الٹر ا ماڈرن خواتین ناصرہ کی دوسری شادی پر لوئر مڈل کلاس کی اُن عورتوں کی طرح reactکررہی تھیں جو کبھی اپنے گھر سے باہر ہی نہ نکلی ہوں اور انہوں نے کسی عورت کے بارے میں ایسی بات ہی نہ سنی ہو۔
اپنی سیکریٹر ی اورکولیگز سے چھپ کر افیئر چلانے والے مردوں کو ناصرہ کی دوسری شادی کے معاملے میں اچانک غیرت یاد آگئی۔ عفت بیگم نے تو گھر میں طوفان ہی اٹھا دیا۔ ماہم الگ زوار سے ناراض تھی جیسے یہ سب زوار ہی کا قصور ہو۔ اُس کا خیال تھا چونکہ وہ اپنی ممی کو سمجھا نہیں سکا اس لئے وہ ایک ناکام انسان تھا۔
زوارنے ناصرہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ بہت بار کہا کہ وہ فیکٹری کا ملازم لالچی اور حریص ہے۔ وہ صرف دولت کی وجہ سے ناصرہ سے شادی کررہا ہے مگر ناصرہ نہیں مانی۔
فیکٹری کا سٹاف بھی حیران پریشان ہونے کے ساتھ صدمے میں تھا۔
مگر ناصرہ کو تو جیسے اُس آدمی نے ہپناٹائز کردیا تھا۔ اُس نے ناصرہ کو وہ سبز باغ دکھائے کہ وہ اُس کے خلاف ایک لفظ سننے کے لئے بھی تیار نہ تھی۔ اُسے یہ غلط فہمی تھی کہ وہ شخص اُس سے محبت کرتا ہے اور وہ کسی قیمت پر بھی اس محبت کو کھونے کے لئے تیار نہ تھی۔ محبت ان لوگوں کے لئے بہت قیمتی ہوتی ہے وج ساری زندگی اس کے لئے ترستے رہے ہوں۔
وہ زوار کو بھی اپنے ساتھ لے جانا چاہتی تھی مگر زوار نہیں مانا۔
”ممی میں آپ کے ساتھ نہیں جائوں گا۔”
اس نے وہ فیصلہ کسی میچور آدمی کی طرح بڑی سنجیدگی سے کرلیا۔
وہ بلا کا ذہین تھا۔ اُس نے اٹھارہ برس کی عمر میں بھی بہت آگے تک دیکھ لیا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ اگر وہ یہاں سے چلا گیا تو اس کی ماں کے خلاف باتیں کرنے والے اس کے رشتہ دار اس فیکٹری پر قبضہ کرلیتے، اور یہی حال اُس کے گھر کا بھی ہوتا۔ اُس کے رشتے دار تو چاہتے بھی یہی تھے کہ ناصرہ یہاں سے چلی جائے اور زوار لاپروا ، آوارہ لڑکا بن جائے یا اُسے کسی نشے کی لت لگ جائے اور وہ اس پوری جائیداد پر قابض ہوکر عیش کریں۔
ایک اٹھارہ سالہ لڑکے نے بظاہر ریفائنڈ اور کلچرڈ نظر آنے والے بھوکے ندیدے رشتہ داروں کی نیت کا فتوردیکھ لیا تھا۔
وہ کالج کے بعد فیکٹری جانے لگا اس نے وہاں جاکر حالات دیکھے۔ اپنے اسٹاف کے ساتھ اور لیگل ایڈوائزر کے ساتھ میٹنگز کرتا رہا۔
وہ اس فیکٹری کو اونے پونے بیچنا نہیں چاہتا تھا۔
پھر ناصرہ نے جائیداد میں اپنے حصے کا مطالبہ بھی کردیا۔
وہ ماں کے خلاف کورٹ میں جاکر دنیا کو تماشا نہیں دکھانا چاہتا تھا۔
فیکٹری اُس کے نام تھی، باقی جائیداد میں سے اس نے ناصرہ اور سارہ کو حصہ دے دیا، مگر ناصرہ کو اُس کا حصہ دیتے ساتھ ہی گویا اُس نے ناصرہ سے منہ موڑ لیا۔
وہ اپنی ماں کی وجہ سے بہت دکھی تھا۔
اُسے دکھ تھا کہ ناصرہ انے اپنے بیٹے پر فیکٹری کے معمولی ملازم کو فوقیت دی۔ ایسا بھی کیا ڈپریشن … ایسا بھی کیا احمقانہ پن… اُس اس بات پر بہت غصہ تھا۔
ناصر کا خیال تھا کہ زوار جذباتی ہے۔ اُس کے رشتہ دار اور اُس کی دادی اُسے ناصرہ کے خلاف بھڑکا رہے ہیں اور ابھی وہ اُن لوگوں کی باتوں کو اہمیت دے رہا ہے مگر وقت کے ساتھ اُسے ماں کے دکھوں اور اُس کی آزمائشوں کا احساس ہوگا اور وہ زیادہ عرصہ اُس سے ناراض نہیں رہ سکے گا۔وقت کے ساتھ وہ ٹھیک ہوجائے گا۔
جب وہ کینیڈا جائے گی تو وہ بھی اُس کے پیچھے بھاگا بھاگا آئے گا۔
مگر ایسا نہ ہوا۔
رابطے کمزور پڑے تو فاصلے بڑھ گئے۔ دوسری شادی بھی ناصرہ کو راس نہ آئی۔ کچھ عرصہ تو اُس کا اچھا گزرا پھر اس کے شوہر نے اپنے رنگ دکھانے شرو ع کردیئے۔ بیٹھ کر کھاتے رہیں تو خزانے بھی کم پڑجاتے ہیں، پھر اس کا شوہر سارا روپیہ پیسہ لے کر فرار ہوگیا۔ دونوں میں علیحدگی ہوگئی۔ اس نے وہیں کسی میم سے شادی کرلی اور ناصرہ کو جاب کرنی پڑی۔
سارہ ان حالات میں بڑی ہوئی۔
زوار نے پھر مڑ کر ماں سے بات نہ کی۔ وہ سخت دل ہوگیا تھا یا بے حس یا شاید وہ شدید قسم کے ڈپریشن کا شکار ہوگیا تھا اور بہت سال اس ڈپریشن کا سحر نہیں ٹوٹا، اس ڈپریشن کا سحت تب ٹوٹا جب اُس نے رانیہ کو دیکھا۔
اسٹیج پر سنہری تخت پر شان سے بیٹھی ایک ملکہ جن کا حسن آنکھوں کو خیرہ کررہا تھا…اُس کے سر پر تاج، گلے میں موتیوں کا ہار، ہاتھ میں نگینوں والی انگوٹھیاں تھیں، موتیوں سے بھرے لبا س ملبوس اپنے لمبے بالوں کو جھٹکتے ہوئے بڑی ناز و ادا کے ساتھ اپنے ساتھ بیٹھے بادشاہ سے باتیں کررہی تھی۔
اُس نے اُس ملکہ کو دیکھا توڈپریشن کا سحر ٹوٹ گیا۔
زوار کے دل کی کیفیات بدل گئیں۔
اُس نے اک نئے انداز سے سوچنا شروع کردیا۔ وہ لوگوں کے جذبات، احساسات اور مجبوریوں کو سمجھنے لگا۔
ایک سنگ دل آدمی نرم خو بن گیا اور اُس نے اپنی ماں کو معاف کردیا۔
پہلے وہ اپنی ماں کو قصور وار سمجھتا تھا مگر پھر اُسے احساس ہوا کہ اُس کی ماں اتنی بھی قصور وار نہیں تھی۔
تو آخر پھر قصور کس کا تھا!
اس معاشر ے کا… جو بیٹیوں کو بوجھ سمجھتا ہے۔
جہاں بیٹیوں کی پیدائش پر لوگ مبارک باد نہیں دیتے بلکہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔
اس معاشرے میں گھروں اور خاندانوں کے قانون کیں نہیں بنائے گئے۔
گھرمیں بھی تو کوئی قانون ہوناچاہیے۔ جس گھر میں عدل و انصاف نہ ہو وہاں خیر اور بھلائی کی امید کیسے رہی جاسکتی ہے۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کے چکر میں اُلجھ کر لوگ اولاد کی تربیت کرنا بھول جاتے ہیں۔ بیٹیوں کو بوجھ اور بیٹوں کو سہارا سمجھتے ہیں۔ اس سوچ کو فروغ دینے والے بھی تو قصور وار ہیں۔
یہ رویے لوگوں کو نفسیاتی طور پرکمزور بنادیتے ہیں اور نفسیاتی طور پر کمزور لوگوں سے عقلمندی کے فیصلوں کی امید بھلا کیسے کی جاسکتی ہے۔
وہ لوگ بھی تو قصور وار تھے جو خواہ مخواہ ناصرہ کی دوسری شادی کے پیچھے پڑ گئے تھے جنہو ں نے خود تو چھپ چھپ کر معاشقے چلائے اور ناصرہ کی دوسری شادی کو ایشو بنادیا۔
ناصرہ ایک اکیلی اور بیوہ عورت کے روپ میں انہیں قبول تھی، مگر اس کی دوسری شادی پر لوگوں نے طرح طرح کی باتیں کیں۔
وہ آدمی بھی تو قصور وار تھا جس نے دولت کے لالچ میں ایک تنہا اور بیوہ عورت کے اکیلے پن سے فائدہ اٹھایا ۔ اس کی دولت ہتھیا کر فرار ہوگیا ۔ اس کے خیال میں دولت حاصل کرنے کا یہی شارٹ کٹ تھا۔
ناصرہ کو ایک گھر اور ایک مکمل فیملی کی خواہش تھی۔ اس خواہش نے اس سے کئی غلط فیصلے کروائے۔
یہ خواہش اس کا جرم تو نہیں تھی۔
ا س کے بچے اپنی ماں کے ماضی کے بارے میں جانتے تھے کہ ناصرہ کے ماں باپ ظالم ، جابر اور جاہل تھے۔ وہ ناصرہ پر ظلم کرتے، اُس سے سارے گھر کا کام کرواتے، اسے کسی کے سامنے کچھ بولنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ اپنی ہمسائی لڑکی کے جوتے اور یونیفارم پہن کر پھر بھی وہ کسی طرح کالج تک پہنچ ہی گئی۔
اُس کے گھر میں نہ ٹی وی تھا اور نہ فریج تھا۔ انہیں اندازہ ہوتا کہ ان کی ماں کی زندگی بڑی مختلف تھی۔
سارہ چھوٹی تھی ۔ اُسے زیادہ کچھ معلوم نہیں تھا مگر زوار جانتا تھا۔
پھر ناصرہ کے گھر والے ایک بدتمیز اور جاہل مستری سے اس کی شادی کرنا چاہتے تھے مگر ناصرہ اس کو پسند نہیں کرتی تھی۔
اپنے گھر کے حالات سے تنگ آکر اس نے اپنی مرضی سے رئیس سے شادی کرلی۔
زوار ہمیشہ یہی سنتا رہا کہ وہ ایک غریب سبزی فروش کی بیٹی تھی۔ گلی کے ایک پرانے سے گھر میں رہتی تھی۔
رئیس اُسے اس گھر میں تو لے آیا مگر کبھی اس نے اس کے حق میں آواز نہ اٹھائی۔ رئیس کے ماں باپ ناصرہ پر ظلم کرتے، اسے سبزی فروش کی بیٹی کہہ کر بلاتے۔وہ چپ کرکے سنتا رہتا۔
اس کے ماں باپ ناصرہ کو گالیاں دیتے وہ تب بھی کچھ نہ بولتا۔ اس کے لئے ناصر ہ کاحُسن اہم تھا اس کی عزت اہم نہیں تھی۔ تو پھر رئیس بھی توقصوروار تھا
قصور وار تو بہت سارے لوگ تھے، اکیلی ناصرتو نہیں … اور زوار نے یہ بات سمجھ لی تھی۔
٭…٭…٭
گھر میں رانیہ اور زوار کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔ ناصرہ اور سارہ تقریباً روزانہ ہی رانیہ کو شاپنگ کے لئے بازار لے جاتیں۔ ہر چیز رانیہ کی پسند سے خریدی جارہی تھی۔
اُس دن بھی رانیہ ناصرہ اور سارہ کے ساتھ بازار آئی مگر اس بار ڈرائیور کے بجائے زوار ڈرائیونگ کررہا تھا۔ مختلف دکانوں پر وہ اُن کے ساتھ پھرتا رہا اور بخوشی سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھتا رہا۔
شاپنگ سے فارغ ہوکر وہ لوگ ایک ریسٹورنٹ میں چلے آئے پھر اچانک ناصرہ کو کچھ یاد آیا تو وہ اُن دونوں کو وہیں چھوڑ کر سارہ کے ساتھ جیولر شاپ میں چلی گئی۔ رانیہ کو یوں لگا جیسے یہ موقع ناصرہ اور سارہ نے اُن دونوں کو دانستہ دیا ہے۔
اور یہ پہلے سے Pre-Plannedتھا۔
اب وہ اور زوار ریسٹورنٹ میں آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ وہ لنچ آرڈر کرنے کے بعد اُس کی طرف متوجہ ہوا ور اُسے دیکھتے ہوئے خوشدلی سے مسکرایا… اُس کی آنکھوں میں بہت روشنی تھی۔
”ہاں اب بتائو کیا کرتی رہتی ہو سارا دن گھر میں؟Jane Austinکے ناولز پڑھتی رہتی ہو؟”
اُس نے خوشگوار انداز میں کہا۔ اُس کی آنکھوں میں وارفتگی اور انداز میں والہانہ پن تھا۔ وہ مسکرائی ۔
”ہاں… مجھے انگلش لٹریچر بہت پسند ہے۔ فارغ ٹائم میں انگلش کلاسک ناولز پڑھتی رہتی ہوں۔”
اُس نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”اور انگلش لٹریچر میں دلچسپی تمہیں تھیٹر تک لے آئی اور تم شیکسپیئر کے Hamletکی ملکہ بن گئی۔”
وہ اُسے غور سے دیکھتے ہوئے خوشدلی سے بولا۔
وہ ہنس دی ۔
”ہاں… کہہ سکتے ہیں۔”
زوار کے ساتھ اس کے ہر قسم کے اختلافات ختم ہوگئے تھے۔ اُن کا رشتہ دن بدن خوبصورت اور پائیدار ہوتا جارہا تھا۔
”سنا ہے کہ تمہاری حویلی بھی ہے۔”
اُس نے نئے موضوع کا آغاز کیا۔
وہ ذرا چونکی۔
”ہاں… میری اور میری بہن عنایا کی جوائنٹ پراپرٹی ہے۔ وہ حویلی میرے دادا کی تھی جسے انہوں نے ہمارے نام کردیا تھا۔ ”
اُس نے جواب دیا۔
”کیسی ہے وہ حویلی؟”
اس نے بے ساختہ پوچھا۔
وہ اس کی حویلی میں اس قد ردلچسپی پر چونک گئی۔
”خوبصورت ہے… کلاسک انگلش موویز جیسی… جیسی حویلی wuthereing heightsمیں ہوتی ہے۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اب کی بار وہ چونکا۔ اُس نے اُسے یوں دیکھا جیسے اندازہ لگانا چاہ رہا ہو کہ وہ اپنی حویلی کے بارے میں واقعی سچ کہہ رہی ہے۔
”پھر تو میں اس حویلی کو دیکھنا چاہوں گا۔”
اس کا لہجے میں اشتیاق تھا۔
”ماموں سے کہہ دوں گی وہ آپ کو حویلی دکھا دیں گے۔ مجھے تو اس حویلی میں اتنی دلچسپی نہیں ہے۔ اُس حویلی کی وجہ سے ہمارے خاندان میں برسوں لڑائی جھگڑے ہوتے رہے۔ رشتہ دار ناراض ہوگئے اور رشتوں میں دراڑیں پڑگئیں۔”
اُس کی آواز سنجیدہ ہوگئی۔
وہ پرسکون انداز میں اُسے دیکھتا رہا۔
”مگر یہ سب حویلی کی وجہ سے تو نہیں ہوا ہوگا۔ اُن رشتہ داروں کا مزاج اور فطر ت ہی ایسی ہوگی۔”
وہ اُسی انداز میں بولا۔
رانیہ نے بے ساختہ تائیدی انداز میں سرہلایا۔
”ہاں… شاید۔”
اُس نے اب بھی اُس سے اختلاف نہیں کیا۔
بات بھی اُس کی ٹھیک ہی تھی۔
فارس نے بھی تو اس حویلی کے لالچ میں ہی اُس سے منگنی کی تھی۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو دولت حاصل کرنے کے لئے شارٹ کٹ استعمال کرتے ہیں ۔پہلے اس نے رانیہ کو اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہا وہاں بات نہ بنی تو پھر اس نے آسٹریلین نژاد خاندان میں شادی کرلی ۔ سو اُس کا مقصد پورا ہوگیا۔
زوار کچھ دیر اُسے یونہی دیکھتا پھر اُس نے کہا۔
”جب مجھے تمہاری منگنی کے بارے میں پتا چلا تو میں بہت ڈیپریس ہوگیا تھا۔ ابھی تو میں اپنے احساسات کو ٹھیک طرح سے سمجھ بھی نہیں پایا تھا کہ مجھے اتنا زبردست جھٹکا لگ گیا۔ میں یہی سوچتا رہا کہ کیا کروں ۔ ایک engagedلڑکی سے اظہار محبت کرنا احمقانہ پن ہی تو ہوتا ہے۔ مگر تمہارے تایا زاد نے حویلی کا مطالبہ کرکے میرا راستہ بڑا آسان بنادیا۔ سچ پوچھو تو مجھے اس حویلی سے عشق ہوگیا ہے۔ اور اگر وہ واقعی Wuthereing heightsجیسی حویلی ہے تو میں تمہارے تایا زاد کے جذبات سمجھ سکتا ہوں۔”
وہ قدرے سنجیدگی سے کہتے ہوئے آخری جملے کے اختتام پر مسکرایا۔ اُسے ساری خبریں تھیں۔
”امی اور جیمو ماموں راضی نہ ہوئے۔ حویلی کے کاغذات جیمو ماموں کے پاس ہیں۔ وہ نہ مانے تو لڑائیاں جھگڑے ہوتے رہے۔”
رانیہ نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
”عقلمند آدمی ہیں جیمو ماموں۔ اسی لئے تو وہ اب شادی بھی کررہے ہیں۔”
وہ بے ساختہ بولا۔ اس کے لہجے میں معنی خیزی تھی۔
”انہیں تو ہم نے بڑی مشکل سے راضی کیا ہے۔ ورنہ وہ تو شادی کے لئے مان ہی نہیں رہے تھے۔”
اس نے سادگی سے کہا۔
وہ ہنس دیا۔
وہ چونک کر بے اختیار اُسے دیکھنے لگی۔ پتا نہیں وہ کیوں ہنسا تھا۔ اُسے اس کی ہنسی معنی خیز اور پراسرار سی لگی۔ وہ پوری آنکھیں کھولے اس کی طرف دیکھنے لگی جیسے اُس کا چہرہ پڑھنا چاہ رہی ہو مگر زوار کا چہرہ پڑھنا بے حد مشکل کام تھا۔
”ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟”
وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرایا۔
”کبھی کبھی آپ مجھے بڑے پراسرار سے بندے لگتے ہیں۔”
اس نے صاف گوئی سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
وہ اس جملے پر محظوظ ہوا۔
”پہلے تو میں تمہیں سنگدل آدمی لگتا تھا۔ اب کہہ رہی ہو کہ پراسرار بندہ لگتا ہوں… مجھ پر ریسرچ جاری رکھو… تمہاری رائے روز بروز بدلتی جائے گی۔ یہی کہہ دو کہ آپ بڑی محبت کرنے والے انسان لگتے ہیں۔”
اُس نے اُس کی آنکھوںمیں دیکھتے ہوئے گہرے لہجے میں کہا۔ اُس کی بے حد چمکتی ہوئی آنکھوں میں عشق کی دیوانگی اور آواز میں جذبات کی آنچ تھی۔
اس نے بے ساختہ نظریں جھکالیں ۔
زوار نے دیکھا ، اُس کی پلکیں لرز رہی تھیں۔
”لوگوں کا تو آپ کے بارے میں یہی خیال ہے کہ آپ بڑے محبت کرنے والے انسان ہیں۔”
اُس نے یونہی نظریں جھکائے ہوئے مدھم آواز میں کہا۔
”اور تمہارا کیا خیال ہے میرے بارے میں؟”
اس نے دلچسپی اور اشتیاق سے فوراً پوچھا۔
”ابھی میری ریسرچ مکمل نہیں ہوئی اس لئے کوئی جواب نہیں دے سکتی۔”
اس نے اُسے ٹالا تھا۔
اسے اندازہ ہوا کہ یہ سوال بھی خطرناک تھا اور اس کا جواب بھی خطرناک ہی ہوتا۔
”اچھا جی…خیر، تمہارے سارے گھر والے جانتے تھے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں مگر تمہیں تو خبر بھی نہ ہوئی۔”
وہ اُس کے چہرے پر اترتے رنگوں کو دیکھتے ہوئے گہرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”میں بھی جانتی تھی۔”
اس نے مدھم آواز میں اعتراف کیا۔
”اچھا ! واقعی؟ کیا اسی لئے تم میرا فون نہیں سنتی تھی؟”
وہ پرانی باتوں کو دہراتے ہوئے اُسے تنگ کررہا تھا۔ اس کی آواز میں شوخی اور شرارت تھی۔
وہ صرف مسکرادی۔
اس نے سوچا کہ بعض باتوں پر صر ف مسکرا ہی دینا چاہیے۔ مسکراہٹ بہت سے مفہوم خود ہی واضح کردیتی ہے۔
وہ رُکا ، کچھ دیر یونہی مسکراتے ہوئے سوچتا رہا۔ پھر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہنے لگا۔
”مگر تم تو مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو!”
وہ سمجھ نہ پائی کہ یہ سوال تھا یا صرف اس کا اندازہ تھا۔
وہ سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھ رہاتھا۔
”اس بات کا جواب پھر کبھی دوں گی۔”
اس نے نظریں جھکاتے ہوئے کہا۔
ویٹر کھانا لے آیا تھا اور اب نہایت قرینے سے میز پر کھانا لگا رہا تھا۔
وہ کھانے کی طرف متوجہ ہوگئی۔
زوار نے بھی اصرار نہیں کیا
بس اک جملہ کہا۔
”اوکے… میں انتظار کروں گا۔”