گھر میں ناصرہ کی شادی کی باتیں ہونے لگیں تو وہ حواس باختہ ہوگئی۔ گھر میں تو شادی کی تیاریوں کا رواج ہی نہیں تھا۔ بس سسرال والے دلہن کے لئے جو کچھ بھی لے آتے وہ چپ کرکے پہن لیتی۔ ریشمی کپڑے، رنگین پراندے، نقلی زیور کانچ کی چوڑیاں اور میک اپ کی دو چار چیزیں۔ باقی سب کچھ دلہن کی اپنی قسمت پر چھوڑ دیا جاتا کہ اگر قسمت اچھی ہوئی تو سب کچھ ہی مل جائے گا۔ اور اگر نہ اچھی ہوئی تو اُ س کا نصیب۔
رشتے کی چاچیاں، پھپھیاں، ممانیاں اپنی آرٹسٹک صلاحیتوں کے مطابق دلہن کا میک اپ کردیتیں اور اُسے اپنے ذوق کے مطابق تیار کرتیں۔
بارات والے دن نائی گھر آجاتا اور چاولوں کی دیگ پکا دیتا ۔ مہمان جھپٹ جھپٹ کر پلیٹیں بھر بھر کر کھانا کھالیتے۔
لڑکے بالے دولہا کے گھر کاغذ کے پھولوں کی سیج سجاتے اور دلہن خواتین کے جھرمٹ میں عروسی لباس پر چادر اوڑھے دو چار گلیاں پار کر کے پیدل ہی سسرال چلی جاتی۔
لوجی، ہوگئی شادی…بیٹی کو گھر سے یوں رخصت کیا جاتا گویا کسی بوجھ کو سر سے اتارا جاتا ہے۔
ناصرہ بھی اپنے نصیبوں پر صابر و شاکر ہوکر شوکے مستری سے شادی کرہی لیتی اگر اُس کی ملاقات رئیس سے نہ ہوئی ہوتی۔ رئیس سے محبت کرنے کے بعد وہ شوکے سے تو کیا کسی سے بھی شادی نہیں کرسکتی تھی۔
شوکا پیشے کے لحاظ سے مستری تھا اور ایک فرنیچر کی دکان پر کام کرتا تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ہنر تھا اور آمدنی بھی اچھی تھی۔ پھپھو کے حالات بھی اُن کے گھر کی نسبت بہتر تھے۔ آٹھویں جماعت میں سکول سے بھاگ جانے والے شوکے مستری میں ناصرہ کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
اُدھر رئیس نے اپنے ماں باپ کی بڑی منت سماجت کی اور انہیں سب حالات بتائے۔ مگر اُس کے ماں باپ نہیں مانے، انہوں نے بھی سوچا کہ لڑکی کی شادی ہوگئی تو رئیس وقت کے ساتھ خود ہی سنبھل جائے گا کہ جوانی میں لڑکے عشق کرتے ہی رہتے ہیں۔ تھک ہار کر رئیس خود ہی اپنے ایک دوست کے ساتھ ناصرہ کے والدین سے بات کرنے کے لئے اُن کے گھر چلا آیا اور یوں حالات مزید خراب ہوگئے۔
اُس کی آمد ناصرہ کے والدین کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں تھی۔ اُن کے لئے یہ معاملہ غیرت کا مسئلہ بن گیا۔ گلی کے چھوٹے سے گھر میں رہنے والوں کی انا بڑی طاقت ور تھی۔
ایک اجنبی آدمی اُن کی بیٹی کا رشتہ مانگنے اُن کے گھر آگیا بھلا اُس نے ناصرہ کو کہاں دیکھا، بات کب اور کیسے اتنی آگے بڑھ گئی۔ انہوں نے رئیس کو صاف جواب دے دیا کہ وہ خاندان برادری سے باہر بیٹیوں کی شادی نہیں کرتے۔ رشتے کے چچا، ماموں اکٹھے ہوگئے ۔بات پھیل گئی۔ رئیس کو وہاں سے ناکام جانا پڑا۔
شامت تو ناصرہ کی آگئی۔ ماں باپ نے اُسے مارا پیٹا۔ گالیاں دیں، کوسنے دیئے ۔ اُس کا کالج جانا بند ہوگیا۔گھر کے دروازے پر تالے پڑگئے۔
وہ سارا وقت یہی سنتی رہتی کہ وہ بدکردار ہے۔ بے غیرت ہے۔ ایک لڑکے کے ساتھ دوستی کرکے اُس نے خاندان کی عزت کو بٹہ لگا دیا ہے۔ شوکا بھی جذباتی ہوگیا ۔پھپھو تو یہ رشتہ ختم کرنا چاہتی تھی مگر شوکا ضد پر اڑ گیا کہ ناصرہ سے شادی ضرور کرے گا اور بعد میں اُسے ایسا سبق سکھائے گا کہ وہ یاد کرے گی۔ اُس کے خیال میں ایک اجنبی لڑکے سے دوستی کرکے ناصرہ کے شو کے کے ساتھ بے وفائی کی تھی۔
ناصرہ کا غم اور صدمے سے برا حال تھا۔ اُس کا دماغ مائوف رہتا۔ اُسے سمجھ ہی نہ آتی کہ وہ کیا کرے۔ اُس کی اُردو کی کتاب میں رئیس کے آفس کا فون نمبر پڑا تھا ۔ جو اُسے زبانی بھی یاد تھا۔
حالات نے اُسے باغی بنادیا تھا۔ باغی خیالات اُسے اُکستاتے رہتے۔
وہ سوچتی کہ اگر لوگ اُسے بد کردار کہتے رہتے ہیں ۔ تو پھر اُسے وہی کرنا چاہیے جو بدکردار لڑکیاں کرتی ہیں۔ اُسے گھر سے بھاگ جانا چاہیے۔
ویسے بھی یہ گھر اُ س کا کہاں تھا۔یہ گھر تو اُس کے ماں باپ اور بھائیوں کا تھا۔ وہ اپنے ماں باپ او ربھائیوں سے کوئی قلبی تعلق محسوس نہ کرپاتی۔
اُس کی بڑی بہن شازیہ گھر آئی تو اُس کی یہ حالت دیکھ کر افسردہ ہوگئی۔ و ہ اپنی عمر سے دو گنی عمر والے شخص سے بیاہی ہوئی تھی۔ وہ شروع سے ناصرہ کے قریب تھی اور اُس کا دُکھ سمجھتی تھی۔
شازیہ نے ناصرہ کو بستر سے اٹھایا ۔ پانی پلایا۔ اُسے ناصرہ سے کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ وہ جانتی تھی کہ ناصرہ بے قصور ہے۔ اصل قصور وار اس کے والدین تھے ۔ جنہوں نے ہمیشہ بیٹیوں کو بوجھ سمجھا۔ ایک نوکر سے زیادہ حیثیت نہ دی۔
جن لوگوں کا غم ایک ہو، انہیں ایک دوسرے سے سوال و جواب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
شازیہ نے ناصرہ سے بڑی نرمی سے دھیمی آواز میں پوچھا۔
”کیا چاہتی ہو ناصرہ؟”
ناصرہ کی آنکھوںمیں آنسو آگئے۔
یہ تو کبھی کسی نے اُس سے پوچھا ہی نہ تھا۔
”یہاں سے جانا چاہتی ہوں ۔ میری مدد کرو شازیہ۔ مجھے شوکے سے شادی نہیں کرنی۔ وہ میری زندگی برباد کردے گا۔”
ناصرہ روتے ہوئے بولی۔
شازیہ نے بے اختیار گہرا سانس لیا۔ شوکے کی فطرت سے کون واقف نہیں تھا۔ وہ منتقم مزاج، بدزبان، بدلحاظ اور غصے کا تیز آدمی تھا۔
اس کی لڑائیاں تو سارے خاندان میں مشہور تھیں۔
”اچھا…میں تمہاری مدد کروں گی۔ تم چپ ہوجائو۔”شازیہ نے اُسے تسلی دی۔
وہ بہن کا حال دیکھ رہی تھی۔وہ یہ بھی جانتی تھی کہ شوکے سے شادی کے بعد اس کا حال اس سے بھی برا ہوگا۔
اُس کا فرض تھا کہ وہ کچھ تو کرے۔ اپنے لئے کچھ نہ کرسکی تھی۔ اپنی بہن کے لئے تو کچھ کر ہی سکتی تھی۔
”تم جس لڑکے کوپسند کرتی ہو، اگر اس نے تمہیں دھوکہ دے دیا پھر کیا ہوگا ناصرہ؟”
شازیہ نے خدشے کا اظہار کیا۔
”نہیں وہ مجھے کبھی دھوکہ نہیں دے سکتا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔ وہ ایک اچھا انسان ہے۔ ان لوگوں کی طرح جاہل نہیں ہے۔ وہ میرا ہاتھ مانگنے یہاں آتا تھا مگر ان لوگوں نے اُسے بے عزت کرکے گھر سے نکال دیا۔”
ناصرہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
شازیہ سوچ میںپڑگئی۔
”پھرتم اُس سے کیسے رابطہ کروگی؟”
”میرے پاس اُس کے دفتر کا فون نمبر ہے۔”
ناصرہ نے رازداری سے بتایا۔
”تم وہ فون نمبر مجھے دو۔ میں اُس سے بات کرکے پوچھتی ہوں کہ کیا وہ تمہارا ساتھ دے سکتا ہے یا نہیں…”
شازیہ نے کہا۔
ناصرہ نے فوراً اُسے ایک چٹ پر رئیس کا فون نمبر لکھ کر دے دیا۔
شازیہ چلی گئی، کسی طرح اُس نے رئیس سے رابطہ کیا۔ اُسے سارے حالات بتائے۔ وہ تو پہلے ہی ناصرہ کی یاد میں مجنوں بنا ہوا تھا۔اُس نے شازیہ سے کہہ دیا کہ وہ ہر حال میں ناصرہ کا ساتھ دے گا اور وہ اس سے شادی کرنے کے لئے تیار ہے۔ شازیہ کو یہ سُن کر تسلی ہوئی اور اُس نے کسی طرح ناصرہ کو گھر سے باہر نکلنے میں مدد دی۔
صبح سویرے جب ابا منڈی اور دونوں بھائی سکول چلے گئے تو ناصرہ بھی برقع اوڑھ کر گھر سے باہر نکل گئی۔ شازیہ نے باورچی خانے میں ماں کو باتوں میں لگا لیا۔
ان کے گھر سے ذرا فاصلے پر مین روڈ کے کنارے پر رئیس کی گاڑی کھڑی تھی۔ وہ مقررہ وقت پر وہاں اس کا انتظار کررہا تھ۔
اور یہاں سے ناصرہ اور رئیس کی زندگی کے نئے باب کا آغاز ہوا۔
٭…٭…٭
رئیس نے ناصرہ کے ساتھ نکاح کرلیا مگر وہ اسے اپنے گھر نہیں لے کر گیا بلکہ اپنی دادی کے پاس گا ئوں چلا آیا۔ دادی نے اس معاملے میں اُس کا ساتھ دیا مگر زیادہ دیر تک یہ بات چھپی نہ رہ سکی۔ رئیس کے والدین کو مجبوراً ناصرہ کو قبول کرنا پڑا۔
ناصرہ کے گھر سے جانے کے بعد اُس کے گھر میں اِک کہرام برپا ہوگیا تھا۔ سب لوگ اُسے بددعائیں دیتے، وہ ایسی منحوس تھی کہ اپن کی عزت کو بٹہ لگا کر چلی گئی۔ کچھ دن خوب واویلا مچا کر چپ ہوگئے کہ سب اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گئی ہے۔
ناصرہ رئیس کے ساتھ خوش تو تھی مگر اُس کے ساس سسر اُس سے نفرت کرتے تھے۔ اُن کے خیال میں وہ غاصب تھی۔ اُس نے اُن کے بیٹے پر ڈورے ڈال کر اُسے اپنی ادائوں کے جال میں پھنسا لیا اُس کایہ جرم ناقابل معافی تھا اور وہ اسی قابل تھی کہ اُس کے ساتھ نفرت آمیز اور حقارت بھرا رویہ رکھا جائے۔
زوار کی پیدائش کے بعد بھی اُن کا رویہ اُس کے ساتھ نہیں بدلا۔
آہستہ آہستہ اُسے احساس ہوا کہ یہ وہ رئیس نہیں تھا جو اُسے مری کے برف زاروں میں ملا تھا اور جس نے اُسے سنو وائٹ کہہ کر پکارا تھا۔ جو برف سے ڈھکی وادی میں اُس کے پیچھے پیچھے پھرتا تھا۔ یہ تو کوئی اور ہی شخص تھا۔ اپنے والدین کا فرمابردار ، تابعدار، والدین کو خوش کرنے کے لئے بلاوجہ اُسے روکتا ٹوکتا رہتا۔
وہ ماں باپ کے سامنے ناصرہ کی طرف داری میں ایک لفظ بھی کہنے کا حق نہیں رکھتا تھا۔ اُس کے پاس وہ آواز ہی نہیں تھی جو ناصرہ کی حمایت میں کچھ کہنے کے لئے اُٹھ سکتی۔
وہ کچھ چیزوں میں کمزو رپڑگیا تھا۔ ماں باپ کے سامنے بول نہیں سکتا تھا۔
وہ منتظر نگاہوں سے رئیس کو دیکھتی کہ وہ اُس کی حمایت میں کچھ تو کہے۔ وہ اُس کا شوہر تھا۔ اُس کے بچوں کا باپ تھا ۔ اُسے اُس کا مان تو رکھنا چاہیے تھا۔ مگر وہ خاموش رہتا۔
اُس کی اِ س خاموشی نے اُس کے اور ناصرہ کے درمیا ن فاصلوں کو بڑھا دیا۔
پھر اسے احساس ہوگیا کہ اس گھر میں صرف اُسی کو سمجھوتہ کرنا ہے۔
آہستہ آہستہ اُس کے گلے شکوے بڑھتے گئے۔
وہ رئیس سے شکوہ کرتی۔
”لوگ میری بے عزتی کرتے رہتے ہیں اور تم خامو ش رہتے ہو۔ تمہیں میرے حق میں کچھ تو کہنا چاہیے۔”
رئیس کی اپنی ہی مجبوریاں تھیں۔
”کیا کہوں میں انہیں ؟ اُن کا دل توڑ چکا ہوں ۔ میں نے اُن کی حکم عدولی بھی کی۔ تمہیں اس گھر میں اُن کی مرضی کے بغیر لے آیا۔ اور کیا کروں؟ تھوڑا سا کومپرومائز تمہیں بھی کرنا ہوگا ستارہ۔”
سارے الزام اُسی پر آئے۔
اُسے کبھی کبھار لگتا کہ وہ واقعی بد نصیب اور منحوس تھی اور اس کے ماں باپ اس کے بارے میں ٹھیک ہی کہتے تھے۔
اس گھر میں وہ باورچی خانہ تو نہیں تھا جہاں وہ دن رات کام کرتی رہتی تھی اور چھپ چھپ کر کتابیں پڑھا کرتی تھی اور وہیں چوکی پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتی مگر یہاں نفرت اور حقارت کا تناسب اُس کے اپنے گھر سے کہیں زیادہ تھا۔ ساس سارا دن اُس کی بے عزتی کرتیں۔ ہر آئے گئے کے سامنے ا س کی برائیاں کرتیں ۔پھر اس نے سوچا کہ شاید یہ نفرت ہی اُس کا مقدر تھی۔
زوار تھوڑا بڑا ہوا تو اُس نے اپنی ساس کو جواب دینے شروع کردیئے پھر تو وہ لڑائی ہوتی کہ ساس کو چپ کروانا مشکل ہوجاتا۔
ناصرہ رئیس سے کہتی کہ وہ اُسے الگ گھر لے کر دے مگر رئیس کے لئے یہ ممکن نہ تھا۔ ماں باپ سے بات کی تو وہ کسی طور راضی نہ ہوئے… گھر میں بے سکونی تھی، لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے، رئیس رشتوں کو بیلنس نہ کرسکا۔برف زاروں میں پنپنے والی محبت کی خوبصورتی مانند پڑگئی۔
ناصرہ کے گھر سے جانے کے بعد ناصرہ کے والدین کو احسا س ہو اکہ وہ اس گھر کی کتنی کارآمد فرد تھی۔ اُس کے جانے کے بعد گھر کا سارا نظام درہم برہم ہوگیا۔ باپ کے کپڑے نہ وقت پر دھلائی کئے جاتے اورنہ وقت پر استری ہوتے۔ صبح منڈی جاتے وقت پراٹھے اور چائے کا ناشتہ تیار نہ ہوتا۔ گھر کا فرش گندا رہتا۔ چھٹ کے کونوں پر جالے لگے رہتے۔ فرش پر پھلوں سبزیوں کے چھلکے جابجا بکھرے رہتے۔
اُس کی ماں کو تو کام کی عادت نہ رہی تھی۔ ویسے بھی وہ لاپرواہ اور پھوہڑ عورت تھی۔
کھانا وقت پر تیار نہ ہوتا اور نہ گھر میں تازہ روٹی پکتی۔ دونوں بھائی لاپرواہ اور غصے کے تیز تھے۔ ماں باپ کے ساتھ بدتمیزی کرتے پھر ماں باپ کو احساس ہوا کہ جس طرح وہ اپنی خاموش مظلوم اور مجبور بیٹی کو دھنک کر رکھ دیتے تھے اس طرح وہ اپنے بدتمیز بیٹوں پر ہاتھ نہیں اٹھا سکتے۔
ناصرہ کو بددعائیں اور کوسنے دینے کے باوجود وہ اس کی کمی ہر وقت محسوس کرتے تھے۔
کچھ سال گزر گئے۔نفرت کی شدت میں کمی آگئی۔ آخر والدین تھے۔ کب تک اولاد کو یادنہ کرتے۔
غربت، بڑھاپا اور مجبوریاں… پھر بات عزت اور غیرت کی بھی تھی۔سوچتے کہ بیٹی کو معاف کردیں۔ وہ بھی ایسی گئی کہ پلٹ کر نہ آئی۔
گرمیوں کی راتیں اور لوڈشیڈنگ … برسوں پرانے ہمسائے بان کی چارپائی پر بیٹھ کر آپس میں دکھ سکھ شیئر کرلیتے۔
”تو کردیتے اُس لڑکے سے ناصرہ کی شادی… آیا تو تھا وہ یہاں۔ اونچا لمبا، خوبرو جوان تھا… پڑھا لکھا بھی تھا۔”
ہمسائے آہ بھر کر کہتے۔
”بس… شوکے کی وجہ سے اُسے انکار کردیا۔”
ناصرہ کا باپ گہراسا نس لے کرکہتا۔
”لو! شوکا تو اب تین بچوں کا باپ ہے۔ اس نے تو کبھی تم لوگوں کو پوچھا تک نہیں کہ ماموں ممانی کیسے ہو! کیسی گزر رہی ہے!”
ہمسائی نے ہاتھ ہلا کر کہا۔
”ہاں… سگی اولاد چھوڑ کر چلی گئی۔ دوسروں سے کیا گلہ کریں۔”
ماں باپ آہ بھر کر کہتے۔
”برا نہ ماننا ، تم لوگ بھی تو بیٹیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے۔ بھلا جوان لڑکیوں پر بھی کوئی ہاتھ اٹھاتا ہے۔ اس طرح اولاد باغی ہوجاتی ہے۔ باغی ہی تو ہوگئی تھی تمہاری بیٹی۔ ورنہ ہم جانتے ہیں وہ بُری لڑکی نہیں تھی۔”
ماں باپ چپ کر جاتے۔
ہاں غلطیاں ہوئی تھیں اُن سے، دل میں اعتراف بھی کرتے تھے۔
ماحول، تربیت، معاشرے کی ذہنیت ، جاہلیت، لوگوں کی شخصیت اور مزاج کو بنانے میں بہت سارے factorsہوتے ہیں۔
”اچھی بھلی کالج میں پڑھتی تھی۔ پتا نہیں وہ لڑکا اُسے کب ، کیسے کہاں مل گیا۔”
ماں باپ کو ابھی تک یہی افسوس تھا۔
”ارے اگر کہیں مل بھی گیا تھا تو بیاہ کردیتے اُس کے ساتھ۔ میں تو صاف کہوں گی کہ گھروں سے بھاگنے والی لڑکیاں اتنی قصور وار نہیں ہوتیں، جتنے زیادہ قصور وار اُن کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ لڑکا یا لڑکی جہاں شادی کرنا چاہیں ۔ وہیں اُن کی شادی کردینی چاہیے۔ یہی سمجھداری ہوتی ہے۔”
ماں باپ کیا کہتے۔ اب کہنے کو کیا رہا تھا۔
سالوں بعد ناصرہ کا اپنے ماں باپ سے رابطہ بحال ہوگیا۔ وقت نے ضد انا اور نفرت کو کمزو ر کردیا۔ناصرہ اُن کی مالی مدد بھی کردیا کرتی۔ رئیس نے ناصرہ پر کوئی پابندی نہیں لگائی مگر اُس کے ساس سسر نے اعتراض کیا، مگر ناصرہ نے اپنی ہی مرضی کی۔
بچپن کی محرومیوں ، نفرت وحقارت ، بے توجہی نے اُس کی شخصیت پر بُرا اثر ڈالا۔ پھر شوہر بھی توقعات پوری نہ کرسکا۔ ان سب چیزوں نے مل کر اُسے Psychicبنادیا۔ برسو ں پہلے وہ اک خاموش لڑکی ہوا کرتی تھی۔
مگر اب وہ بھی چیخنے چلانے لگی۔ نوکروں پر اور چیزوں پر اپنا غصہ نکالنے لگی۔ ساس سسر کے لئے اُس کا یہ روپ خوفناک تھا۔
جب اُس کا دل اُداس ہوتا تو وہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی جاتی مگر اب حالات ویسے نہیں رہے تھے۔ اُس کے ماں باپ ضعیف ہوچکے تھے۔ گلی میں کھلنے والا زنگ آلود دروازہ ویسا ہی تھا۔ مگر اب اُس دروازے کو دیکھ کر اُس کے قدم بھاری نہ ہوتے۔ دل پر بوجھ نہ پڑتا۔ وہ بڑی شان سے اُس گھر میں داخل ہوتی۔
بوڑھے ماں باپ کو دیکھ کر سوچتی آخر قصور کس کا ہے۔ معاشرے کے لوگوں کو educateکرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ ساری زندگی بیٹیوں کو بوجھ سمجھنے والے ایک دن اُن ہی کی آمد کا انتظار کرتے ہیں۔ ساری زندگی دوسروں پر ظلم و زیادتی کرنے والے بڑھاپے میں توبہ کرلیتے ہیں، آخر ایسے لوگ کس categoryمیں آتے ہیں۔
وہ اِس گھر میں پیدا ہوئی، یہیں پلی بڑھی، پھر حالات نے اُسے باغی بنادیا اور وہ یہاں سے چلی گئی اور برسوں اُس نے غیر لوگوں میں اپنائیت تلاش کرتے ہوئے گزار دیئے۔
پھر اُس نے اپنے والدین سے رابطہ بحال کرلیا۔ وہ اُس کے ماں باپ تھے۔ وہ اُن کا ظلم و ستم بھول گئی ۔ غیروں نے ناروا سلوک کیا تو وہ بھول نہ پائی۔ یہی رشتوں کا فرق تھا۔
وہ اپنے والدین کی مالی مدد کردیا کرتی اور اُن سے معافی بھی مانگ چکی تھی۔ وہ اُس کے ماں باپ تھے ۔ اُسے کوستے رہنے کے باوجود اُسے یاد کیا کرتے۔ دونوں بھائی اپنی اپنی دنیائوں میں گم تھے۔
رئیس اُسے یاد دلاتا رہتا۔
”یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی تم پر ظلم کیا کرتے تھے۔ ان لوگوں نے ساری زندگی تمہیں اپنا خدمت گار اور غلام بنائے رکھا۔ ہمیشہ تمہارے ساتھ ناانصافی کی۔ تمہاری شادی بھی زبردستی کررہے تھے اور اب تم ان لوگوں سے میل جول رکھ رہی ہو۔ رابطے بحال کررہی ہو!”
ناصرہ کو اس لمحے پر افسوس ہوتا جس لمحے اس نے رئیس کو اپنا بہترین دوست سمجھ کر اس کے ساتھ اپنے دُکھ سکھ شیئر کررہے تھے پھر اسے احساس ہوا کہ انسان کو کسی پر بھی اتنا اعتبار نہیں کرنا چاہیے کہ اپنی زندگی کے سارے راز اُس پر آشکار کردے، کیونکہ لوگ کب بدل جائیں یہ پتا ہی نہیں چلتا۔
ناصرہ اُس سے کہتی۔
”میں نے اپنے والدین کو معاف کردیا… اور انہوں نے بھی مجھے معاف کردیا۔”
رئیس تو خاموش ہوجاتا مگر ساس ناصرہ کو طعنے دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی۔
”غیرت مند والدین ہوتے تو کبھی مڑ کر بیٹی کی شکل نہ دیکھتے۔” دوبارہ کبھی اپنے دروازے پر آنے نہ دیتے۔”
اُس کی ساس کو ناصرہ کے والدین سے بھی نفرت تھی۔ ناصرہ ساس کو پلٹ کر دیکھتی۔
اُن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ۔
”جب آپ لوگ رئیس کو معاف کرسکتے ہیں تو میرے والدین بھی مجھے معاف کرسکتے ہیں۔ اگر یہ غیرت کا معاملہ ہے تو آپ لوگ بھی غیر ت مند نہیں ہیں۔”
رئیس ناصرہ کو چپ کروانے کی کوشش کرتا۔ اُسے خاموش رہنے کے اشارے کرتا مگر ناصرہ کسی ہیٹریک نفسیاتی مریضہ کی طرح بپھر جاتی۔
لڑائی جھگڑے طویل ہوجاتے۔
”ہم بے غیر ت ہیں اسی لئے تو تمہیں اس گھر میں جگہ دی ورنہ دوسرے دن ہی نکال باہر کرتے ۔ کیا ایک سبزی فروش کی چلتر بیٹی کی اتنی حیثیت تھی کہ وہ اس گھر کی بہو بنتی… میرے ہیرے جیسے بیٹے کو کوئی رشتوں کی کمی تھی کیا ۔ ارے میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی لڑکیاں کچھ بھی کرسکتی ہیں۔ انہیں عزت، بے عزتی کا کیا پتا؟”
اُس کی ساس اپنی پاٹ دار اور گرجدار آواز میں شروع ہوجاتیں۔
رئیس عجب مشکل میں پھنس جاتا۔ ایک طرف ماں، دوسری طرف بیوی… وہ کس کا ساتھ دے ، کس کا نا دے ۔
زوار کونوں ، کھر دروں سے جھانک کر یہ لڑائیاں دیکھتا پھر اُس نے اس ماحول سے فرار حاصل کرنے کے لئے ماہم کی دوستی میں پناہ ڈھونڈی۔
ناصرہ کمر ٹھونک کر میدان میں اُتر آتی۔
”اگر آپ کا بیٹا مجھے گھر سے بھاگنے پر نہ اکساتا تو میں اپنا گھر چھوڑ کر کبھی نہ آتی۔ آپ کا بیٹا میرا تعاقب کرتا تھا، مجھے محبت بھرے خط لکھتا تھا۔ مجھ سے ساتھ نبھانے کے وعدے کرتا تھا۔ اُس وقت آپ نے اسے کیوں نہ روکا؟ اتنے سال مجھ سے کیوں انتقام لیتی رہیں؟ اپنے بیٹے کو معاف کردیا اور مجھ سے بدلے لئے… یہ کہاں کا انصاف ہے! میرے ماں باپ آپ کی طرح دوغلے اور کینہ پرور نہیں ہیں۔”
لڑائی انتہائی رُخ اختیار کرلیتی۔
”ائے لو! اپنے ماں با پ کے منہ پر کالک ملنے والی عورت ہمیں دوغلا اور کینہ پرور کہہ رہی ہے۔ آفرین ہے بھئی… میرے سیدھے سادھے بیٹے کو اپنی ادائوں کے جال میں پھنسا لیا۔ اپنی مظلومیت کی کہانیاں سنا سنا کر اُس کی ہمدردیاں بٹور لیں… ارے کرلیتی کسی سبزی فروش سے شادی… وہی تمہاری اصل… اوقات تھی۔”
”میری اصل اوقات یہی ہے کہ میں آفندی ہائوس کی بہو ہوں اور اس خاندان کے وارث کی ماں ہوں ۔”
ناصرہ کے سارے ڈر اور خوف ختم ہوگئے۔
یہ جملہ سن کر اُس کی ساس کمزور پڑجاتیں۔
زوار اور سارہ انہی حالات میں بڑے ہوئے۔ ناصرہ کے سسر کے انتقال کے بعد ا س کی ساس کا زور بھی قدرے کم ہوگیا اور ایک دن یوں اچانک رئیس بھی بڑی خاموشی کے ساتھ اس دنیا سے منہ موڑ گیا۔ آفندی خاندان کے لئے یہ ایک بڑا صدمہ تھا۔
رئیس چلا گیا۔ ناصرہ کو کتنے دنوں تک یقین ہی نہ آیا ۔ برسو ں پہلے وہ اُسے ا س گھر میں لایا تھا۔ اس نے اسے سائباں تو دیا تھا مگر اس کا سہارا نہ بن سکا۔ وہ اُسے اپنی ماں کے حوالے کرکے خود بے فکر ہوگیا۔ ناصرہ کے گلے ،شکوے،شکایتیں، اُس کے آنسو… کچھ بھی اُس پر اثر نہ کرتے… ہر بات کے جواب میں وہ اُسے یہی کہتا کہ ”چپ رہو۔” وہ یہ جملہ سن سن کر تھک گئی ۔”
برسوں پہلے اس کے پیچھے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر آئی تھی۔ اب یہاں سے کہاں جاتی۔
عورت کو سائباں کبھی مفت میں نہیں ملتا۔
رئیس اُسے ہمیشہ یہی کہتا۔
اپنے ماں باپ کی باتیں بھی تو تم خاموشی سے سن لیا کرتی تھی…سو میرے ماں باپ کی بھی سن لو…کیا فرق پڑتا ہے۔”
وہ صدمے بھری ساکت نظروں سے اُسے دیکھتی رہتی۔ لوگوں کی باتیں سن سن کر شاید وہ بھی یہی سمجھتا تھا کہ وہ عزت نفس سے عاری انسان تھی۔ اُس کے لاشعور میں بھی یہ خیال تھا کہ گھر سے بھاگ جانے والی لڑکی کی کیا عزت… کیا عزت ِ نفس…
اُسے اپنے ماں باپ کی گالیاں سن کر اتنا دکھ نہیں ہوا تھا جتنا رئیس کی خاموشی سے ہوا۔ پھر وہ اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے کے لئے خود ہی میدا ن میں اُتری مگر رئیس چلا گیا۔ وہ ایک بزدل آدمی تھا۔ بہت سے مقامات پر کمزورپڑگیا۔جوانی کے جوش میں اور عشق کے نشے میںمدہوش ہوکر اُس نے ناصرہ سے شادی تو کرلی تھی مگر وہ اس گھر میں اُسے عزت نہ دلوا سکا۔ کسی سے ایک جملہ نہ کہہ سکا کہ یہ گھر ناصرہ کا بھی ہے… اُس کی بھی عزت ہے، وہ بھی انسان ہے۔ اُس کے پاس وہ لفظ ہی نہیں تھے جو ناصرہ کے دکھ دور کرسکتے۔ لڑائیاں، جھگڑے،تکرار… تھک ہار کر وہ رونے لگتی ۔ ان سب باتوں کا رئیس کے پاس ایک ہی جواب تھا۔” بس تم خامو ش رہو۔” پھر اس جملے سے ناصرہ کو نفرت ہوگئی ۔
رئیس کے جانے کے بعد حالات بہت بدل گئے۔ ناصرہ خود فیکٹری جانے لگی۔ زوار اور سارہ پڑھ رہے تھے۔
ناصرہ کو بزنس کی اتنی سمجھ نہیں تھی مگر اپنے تجربے کار اسٹاف کی مدد سے کسی طرح اُس نے فیکٹری کو سنبھال ہی لیا۔
اُس کے ماں باپ کا بھی آگے پیچھے انتقال ہوا۔ بھائی اپنے گھر بار والے تھے۔
وہ بیوگی کے دُکھ کے ساتھ زندگی کی جدوجہد میں مصروف ہوگئی۔
کبھی کبھار وہ اپنے کالج والی سڑک سے گزرتی تو کالج کے سامنے رُک جاتی۔ کبھی وہ اس کالج کی حسین ترین لڑکی ہوا کرتی تھی۔
کالج کی عمارت کو دیکھتے ہوئے وہ یادو کے سفر پر نکل جاتی۔
وہ بھی کیا دن تھے… وہ شوخیاں ، شرارتیں ، بے فکری … سب گزرے زمانے کی یادیں تھیں۔ سہیلیوں کے قہقہے، شوخی بھری باتیں ، وہ اپڑ جوانی، لہراتے آنچل ، محبو ب کے قصے، وہ محبت نامے، عشق کی داستانیں، کینٹین کے سموسے، لائبریری کے ریک میں سجے رومانٹک ناولز، کوریڈور میں گونجتی ہنسی کی جھنکار، وہ ٹین ایجرز کے ایڈونچرز کا شوق، دنیا میں کوئی کارنامہ کوئی معرکہ سر کرنے کی اُمنگیں… دنیا کے رسم و رواج کو بدل ڈالنے کی انقلابی خواہش ، اُس وقت اُسے یوں لگتا تھا جیسے وہ اک بڑی خاص لڑکی ہے ۔ دنیا میں اک انقلاب برپا کرسکتی ہے اور ایک دن کر بھی لے گی۔ مگر اتنے سال گزرنے کے بعد بھی وہ اس کالج کے سامنے سے گزرتے ہوئے رونے والی عور ت تھی۔
وہ سوچتی کہ پتا نہیں اس کے حسن کے قصیدے پڑھنے والی لڑکیاں اب کہاں ہوں گی۔ اُس کی سہیلیاں ہم جولیاں اب کس طرح کی زندگی گزار رہی ہوں گی۔
پھر وہ دن دوبارہ نہیں آئے، گزرا وقت پھر لوٹ کر نہیں آتا۔ یہ کیسا المیہ ہے زندگی کا… اُ س کی آنکھوں میں نمی آجاتی۔ خاموش آنسو آنکھوں اور گالوں کو نم کردیتے۔ دراصل وہی انسان تنہائی کا شکار ہوتا ہے جب اُس کے آنسو پونچنے والا کوئی نہیں ہوتا۔
زندگی نے پھر ہنسنے کی فرصت ہی نہ دی۔ نفرتوں کے درمیان رہنے والے لوگ نفسیاتی مریض بن جاتے ہیں۔ وہ بھی نفسیاتی مریض بن گئی تھی۔
لوگوں سے لڑنے جھگڑنے لگی۔ سب سے ناراض رہنے لگی۔ اُسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آجاتا۔ رئیس کو یاد کرتے ہوئے اُس کا ڈپریشن بڑھ جاتا۔ برسوں پہلے وہ اُس پر اعتبار کرکے اُس کی محبت میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر آگئی تھی۔ پھر اُس کے ساتھ رہتے ہوئے اُسے اُس کی کمزوریوں کا احساس ہوا۔ توقعات ٹوٹ جائیں تو محبت میں بھی دڑاڑ پڑجاتی ہے۔
اتنے سال ساتھ گزارنے کے باوجود بھی بہت سی باتیں اَن کہی رہ گئیں۔
عفت بیگم کی نفرت نے انہیں سکھ سے رہنے نہ دیا۔