برسوں پہلے کی بات ہے…
پُل والی سڑک کے کنارے پیلی دیواروں والے اوسط درجے کے کالج میں ایک حسین و جمیل لڑکی پڑھا کرتی تھی اور اُس کا نام ناصرہ تسکین تھا۔ اپنا یہ نام اُسے بالکل بھی پسند نہیں تھا مگر اُس وقت اُس کے ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں کے نام ایسے ہی ہوا کرتے تھے۔ آسیہ فردوس، کرن شہزادی، کنول زرتاج، مومنہ زمان، فرخ بشیر، نوشین خانم، رخسانہ شفقت، زاہدہ عندلیب… ہر بار اپنے رجسٹر پر اپنا نام لکھتے ہوئے وہ سوچتی کہ کاش اُس کا نام کچھ اور ہوتا حسینہ معین کے ڈراموں کی ہیروئن کے ناموں جیسا کوئی نام ہوتا۔ سنیعہ، زارا، زوباریہ، شرمین… کوئی بھی نام ہوجاتا۔
وہ اپنے حسن جمال کی وجہ سے مشہور تھی۔ گورا رنگ ، لمبا قد، چمکتی سیاہ آنکھیں، سیاہ بے حد لمبے بال جن میں وہ ہر جمعرات کی رات سرسوں کا تیل لگاتی اور صبح صبح اٹھ کر سردھولیتی۔ اُن دنوں جمعہ کی چھٹی ہوا کرتی تھی۔ سُنا تھا کہ اُس کے باپ کی دادی کشمیری تھی اور وہ لوگ جموں کشمیر کے ایک گائوں سے آکر لاہور میں آباد ہوگئے تھے۔ ہر خاندان کی ایک تاریخ ہوتی ہے جو بڑے بوڑھوں کے ذریعے نئی نسل تک پہنچتی ہے۔ اُس نے بھی جموں کشمیر سے آئے رشتہ داروں کے متعلق بڑی کہانیاں سن رکھی تھیں۔
اُس کے ماں باپ غریب تھے مگر اُسے اپنے ماں باپ کی غربت کا اتنا دکھ نہیں تھا جتنا وہ اُن کی جہالت سے نالاں تھی۔
باپ کی سبزی کی دُکان تھی۔ وہ صبح سویرے منڈی سے تازہ سبزی لاتا پھر اپنی دکان داری میں مصروف ہوجاتا اور پان کھاتے ہوئے ٹین کے ڈبے میں پیسے جمع کرتا رہتا۔
ماں ان پڑھ اور جاہل عورت تھی۔ زبان دراز ، جھگڑالو اور لڑاکا ۔ بیٹیوں کو ہر وقت لعن طعن کرتی رہتی اُسے تو بس بیٹوں سے ہی پیار تھا۔
ناصرہ نے اپنے گھر میں ہمیشہ ایسا ہی ماحول دیکھا تھا۔ گھر میں لڑائی جھگڑے ہوتے رہتے۔ ماں باپ ذرا ذرا سی بات پر چیختے چلاتے۔ گالیاں دیتے جس گھر میں غربت اور جہالت کا راج ہو وہاں تربیت نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
اُس کے محلے کے ہر دوسرے گھر میں تقریباً ایسا ہی ماحول تھا۔
گھر میں تو کبھی کسی نے غور ہی نہیں کیا تھا کہ وہ خوبصورت تھی یا بد صورت … اور گھر میں اُس کا حلیہ بھی ایسا ہی ہوتا۔ پرانے بوسیدہ ، پیوند لگے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے رکھتی اور سیاہ رنگ کی بڑی سی اوڑھنی اوڑھے رکھتی اور اِسی انداز میں سارے گھر کے کام نپٹا لیتی۔ یہ اُس کی اماں کا رائج کردہ فیشن تھا۔
ماں باپ جب چاہتے اُسے بالوں سے پکڑ پکڑ کر مارتے پیٹتے اور گالیاں کوسنے دیتے۔ اس سے بڑی دونوں بہنوں کی شادی ہوگئی تھی اور اب گھر کے سارے کام اُس کی ذمہ داری تھی۔
وہ دو میل روزانہ پیدل چل کر کالج آتی اور جاتی اور گھر آکر تھکن سے نڈھال ہونے کے باوجود بھی اُسے آرام کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
وہ کپڑے بدل کر سیدھا باورچی خانے میں آجاتی، سارا باورچی خانہ صاف کرتی، برتن دھوتی، آتا گوندھتی ، مصالحے پیس کر رکھتی، گندم صاف کرتی، رات کے لئے کھانا پکاتی ، آکھڑاصاف کرکے اُسے میں تازہ پانی بھرتی۔ میلی کچیلی سیاہ پڑتی دیواروں والے خوفناک سے باورچی خانے میں کھڑکی کے پاس وہ اپنی کتاب چھپا کر رکھتی اور کام کرتے ہوئے ساتھ ساتھ دو چار صفحے بھی پڑھ لیتی۔ وہ ٹیکسٹ کی کتابیں پڑھنے کا زمانہ تھا۔ گائیڈ پڑھنے والے طلبا کو نالائق سمجھا جاتا۔ اُسے پڑھنے کا شوق تھا۔ وہ ایک اچھی اور ذہین طالبہ تھی ۔ نہ ٹیوشن ، نہ کوئی راہ نمائی اور نہ ہی گھر میں کوئی پڑھانے والا تھا۔
ہمسایوں کی لڑکی کا پرانا یونیفارم اور جوتے پہن کر ، سخت گیر استانیوں کی جھڑکیاں کھا کر اور فیس معافی کی درخواستیں دے کر کسی طرح اُس نے میٹرک پاس کر ہی لیا تھا۔
دونوں چھوٹے بھائی سکول سے آنے کے بعد گلی میں گُلی ڈنڈا کھیلتے رہتے۔ گھر آکر اُس پر حکم چلاتے، رعب جھاڑتے ۔ جیسے وہ اُن کی بڑی بہن نہیں، نوکرانی تھی۔
ماں بھی اُس کے دونوں بھائیوں سے ہی پیار کرتی ۔ اُسے تو کوئی پوچھابھی نہیں تھا۔
سب گھر والے پرانے کپڑے کے دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھاتے اور باورچی خانے سے صحن تک اُس کی دوڑ لگی رہتی۔ کبھی وہ سٹیل کے جگ میں پانی بھر کر لارہی ہوتی۔ کبھی توے سے تازہ روٹیاں۔ چنگیر میں رکھ کر دسترخوان پر رکھتی جاتی۔ کبھی کوئی آواز دیتا، تو کبھی کسی کو کچھ چاہیے ہوتا۔ دستر خوان سمیٹنے کے بعد ہی اُسے ذرا فرصت ملتی اور وہ باورچی خانے کی چوکی پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتی۔ بیٹیوں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا اس گھر کی روایت نہیں تھی۔
جاہلوں کے گھر کی یہی نشانی ہوتی ہے کہ وہاں بیٹیوں کو نوکرانیاں اور بیٹوں کو شہزادہ سمجھا جاتا ہے۔ فرق ہی سارا سوچ کا ہوتا ہے۔
اپنے بارے میں تو ہمیشہ اس نے یہی سنا تھا کہ وہ منحوس ہے۔ تفصیلات کے بارے میں تو وہ نہیں جانتی تھی، پھر اُس نے سوچا کہ شاید ان کے خاندان میں پیدا ہونے والی بیٹیاں منحوس ہی ہوتی ہیں۔ اس لئے تو ان کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یہ روایتیں کوئی نئی تو نہیں تھیں۔ اُ س کی دونوں بڑی بہنوں کے ساتھ بھی ایسا ہی برتائو کیا جاتا رہا تھا۔
وہ اِسی باورچی خانے میں کام کرتے کرتے بڑی ہوئی اور ایک پھوہڑ ماں کی سگھڑ بیٹی بن گئی۔
میٹرک کرنے کے بعد اس نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ ماں باپ نے سوچا کہ اُسے پڑھنے کا شوق ہے تو چلو پڑھ لے۔ کل کو کسی سکول میں ٹیچر ہی لگ جائے گی اور پھر اُن ہی کو آرام ہوگا۔ کما کر لائے گی اور اُن کا بوجھ بھی اٹھائے گی اور یہ تو اُس کا فرض بھی تھا۔
اُس نے ہمسائے کی لڑکی سے پرانے جوتے اور یونیفارم لے لیا۔ جسے وہ روزانہ دھوتی اور محنت سے استری کرتی ۔ اُس کی بڑی بہن سلائی کڑھائی میں ماہر تھی اُس نے ایسا زبردست بیگ سی کردیا اور ایسے عمدہ کاج بنائے کہ اسے دیکھ کر لگتا ہی نہ تھا کہ وہ ہاتھ کا سلا ہوا ہے۔
کالج کی دنیا بڑی خوبصورت تھی، رنگوں، شرارتوں ، شوخیوں ، کھلکھلاہٹوں کی دنیا… ہنسی مذاق، شوخی بھری باتیں ، خوشی سے بھرپور قہقہے… وہ اُس دنیا کی عاشق ہوکر رہ گئی۔ کالج کی دنیا اس کے لئے ایسا فیری لینڈ تھا جس میں داخل ہوتے ہی وہ اپنے سارے دکھ اور غم بھول جاتی وہ لوگوں سے اپنے حسن و جمال اور خوبصورتی کے قصے سن کر شرما جاتی۔ اُس وقت لڑکیوں کو اپنی تعریف پر خوش ہوکر مسکرانے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ وہ کالج میں جہاں سے گزرتی،لڑکیاں آپس میں سرگوشیاں کرتے ہوئے اُس کی طرف اشارے کرتیں جو چادر وہ روزانہ اوڑھ کر آتی تھی۔ کالج پہنچتے ساتھ ہی وہ بیگ میں تہہ کرکے رکھ دیتی۔
اُس نے ہمیشہ امیر لڑکیوں سے دوستی کی۔ اُسے کینٹین بھی وہی لے کر جاتیں۔ کبھی سموسے، کبھی چاٹ کبھی نان ،کباب کھلاتیں ۔ اُس کے پاس تو پیسے ہی نہیں ہوتے تھے۔ اسے دولت کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا تھا۔
کالج جاکر تو وہ بھول ہی جاتی کہ وہ کوئی غریب لڑکی ہے اور گھر میں اُسے منحوس کہا جاتا ہے۔ وہ کوئی کلاس اٹینڈ کرتی، کوئی مس کردیتی اور گلے میں دوپٹہ ڈال کر آزادی سے کالج کے گرائونڈ میں گھومتی، پھرتی، خوش رہتی، اُس کی سہیلیوں کے بیگ میں تھوڑا بہت میک اپ کا سامان ہوتا ۔ ہلکے رنگ کی لپ اسٹک، کاجل، بلش آن، بھنویں بنانیوالا دھاگہ… آہستہ آہستہ اُسے بھی کالج میں میک اپ کرنے کی عادت ہوگئی۔ اُس کے گھر میں تو کوئی آئینہ بھی نہیں تھا جس میں وہ اپنا عکس دیکھ سکتی۔ سٹیل کی پلیٹ میں دھندلا سا عکس نظر آتا جس میں وہ اپنا چہرہ دیکھ کر بال بنا لیا کرتی۔
لڑکیاں آپس میں خوب باتیں کرتیں۔ پر لفظ میں رنگ ہوتے۔ ہر جملے سے ہنسی لپٹی ہوتی۔کتابوں میں پھول رکھتیں، رومانٹک ناولز پڑھتی، محبت اور دیوانگی کی باتیں، عشق و عاشقی کے قصے، ہر کسی کی خواہش ہوتی کہ اُسے کوئی شدت سے چاہنے والا ہو جو اُس کے پیچھے پاگلوں کی طرح پھرتا رہے، مجنوں بن جائے۔
اور محبت بھرے خطوط لکھتا رہے۔
کالج میں لڑکیوں کے عجیب و غریب شوق تھے۔ کسی کو پامسٹری کا شوق تھا۔ کسی کواسٹارز میں دلچسپی تھی۔ کوئی شاعری کی دلدادہ تھی، کسی کی آواز اچھی تھی۔ کسی کو سارے فنکشن ناولز کرداروں سمیت یاد تھے۔
کسی کو فلمی اداکاروں سے متعلق معلومات جمع کرنے کا شوق تھا ۔ اُسے تو بس لڑکیوں کی شوخی بھری باتیں سننے میں دلچسپی تھی۔ وہ ہنسنا چاہتی تھی، خوش رہنا چاہتی تھی۔ اُس کے دل میں بھی خواہش تھی کہ اس سے بھی محبت کی جائے۔ لوگ اُس کی بھی عزت کریں۔ وہ اتنی بھی بے مایہ نہیں تھی کہ اُسے ہر وقت ذلیل ہی کیا جاتا رہے۔
گھر کی گلی میں داخل ہوتے ہی اُس کا دل اداس ہوجاتا۔ قدم بھاری ہوجاتے۔ گلی کے کونے میں زنگ آلود دروازے والا گھر اُسی کا تھا جہاں سے ہر وقت شور شرابے کی آوازیں آتی رہتیں۔ وہ سوچتی کہ کاش یہ اُس کا گھر نہ ہوتا۔
تپتی دھوپ میں واپس آکر وہ باورچی خانے میں گھس جاتی پھر مغرب کے بعد ہی اُس کے کام ختم ہوتے۔ وہ جیسے اُس گھر کی مزدور تھی۔
اُس کے گھر میں ٹی وی، فریج، جیسی عیاشی نہیں تھی۔ اُس کے ہمسائے نسبتاً خوشحال لوگ تھے۔ ناصرہ کی ماں اُن کے فریج میں روزانہ ایک پیالہ برف کا ضرور رکھواتی اور وہ برف لینے کے بہانے ہمسایوں کے گھر جاتی اور چپکے چپکے آٹھ بجے لگنے والا ڈرامہ دیکھ لیتی۔ اُسے مرینہ خان کے ڈرامے بہت پسند تھے۔ اگر اُس سے کوئی پوچھتا کہ دنیا کی حسین ترین لڑکی کون ہے تو وہ مرینہ خان کا ہی نام لیتی۔ اُسے کراچی سینٹر سے ٹیلی کاسٹ ہونے والے ڈرامے بہت اچھے لگتے۔
کئی بار ایسا ہوتا کہ برف کا پیالہ پکڑے پکڑے وہ ڈرامے میں کھوجاتی ۔ پیچھے سے اُس کی ماں آکر اُسے د و تھپڑ لگاتی اور بالوں سے پکڑ کر دھکے دیتے ہوئے گھر لے جاتی پھر بھی کبھی اُس نے برف کا پیالہ ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا کہ وہ برف کا پیالہ اُس کی عزت ِ نفس سے کہیں زیادہ قیمتی تھا۔
٭…٭…٭
وہ اُس کی زندگی کا یاد گار دن تھا جب وہ کالج ٹرپ کے ساتھ مری گئی تھی۔
برف باری کا موسم تھا اور ہر طرف سیاحوں کا رش تھا۔ رئیس آفندی بھی اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے اور برف باری دیکھنے مری آیا تھا جب اُس نے پہلی بار وہاں ناصرہ کو دیکھا ۔ اس کی نظر اس پر پڑی تو بگڑ گئی۔
وہ صرف اُس لڑکی کے حسن سے ہی متاثرنہیں ہوا تھا۔ زندگی میں پہلی بار پہاڑوں پر گرتی برف دیکھنے والی لڑکی کی ایکسائٹمنٹ اور خوشی نے چند لمحوں کے لئے اُسے چونکایا تھا۔ خوشی کا اپنا ہی ایک رنگ ہوتا ہے۔
ہنستی کھلکھلاتی ، خوشی سے چلاتی، ایک دوسرے پر برف کے گولے اچھالتی گوری رنگت، گلابی گالوں اور سیاہ بالوں والی لڑکی…جسے دیکھ کر اُسے سنو وائٹ کا خیال آیا۔ لڑکیوں کے جھرمٹ میں وہ سب سے حسین، سب سے منفرد نظر آرہی تھی۔
اُسے علم ہوگیا کہ لڑکیوں کے کالج کا ٹرپ لاہور سے آیا ہے۔ دور سڑک کے کنارے کھڑی کالج کی بس دور نظر آرہی تھی جس پر اُن کے کالج کا نام جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔
نہ جانے کون تھی وہ؟ کہاں سے آئی تھی! اُجالوں جیسی لڑکی اس نے اُسے دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔
وہ کتنی ہی دیر پہاڑی کے کنارے کھڑا اُن لڑکیوں کو ایک دوسرے پر برف کے گولے پھینکتے ، ہنستے کھلکھلاتے دیکھتا رہا۔
وہ لڑکیاں ہنسی کھیل میں مصروف تھیں۔ پھر وہاں سے وہ آپس میں باتیں کرتے ہوئے مال روڈ کی طرف چلی گئیں۔ وہ بھی اپنے دوست کے ساتھ اُن کا تعاقب کرتا رہا۔
جی پی او چوک پررک کر انہوںنے تصویریں بنوائیں، ایک لڑکی کے ہاتھ میں فلیش والا کیمرہ تھا۔ وہ بھی ذرا فاصلے پر رک گیا۔
اُن لڑکیوں کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اُن کا تعاقب کررہا ہے۔ وہ جہاں جاتیں وہ بھی اُن کے پیچھے پیچھے وہیں پہنچ جاتا۔
نیلی جینز اور سیاہ جیکٹ پہنے وہ دراز قد سالڑکا اتنی پرکشش شخصیت کامالک ضرور تھا کہ لڑکیاں اُسے دیکھ کر آپس میں سرگوشیاں کرتیں۔ناصرہ کی سہیلیوں نے محسوس کرلیا کہ وہ دراصل ناصرہ کے پیچھے آرہا ہے ۔اُسی کودیکھ رہا ہے۔ وہ سب ناصرہ کو چھیڑنے لگیں۔
ناصرہ کی زندگی کا یہ ایک انوکھا اور دلچسپ تجربہ تھا۔ اُسے اندازہ نہیں تھا کہ کسی مرد کی نگاہیں اتنی سحر انگیز ہوسکتی ہیں۔
گلی کے چھوٹے سے مکان میں رہنے والی لڑکی جو سارا دن مزدوروں کی طرح کام کرتی تھی، اس کے لئے ایسے خوبرو مرد کی دیوانگی اور توجہ بڑی انوکھی سی بات تھی۔
اُسے یوں لگا جیسے برف زاروں میں راستے بناتا ہوا وہ کوہ قاف سے آیا کوئی شہزادہ تھا۔
محبت کے اُس لمحے نے اُن دونوں کو ہی اسیر کرلیا۔ اور محبت کی اسیری بڑی زبردست ہوتی ہے۔ نظروں ہی نظروں میں رابطے ہوگئے۔
اُس کے ساتھ آئی اُستانیاں مال روڈ پر گرم شالیں خریدنے میں مصروف تھیں۔ اُس کی سہیلیوں نے پتھروں اور نگینوں کی جیولری خریدی۔ اُس کے پاس کہاں اتنے پیسے تھے کہ وہ کوئی شاپنگ کرتی۔ وہ چپ چاپ مسکراتے ہوئے خاموشی سے مختلف دکانوں میں سجی چیزیں دیکھتی جارہی تھی۔
تنکوں سے بنی انگلش سٹائل کی hatsکی دکان سے گزرتے ہوئے وہ بلا ارادہ ہی اُس دکان میں چلی آئی، پھر اُس نے اپنے سیاہ بالوں پر سے برف جھاڑتے ہوئے گلابی ربن والی ہیٹ سر پر رکھی۔ اُس نے سوچا کہ کاش وہ اس ہیٹ کو خریدنے کی استطاعت رکھتی مگر وہ خوش تھی کہ چلو اُسے یہاں آنے کا اور یہ سب چیزیں دیکھنے کا موقع تو ملا۔
اُس نے وہ خوبصورت ہیٹ ذرا ساگھما کر یونہی مڑ کر دیکھا ۔ وہ لڑکا چکن کارن سوپ پیتے ہوئے اُن سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑا آڈیو کیسٹ خرید رہا تھا۔
دونوں کی نظریں ملیں پھر ناصرہ نے شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ رُخ پھیر لیا اور رئیس کے لئے ایک دل پر قابو رکھنا مشکل ہوگیا۔ وہ بھی اُس دکان میں چلا آیا اور بالکل اُس کے عقب میں آکر اس نے سرگوشی بھرے انداز میں کہا۔
“May I know your name please?”
شستہ انگریزی میں بولے گئے جملے کا رعب ہی ایسا تھا کہ وہ گنگ رہ گئی۔ جواب میں کچھ نہ کہہ سکی۔ اپنانام تک نہ بتاسکی۔ وہ ایک بے حدسلجھا ہوا اور تعلیم یافتہ لڑکا تھا۔ اور شاید انگریزی بولنے کا عادی بھی تھا۔
”کیا آپ کانام سنو وائٹ ہے؟”
وہ مدھم آواز میں اُن کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولا۔
وہ چونکی ۔ سات بونوں والی کہانی تو اُسے یاد ہے۔ اُس نے کب اپنی زندگی میں ایسا کوئی بندہ دیکھا تھا جو اس انداز میں ایسی گفتگو کرتا تھا۔
ایسی خوبصورت باتیں، کہانیوں کے حوالے۔ ایسے حسین القابات… نے بھلا کب ایسی باتیں سنی تھیں۔ وہ حیران تھی بے حد حیران… اتنی کہ اُس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکل سکا۔
”ناصرہ! جلدی آئو… مس شفقت بلا رہی ہیں۔”
ایک لڑکی نے اُسے آوا زدی۔
اُس نے جلدی سے سرپر پہنی ہیٹ واپس رکھ دی۔
”ناصرہ!”
وہ زیر لب بڑبڑایا۔
”بی بی ! کیا یہ ہیٹ پسند نہیں آیا؟”
دکاندار نے پیشہ وارانہ انداز میں پوچھا۔
وہ اُس کی بات سنے بغیر ہی جھپاک سے دکان سے باہر نکل گئی۔
”تو سنووائٹ کا اصل نام ناصرہ ہے۔”
رئیس نے دکان سے باہر نکل کر سڑک پر آتے ہوئے سوچا۔
لڑکی کا نام بھی پتا چل گیا تھا اور وہ ان کے کالج کا نام بھی جان چکا تھا۔
مال روڈ پر جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ ناصر ہ تک پہنچنے کے راستوں کے بارے میں سوچتا رہا۔
پھر جب اُن کی بس واپسی کے راستے پر گامزن ہوئی تو رئیس کی جیپ بھی اُن کے پیچھے تھی۔
وہ کھڑکی سے اُس کی جیپ کو پیچھے آتے دیکھتی رہی۔ اور اپنے ساتھ بیٹھی لڑکی سے سرگوشیوں میں باتیں کرتی رہی۔ بس میں بیٹھی لڑکیاں تالیاں بجاتے ہوئے گیت گا رہی تھیں۔
ناصرہ جیپ چلاتے لڑکے کی استقامت پر حیران تھی۔اُسے یہ سب کچھ ایک سنسنی خیز ایڈونچر کی طرح لگ رہا تھا۔
ایسا ایڈونچر جو انسان کی زندگی ، اُس کا دل، اس کی سوچ کو بدل دیتا ہے ۔ بس بکل کھاتی سڑک پر چلتی جارہی تھی۔ وہ مری سے اُن کی بس کا تعاقب کرتے ہوئے لاہور پہنچا۔
اتنی دیوانگی، وارفتگی ، ایسی توجہ ، ایسا جنون! کیا وہ کسی کے لئے واقعی اتنی اہم تھی!
وہ حیران رہ گئی۔
اس ایڈونچر کے آغاز نے ناصرہ کی پوری زندگی کو بدل دیا۔
رئیس نے کسی طرح ناصرہ کو locateکر ہی لیا۔ اُس کے دوست کی کزن ناصرہ کی کلاس فیلو تھی۔ اُسی کے توسط سے وہ ناصرہ تک پہنچا، اور اُسی کے ذریعے اُس نے ناصرہ کے ساتھ خط و کتابت کا آغاز کیا۔ وہ اُس کے نام محبت بھرے خط لکھتا تھا۔ وہ لائبریری میں بیٹھ کر جو ناولز پڑھتی تھی اُن میں اُس نے love letters کے بارے میں پڑھا ضرور تھا مگر love lettersپڑھنے اور لکھنے کا یہ اُس کا پہلا تجربہ تھا۔ وہ پہلی بار محبت کی خوبصورتی اور دلکشی محسوس کررہی تھی۔
وہ اُس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے کالج کے گیٹ کے باہر کھڑا رہتا۔
اپنے ہی گھر میں تیسرے درجے کے شہری جیسی زندگی گزارنے والی لڑکی کے لئے یہ روزن کتنا ہوادار اور خوشبو دار تھا، کوئی اُس کے دل سے پوچھتا۔
یہ سلسلہ خط و کتابت سے بڑھ کر ملاقاتوں تک جا پہنچا۔ ناصرہ کے لئے یہ سب کچھ نیا اور انوکھا تھا۔
رئیس بے حد خوبرو مرد تھا۔ وجیہہ اور شاندار… ناصرہ کا چہرہ وارفتگی سے دیکھتے ہوئے وہ اپنی گھمبیر آواز میں ٹھہر ٹھہر کر بولتا تو اُس کے دل میں اُتر جاتا۔ وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شرما جاتی۔ آہستہ آہستہ رئیس کو ناصرہ کی زندگی کی مشکلات اور دکھوں کا اندازہ ہوگیا۔ اُسے اُس کے حالات کے بارے میں جان کر افسوس ہوا۔
جو پہلا رشتہ اُن دونوں کے درمیان بنا وہ دوستی کا تھا۔ دوستی کا رشتہ بڑ اپائیدار ہوتا ہے۔ وہ ناصرہ کے دُکھ سمجھتا تھا اور اُسے اپنانا چاہتا تھا۔ اُس نے اپنے والدین سے ناصرہ کے رشتے کی بات کی تو اک طوفان آگیا۔ اُس کے انا پرست والدین اِس رشتے کے لئے نہیں مانے۔
فیکٹری کے مالکان ایک سبزی فروش کی بیٹی کو بہو بناتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتے تھے۔ وہ اکلوتا بیٹا ہونے کے باوجود اپنی بات نہیں منوا سکا۔ وہ ناصرہ کو تسلی دیتا کہ اپنے گھر والوں کو جلد ہی اُس کے گھر بھیجے گا ۔ ناصرہ بھی انتظار کرتی رہی۔ اُسے رئیس کی محبت پر یقین تھا۔
”میں ممی پاپا کو منانے کی کوشش کررہا ہوں۔ وہ تمہارے گھر ضرور آئیں گے۔
وہ اُسے تسلیاں دیتا۔
”اور اگر وہ نہ مانے؟”
وہ بے چینی سے پوچھتی۔
”مجھ پر اعتبار کرو ستارہ … میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ فلرٹ نہیں کررہا۔ میں تمہیں دُکھ دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔”
وہ اُس سے وعدے کرتا رہتا۔
اُسے ناصرہ نام پسند نہیں تھا سو وہ اُسے ستارہ ہی کہتا۔ ناصرہ کو اس کے وعدوں پر اعتبار تھا۔ رئیس کی آنکھوں میں سچائی تھی۔
مگر رئیس اپنی اِس کوشش میں کامیاب نہ ہوا۔
ناصرہ کے گھر اُس کی پھپھی کی آمد بڑھ گئی۔ اور ایک دن جب وہ اپنے باورچی خانے میں برتن دھورہی تھی تو اُسے معلوم ہوا کہ اس کی منگنی پھپھی کے بیٹے شوکت عرف شوکے سے ہوگئی ہے۔ وہ یہ خبر سن کر صدمے کے عالم میں بیٹھی رہی۔ پھپھی آئی اور ایک شیشے جیسی چمکدار نقلی انگوٹھی اُس کی انگلی میں پہنا کر چلی گئی۔ وہ سوائے آنسو بہانے کے اور کچھ نہ کرسکی۔ اس کے خاندان میں ایسے ہی رشتے طے کئے جاتے تھے۔
اس نے خط لکھ کر فوراً رئیس کو اس بات کی اطلاع دی۔
رئیس بھی پریشان ہوگیا۔ ماں باپ کو منانے کی کوشش کرتا رہا مگر ماں باپ کو اپنی ناک عزیز تھی۔
وہ کسی صورت نہ مانے اُلٹا رئیس کو برا بھلا کہتے رہے۔ ناصرہ کو کوسنے دیتے رہے جس نے ان کے سیدھے سادھے بیٹے کو اپنی ادائوں کے جال میں پھنسا لیا۔
ناصرہ نے روتے ہوئے رئیس کو کئی خط لکھے۔ رئیس بھی اس کی محبت میں پاگل تھا۔
دو محبت کرنے والوں کے درمیان ظالم سماج تو آتا ہی ہے۔
یہی اُن کا بھی حال تھا۔
مگر اُن میں سے کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ وقت کون سی چال چلنے والا ہے۔
٭…٭…٭