تحریر:نوید احمد
قسط نمبر7
”چنبیلی کے پھول”
”تم یہاں؟”
بہت دیر بعد اُس کی آواز آئی۔
برسوں بعد دھوکہ دے کر چلے جانے والے لوگ واپس آجائیں تو انسان اسی طرح کے ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔
”ہاں کیسے ہو؟”
وہ دلربائی سے مسکرائی۔ وہی حسین مسکراہٹ؟ وہی بھورے بال، سنہری آنکھیں۔۔۔۔ مگر آج اُس کے حسن میں وہ کشش نہیں تھی جو اُسے دیوانہ کردیا کرتی تھی۔ ماہم نے رشک بھرے انداز میں اُسے دیکھا۔ گرے ٹریک سوٹ میں ملبوس وہ ایک بے حد شاندار اور ہینڈسم مرد کے روپ میں اُس کے سامنے کھڑا تھا۔ پہلے وہ دبلا پتلا لڑکا ہوتا تھا۔ مونچھیں بھی نہیں رکھی تھیں اُس نے اور اُس کے چہرے پر دانے بھی ہوا کرتے تھے مگر اب تو اُس پر نظر ہی نہیں ٹھہرتی تھی۔ اُس کی وجاہت میں اک سحر تھا۔ وہ اُسے دیکھ کر کچھ دیر کے لئے پلکی نہیں جھپک سکی۔
”ٹھیک ہوں۔۔۔۔ کیسے آنا ہوا؟”
اس نے اجنبیت بھرے خشک انداز میں کہا۔ وہ ذرا قریب آیا، جوس کا گلاس میز پر رکھا مگر بیٹھا نہیں ، اسی طرح کھڑا رہا۔
ماہم نے اس کی بے اعتنائی کو اُس کی ناراضگی سمجھا۔ ہاں ناراض ہونے کا حق تو اُسے تھا ہی۔
”سنا ہے کہ تم نے منگنی کرلی ہے؟ میں امریکہ سے پاکستان آئی ہوئی تھی تو سوچا کہ تمہیں مبارک باد ہی دے دوں۔ بالآخر تم نے بھی اپنی فیملی لائف شروع کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔”
اُس نے اسے بغور دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ انداز ایسا تھا جیسے اُن کے مابین کبھی فاصلے آئے ہی نہ ہوں۔
”تھینک یو۔”
وہ روکھے پھیکے انداز میں بولا۔
”سنا ہے کہ ستارہ آنٹی آئی ہوئی ہیں؟ اتنے سالوں بعد کیسے لوٹ آئیں وہ؟” اُس نے کریدنے والے انداز میں پوچھا۔ اُن کے چلے جانے کی وجہ سے تو وہ اور زوار الگ ہوئے تھے۔ اب اتنے سالوں بعد وہ اتنے دھڑلے سے بھلا کیسے واپس آگئیں۔ یہ سوال کافی دنوں سے اُسے بے چین کررہا تھا۔
”اُن کا گھر ہے یہ۔۔۔۔ وہ یہاں کبھی بھی آسکتی ہیں۔۔۔ اور ویسے بھی وہ میری شادی کے لئے آئی ہیں۔”
اُس نے خشک انداز میں کہا۔
لہجہ اجنبی سا تھا۔ اُسے ماہم کی یہ باتیں عجیب لگنے کے ساتھ ساتھ غصہ دلا رہی تھیں۔
”مگر وہ تو تمہیں چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔ پھر اب تمہاری شادی پر آنے کا خیال کیسے آگیا انہیں؟”
ماہم نے اپنا طنزیہ انداز آج بھی ترک نہیں کیا تھا۔ کچھ لوگ اپنی شخصیت کو وقت کے ساتھ بھی بہتر نہیں بنا پاتے۔
زوار نے اس کی بات پر خفگی سے ابرو اچکا کر اُسے دیکھا بھلا وہ ایسے سوال جواب کرنے والی کون ہوتی تھی۔
”وہ مجھے چھوڑ کر نہیں گئی تھیں، میں خود ہی اُن کے ساتھ نہیں گیا تھا۔”
اُس نے سرد انداز میں کہا۔
”جانتی ہوں میں۔”
وہ طنزیہ انداز میں ہنسی۔
وہ اُسے بہت اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ اُس کی منگنی کی خبر سن کر دراصل اُس پر اپنا غصہ نکالنے ہی یہاں آئی تھی۔ خود تو وہ شادی کرکے امریکہ چلی گئی تھی اور تین بچوں کی ماں بھی بن بیٹھی مگر اُس کی خواہش تھی کہ زوار ساری زندگی اُس سے محبت کرتا رہے اور اُس کا جوگ لئے بیٹھا رہے۔
زوار نے سوچا کہ اک وہ لڑکی تھی جو برستی بارش میں اُس کی ممی کی سفارش کرنے اُس کے پاس آئی تھی اور ایک یہ لڑکی تھی جو اتنے سالوں بعد بھی اُسے طعنے دینے کے لئے آئی تھی ۔ ایک لمحے کا موازنہ تھا۔
اور ایک لمحے کے موازنے نے اُسے مطمئن کردیا۔
”کیا سوچ رہے ہو؟”
پھر اُس نے ماہم کو کہتے ہوئے سنا۔
وہ اپنے خیالوں سے چونکا۔
”اپنی منگیتر کے بارے میں سو چ رہا ہوں۔”
اُس کے چہرے کے تاثرات میں نرمی آئی تھی۔
ماہم کو یہ جواب اچھا نہیں لگا۔
”مجھے ممی سے قریب کرنے میں اُس کا بھی ایک کردار ہے۔ رانیہ بہت اچھی لڑکی ہے۔ رشتے نبھانے والی، محبتیں بانٹنے والی، سب کا خیال رکھنے والی، میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی اچھی لڑکی کا ساتھ نصیب ہوا ہے۔”
اس نے سنجیدہ انداز میں کہا۔
ماہم یہ سن کر چند لمحوں کے لئے ساکت رہ گئی۔ وہ اپنی منگیتر کی تعریف کررہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں رانیہ کے لئے محبت تھی۔ وہ زوار کا یہ انداز دیکھنے کے لئے تو یہاں نہیں آئی تھی۔۔۔۔ پھر اس نے پینترا بدلا اور مسکرا کر بڑی لگاوٹ سے بولی۔
”اتنے سالوں بعد ہماری ملاقات ہورہی ہے۔ ساری باتیں کیا یونہی کھڑے کھڑے ہی کرلوگے؟ بیٹھو گے نہیں؟ کیا تمہیں یاد نہیں رہا کہ ہم دونوں کبھی بیسٹ فرینڈز ہوا کرتے تھے؟”
زوار پر اس اپنائیت کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
”نہیں۔۔۔۔ مجھے بالکل یاد نہیں ہے۔”
اُس نے بے اعتنائی سے جواب دیا۔
ماہم کو اُس کے اِس انداز پر صدمہ ہوا۔ اُس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے اُسے احساس ہوا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا تھا۔ وہ واقعی اُسے بھول چکا تھا۔
”وہ لڑکی کون ہے؟جس سے منگنی کرکے تم اپنے پرانے دوستوں کو بھلا بیٹھے ہو۔”
اُس نے حاسدانہ انداز میں پوچھا۔
وہ عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
“She is a Queen.”
اُس نے اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جیسے رانیہ کا تعارف کروایا۔
جملہ خوبصورت تھا۔ اِس جملے سے زیادہ اُس کی آواز سے چھلکتی محبت نے ماہم کو چونکا یا تھا۔ اب وہ کسی اور سے محبت کرتا تھا۔ وہ بھی اتنی شدت سے ، کہ وہ اپنے ماضی کے سب اندھیرے بھول گیا تھا۔
اُس کے جملے نے اُسے کچھ کہنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔
زوار نے دیوار پر لگے وال کلاک پر ٹائم دیکھا۔
”ممی سے ملنا چاہتی ہو تو انتظار کرلو میں آفس کے لئے لیٹ ہورہا ہوں۔” اُس نے نارمل سے اجنبی لہجے میں کہا۔ اُس کی آواز میں کسی قسم کی وارفتگی یا جذباتی لگائو نہیں تھا۔ ایسا انداز جو کسی بن بلائے مہمان کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ وہ میز پر سے اپنا جوس کا گلاس اٹھا کر باہر چلا گیا۔
وہ بے عزتی کے احساس کے ساتھ وہیں بیٹھی رہی۔ اُس کے سارے سنگھار پھیکے پڑ گئے۔ یہ وہ زوار نہیں تھا جسے وہ برسوں پہلے جانتی تھی۔ جو اُس کے بچپن کا دوست تھا، اُس کا عاشق تھا اور اُس کی شادی پر بُری طرح رویا تھا جس کے بارے میں اُسے خوش فہمی تھی کہ وہ اُسے کبھی نہیں بھول سکتا۔
یہ تو کوئی اجنبی آدمی تھا۔
وہ اپنا پرس اٹھا کر کھڑی ہوگئی۔
٭…٭…٭
رانیہ کی امی کی باتوں کا اثر تھا یا عقیل میاں کو اپنی کوتاہیوں کا احساس ہوگیا تھا کہ جیسے ہی انہیں روشنی کے میکے آجانے اور ثاقب کی دوسری شادی کی اطلاع ملی، انہوں نے فون پر ثاقب اور اس کے گھر والوں کو خوب کھری کھری سنائیں۔ ثاقب سمیت اس کے سارے گھر والوں کو باری باری فون کیا اور سب کی خوب خبرلی۔ بات گالم گلوچ تک جا پہنچی ۔ عطیہ عقیل کو منع کرتی رہیں مگر وہ اس معاملے میں بے حد جذباتی ہوگئے تھے۔ پھر رانیہ کی امی ، جیمو ماموں اور فردوسی خالہ بھی ثاقب کے گھر گئے، اُس کے گھر والوں سے بات کی وہاں تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔
ثاقب جیسے ضدی، جھگڑالو اور غصے کے تیز آدمی سے لوگوں کی لعن طعن اور لعنت ملامت سننا دوبھر ہوگیا اور اس نے طیش میں آکر روشنی کو طلاق بھجوا دی۔ طلاق بھیجتے وقت اُسے برسوں کی رفاقت اور روشنی کی وفا بھی یاد نہ رہی حالانکہ وفا اِتنی آسانی سے بھولنے والی چیز نہیں ہوتی۔ وہ اپنی دوسری امیر کبیر بیوی کے ساتھ خوش تھا۔ اب اُس کی زندگی میں روشنی کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔
کسی عورت کو طلاق دینا کون سا مشکل کام ہوتا ہے۔ وکیل کی فیس ہی تو بھرنی ہوتی ہے۔ کاغذ ہی تو تیار کرنے ہوتے ہیں۔
فردوسی خالہ کے لئے اس عمر میں یہ ایک بڑ ا صدمہ تھا روشنی گم صم ہوکر رہ گئیں۔ ثاقب کی دوسری شادی پر روتی تھیں کہ شوہر کی بے وفائی کا غم تھا۔ اب روتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس کرتیں کہ ایک نامحرم اور غیر آدمی کیلئے کیسے آنسو بہائیں۔ آنسو بھی تو ہر ایک کیلئے نہیں بہائے جاسکتے۔ لوگ طعنے دیتے کہ ایسے دھوکے باز اور بے وفا آدمی کیلئے کیوں آنسو بہاتی ہو۔ رونا بھی دوبھر ہوجاتا۔
محلے والے، خاندان والے، رشتہ دار سب ہی ان کے دُکھ میں شریک تھے۔ فردوسی خالہ ایک مقبول شخصیت تھیں۔ لوگ اُن کی عزت کرتے تھے۔ ان کا دُکھ بانٹنا اپنا فرض سمجھتے۔
لوگ آتے جاتے ، ثاقب کو برا بھلا کہتے۔
کہ شاید اس طرح روشنی کا غم ہلکا ہوجائے۔ وہ چپ چاپ سنتی رہتیں۔ وہ آج بھی نہیں چاہتی تھیں کہ لوگ ثاقب کی برائیاں کریں۔
جب دو لوگوں میں طلاق ہوجاتی ہے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ اب وہ ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر اور ایک دوسرے کی برائیاں سن کر خوش ہوں گے ۔ مگر ہر بار ایسا نہیں ہوتا۔ برسوں کی رفاقت کا لحاظ اور انسان کا ضمیر اُسے اِس حد تک گرنے سے روک دیتا ہے۔
رانیہ کی امی نے زوار کی ممی سے کہہ دیا کہ رانیہ اور زوار کی شادی روشنی کی عدت مکمل ہونے کے بعد ہی ہوگی۔ روشنی اُن کی خالہ زاد بہن اور ہر دلعزیز سہیلی تھی۔ اُن کا دل نہ مانا کہ اُن کی بہن عدت میں بیٹھی ہو اور وہ دھو م دھام سے ڈھول تاشوں کے ساتھ اپنی بیٹی کی شادی کردیں۔ زوار کی ممی نے خندہ پیشانی سے اِس بات کو قبول کیا اور روشنی کے ساتھ گزرے اس حادثے پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔
روشنی صدمے کی کیفیت میں تھیں۔
٫
دن گزرتے جارہے تھے۔
وہ سارا دن ایک کمرے میں بیٹھی رہتیں۔
وہ پہروں خاموش رہتیں۔فردوسی خالہ اپنے آنسو چھپا کر لقمے بنا بنا کر اپنے ہاتھوں سے کھلاتیں۔
زندگی میں دو موقعے ایسے آئے تھے جب انہیں دنیا والوں سے اپنے آنسو چھپانے پڑتے تھے۔
ایک موقع تب تھا جب وہ ریٹائرہوئی تھیں اور دوسرا جب انہوں نے روشنی کے طلاق کے کاغذ دیکھے تھے۔ روشنی صدمے سے سوچتیں…
برسوں کی رفاقت ، خدمت اور ریاضت کا یہ صلہ ملا! یہ انسان کا دیا ہوا صلہ تھا۔
پھر انہیں خیال آتا کہ طلاق نامے پر ثاقب نے اپنی مرضی سے دستخط نہیں کئے ہوں گے ضرور اُس عورت نے انہیں مجبور کیا ہوگا۔ وہ ایسا کبھی نہیں کرسکتے۔ بُرے تھے مگر اتنے بھی نہیں غم حیران رہ جاتا پھر یہ حیرت صدمے میں بدل جاتی…وہ کیسا گھر تھا ! جہاں کھڑکی سے جھانکنا بھی جرم تھا۔ جہاں اُن کی رائے اور خواہشات کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ جہاں ان کے آنسو پونچھنے والا بھی کوئی نہ تھا۔ آنسو سمندر بن جاتے پھر بھی کسی کو نظر نہ آتے۔ وہ برقع اوڑھے بغیر گھر سے باہر نہ نکلیں شوہر کے ساتھ کبھی بحث نہ کی۔ اس نے جو بھی کہا چپ کرکے سن لیا۔ شوہر گھر آتا تو کھانے کے تھال سجا کر سامنے رکھتیں، تازہ روٹی، گرم سالن، ٹھنڈا پانی، لسی کا گلاس، دستر خوان روزانہ ہی اہتمام سے سجا ہوتا، مگر اہتمام کرنے والی کی پھر بھی کوئی قدر کوئی عزت نہ تھی۔ روز رات کو سونے سے پہلے میاں کے پائوں دباتیں کہ یہ بھی ثواب کا کام تھا۔ شوہر کو خوش رکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
ایسے بھی ہوتے ہیں لوگ… احسان فراموش اور بے ضمیر… دوسروں کو روگ لگا کر خود خوشیوں کے شادیانے بجاتے ہیں۔
بعض مردوں کی یاداشت اتنی کمزور کیوں ہوتی ہے کہ کسی نے پوری جوانی دان دی اور انہیں یاد ہی نہ رہا۔
٭…٭…٭
”ہیلو کوئین!”
وہ اپنے مخصوص انداز میں خوش دلی سے بولا۔
اُس کی آواز میں وہی جوش وولولہ تھا جو ہمیشہ سے ہوتا۔
رانیہ رات کے اِ س وقت ابھی بیڈ بنا کر بیٹھی ہی تھی کہ زوار کا فون آگیا۔
”روز رات کو فون کرنا ضروری ہے کیا؟”
اُس نے بظاہر مسکرا کر کہا۔
وہ اس کی روزانہ کی فون کالز کی عادی ہوتی جارہی تھی۔
”مجھے لگتا ہے کہ تم روز میرے فون کا انتظار کرتی ہو”
اس نے مسکراتی آواز میں جواب دیا۔
وہ بے ساختہ ہنس پڑی۔
اُس کی ہنسی میں سحر تھا جس نے زوار کے دل کو اسیر کرلیا۔
”یہ خوش فہمی بھی ہوسکتی ہے۔”
”خوش فہمیاں خوش رہنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ Anywaysتمہاری خالہ کی ڈائیوورس کے بارے میں سن کر ہم سب کو ہی افسوس ہوا۔ میں نے منگنی پردیکھا تھا انہیں… وہ تو خاصی پردہ دار خاتون ہیں۔”
زوار نے کہا۔
”ہاں پردہ دار، فرمانبردار، تابعدار، سلیقہ مند… وہ رشتے میں میری خالہ لگتی ہیں ۔ ہم تو انہیں بچپن سے ایسے ہی دیکھتے آرہے ہیں۔”
اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”اوہ! پھر تو بڑی ٹریجڈی ہوئی اُن کے ساتھ۔ اُن کا ایشو کیا تھا؟”
اس نے سنجیدہ آواز میں کہا۔
”اُن کے شوہر نے دوسری شادی کرلی۔ خاندان والوں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی تو انہوں نے غصے میں آکر طلاق بھجوادی۔ میں نے بی اے میں Tolerance کے نام سے ایک مضمون پڑھا تھا ۔ رٹے لگانے کے باوجود مجھے وہ اُس وقت سمجھ نہیں آیا تھا کہ بھلا صرف برداشت کرنے کے وصف کی وجہ سے قوموں کی تقدیر اور معاشرے کا نظام کیسے سنور سکتا ہے! صرف برداشت کی کمی کی وجہ سے قومیں کیسے تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ مگر اب میں نے جانا کہ لوگوں میں برداشت کا مادہ نہ ہو تو گھر اُجڑ جایا کرتے ہیں ۔ رشتے ٹوٹ جاتے ہیں۔”
اس نے گہرا سانس لے کر کہا۔
ایک لمحہ میں اُسے بہت کچھ یاد آگیا۔
فارس میں بھی تو صبر اور برداشت کی کمی تھی اور اسی وجہ سے قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود اُن دونوں کا رشتہ ٹوٹ گیا تھا۔
یک دم ہی زوار کو کوئی خیال آیا۔
”تمہاری خالہ نے اپنے بارے میں اب کیا سوچا ہے؟”
اُس نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
‘انہوں نے کیا سوچنا ہے۔ ابھی تو وہ عدت میں ہیں۔ فردوسی خالہ کی پنشن آتی ہے، پھر عقیل ماموں بھی کینیڈا سے کبھی کبھار رقم بھیجتے رہتے ہیں… گھر بھی اپنا ہے، وہیں رہیں گی۔”
اُس نے کہا۔
”اُن کی شادی بھی تو ہوسکتی ہے۔”
زوار کی بات سن کر وہ اُچھل پڑی۔
”اس عمر میں اب وہ کیا شادی کریں گی!”
اُس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”وہ اتنی بوڑھی بھی نہیں ہیں اور شادی تو کسی بھی عمر میں کی جاسکتی ہے۔”
وہ اطمینان سے بولا۔
رانیہ حیران ہوئی کہ بھلا زور کو روشنی کی شادی میں اتنی دلچسپی کیوں تھی۔
”اس بات کا فیصلہ تو فردوسی خالہ ہی کرسکتی ہیں۔ اُن کا بہت سے لوگوں کے ساتھ ملنا ملانا ہے۔ شاید روشنی باجی کے لئے کوئی اچھا اور Suitableرشتہ مل جائے۔”
اُس نے بھی اس بات پر سوچا ۔ اچھی بات تھی کہ روشنی کو سہارا مل جاتا اور فردوسی خالہ کا غم بھی کچھ ہلکا ہوتا۔
زوار کی اگلی بات سن کر تو وہ لمحہ بھر کے لئے ساکت رہ گئی۔
”اُن کی شادی جیموماموں کے ساتھ بھی تو ہو سکتی ہے۔”
یہ تو بس زوار کے ذہن کا ہی کمال تھا جو ۔ اُس نے اِس اعتماد کے ساتھ اِ س امکان کے بارے میں سوچا ورنہ اُن سب لوگوں کے لئے تو یہ انہونی سی بات تھی۔
”جیمو ماموں اور روشنی باجی کی شادی؟”
کچھ دیر بعد وہ بے یقینی بھرے انداز میں بولی۔
ہنسی مذاق میں جیموماموں سے متعلق بہت باتیں ہوتی تھیں مگر کبھی کسی نے اِس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ سب لوگ جانتے تھے کہ جیموماموں اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن تھے اور انہیں دوسری شادی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
”اگر روشنی باجی یا جیمو ماموں نے انکار کردیا؟”
اُس نے اس امکان کو بھی مدنظر رکھا۔
وہ مسکرایا۔
”نہیں کریں گے… بس اُن دونوں کو ذرا طریقے سے منانا پڑے گا۔”
اُس کے یقین بھرے انداز نے اُسے چونکانے کے ساتھ ساتھ حیران بھی کیا۔ وہ کسی ماہر نفسیات کی طرح اُسے مشورے دے رہا تھا۔
”ہمیں تو کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ انہیں بھی ہمسفر کی خواہش ہوگی… وہ تو بہت سالوں سے اکیلے ہیں۔ ہم نے انہیں ہمیشہ ہنستے ہنساتے ، بانسری اور ستار بجاتے، شطرنج کھیلتے اور غزلیں پڑھتے ہی دیکھا ہے… اور ہم سب بھی اُنہیں اسی طرح دیکھتے رہنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ اُن کی زندگی میں کوئی کمی ہے۔”
”بعض دفعہ گھر کے بزرگ بچوں کے سامنے اپنی خواہشات کا اظہار نہیں کرپاتے… روایات، اقدار کی اجازت نہیں دیتا، تو بہت سی باتیں بچوں کو خود ہی سمجھ لینی چاہیے۔”
وہ رسانیت سے بولا۔
اُس کی بات بھی ٹھیک تھی۔ ایسا ہوبھی سکتا تھا۔
”امی نے بہت بار کوشش کی مگر جیمو ماموں دوسری شادی کے لئے نہیں مانے۔ پھر امی نے بھی انہیں کہنا چھوڑ دیا۔”
رانیہ نے کہا۔
”پہلے ان کے بچے چھوٹے تھے وہ اپنے بچوں پر سوتیلی ماں کا رعب پسند نہیں کرتے ہوں گے۔ اب اُ ن کے بچے بڑے ہوگئے ہیں۔ سمجھدار ہیں۔ انہیں بھی اس بات کا احساس ہے کہ اُن کے والد نے اُن کے لئے بہت قربانیاں دی ہیں ۔ اس سوسائٹی میں سوتیلی ماں اور سوتیلے باپ کا تصور لوگوں کو terrifiedکردیتاہے۔پھر ارد گرد رہنے والے لوگ بھی اپنی باتوں سے اِس خوف کو بڑھا دیتے ہیں اور یوں یہ خوف لوگوں کے لاشعور پر حاوی ہوجاتا ہے۔ مگر اب جیمو ماموں اپنے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔”
اُس نے رسانیت سے کہا۔
اُس کی باتوں میں لاجک تھی۔
رانیہ سوچ میں پڑگئی۔
”میں اس بارے میں امی سے بات کروں گی، اگر ایسا ہوجائے تو بہت ہی اچھا ہوگا۔ امی جیمو ماموں کو بھی منا ہی لیں گی۔”
اُ س نے سوچتے ہوئے کہا۔
جیمو ماموں زندہ دل شخصیت کے مالک تھے اور روشنی خاموش طبع خاتون تھیں۔ اُن دونوں کے مزاج میں بہت فرق تھا۔ مگر اس کے باوجود ، رانیہ کویقین تھا کہ وہ دونوں اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔
”اپنے گھر والوں سے بات کرکے مجھے بتانا۔”
زوار نے نرمی سے کہا۔
”ٹھیک ہے۔”
اس نے بے ساختہ کہا۔
پھر جب وہ فون بند کرکے سونے کے لئے لیٹے تو اُس کے ذہن میں ایک ہی خیال تھا۔
روشنی اور جیمو ماموں کی شادی…
٭…٭…٭