ہوائے شام نے درد کی لہر سے ان کو بھی شاید خبر دے دی تھی، تب ہی تو اس کا سیل فون کافی دیر تک بجتا رہا۔ وہ اسے ہاتھ میںلیے بیٹھی ان کا نمبر دیکھتی رہی لیکن اس کے اندر تو اس وقت سانس لینے کی بھی ہمت نہ بچی تھی۔ بھلا کیا کہتی اور کیا بتاتی کہ لہجے کی بے حسی، کردار کی یہ کمی آپ سب کی جوہر شنا س نظروں نے بھی، اس رات حسن جاوید کی نظروں کو نہیں پہچانا کہ وہ شاید اسی لیے اس دن آپ کے ڈنر پہ بصد شوق لے گیا تھا کہ وہ میرے والدین کی روح سے شرمندہ نہیں ہونا چاہتا تھا۔۔۔۔۔ مجھے بے گھری سونپ کے۔۔۔۔ روشن دماغ جو تھا۔
٭…٭…٭
سعد ولا کے ٹی وی لائونج میں،وہ فری کی منتظرتھیں۔ باہمت ہونے کے باوجود ان کی آنکھیں اس کے غم میں بھیگی ہوئی تھیں۔
”مجھے اپنا نہیں سمجھا ، ماں نہیں تھی ناں تمہاری۔” یہ سب ان کی آنکھوں میں تھا، زبان سے کچھ نہیں کہا اور وہ بے اختیار ان کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے رودی آنسوئو ں نے وہ سب ہی کہہ ڈالا جو اس وقت وہ چاہ کر بھی کہہ ناپاتی، زبان سے وہی ایک جملہ نکلا، جو وہ کم عمری میں بڑے مان سے کہتی اور پھر کچھ بھی نہ کہنا پڑتا۔ آج بھی بے اختیار یہ ہی نکلا۔
”I love you Aania sorry وہ دیر تک سے اسے اپنے سے چمٹا ئے رہیں اور پھر جدائی کے دن خود ہی خاموشی سے درمیان سے اٹھ گئے۔
٭…٭…٭
رات کے سائے گہرے ہورہے تھے اور شاید پہلے سے زیادہ بے درد بھی تھے۔ لیکن کمال بات یہ تھی کہ اتنی مایوسی کے باوجود اب اس کے پاس امید بھی تھی اورحوصلہ بھی کہ زندگی میں اسے اب اپنے لیے کچھ کرنا ہے۔ اس کی پیدائش کا مقصد صرف حسن جاوید کی وفا اور بے وفائی کو رونا نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر کچھ اور ہے، اپنا درد،اپنا دکھ اس نے اپنی کمزوری نہیں بناناہے۔۔۔ منزلیں اور بھی ہیں۔ راستے بھی اور ہیں۔
یہ سوچتے سوچتے اسے نیند آگئی۔ ویسے بھی اب اسے فجرکی نماز کی عادت ہوگئی تھی۔ اسی عادت نے اسے آہستہ آہستہ حسن جاویدکو یادکرنے کی عادت ختم تو نہیں، ہاں کم ضرورکردی تھی۔
٭…٭…٭
صبح کا منظر ہمیشہ ہی اس کی کمزوری رہا ہے اور اسلام آباد کی صبح تو ویسے ہی اس کی پسندیدہ رہی ہے، آج کی صبح نے دل میں حسن جاوید کی یا د کو پھر سے جگادیا۔ آنسو متواتر اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔ تنہائی اسے ہمیشہ ایسے ہی درد میں مبتلا کرتی تھی۔ وہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی اورپھر الفاظ اس کا ساتھ چھوڑ دیتے، بس اشک ہی ہم سفر ہوجاتے۔ وہ شاید بے ہوش ہی ہوجاتی کہ اس کے سامنے مہر بان دوست سبین نے اپنے مسیحائی کے الفا ظ ا س کی سماعتوں کو پھر سے لوٹا ئے۔اسے دسمبر کی بے درد رات یا دآگئی جب وہ دونوں کا فی کے مگ لیے ایک دوسرے سے باتیں کررہی تھیں۔اور حسن جاوید کے الفاظ یا د کرکے اس کی آنکھیں بے اختیار رودیںتو ڈاکٹر سبین اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا تھا:
”تمہیں طلاق اس نے دی ہے ناں؟” وہ اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔
”ہاں!” وہ یہ کہتے ہوئے پھر سے رودی۔
”تمہیں طلا ق اس نے دی ہے،راستہ اس نے بدلا ہے،بے وفائی اس نے کی ہے، دکھ اس نے دیا ہے، فیصلہ اس نے ہی صادر کیا ہے، بو لو ہاں۔۔۔ بولو ناں!!!” ڈاکٹر سبین کا انداز آج بالکل مختلف تھا۔
”ہاں اس کا تھا، سب اس کا تھا، گھر بھی اس کا تھا، فیصلہ بھی اس کا۔ مجھے تو عادت ہی نہ تھی پچھلے پانچ سالوںمیں کوئی فیصلہ خود کرنے کی۔گھر کے سارے فیصلے وہ اپنے اختیار میں رکھتا تھا،میں تواس کے ساتھ خود کو ہوائوں میں اڑتا محسوس کرتی،وہ باکمال تھا۔” اس نے اقرار کیا۔
”سب اس کا تھا ناں؟” ڈاکٹر سبین نے اس کے سرد ہوتے ہاتھوں کو پھر سے تھاما، اب وہ اسے تھپتھپا رہی تھی۔
”پگلی! میری دوست توپھر سو چو ناں۔ پچھتاوا بھی تو اسی کا مقدر ہونا چاہیے ناں۔ وہ تم اپنے دل میں، اپنے وجود میں اپنے بیگ میں بھر کے کیوں ساتھ لیے پھررہی ہو؟ درد کو تم نے ہی کیو ں اپنا مقدر بنالیا ہے؟ لوگوں سے وہ چھپے، تم کیوں؟؟” ڈاکٹر سبین بہت بہادر عورت تھی۔
”اب تمہاری باقی کلاس کل ہوگی،کل میری کلاس نہ ہو جائے” اس نے جاتے جاتے شفقت بھرے انداز میں بتایا:
”میں نے آنیا جی کو فون کرکے سب بتا دیاہے، میں نے ان سے کہا ہے،تمہارا سامان اس عاشق کے گھر سے منگوالیںاب رونا نہیں کیوں کہ مجھے واقعی نیند آرہی ہے۔” وہ تو کمرے سے جاچکی تھی لیکن اس رات وہ چاہ کر بھی ایک لمحہ بھی سونہ سکی۔
دل تباہ تیرے غم کو ٹالنے کے لیے
سنا رہا ہے فسانے ادھر ادھر کے مجھے
٭…٭…٭
آج اس کی عدت پوری ہوگئی تھی۔ اس نے سب سے پہلے جاب کے لیے اپلائی کرنا شروع کر دیا۔ زندگی اب پھر سے شروع بھی تو کرنی تھی۔ آسان تھا کہنا لیکن ان تمام دنوں کو سہنا کتنا مشکل تھا۔ اس کی یہ خو ش فہمی بھی اس عرصے میں دور ہوگئی تھی کہ حسن جاوید اسے منانے آئے گا۔ سبین نے اسے بتایا کہ اس گھر میں اس کا ڈپریشن دور کرنے ایک ہفتے بعد ہی مونا احمد آگئی تھی۔ مونا احمد، جس کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ اپنے والدین کی مرضی سے شادی کرے گی کیوں کہ وہ خاصے عزت دار گھرانے سے تھی۔ یہ ساری معلومات اس نے اور حسن جاوید نے ساتھ ہی مل کے اس کے انٹرویو میں پڑھی تھیں اور اس نے اتراکے حسن جاوید سے کہا تھا:
”دیکھا! میری فیورٹ سنگر کتنی ڈیسنٹ ہے” اف وقت زیادہ ظالم ہے یا انسان،وہ یہ فیصلہ نہیں کر پارہی تھی۔ فیصلے واقعی آسمانوں پہ ہوتے ہیں، اسے یقین آنے لگا تھا۔
ڈاکٹر سبین نے ہی بتایا تھا کہ انہوں نے فون کیا تھا تو کسی خاتون نے کال ریسیو کی تھی اوپھر اسی ہفتے فری کا سامان سعد ولا آچکا تھا۔
”یاد ماضٰی عذ اب ہے یارب! وہ اداس تھی یا مطمئن، اس کے لیے یہ فیصلہ ابھی بھی آسان نہ ہو تا۔ اگر اس شام ڈاکٹر سبین اسے اپنی امی کی آمد کی اطلاع نہ دیتی، وہ بے حد خوش تھی۔
”یہ دیکھیں امی میری دوست فریال! جس کا ذکر تو سناتھا آپ نے، آج سے اپنی اس بیٹی کا خیال بھی رکھنا ہے” وہ بھی ان کے گلے لگ گئی۔”
ان کے آنے سے گھر میں اور ہی رونق ہوگئی تھی۔ وہ اس کو صبح اپنے ساتھ ناشتہ ضرور کرواتیں۔
”یہ سبین بھی شہری ہوگئی ہے، ناشتہ ہی نہیںکرتی۔ لو بھی ڈبل روٹی سے بھلا کسی کاپیٹ بھرتا ہے؟” وہ اپنے ساتھ گائوں سے ملازمہ بھی لائی تھیں۔
اتوار کا دن سبین کے لیے عیاشی کا دن تھا۔ وہ اسے بھی ساتھ لیے گھر سے باہر نکل آئی۔ سمندر کی ہوا نے اسے ایک عجیب سا سکون بخشا۔
”میں یہاں ہر اتوار کو صبح ہی صبح آتی ہوں، سارے دنوں کی تھکن اتر جاتی ہے۔ بڑا اسرار ہے اس سمندر میں۔۔۔ دن میں کچھ اور۔۔۔ رات میں کچھ اور!!!” وہ تو اسے اب کسی اورہی دنیا کی باسی نظر آتی۔
”کون سے اسرار؟ مجھے بھی بتائو نا تاکہ میں بھی اب دنیا کے سوالوں سے منہ چھپانا چھوڑ دوں۔” ڈاکٹر سبین اسی کی ہم عمر تھی، لیکن اس کا اعتماداس کی شخصیت کو خوب صو رت بناتا تھا۔
”گُڈ یارا! ایسے ہی سوال کرنا سیکھو،جب کوئی تم سے سوال کرے توتم بھی سوال کرو، ہم عورتیں نہ جانے کیوں ان ہی باتوں سے نکل نہیںپاتیں؟ اب تم ہی دیکھو تم نے MBA تو دن رات محنت کر کے کرہی لیا نا، لیکن اب اسی سوال نے تمھیں کتنا پریشان کیا کہ عدت کتنے ماہ ہے، لیکن تم سوال سے گھبراتی رہیں، جب کہ قران مجید کی تلاوت تم اب روز ہی کرتی ہو۔” سبین بات کرتے ہوئے اس کے چہرے کو بھی دیکھ رہی تھی۔
”ہم م م م” اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔
”یہ ہی تو ہمیں جاننا ہے کہ ہمیں ہمارے رب سائیں نے کتنی آسانیا ں دی ہیں ،پھر بھی ہم الجھے رہتے ہیں۔ ہماری سینئر ڈاکٹر رخسانہ ظفر نے یہ ذمے داری اٹھائی ہے۔ تم بھی ان کے پا س جانا شروع کردو اب یہ ہی دیکھو کہ اس عرصے میں جب تم قران اور اس کی تفسیر پڑھنا شروع کروگی ،تو تمہیں اپنے سارے سوالوں کے جواب مل جائیںگے، جو ہم نے خود سے بھی کبھی نہیں کیے،’وہ چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتے ہوئے اس کی بڑٰ بڑی الجھنیں سلجھا گئی۔
”کیا میں پھر سے جینا سیکھوں گی؟؟” ایک اور سوال اس کے لبوں پہ تھا۔
”یقین کرو، اس سے کہیں زیادہ بہتر ،اپنے آپ پر ترس کھانا چھوڑو،اس لیے کہ خدا اپنے پیارے بندوں کو ہی آزماتا ہے، دعائیں دوگی اس سکوں کی دنیا سے دوستی کرکے۔اور اٹھو میری ماں انتظار کررہی ہوں گی۔ اس نے اسٹیرنگ سیٹ سنبھالتے ہوئے کہا۔”
”میرے بچپن کی منگ نے جب کراچی میں اپنی ایک دوست سے شادی کی تھی تو میں بھی بہت دن اللہ تعالی سے نا راض رہی ،لیکن اب سوچتی ہوں میر ے یہاں آکر تعلیم حا صل کرنے سے میری کتنی کزنز کے لیے علم کے دروازے کھل گئے” وہ مسکرائی۔
”ویسے بھی مایوسی تو انسانوں سے رکھنے والی توقعات دیتی ہیں۔”
”تم سچ کہتی ہو سبین! اصل تو ہم نے رب کو منانا ہے،روٹھا یار تومنانے کی امید بھی روٹھ گئی ہے۔ وہی جینے کا ہنر دے گا ”اس نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
٭…٭…٭