وسیع سرخ اینٹوں کے صحن کے اطراف دیواروں کے ساتھ کیاریاں بنائی گئی تھیں جن میں لگے ہوئے سبز پودے اور بیلیں سرخ اینٹوں سے بنی ہوئی دیواروں کے بیک گراؤنڈ میں بہت خوب صورت لگ رہی تھیں۔ صحن کے ایک حصے میں دھوپ تھی اور دن کے اس حصے میں بھی وہ دھوپ بے حد تیز تھی۔ دھوپ نے سرخ رنگ کو کچھ اور نمایاں کردیا تھا۔
آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر سالار نے صحن میں قدم رکھ دیا اور وہ ٹھٹک کر رک گیا۔ صحن کے دھوپ والے حصے میں رکھی چارپائی کے سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی۔ وہ شاید ابھی چارپائی سے اتری تھی۔ اس کی پشت سالار کی طرف تھی۔ وہ سفید کرتے اور سیاہ شلوار میں ملبوس تھی اور نہاکر نکلی تھی۔ اس کی کمر سے کچھ اوپر اس کے سیاہ گیلے بال لٹوں کی صورت میں اس کی پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس سفید دوپٹہ چارپائی پر پڑا ہوا تھا۔ وہ اپنے کرتے کی آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کرتے ہوئے سالار کی طرف مڑی تھی۔
سالار سانس نہیں لے سکا۔ اس نے زندگی میں خوب صورت لڑکی نہیں دیکھی تھی یا پھر اسے اس لڑکی سے زیادہ خوب صورت کوئی نہیں لگا تھا۔ وہ یقینا آمنہ تھی۔ اس گھر میں آمنہ کے علاوہ اور کون ہوسکتا تھا۔ وہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ وہ اس سے نظریں نہیں ہٹا سکا۔ کسی نے اس کے دل کو مٹھی میں لیا تھا۔ دھڑکن رکی تھی یارواں وہ جان نہیں سکا۔
اس کے اور آمنہ کے درمیان بہت فاصلہ تھا۔ آستین موڑتے ہوئے آمنہ کی پہلی نظر سعیدہ اماں پرپڑی۔
”سالار بیٹا آیا ہے۔”
سعیدہ اماں بہت آگے بڑھ آئی تھیں۔ آمنہ نے گردن کو ترچھا کرتے ہوئے صحن کے دروازے کی طرف دیکھا۔ سالار نے اسے بھی ٹھٹکتے دیکھا، پھر وہ مڑی۔ اس کی پشت ایک بارپھر سالار کی طرف تھی۔ سالار نے اسے جھکتے اور چارپائی سے دوپٹہ اٹھاتے دیکھا۔ دوپٹے کو سینے پر پھیلاتے ہوئے اس نے اس کے ایک پلو کے ساتھ اپنے سر اور پشت کو بھی ڈھانپ لیا تھا۔
سالار اب اس کی پشت پر بکھرے بال نہیں دیکھ سکتا تھا مگر اسے آمنہ کے اطمینان نے حیران کیا تھا۔ وہاں کوئی گھبراہٹ، کوئی جلدی، کوئی حیرانی نہیں تھی۔
سعیدہ اماں نے مڑکر سالار کو دیکھا پھر اسے دروازے میں ہی کھڑے دیکھ کر انہوں نے کہا۔
”ارے بیٹا! وہاں کیوں کھڑے ہو، اندر آؤ۔ تمہارا اپنا ہی گھر ہے۔”
آمنہ نے دوپٹہ اوڑھنے کے بعد مڑکر اسے ایک بار پھر دیکھا تھا۔ وہ اب بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ پلکیں جھپکائے بغیر، دم بخود، بے حس وحرکت۔
آمنہ کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزرگیا۔ وہ اب آگے آگیا تھا۔
”یہ آمنہ ہے، میری بیٹی۔” سعیدہ اماں نے اس کے قریب آنے پر تعارف کروایا۔
”السلام علیکم!” سالار نے آمنہ کو کہتے سنا۔ وہ کچھ بول نہیں سکا۔ وہ اس سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ اسے دیکھنا مشکل ہوگیا تھا۔
وہ نروس ہورہا تھا۔ آمنہ نے اس کی گھبراہٹ کو محسوس کرلیا تھا۔
”سالار! تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔”
سعیدہ اماں نے آمنہ کو بتایا۔
آمنہ نے ایک بارپھر سالار کو دیکھا۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ دونوں نے بیک وقت نظریں چرائیں۔ آمنہ نے سعیدہ اماں کو دیکھا اور سالار نے آمنہ کی کلائیوں تک مہندی کے نقش ونگار سے بھرے ہاتھوں کو۔
یک دم اسے لگاکہ وہ اس لڑکی سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔
”سالار بیٹا! اندر کمرے میں چلتے ہیں۔ وہاں تم اطمینان سے آمنہ سے بات کرلینا۔”
سعیدہ اماں نے اس بار سالار کو مخاطب کیا۔
سعیدہ اماں کہتے ہوئے اندر برآمدے کی طرف بڑھیں۔ سالار نے آمنہ کو سرجھکائے ان کی پیروی کرتے دیکھا۔ وہ وہیں کھڑا اسے اندر جاتا دیکھتا رہا۔ سعیدہ اماں کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئیں۔ آمنہ نے دروازے کے پاس پہنچ کر مڑتے مڑتے اسے دیکھا۔ سالار نے برق رفتاری سے نظر جھکالیں۔ آمنہ نے مڑکر اسے دیکھا پھر شاید وہ حیران ہوئی۔ سالار اندر کیوں نہیں آرہا تھا۔ سالار نے اس کی طرف دیکھے بغیر سر جھکائے قدم آگے بڑھادئیے۔ آمنہ کچھ مطمئن ہوکر مڑکر کمرے میں داخل ہوگئی۔
سالار جب کمرے میں داخل ہوا تو سعیدہ اماں پہلے ہی ایک کرسی پر بیٹھ چکی تھیں۔ آمنہ لائٹ آن کررہی تھی۔ سالار کو دھوپ سے اندر آکر خنکی کا احساس ہوا۔
”بیٹھو بیٹا!” سعیدہ اماں نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا۔ سالار کرسی پر بیٹھ گیا۔ آمنہ لائٹ آن کرنے کے بعد اس سے کچھ فاصلے پر ان کے بالمقابل ایک کاؤچ پر بیٹھ گئی۔
سالار منتظر تھا کہ سعیدہ اماں چند لمحوں میں وہاں سے اٹھ کر چلی جائیں گی۔ فرقان نے واضح طورپر انہیں بتایا تھا کہ وہ اس سے تنہائی میں بات کرنا چاہتا تھا، مگر چند لمحوں کے بعد سالار کو اندازہ ہوگیا کہ اس کا یہ انتظار بے کار تھا۔ وہ شاید یہ بھول گئی تھیں کہ سالار تنہائی میں آمنہ سے ملنا چاہتا تھا یا پھر ان کا یہ خیال تھاکہ وہ تنہائی صرف فرقان کی عدم موجودگی کے لئے تھی۔ سالار نے انہیں اس میں شامل نہیں کیا ہوگا یا پھر وہ ابھی سالار کو اتنا قابل اعتبار نہیں سمجھتی تھیں کہ اپنی بیٹی کے ساتھ اسے اکیلا چھوڑدیتیں۔
سالار کو آخری اندازہ صحیح لگا۔ وہ اس سے جو کچھ اور جتنا کچھ کہنا چاہتا تھا، سعیدہ اماں کے سامنے نہیں کہنا چاہتا تھا، وہ کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنے ذہن کو کھنگالنے کی کوشش کی۔ اسے کچھ تو کہنا ہی تھا وہ کچھ نہیں ڈھونڈسکا۔ اس کا ذہن خالی تھا۔
نیم تاریک خنک کمرے میں بالکل خاموشی تھی۔ وہ اب دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسائے فرش پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
آمنہ نے کمرے میں کوئی فینسی لائٹ روشن کی تھی۔ اونچی دیواروں والا فرنیچر سے بھرا ہوا وہ وسیع وعریض کمرہ شاید سٹنگ روم کے طورپر استعمال ہوتا تھا۔ اس میں بہت زیادہ دروازے تھے اور تمام دروازے بندتھے۔ کمرے میں موجود واحد کھڑکی برآمدے میں کھلتی تھی اور اس کے آگے پردے تھے۔ فرش کو بھاری بھرکم میرون نقش ونگار کے قالین سے ڈھکا گیا تھا اور فینسی لائٹ کمرے کو پوری طرح روشن کرنے میں ناکام ہورہی تھی۔
کم از کم کمرے میں سالار کو تاریکی ہی محسوس ہورہی تھی۔ شاید یہ اس کے احساسات تھے یا پھر۔
مجھے اپنےOpticianسے آج ضرور ملنا چاہئے۔ قریب کے ساتھ ساتھ شاید میری دور کی نظر بھی کمزور ہوگئی ہے۔”
سالار نے مایوسی سے سوچا۔ سینٹر ٹیبل کے دوسری طرف بیٹھی آمنہ کو وہ دیکھ نہیں پارہا تھا۔ اس نے ایک بارپھر نظر قالین پر جمادی پھر اس نے یک دم آمنہ کو اٹھتے دیکھا۔ وہ دیوار کے پاس جاکر کچھ اور لائٹس آن کررہی تھی۔ کمرہ ٹیوب لائٹ کی روشنی میں جگمگا اٹھا۔ فینسی لائٹ بند ہوگئی۔ سالار حیران ہوا۔ آمنہ نے پہلے ٹیوب لائٹ آن کیوں نہیں کی تھی، پھر اچانک اسے احساس ہوا وہ بھی نروس تھی۔
آمنہ دوبارہ پھر اس کے سامنے کاؤچ پر آکر نہیں بیٹھی۔ وہ اس سے کچھ فاصلے پر سعیدہ اماں کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ سالار نے اس بار اسے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ اسی طرح قالین کو گھورتا رہا۔ سعیدہ اماں کا صبر بالآخر جواب دے گیا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے کھنکھار کر سالار کو متوجہ کیا۔
”کرو بیٹا! وہ باتیں جو تم نے آمنہ سے تنہائی میں کرنی تھیں۔”
انہوں نے سالار کو بڑے پیار سے یاد دلایا۔
”اتنی دیر سے چپ بیٹھے ہو، میرا تو دل ہول رہا ہے۔”
سالار نے ایک گہرا سانس لیا، پھر سعیدہ اماں اور آمنہ کو باری باری دیکھا۔
”کچھ نہیں، میں بس انہیں دیکھنا چاہتا تھا۔”
اس نے اپنے لہجے کو حتی الامکان ہموار رکھتے ہوئے کہا۔ سعیدہ اماں کے چہرے پر بشاشت آگئی۔
”تو اتنی سی بات تھی اور فرقان نے مجھے ڈرا ہی دیا۔ ہاں ہاں ضرور دیکھو، کیوں نہیں۔ بیوی ہے۔ تمہاری۔” وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
”آپ ان سے کہہ دیں کہ سامان پیک کرلیں، میں باہر انتظار کرتا ہوں۔”
وہ دروازے کی طرف بڑھتا ہوا سعیدہ اماں سے بولا۔ آمنہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ سعیدہ اماں بھی حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
”مگر بیٹا! تم تو صرف کچھ باتیں کرنا چاہتے تھے اس سے، پھر رخصتی… میرا مطلب ہے میں چاہتی تھی باقاعدہ رخصت کروں اور۔۔۔۔”
سالار نے نرمی سے سعیدہ اماں کی بات کاٹی۔
”آپ یہ سمجھ لیں کہ میں باقاعدہ رخصت کروانے کے لئے ہی آیا ہوں۔”
سعیدہ اماں کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہیں پھر بولیں۔
”ٹھیک ہے بیٹا! تم اگر ایسا چاہتے ہو تو ایسا ہی سہی مگر افطار کے لئے رکو۔ چند گھنٹے ہی باقی ہیں، کھانا تو کھاکر جاؤ۔”
”نہیں، مجھے اور فرقان کو کچھ کام ہے۔ میں اسے صرف ایک گھنٹے کے لئے لے کر آیا تھا۔ زیادہ دیر رکنا ممکن نہیں ہے میرے لئے ۔” وہ کھڑے کھڑے کہہ رہا تھا۔
”لیکن اماں! مجھے تو سامان پیک کرنے میں بہت دیر لگے گی۔”
آمنہ نے وہیں کرسی پر بیٹھے ہوئے پہلی بار ساری گفتگو میں حصہ لیا۔ سالار نے مڑکر اسے دیکھے بغیر سعیدہ اماں سے کہا۔
”سعیدہ اماں! آپ ان سے کہیں یہ آرام سے پیکنگ کرلیں، میں باہر انتظار کروں گا۔ جتنی دیر یہ چاہیں۔”
وہ اب کمرے سے نکل گیا تھا۔
٭…٭…٭
فرقان نے حیرانی سے سالار کو دیکھا۔ وہ بیٹھک میں داخل ہورہا تھا۔
”تم اتنی جلدی واپس آگئے، میں تو سوچ رہا تھا کہ تم خاصی دیر کے بعد واپس آؤگے۔”
سالار جواب میں کچھ کہنے کے بجائے بیٹھ گیا۔
فرقان نے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔
”خیریت ہے۔”
”ہاں۔”
”آمنہ سے ملاقات ہوئی؟”
”ہاں۔”
”پھر؟”
”پھر کیا؟”
”چلیں؟”
”نہیں۔”
”کیوں؟”
”میں آمنہ کو ساتھ لے کر جارہا ہوں۔”
”کیا؟’ فرقان بھونچکارہ گیا۔
”تم تو اس سے بات کرنے کے لئے آئے تھے۔”
سالار جواب دینے کے بجائے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
”یہ یک دم رخصتی کا کیوں سوچ لیا؟”
”بس سوچ لیا۔”
اس بار فرقان نے اسے الجھی ہوئی نظروں سے دیکھا۔
٭…٭…٭
دو گھٹنے کے بعد آمنہ جب فرقان اور سالار کے ساتھ سالار کے فلیٹ پر پہنچی تھی، تب افطار میں زیادہ وقت نہیں تھا۔ سالار نے افطاری کا سامان راستے سے لے لیا تھا۔ فرقان ان دونوں کو افطاری کے لئے اپنے فلیٹ پر لے جانا چاہتا تھا مگر سالار اس پر رضا مند نہیں ہوا۔ فرقان نے اپنی بیوی کو بھی سالار کے فلیٹ پر بلوایا۔
افطاری کے لے ٹیبل فرقان کی بیوی نے ہی تیار کیا تھا۔ آمنہ نے مدد کرنے کی کوشش کی تھی جسے فرقان اور اس کی بیوی نے رد کردیا۔ سالار نے مداخلت نہیں کی تھی۔ وہ موبائل لے کر بالکونی میں چلا گیا۔ لاؤنج میں بیٹھے کھڑکیوں کے شیشوں کے پار آمنہ نے اسے بالکونی میں ٹہلتے موبائل پر کسی سے بات کرتے دیکھا۔ وہ بہت سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
اس نے سعیدہ اماں کے گھر سے اپنے فلیٹ تک ایک بار بھی اسے مخاطب نہیں کیا تھا۔ یہ صرف فرقان تھا جو وقتاً فوقتاً اسے مخاطب کرتا رہا تھا اور اب بھی یہی ہورہا تھا۔
سالارنے وہ خاموشی افطار کی میز پر بھی نہیں توڑی۔ فرقان اور اس کی بیوی ہی آمنہ کو مختلف چیزیں سرو کرتے رہے۔ آمنہ نے اس کی خاموشی اور سرد مہری کو محسوس کیا تھا۔
٭…٭…٭
افطار کے بعد وہ فرقان کے ساتھ مغرب کی نماز کے لئے نکل آیا تھا۔ فرقان کو مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد ہاسپٹل جانا تھا۔
مسجد سے نکل کر سالار کے ساتھ کارپارکنگ کی طرف آتے ہوئے فرقان نے اس سے کہا۔
”تم بہت زیادہ خاموش ہو۔” سالار نے ایک نظر اسے دیکھا مگر کچھ کہے بغیر چلتا رہا۔
”کیا تمہیں کچھ کہنا نہیں ہے؟”
وہ مسلسل اس کی خاموشی کو توڑنے کی کوشش کررہا تھا۔ سالار نے سراٹھاکر آسمان کو دیکھا۔
مغرب کے وقت ہی دھند نمودار ہونے لگی تھی۔ ایک گہرا سانس لے کر اس نے فرقان کو دیکھا۔
”نہیں، مجھے کچھ نہیں کہنا۔”
چند لمحے ساتھ چلنے کے بعد فرقان نے اسے بڑبڑاتے سنا۔
”میں آج کچھ بھی کہنے کے قابل نہیں ہوں۔”
فرقان کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔ ساتھ چلتے چلتے اس نے سالار کا کندھا تھپتھپایا۔
میں تمہارے احساسات سمجھ سکتا ہوں لیکن زندگی میں یہ سب ہوتا رہتا ہے، تم امامہ کے لئے جو کچھ کرسکتے تھے تم نے کیا۔ جتنا انتظار کرسکتے تھے تم نے کیا۔ آٹھ نوسال کم نہیں ہوتے۔ اب تمہاری قسمت میں اگر یہی لڑکی ہے تو ہم یا تم کرسکتے ہیں۔”
سالار نے بے تاثر نظروں سے اسے دیکھا۔
”اس گھر میں آنا امامہ کا مقدر نہیں تھا، آمنہ کا مقدر تھا۔ سو وہ آگئی۔ اس سے نکاح ہوئے سات دن ہوئے ہیں اور آٹھویں دن وہ یہاں ہے۔ امامہ کے ساتھ نکاح کو نو سال ہونے والے ہیں اور وہ آج تک تمہارے پاس نہیں آسکی۔ کیا تم یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ امامہ تمہارے مقدر میں نہیں ہے۔”
”پوری ولجمعی سے اسے سمجھانے کی کوشش کررہا تھا۔
ہماری بہت ساری خواہشات ہوتی ہیں۔ بعض خواہشات اللہ پوری کردیتا ہے، بعض نہیں کرتا۔ ہوسکتا ہے امامہ کے نہ ملنے میں تمہارے لئے بہتری ہو۔ ہوسکتا ہے اللہ نے تمہیں آمنہ ہی کے لئے رکھا ہو۔ ہوسکتا ہے آج سے چند سال بعد تم اسی بات پر اللہ کا شکرادا کرتے نہ تھکو۔”
وہ دونوں اب پارکنگ کے پاس پہنچ چکے تھے۔ فرقان کی گاڑی شروع میں ہی کھڑی تھی۔
”میں نے اپنی زندگی میں ایسا کوئی انسان نہیں دیکھا جس کی ہر خواہش پوری ہو، جس نے جو چاہا ہو پالیا ہو پھر شکوہ کس بات کا۔ آمنہ کے ساتھ ایک اچھی زندگی گزرانے کی کوشش کرو۔”
وہ دونوں اب گاڑی کے پاس پہنچ چکے تھے۔ فرقان نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول دیا مگر بیٹھنے سے پہلے اس نے سالار کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے باری باری اس کے دونوں گالوں کو نرمی سے چوما۔
”تمہیں یہی یاد رکھنا چاہئے کہ تم نے ایک نیکی کی ہے اور اس نیکی کا اجر اگر تمہیں یہاں نہیں ملے گا تو اگلی دنیا میں مل جائے گا۔”
وہ اب سالار کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لئے ہوئے کہہ رہا تھا۔ سالار سر کو ہلکا سا خم کرتے ہوئے تھوڑا سا مسکرایا۔
فرقان نے ایک گہرا سانس لیا۔ آج کے دن یہ پہلی مسکراہٹ تھی جو اس نے سالار کے چہرے پر دیکھی تھی۔ اس نے خود بھی مسکراتے ہوئے سالار کی پشت تھپتھپائی اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
سالار نے گاڑی کا دروازہ بند کردیا۔ فرقان اگنیشن میں چابی لگارہا تھا۔ جب اس نے سالار کو کھڑکی کا شیشہ انگلی سے بجاتے دیکھا۔ فرقان نے شیشہ نیچے کردیا۔
”تم کہہ رہے تھے کہ تم نے آج تک کوئی ایسا انسان نہیں دیکھا، جس نے جس چیز کی بھی خواہش کی ہو اسے مل گئی ہو۔”
سالار کھڑکی پر جھکے پرسکون آواز میں اس سے کہہ رہا تھا۔ فرقان نے الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ بے حد پرسکون اور مطمئن نظر آرہا تھا۔
”پھر تم مجھے دیکھو کیونکہ میں وہ انسان ہوں، جس نے آج تک جو بھی چاہاہے اسے وہ مل گیا ہے۔ ”
فرقان کو لگا اس کا ذہن غم کی وجہ سے متاثر ہورہا تھا۔
”جسے تم میری نیکی کہہ رہے ہو وہ دراصل میرا ”اجر” ہے جو مجھے زمین پر ہی دے دیا گیا ہے۔ مجھے آخرت کے انتظار میں نہیں رکھا گیا اور میرا مقدر آج بھی وہی ہے جو نو سال پہلے تھا۔”
وہ ٹھہر ٹھہر کر گہری آوازمیں کہہ رہا تھا۔
”مجھے وہی عورت دی گئی ہے جس کی میں نے خواہش کی تھی، امامہ ہاشم اس وقت میرے گھر پہ ہے، خدا حافظ۔”
فرقان دم بخود دور جاتے ہوئے اس کی پشت دیکھتا رہا۔ وہ کیا کہہ کر گیا تھا اس کی سمجھ میں نہیں آیا۔
”شاید میں ٹھیک سے اس کی بات نہیں سن پایا…یا پھر شاید اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے… یا پھر شاید اس نے صبر کرلیا ہے… امامہ ہاشم؟” سالار اب بہت دور نظر آرہا تھا۔
٭…٭…٭
One Comment
👍