پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۸

”پھر کیا پروگرام ہے، چلوگے؟”
فرقان نے اگلے دن شام کو اس سے کارڈ لیتے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں تو اس ویک اینڈپر کراچی جارہا ہوں، آئی بی اے کے ایک سیمینار کے لئے۔ اتوار کو میری واپسی ہوگی۔ میں تو آکر بس سوؤں گا۔
Nothing else۔ تم چلے جانا، میں لفافہ دے دوں گا، وہ تم میری طرف سے معذرت کرتے ہوئے دے دینا۔” سالار نے کہا۔
”کتنے افسوس کی بات ہے سالار! وہ خود کارڈ دے کر گئی ہیں، اتنی محبت سے بلایا ہے۔”
فرقان نے کہا۔
”جانتا ہوں لیکن میں ادھر جاکر وقت ضائع نہیں کرسکتا۔”
”ہم بس تھوڑی دیر بیٹھیں گے پھر آجائیں گے۔”
”فرقان! میری واپسی کنفرم نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے میں اتوار کو آہی نہ سکوں یا اتوار کی رات کو آؤں۔”
”بے حد فضول آدمی ہو تم! وہ بڑی مایوس ہوں گی۔”
”کچھ نہیں ہوگا، میرے نہ ہونے سے ان کی بیٹی کی شادی تو نہیں رک جائے گی۔ ہوسکتا ہے انہیں پہلے ہی میرے نہ آنے کا اندازہ ہو اور ویسے بھی فرقان! تم اور میں کوئی اتنے اہم مہمان نہیں ہیں۔”
سالار نے لاپروائی سے کہا۔
”بہرحال میں اور میری بیوی تو جائیں گے۔ چاہے ہم کم اہم مہمان ہی کیوں نہ ہوں۔” فرقان نے ناراضی سے کہا۔
”میں نے کب روکا ہے۔ ضرور جاؤ، تمہیں جانا بھی چاہئے۔ سعیدہ اماں کے ساتھ تمہاری مجھ سے زیادہ بے تکلفی اور دوستی ہے۔” سالار نے کہا۔
”مگر سعیدہ اماں کو میرے بجائے تمہارا زیادہ خیال رہتا ہے۔” فرقان نے جتایا۔
”وہ مروت ہوتی ہے۔” سالار نے اس کی بات کو سنجیدگی سے لئے بغیر کہا۔
”جوبھی ہوتا ہے بہرحال تمہارا خیال تو ہوتا ہے انہیں۔ چلو اور کچھ نہیں تو ڈاکٹر سبط علی کی عزیزہ سمجھ کر ہی تم ان کے ہاں چلے جاؤ۔” فرقان نے ایک اور حربہ آزمایا۔
”ڈاکٹر صاحب تو خود یہاں نہیں ہیں۔ وہ تو خود شادی میں شرکت نہیں کررہے اور اگر وہ یہاں ہوتے بھی تو کم از کم مجھے تمہاری طرح مجبور نہیں کرتے۔”
”اچھا، میں بھی نہیں کرتا تمہیں مجبور۔ نہیں جانا چاہتے تو مت جاؤ۔”
فرقان نے کہا۔
سالار ایک بارپھر اپنے لیپ ٹاپ کے ساتھ مصروف ہوچکا تھا۔
٭…٭…٭





وہ ایک سرسبزو وسیع سبزہ زار تھا جہاں وہ دونوں موجود تھے۔ وسیع کھلے سبزہ زار میں درخت تھے مگر زیادہ بلند نہیں۔ خوب صورت پھولدار جھاڑیاں تھیں، چاروں طرف خاموشی تھی۔ وہ دونوں کسی درخت کے سائے میں بیٹھنے کے بجائے ایک پھولدار جھاڑی کے قریب کھلی دھوپ میں بیٹھے تھے۔ امامہ اپنے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے ہوئے بیٹھی تھی اور وہ گھاس پر چت لیٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ ان دونوں کے جوتے کچھ فاصلے پر پڑے ہوئے تھے۔ امامہ نے اس بار خوب صورت سفید چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ ان دونوں کے درمیان گفتگو ہورہی تھی۔ امامہ اس سے کچھ کہتے ہوئے دور کسی چیز کو دیکھ رہی تھی۔
اس نے لیٹے لیٹے اس کی چادر کے ایک پلو سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ یوں جیسے دھوپ کی شعاعوں سے آنکھوں کو بچانا چاہتا ہو۔ اس کی چادر نے اسے عجیب سا سکون اور سرشاری سادی تھی۔ امامہ نے چادر کے سرے کو اس کے چہرے سے ہٹانے یا کھینچنے کی کوشش نہیں کی۔ دھوپ اس کے جسم کو تراوٹ بخش رہی تھی۔ آنکھیں بند کئے وہ اپنے چہرے پر موجود چادر کے لمس کو محسوس کررہا تھا۔ اس پر غنودگی طاری ہورہی تھی۔ وہ نیند اسے اپنی گرفت میں لے رہی تھی۔
سالار نے یک دم آنکھیں کھول دیں۔ وہ اپنے بیڈ پر چت لیٹا ہوا تھا۔ کسی چیز نے اس کی نیند کو توڑ دیا تھا۔ وہ آنکھیں کھولے کچھ دیر بے یقینی سے اپنے ارد گرد کے ماحول کو دیکھتا رہا۔ یہ وہ جگہ نہیں تھی جہاں اسے ہونا چاہئے تھا۔ ایک اور خواب… ایک اور الوزن… اس نے آنکھیں بند کرلیں اورتب اس کو اس موبائل فون کی آواز نے متوجہ کیا، جو مسلسل اس کے سرہانے بج رہا تھا۔ یہ فون ہی تھا جو اسے اس خواب سے باہر لے آیا تھا۔ قدرے جھنجھلاتے ہوئے اس نے لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھایا۔ دوسری طرف فرقان تھا۔
”کہاں تھے سالار! کب سے فون کررہا ہوں۔ اٹینڈ کیوں نہیں کررہے تھے؟” فرقان نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”میں سورہا تھا۔” سالار نے کہا اور اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس کی نظر اب پہلی بار گھڑی پرپڑی جو چار بجار ہی تھی۔
”تم فوراً سعیدہ اماں کے ہاں چلے آؤ۔” دوسری طرف سے فرقان نے کہا۔
”کیوں؟ میں نے تمہیں بتایا تھا، میں تو۔۔۔”
فرقان نے اس کی بات کاٹ دی۔
”میں جانتا ہوں، تم نے مجھے کیا بتایا تھا مگر یہاں کچھ ایمرجنسی ہوگئی ہے۔”
”کیسی ایمرجنسی؟” سالار کو تشویش ہوئی۔
”تم یہاں آؤگے تو پتا چل جائے گا۔ تم فوراً یہاں پہنچو، میں فون بند کررہا ہوں۔”
فرقان نے فون بند کردیا۔
سالار کچھ پریشانی کے عالم میں فون کو دیکھتا رہا۔ فرقان کی آواز سے اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ پریشان تھا مگر سعیدہ اماں کے ہاں پریشانی کی نوعیت کیا ہوسکتی تھی۔
پندرہ منٹ میں کپڑے تبدیل کرنے کے بعد گاڑی میں تھا۔ فرقان کی اگلی کال اس نے کار میں ریسیو کی تھی۔
”تم کچھ بتاؤ تو سہی، ہوا کیا ہے؟ مجھے پریشان کردیا ہے تم نے۔” سالار اس سے کہا۔
”پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، تم ادھرہی آرہے ہو۔ یہاں آؤگے تو تمہیں پتا چل جائے گا۔ میں فون پر تفصیلی بات نہیں کرسکتا۔”
فرقان نے ایک بار پھر فون بند کردیا۔
تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے اس نے آدھ گھنٹہ کا سفر تقریباً پندرہ منٹ میں طے کیا تھا۔ فرقان اسے سعیدہ اماں کے گھر کے باہر ہی مل گیا۔ سالار کا خیال تھاکہ سعیدہ اماں کے ہاں اس وقت بہت چہل پہل ہوگی مگر ایسا نہیں تھا۔ وہاں دور دور تک کسی بارات کے آثار نہیں تھے۔ فرقان کے ساتھ وہ بیرونی دروازے کے بائیں طرف بنے ہوئے ایک پرانی طرز کے ڈرائنگ روم میں آگیا۔
”آخر ہواکیا ہے جو تمہیں مجھے اس طرح بلانا پڑگیا۔”
سالار اب الجھ رہا تھا۔
”سعیدہ اماں اور ان کی بیٹی کے ساتھ ایک مسئلہ ہوگیا ہے۔” فرقان نے اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ وہ بے حد سنجیدہ تھا۔
”کیسا مسئلہ؟”
”جس لڑکے سے ان کی بیٹی کی شادی ہورہی تھی اس لڑکے نے کہیں اور اپنی مرضی سے شادی کرلی ہے۔”
”مائی گڈنیس۔” سالار کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
”ان لوگوں نے ابھی کچھ دیر پہلے سعیدہ اماں کو یہ سب فون پر بتاکر ان سے معذرت کی ہے۔ وہ لوگ اب بارات نہیں لارہے۔ میں ابھی کچھ دیر پہلے ان لوگوں کے ہاں گیا ہوا تھا، مگر وہ لوگ واقعی مجبور ہیں۔ انہیں اپنے بیٹے کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہے کہ وہ کہاں ہے، اس لڑکے نے بھی انہیں صرف فون پر ہی اس کی اطلاع دی ہے۔” فرقان تفصیل بتانے لگا۔
”اگر وہ لڑکا شادی نہیں کرنا چاہتا تھا تو اسے بہت پہلے ہی ماں باپ کو صاف صاف بتا دینا چاہیے تھا۔ بھاگ کر شادی کرلینے کی ہمت تھی تو ماں باپ کو پہلے اس شادی سے انکار کردینے کی بھی ہمت ہونی چاہئے تھی۔” سالار نے ناپسندیدگی سے کہا۔
”سعیدہ اماں کے بیٹوں کو اس وقت یہاں ہونا چاہئے تھا، وہ اس معاملے کو ہینڈل کرسکتے تھے۔”
”لیکن اب وہ نہیں ہیں تو کسی نہ کسی کو تو سب کچھ دیکھنا ہے۔”
”سعیدہ اماں کے کوئی اور قریبی رشتہ دار نہیں ہیں؟” سالار نے پوچھا۔
”میں نے ابھی کچھ دیر پہلے ڈاکٹر سبط علی صاحب سے بات کی ہے فون پر۔” فرقان نے اسے بتایا۔
”لیکن ڈاکٹر صاحب بھی فوری طورپر تو کچھ نہیں کرسکیں گے۔ یہاں ہوتے تو اور بات تھی۔”
سالار نے کہا۔
”انہوں نے مجھ سے کہا ہے کہ میں تمہاری فون پر ان سے بات کرواؤں۔” فرقان کی آواز اس بار کچھ دھیمی تھی۔
”میری بات… لیکن کس لئے؟” سالار کچھ حیران ہوا۔
”ان کا خیال ہے کہ اس وقت تم سعیدہ اماں کی مدد کرسکتے ہو۔”
”میں؟” سالار نے چونک کر کہا۔” میں کس طرح مدد کرسکتا ہوں؟
”آمنہ سے شادی کرکے۔”
سالار دم بخود پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔
”تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟” اس نے بمشکل فرقان سے کہا۔
”ہاں، بالکل ٹھیک ہے۔” سالار کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
”پھر تمہیں پتا نہیں ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔”
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ فرقان برق رفتاری سے اٹھ کر اس کے راستے میں حائل ہوگیا۔
”کیا سوچ کر تم نے یہ بات کہی ہے۔” سالار اپنی آواز پر قابو نہیں رکھ سکا۔
”میں نے یہ سب تم سے ڈاکٹر صاحب کے کہنے پر کہا ہے۔” سالار کے چہرے پر ایک رنگ آکر گزرگیا۔
”تم نے انہیں میرا نام کیوں دیا؟”
”میں نے نہیں دیا سالار! انہوں نے خود تمہارا نام لیا۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تم سے درخواست کروں کہ تم اس وقت سعیدہ اماں کی بیٹی سے شادی کرکے ان کی مدد کروں۔”
کسی نے سالار کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچی تھی یا سر سے آسمان، اسے اندازہ نہیں ہوا۔ وہ پلٹ کر واپس صوفے پر بیٹھ گیا۔
”میں شادی شدہ ہوں فرقان! تم نے کئی سال پہلے ایک لڑکی سے نکاح کیا تھا، مگر پھر وہ لڑکی دوبارہ تمہیں نہیں ملی۔”
”پھر؟”
”وہ اس کے باوجود یہی چاہتے ہیں کہ تم آمنہ سے شادی کرلو۔”
”فرقان… میں…” وہ بات کرتے کرتے رک گیا۔
”اور امامہ… اس کا کیا ہوگا؟”
”تمہاری زندگی میں امامہ کہیں نہیں ہے۔ اتنے سالوں میں کون جانتا ہے، وہ کہاں ہے۔ ہے بھی کہ نہیں۔”
”فرقان…” سالار نے ترشی سے اس کی بات کاٹی۔” اس بات کو رہنے دو کہ وہ ہے یا نہیں۔ مجھے صرف یہ بتاؤکہ اگر کل امامہ آجاتی ہے تو… تو کیا ہوگا؟”
”تم یہ بات ڈاکٹر صاحب سے کہو۔” فرقان نے کہا۔
”نہیں، تم یہ سب کچھ سعیدہ اماں کو بتاؤ، آمنہ کو بتاؤ، ضروری تو نہیں ہے کہ وہ ایک ایسے شخص کو قبول کرلے جس کی پہلے سے ہی ایک بیوی ہے۔ ایسا ہوتا تو وہ پھر اسی لڑکے کو قبول کرلیتی جس نے کہیں اور شادی کرلی ہے۔”
”وہ اگر بارات لے کر آجاتا تو شاید یہ بھی ہوجاتا۔ مسئلہ تو یہی ہے کہ وہ آمنہ سے دوسری شادی پر بھی تیار نہیں ہے۔”
”اسے ڈھونڈا جاسکتا ہے لیکن یہ کام اس وقت نہیں ہوسکتا۔”
”ڈاکٹر صاحب نے آمنہ کے لئے غلط انتخاب کیا ہے۔ میں… میں آمنہ کو کیا دے سکتا ہوں۔ میں تو اس آدمی سے بھی بدتر ہوں جو ابھی اسے چھوڑ گیا ہے۔”
سالار نے بے چارگی سے کہا۔
”سالار! انہیں اس وقت کسی کی ضرورت ہے، ضرورت کے وقت صرف وہی آدمی سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے، جو سب سے زیادہ قابل اعتبار ہو۔ تم زندگی میں اتنے بہت سے لوگوں کی مدد کرتے آرہے ہو، کیا ڈاکٹر سبط علی صاحب کی مدد نہیں کرسکتے۔”
”میں نے لوگوں کی پیسے سے مدد کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب مجھ سے پیسہ نہیں مانگ رہے۔”
اس سے پہلے کہ فرقان کچھ کہتا اس کے موبائل پر کال آنے لگی تھی۔ اس نے نمبر دیکھ کر موبائل سالار کی طرف بڑھادیا۔
”ڈاکٹر صاحب کی کال آرہی ہے۔”
سالار نے ستے ہوئے چہرے کے ساتھ موبائل پکڑلیا۔
وہاں بیٹھے موبائل کان سے لگائے سالار کو پہلی بار احساس ہورہا تھا کہ زندگی میں ہر بات، ہر شخص سے نہیں کہی جاسکتی۔ وہ جو کچھ فرقان سے کہہ سکتا تھا وہ ان سے اونچی آواز میں بات نہیں کرسکتا تھا۔ انہیں دلائل دے سکتا تھا، نہ بہانے بناسکتا تھا۔ انہوں نے مخصوص نرم لہجے میں اس سے درخواست کی تھی۔
”اگر آپ اپنے والدین سے اجازت لے سکیں تو آمنہ سے شادی کرلیں۔ وہ میری بیٹی جیسی ہے۔
آپ سمجھیں میں اپنی بیٹی کے لئے آپ سے درخواست کررہا ہوں، آپ کو تکلیف دے رہا ہوں لیکن میں ایسا کرنے کے لئے مجبور ہوں۔”
”آپ جیسا چاہیں گے میں ویسا ہی کروں گا۔”
اس نے مدھم آواز میں ان سے کہا۔
”آپ مجھ سے درخواست نہ کریں، آپ مجھے حکم دیں۔” اس نے خود کو کہتے پایا تھا۔
فرقان تقریباً دس منٹ کے بعد اندر آیا۔ سالار موبائل فون ہاتھ میں پکڑے گم صم فرش پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
”ڈاکٹر صاحب سے بات ہوگئی تمہاری؟”
فرقان نے اس کے بالمقابل ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے مدھم آواز میں اس سے پوچھا۔
سالارنے سراٹھاکر اسے دیکھا پھر کچھ کہے بغیر سینٹر ٹیبل پر اس کا موبائل رکھ دیا۔
”میں رخصتی ابھی نہیں کرواؤں گا۔ بس نکاح کافی ہے۔”
اس نے چند لمحوں بعد کہا۔ وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہا تھا۔ فرقان کو بے اختیار اس پر ترس آیا۔ وہ مقدر کا”شکار” ہونے والا پہلا انسان نہیں تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بھکاری — صبا خان

Read Next

کیوئیں جاناں میں کون — مصباح علی سیّد

One Comment

  • 👍

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!