پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۸

اس دن اتوار تھا۔ سالار صبح دیر سے اٹھا۔
اخبار لے کر سرخیوں پر نظر دوڑاتے ہوئے وہ کچن میں ناشتہ تیار کرنے لگا۔ اس نے صرف منہ ہاتھ دھویا تھا۔ شیو نہیں کی۔ نائٹ ڈریس کے اوپر ہی اس نے ایک ڈھیلا ڈھالا سویٹر پہن لیا اس نے کیتلی میں چائے کا پانی ابھی رکھا ہی تھا جب ڈوربیل کی آواز سنائی دی۔ وہ اخبار ہاتھ میں پکڑے کچن سے باہر آگیا، دروازہ کھولنے پر اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا جب اس نے سعیدہ اماں کو وہاں کھڑا پایا۔ سالار نے دروازہ کھول دیا۔
”السلام علیکم! کیسی ہیں آپ؟”
اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے اس نے کہا۔
”اللہ کا شکر ہے میں بالکل ٹھیک ہوں، تم کیسے ہو؟”
انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ اس کے سرپر اپنے دونوں ہاتھ پھیرے۔
”میں بھی ٹھیک ہوں، آپ اندر آئیں۔”
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک لگ تو نہیں رہے ہو۔ کمزور ہوگئے ہو، چہرہ بھی کالا ہورہا ہے۔” انہوں نے اپنی عینک کے شیشوں کے پیچھے سے اس کے چہرے پر غور کیا۔
”رنگ کالا نہیں ہوا۔ میں نے شیو نہیں کی۔” سالار نے بے اختیار اپنی مسکراہٹ روکی۔ وہ ان کے ساتھ چلتا ہوا اندر آگیا۔
”لو بھلا شیو کیوں نہیں کی۔ اچھا داڑھی رکھنا چاہتے ہو… بہت اچھی بات ہے۔ نیکی کاکام ہے۔ بہت اچھا کررہے ہو۔”
وہ صوفہ پر بیٹھے ہوئے بولیں۔
”نہیں اماں! داڑھی نہیں رکھ رہا ہوں… آج اتوار ہے۔ دیر سے اٹھا ہوں کچھ دیر پہلے ہی، اس لئے شیو نہیں کی۔” وہ ان کی بات پر محفوظ ہوا۔
”دیر سے کیوں اٹھے ہو… بیٹا! دیر سے نہ اٹھا کرو۔ صبح جلدی اٹھ کر فجر کی نماز پڑھا کرو… چہرے پر رونق آتی ہے۔ اسی لئے تو تمہارا چہرہ مرجھایا ہوا ہے۔ صبح نماز پڑھ کر بندہ قرآن پڑھے پھر سیر کو چلا جائے۔ صحت بھی ٹھیک رہتی ہے اور اللہ بھی خوش ہوتا ہے۔”
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔
”میں نماز پڑھ کر سویا تھا۔ صرف اتوار والے دن ہی دیر تک سوتا ہوں۔ ورنہ روز صبح وہی کرتا ہوں جو آپ کہہ رہی ہیں۔”
وہ اس کی وضاحت پر بے حد خوش نظر آنے لگیں۔
”بہت اچھی بات ہے… اسی لئے تو تمہار چہرہ چمک رہا ہے۔ رونق نظر آرہی ہے۔”
انہوں نے اپنے بیان میں ایک بار پھر تبدیلی کی۔
”آپ کیا لیں گی؟”
وہ اپنے چہرے پر کوئی تبصرہ نہیں سننا چاہتا تھا، اس لئے اس نے موضوع بدلا۔
”ناشتا کریں گی؟”
”نہیں، میں ناشتا کرکے آئی ہوں۔ صبح چھے سات بجے میں ناشتا کرلیتی ہوں۔ گیارہ ساڑھے گیارہ تو میں دوپہر کا کھانا بھی کھالیتی ہوں۔”
انہوں نے اپنے معمولات سے آگاہ کیا۔
”تو پھر دوپہر کا کھانا کھالیں۔ ساڑھے دس تو ہورہے ہیں۔”
”نہیں ابھی تو مجھے بھوک ہی نہیں ہے۔ تم میرے پاس آکر بیٹھو۔”
”میں آتا ہوں ابھی۔۔۔۔”
وہ ان کے انکار کے باوجود کچن میں آگیا۔





”پورے چھے ماہ سے تمہارا انتظار کررہی ہوں۔ تم نے ایک بار بھی شکل نہیں دکھائی۔ حالانکہ وعدہ کیا تھا تم نے۔”
اسے کچن میں ان کی آواز سنائی دی۔
”میں بہت مصروف تھا اماں جی۔۔۔”
اس نے اپنے لئے چائے تیار کرتے ہوئے کہا۔
”لو ایسی بھی کیا مصروفیت… ارے بچے! مصروف وہ ہوتے ہیں، جن کے بیوی بچے ہوتے ہیں نہ تم نے گھر بسایا، نہ تم گھر والوں کے ساتھ رہ رہے ہو… پھر بھی کہتے ہو مصروف تھا…”
وہ ٹوسٹر سے سلائس نکالتے ہوئے ان کی بات پر مسکرایا۔
”اب یہی دیکھو، یہ تمہارے کرنے کے کام تو نہیں ہیں۔”
وہ اسے چائے کی ٹرے لاتے دیکھ کر خفگی سے بولیں۔
”میں تو کہتی ہوں یہ کام مرد کے کرنے والے ہی نہیں ہیں۔”
وہ کچھ کہے بغیر مسکراتے ہوئے میز پر برتن رکھنے لگا۔
”اب دیکھو بیوی ہوتی تو یہ کام بیوی کررہی ہوتی۔ مرد اچھا لگتا ہی نہیں ایسے کام کرتے ہوئے۔”
”آپ ٹھیک کہتی ہیں اماں جی! مگر اب مجبوری ہے۔ اب بیوی نہیں ہے تو کیا کیا جاسکتا ہے۔”
سالار نے چائے کا کپ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ انہیں اس کی بات پر جھٹکا لگا۔
”یہ کیا بات ہوئی، کیا کیا جاسکتا ہے؟ ارے بچے! دنیا لڑکیوں سے بھری ہوئی ہے۔ تمہارے تو اپنے ماں باپ بھی ہیں۔ ان سے کہو… تمہارا رشتہ طے کریں۔ یا تم چاہو تو میں کوشش کروں۔”
سالار کو یک دم صورت حال کی سنگینی کا احساس ہونے لگا۔
نہیں ، نہیں اماں! آپ چائے پئیں میں بہت خوش ہوں، اپنی زندگی سے جہاں تک گھر کے کاموں کا تعلق ہے تو وہ تو ہمارے پیغمبرﷺ بھی کر لیا کرتے تھے۔”
”لو، اب تم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ میں تو تمہاری بات کر رہی ہوں۔” وہ کچھ گڑ بڑا گئیں۔
” آپ یہ بسکٹ لیں اور کیک بھی”
سالار نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔
” ارے ہاں، جس کام کے لئے میں آئی ہوں وہ تو بھول ہی گئی۔”
” انہیں اچانک یاد آیا، اپنے ہاتھ میں پکڑا بڑا سا بیگ انہوں نے کھول کر اندر کچھ تلاش کرنا شروع کردیا۔
” تمہاری بہن کی شادی طے ہوئی ہے۔”
سالار کو چائے پیتے بے اختیار اچھولگا۔
” میری بہن کی… اماں جی! میری بہن کی شادی تو پانچ سال پہلے ہوگئی تھی۔”
اس نے کچھ ہکا بکا ہوتے ہوئے بتا یا۔ وہ اتنی دیر میں اپنے بیگ سے ایک کارڈ بر آمد کر چکی تھیں۔
” ارے میں اپنی بیٹی کی بات کر رہی تھی۔ آمنہ کی، تمہاری بہن ہی ہوئی نا۔۔۔”
انہوں نے اس کے جملے پر بے حد افسوس کے عالم میں اسے دیکھتے ہوئے کارڈ تھمایا۔
سالار کو بے اختیار ہنسی آئی کل تک وہ اسے اس کی بیوی بنانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں اور اب یک دم بہن بنادیا، مگر اس کے باوجود سالار کو بے تحاشا اطمینان محسوس ہوا۔ کم از کم اب اسے ان سے یا ان کی بیٹی سے کوئی خطرہ نہیں رہا تھا۔
بہت مسرور سا ہوکر اس نے کارڈ پکڑلیا۔
”بہت مبارک ہو… کب ہورہی ہے شادی؟” اس نے کارڈ کھولتے ہوئے کہا۔
”اگلے ہفتے۔۔۔۔”
”چلیں اماں جی! آپ کی فکر تو ختم ہوگئی۔”
سالار نے”میری” کے بجائے”آپ کی” کا لفظ استعمال کیا۔
”ہاں اللہ کا شکر ہے، بہت اچھی جگہ رشتہ ہوگیا۔ میری ذمہ داری ختم ہوجائے گی پھر میں بھی اپنے بیٹوں کے پاس انگلینڈ چلی جاؤں گی۔”
سالار نے کارڈ پر ایک سرسری سی نظر دوڑائی۔
”یہ کارڈ تمہیں دینے خاص طور پر آئی ہوں… اس بار کوئی بہانہ نہیں سنوں گی۔ تمہیں شادی پر آنا ہے، بھائی بن کر رخصت کرنا ہے بہن کو۔”
سالار نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے چائے کا کپ لیا۔
”آپ فکر نہ کریں۔ میں ضرور آؤں گا۔”
”کپ نیچے رکھ کر سلائس پر مکھن لگانے لگا۔
”یہ فرقان کا کارڈ بھی لے کر آئی ہوں میں… اس کو بھی دینے جانا ہے۔”
انہیں اب فرقان کی یاد ستانے لگی۔
”فرقان کو تو آج بھابھی کے ساتھ اپنے سسرال جانا تھا۔ اب تک تو نکل چکا ہوگا۔ آپ مجھے دے دیں۔ میں اسے دے دوں گا۔” سالار نے کہا۔
”تم اگر بھول گئے تو؟” وہ مطمئن نہیں ہوئیں۔
”میں نہیں بھولوں گا، اچھا میں فون پر اس سے آپ کی بات کروادیتا ہوں۔”
وہ یک دم خوش ہوئیں۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے۔ تم فون پر اس سے میری بات کروادو۔”
سالار اٹھ کر فون اسی میز پر لے آیا۔ فرقان کا موبائل نمبر ڈائل کرکے اس نے اسپیکر آن کردیا اور خود ناشتہ کرنے لگا۔
”فرقان! سعیدہ اماں آئی ہوئی میرے پاس۔”
فرقان کے کال ریسیو کرنے پر اس نے بتایا۔
”ان سے بات کرو۔”
وہ خاموش ہوگیا، اب فرقان اور سعیدہ اماں کے درمیان گفتگو ہورہی تھی۔
دس منٹ بعد جب یہ گفتگو ختم ہوئی تو سالار ناشتہ ختم کرچکا تھا۔ برتن کچن میں رکھتے ہوئے اسے خیال آیا۔
”آئی کس کے ساتھ تھیں آپ؟” وہ باہر نکل آیا۔
”اپنے بیٹے کے ساتھ” سعیدہ اماں نے اطمینان سے کہا۔
”اچھا، بیٹا آگیا آپ کا؟ چھوٹا والا یا بڑا والا؟”
سالارنے دلچسپی لی۔
”میں ساتھ والوں کے راشد کی بات کررہی ہوں۔” سعیدہ اماں نے بے اختیار برا مانا۔
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا سعیدہ اماں کے لئے ہر لڑکا اپنا بیٹا اور ہر لڑکی اپنی بیٹی تھی۔ وہ بڑے آرام سے رشتے گھڑلیتی تھیں۔
”تو وہ کہاں ہے؟” سالار نے پوچھا۔
”وہ چلاگیا۔ موٹر سائیکل پر آئی ہوں اس کے ساتھ، آندھی کی رفتار سے چلائی ہے اس نے۔ نوبجے بیٹھی ہوں، پورے ساڑھے دس بجے ادھر پہنچادیا اس نے، میری ایک نہیں سنی اس نے۔ سارا راستہ… باربار یہی کہتا رہا آہستہ چلارہا ہوں۔ یہاں اتارتے وقت کہنے لگا آپ کے ساتھ موٹر سائیکل پر میرا آخری سفر تھا۔ دوبارہ کہیں جانا ہوا تو پیدل لے کر جاؤں گا آپ کو۔۔۔۔”
سالار کو ہنسی آئی۔ آدھ گھنٹہ میں طے ہونے والے راستے کو ڈیڑھ گھنٹہ میں طے کرنے والے کی جھنجھلاہٹ کا وہ اندازہ کرسکتا تھا۔ بوڑھوں کے ساتھ وقت گزارنا خاصا مشکل کام تھا۔ یہ وہ سعیدہ اماں کے ساتھ ہونے والی پہلی ملاقات میں ہی جان گیا تھا۔
”تو واپس کیسے جائیں گی۔ راشد لینے آئے گا آپ کو؟”
”ہاں اس نے کہا تو ہے کہ میچ ختم ہونے کے بعد آپ کو لے جاؤں گا۔ اب دیکھو کب آتا ہے۔” وہ اسے ایک بارپھر اپنی بیٹی اور اس کے ہونے والے سسرال کے بارے میں اطلاعات پہنچانے لگیں۔
وہ مسکراتے ہوئے بڑی فرمانبرداری سے سنتا رہا۔
اس قسم کی معلومات میں اسے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی مگر سعیدہ اماں اب اس کے ساتھ بینکنگ کے بارے میں تو گفتگو نہیں کرسکتی تھیں۔ ان کی باتیں رتی بھر اس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھیں مگر وہ یوں ظاہر کرتا رہا جیسے وہ ہر بات سمجھ رہا ہے۔
دوپہر کا کھانا اس نے ان کے ساتھ کھایا۔ اس نے ان کے سامنے فریزر سے کچھ نکال کر گرم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ایک بارپھر شادی کے فوائد اور ضرورت پر لیکچر نہیں سننا چاہتا تھا۔ اس نے ایک ریسٹورنٹ فون کرکے لنچ کا آرڈر دیا۔ ایک گھنٹے کے بعد کھانا آگیا۔
کھانے کے وقت تک راشد نہیں آیا تو سالار نے ان کی تشویش کو کم کرنے کے لئے کہا۔
”میں گاڑی پر چھوڑ آتا ہوں آپ کو۔”
وہ فوراً تیار ہوگئیں۔
”ہاں یہ ٹھیک ہے، اس طرح تم میرا گھر بھی دیکھ لوگے۔”
”اماں جی! میں آپ کا گھر جانتا ہوں۔”
سالار نے کار کی چابی تلاش کرتے ہوئے انہیں یاد دلایا۔
آدھ گھنٹہ کے بعد وہ اس گلی میں تھا جہاں سعیدہ اماں کا گھر تھا۔ وہ گاڑی سے اترکر انہیں اندر گلی میں دروازے تک چھوڑ گیا۔ انہوں نے اسے اندر آنے کی دعوت دی، جسے اس نے شکریہ کے ساتھ رد کردیا۔
”آج نہیں… آج بہت کام ہیں۔”
وہ اپنی بات کہہ کر پچھتایا۔
”بچے! اسی لئے کہتی ہوں شادی کرلو۔ بیوی ہوگی تو خود سارے کام دیکھے گی۔ تم کہیں آجا سکو گے۔ اب یہ کوئی زندگی ہے کہ چھٹی کے دن بھی گھرکے کام لے کر بیٹھے رہوگے۔” انہوں نے افسوس بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
”جی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ اب میں جاؤں؟”
اس نے کمال فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی ہاں ملائی۔
”ہاں ٹھیک ہے جاؤ، مگر یاد رکھنا شادی پر ضرور آنا۔ فرقان سے بھی ایک بارپھر کہہ دینا کہ وہ بھی آئے اور اس کو کارڈ ضرور پہنچا دینا۔”
سالار نے ان کے دروازے پر لگی ہوئی ڈوربیل دوبارہ بجائی اور خدا حافظ کہتے ہوئے پلٹا۔
اپنے پیچھے اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ سعیدہ اماں اب اپنی بیٹی سے کچھ کہہ رہی تھیں۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بھکاری — صبا خان

Read Next

کیوئیں جاناں میں کون — مصباح علی سیّد

One Comment

  • 👍

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!