وہ احرام باندھے خانہ کعبہ کے صحن میں کھڑا تھا۔ خانہ کعبہ میں کوئی نہیں تھا۔ دور دور تک کسی وجود کا نشان نہیں تھا۔ رات کے پچھلے پہر آسمان پر چاند اور ستاروں کی روشنی نے صحن کے ماربل سے منعکس ہوکر وہاں کی ہر چیز کو ایک عجیب سی دودھیا روشنی میں نہلا دیا تھا۔ چاند اور ستاروں کے علاوہ وہاں اور کوئی روشنی نہیں تھی۔
خانہ کعبہ کے غلاف پر لکھی ہوئی آیات، سیاہ غلاف پر عجیب طرح سے روشن تھیں۔ ہر طرف گہرا سکوت تھا اور اس گہرے سکوت کو صرف ایک آواز توڑ رہی تھی۔ اس کی آواز… اس کی اپنی آواز… وہ مقام ملتزم کے پاس کھڑا تھا۔ اس کی نظریں خانہ کعبہ کے دروازے پر تھیں اور وہ سر اٹھائے بلند آواز سے کہنے لگا۔
لبیک اللھم لبیکO لبیک لاشریک لک لبیک Oان الحمد والنعمة لک والملک لاشریک لکO
(حاضر ہوں میرے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بیشک حمدوثنا تیرے لئے ہے، نعمت تیری ہے، بادشاہی تیری ہے کوئی تیرا شریک نہیں)۔
پوری قوت سے گونجتی ہوئی اس کی آواز خانہ کعبہ کے سکوت کو توڑرہی تھی۔ اس کی آواز خلا کی وسعتوں تک جارہی تھی۔
”لبیک اللھم لبیک…”
ننگے پاؤں، نیم برہنہ وہاں کھڑا وہ اپنی آواز پہچان رہا تھا۔
”لبیک لاشریک لک لبیک… وہ صرف اس کی آواز تھی۔ ان الحمد والنعمة لک والملک۔”
اس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو اس کی ٹھوڑی سے نیچے اس کے پیروں کی انگلیوں پر گررہے تھے۔
”لاشریک لک…”
اس کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھے ہوئے تھے۔
”لبیک اللھم لبیک…”
اس نے خانہ کعبہ کے غلاف پر کندہ آیات کو یک دم بہت روشن دیکھا۔ اتنا روشن کہ وہ جگمگانے لگی تھیں۔ آسمان پر ستاروں کی روشنی بھی اچانک بڑھ گئی تھی۔ وہ ان آیات کو دیکھ رہا تھا۔ مبہوت سحر زدہ۔ کسی معمول کی طرح، زبان پر ایک ہی جملہ لئے… اس نے خانہ کعبہ کے دروازے کو بہت آہستہ آہستہ کھلتے دیکھا۔
”لبیک اللھم لبیک…”
اس کی آواز بلند ہوگئی۔ ایک ورد کی طرح۔ ایک سانس۔ ایک لے۔
”لبیک لاشریک لک لبیک…”
اس وقت پہلی بار اس نے اپنی آواز میں کسی اور آواز کو مدغم ہوتے محسوس کیا۔
”ان الحمد والنعمة…”
اس کی آواز کی طرح وہ آواز بلند نہیں تھی۔ کسی سرگوشی کی طرح تھی۔ کسی گونج کی طرح، مگر وہ پہچان سکتا تھا وہ اس کی آواز کی گونج نہیں تھی۔ وہ کوئی اور آواز تھی۔
”لک والملک…”
اس نے پہلی بار خانہ کعبہ میں اپنے علاوہ کسی اور کی موجودگی کو محسوس کیا۔
”لاشریک لک…”
خانہ کعبہ کا دروازہ کھل رہا تھا۔
”لبیک اللھم لبیک…”
وہ اس نسوانی آواز کو پہچانتا تھا۔
”لبیک لاشریک لک.”
وہ اس کے ساتھ وہی الفاظ دہرارہی تھی۔
”لبیک ان الحمد والنعمة”
آواز دائیں طرف نہیں تھی، بائیں طرف تھی۔ کہاں… اس کی پشت پر۔ چند قدم کے فاصلے پر۔
”لک والملک لاشریک لک.”
اس نے جھک کر اپنے پاؤں پر گرنے والے آنسوؤں کو دیکھا اس کے پاؤں بھیگ چکے تھے۔
اس نے سر اٹھا کر خانہ کعبہ کے دروازے کو دیکھا۔ دروازہ کھل چکا تھا۔ اندر روشنی تھی۔ دودھیا روشنی۔ کہ اس نے بے اختیار گھٹنے ٹیک دیئے۔ وہ اب سجدہ کررہا تھا، روشنی کم ہورہی تھی۔ اس نے سجدے سے سر اٹھایا۔ روشنی اور کم ہورہی تھی۔
وہ اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ خانہ کعبہ کا دروازہ اب بند ہورہا تھا۔ روشنی کم ہوتی جارہی تھی اور تب اس نے ایک بارپھر سرگوشی کی صورت میں وہی نسوانی آواز سنی۔
اس بار اس نے مڑکر دیکھا تھا۔
٭…٭…٭
سالار کی آنکھ کھل گئی۔ وہ حرم شریف کے ایک برآمدے کے ستون سے سرٹکائے ہوئے تھا۔ وہ کچھ دیر سستانے کے لئے وہاں بیٹھا تھا مگر نیند نے عجیب انداز میں اس پر غلبہ پایا۔
وہ امامہ تھی۔ بے شک امامہ تھی۔ سفید احرام میں اس کے پیچھے کھڑی۔ اس نے اس کی صرف ایک جھلک دیکھی تھی مگر ایک جھلک بھی اسے یقین دلانے کے لئے کافی تھی کہ وہ امامہ کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ خالی الذہنی کے عالم میں لوگوں کو ادھر سے ادھر جاتے دیکھ کر بے اختیار اس کا دل بھر آیا۔
آٹھ سال سے زیادہ عرصہ ہوگیا تھا اسے اس عورت کو دیکھے جسے اس نے آج وہاں حرم شریف میں خواب میں دیکھا تھا کسی زخم کو پھر ادھیڑا گیا تھا۔ اس نے گلاسز اتار دئیے اور دونوں ہاتھوں سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔
آنکھوں سے ابلتے گرم پانی کو رگڑتے، آنکھوں کو مسلتے اسے خیال آیا۔ یہ حرم شریف تھا۔ یہاں اسے کسی سے آنسو چھپانے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں سب آنسو بہانے کے لئے ہی آتے تھے۔ اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹالئے۔ اس پر رقت طاری ہورہی تھی۔ وہ سر جھکائے بہت دیر وہاں بٹھا روتا رہا۔
پھر اسے یاد آیا وہ ہر سال وہاں عمرہ کرنے کے لئے آیا کرتا تھا۔ وہ امامہ ہاشم کی طرف سے بھی عمرہ کیا کرتا تھا۔
وہ اس کی عافیت اور لمبی زندگی کے لئے بھی دعا مانگا کرتا تھا۔
وہ امامہ ہاشم کو ہر پریشانی سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی دعا مانگا کرتا تھا۔
اس نے وہاں حرم شریف میں اتنے سالوں میں اپنے اورامامہ کے لیے ہر دعا مانگ چھوڑی تھی جہاں بھر کی دعائیں، مگر اس نے وہاں حرم شریف میں کبھی امامہ کو اپنے لئے نہیں مانگا تھا۔ عجیب بات تھی مگر اس نے وہاں کبھی امامہ کے حصول کے لئے دعا نہیں کی تھی۔ اس کے آنسو یک دم تھم گئے۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
وضو کے بعد اس نے عمرے کے لئے احرام باندھا۔ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اس بار اتفاقاً اسے مقام ملتزم کے پاس جگہ مل گئی۔ وہاں، جہاں اس نے اپنے آپ کو خواب میں کھڑے ہوئے دیکھا تھا۔ اپنے ہاتھ اوپر اٹھاتے ہوئے اس نے دعا کرنا شروع کی۔
”یہاں کھڑے ہوکر تجھ سے انبیاء دعا مانگا کرتے تھے۔ ان کی دعاؤں میں اور میری دعا میں بہت فرق ہے۔”
وہ گڑگڑارہا تھا۔
”میں نبی ہوتا تو نبیوں جیسی دعا کرتا مگر میں تو عام بشر ہوں اور گناہگار بشر۔ میری خواہشات، میری آرزوئیں سب عام ہیں۔ یہاں کھڑے ہوکر کبھی کوئی کسی عورت کے لئے نہیں رویا ہوگا، میری ذلت اور پستی کی اس سے زیادہ انتہا کیا ہوگی کہ میں یہاں کھڑا… حرم پاک میں کھڑا… ایک عورت کے لئے گڑگڑارہا ہوں مگر مجھے نہ اپنے دل پر اختیار ہے نہ اپنے آنسوؤں پر۔
یہ میں نہیں تھا جس نے اس عورت کو اپنے دل میں جگہ دی، یہ تونے کیا۔ کیوں میرے دل میں اس عورت کے لئے اتنی محبت ڈال دی کہ میں تیرے سامنے کھڑا بھی اس کو یاد کررہا ہوں؟ کیوں مجھے اس قدربے بس کردیا کہ مجھے اپنے وجود پر بھی کوئی اختیار نہیں رہا؟ میں وہ بشر ہوں جسے تونے ان تمام کمزوریوں کے ساتھ بنایا۔ میں وہ بشر ہوں جسے تیرے سوا کوئی راستہ دکھانے والا نہیں اور وہ عورت وہ میری زندگی کے ہر راستے پر کھڑی ہے۔ مجھے کہیں جانے کہیں پہنچنے نہیں دے رہی یاتو اس کی محبت کو اس طرح میرے دل سے نکال دے کہ مجھے کبھی اس کا خیال تک نہ آئے یا پھر اسے مجھے دے دے۔ وہ نہیں ملے گی تو میں ساری زندگی اس کے لئے ہی روتا رہوں گا۔ وہ مل جائے گی تو تیرے علاوہ میں کسی کے لئے آنسو نہیں بہاسکوں گا۔ میرے آنسوؤں کو خالص ہونے دے۔
میں یہاں کھڑا تجھ سے پاک عورتوں میں سے ایک کو مانگتا ہوں۔
میں امامہ ہاشم کو مانگتا ہوں۔
میں اپنی نسل کے لئے اس عورت کو مانگتا ہوں، جس نے آپ کے پیغمبر ﷺ کی محبت میں کسی کو شریک نہیں کیا۔ جس نے ان کے لئے اپنی زندگی کی تمام آسائشات کو چھوڑ دیا۔
اگر میں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی نیکی کی ہے، تو مجھے اس کے عوض امامہ ہاشم دے دے۔ تو چاہے تو یہ اب بھی ہوسکتا ہے۔ اب بھی ممکن ہے۔
مجھے اس آزمائش سے نکال دے۔ میری زندگی کو آسان کردے۔
آٹھ سال سے میں جس تکلیف میں ہوں مجھے اس سے رہائی دے دے۔
سالار سکندر پر ایک بارپھر رحم کر، وہی جو تیری صفات میں افضل ترین ہے۔
وہ سر جھکائے وہاں بلک رہا تھا اسی جگہ پر جہاں اس نے خود کو خواب میں دیکھا تھا اس بار اس کی پشت پر امامہ ہاشم نہیں تھی۔
بہت دیر تک وہاں گڑگڑانے کے بعد وہ وہاں سے ہٹ گیا تھا۔ آسمان پر ستاروں کی روشنی اب بھی مدھم تھی۔ خانہ کعبہ روشنیوں سے اب بھی بقعہ نوربنا ہوا تھا۔ لوگوں کا ہجوم رات کے اس پہر بھی اسی طرح تھا۔ خواب کی طرح خانہ کعبہ کا دروازہ بھی نہیں کھلا تھا۔ اس کے باوجود وہاں سے ہٹتے ہوئے سالار سکندر کو اپنے اندر سکون اترتا محسوس ہوا تھا۔
وہ اس کیفیت سے باہر آرہا تھا جس میں وہ پچھلے ایک ماہ سے تھا۔ ایک عجیب سا قرار تھا جو اس دعا کے بعد اسے ملا تھا اور وہ اسی قرار اور طمانیت کو لئے ہوئے ایک ہفتہ کے بعد پاکستان لوٹ آیا تھا۔
٭…٭…٭
”میں اگلے سال پی ایچ ڈی کے لئے امریکہ جارہا ہوں۔”
فرقان نے بے اختیار چونک کر سالار کو دیکھا۔
”کیا مطلب…؟” سالار حیرانی سے مسکرایا۔
”یوں اچانک…؟”
”اچانک تو نہیں۔ پی ایچ ڈی کرنی تو تھی مجھے۔ بہتر ہے ابھی کرلوں۔” سالار اطمینان سے بتارہا تھا۔
وہ دونوں فرقان کے گاؤں سے واپس آرہے تھے۔ فرقان ڈرائیو کر رہا تھا جب سالار نے اچانک اسے اپنی پی ایچ ڈی کے ارادے کے بارے میں بتایا۔
”میں نے بینک کو بتادیا ہے، میں نے ریزائن کرنے کا سوچا ہے، لیکن وہ مجھے چھٹی دینا چاہ رہے ہیں۔ ابھی میں نے سوچا نہیں ہے کہ ان کی اس آفر کو قبول کرلوں یا پھر ریزائن کردوں۔”
”تم ساری پلاننگ کئے بیٹھے ہو۔”
”ہاں یار… میں مذاق نہیں کررہا… میں واقعی اگلے سال پی ایچ ڈی کے لئے جارہاہوں۔”
”چند ماہ پہلے تک تو تمہارا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔”
”ارادے کا کیا ہے، وہ تو ایک دن میں بن جاتا ہے۔”
سالار نے کندھے جھٹکتے ہوئے کھڑکی کے شیشے سے باہر نظر آنے والے کھیتوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں ویسے بھی بینکنگ سے متعلق ایک کتاب لکھنا چاہتا ہوں مگر یہاں میں پچھلے کچھ سالوں میں اتنا مصروف رہا ہوں کہ اس پر کام نہیں کرسکا۔ میں چاہتا ہوں پی ایچ ڈی کے دوران میں یہ کتاب لکھ کر شائع بھی کروالوں۔ میرے پاس کچھ فرصت ہوگی تو میں یہ کام آسانی سے کرلوں گا۔”
فرقان کچھ دیر خاموشی سے گاڑی ڈرائیو کرتا رہا پھر اس نے کہا۔
”اور اسکول… اس کا کیا ہوگا؟”
”اس کا کچھ نہیں ہوگا۔ یہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ اس کا انفراسٹرکچر بھی بہتر ہوتا جائے گا۔ بورڈآف گورنرز ہے، وہ لوگ آتے جاتے رہیں گے۔ تم ہو… میں نے پاپا سے بھی بات کی ہے وہ بھی آیا کریں گے یہاں پر… میرے نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ یہ اسکول بہت پہلے سالار سکندر کی تھمائی ہوئی لاٹھیاں چھوڑ چکا ہے۔ آئندہ بھی اسے ان کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر میں مکمل طورپر اس سے قطع تعلق نہیں کررہا ہوں۔ میں اس کو دیکھتا رہوں گا۔ کبھی میری مدد کی ضرورت پڑی تو آجایا کروں گا۔ پہلے بھی تو ایسا ہی کیا کرتا تھا۔”
وہ اب تھرمس میں سے چائے کپ میں ڈال رہا تھا۔
”پی ایچ ڈی کے بعد کیا کروگے؟” فرقان نے سنجیدگی سے پوچھا۔
واپس آؤں گا۔ پہلے کی طرح یہیں پر کام کروں گا۔ ہمیشہ کے لئے نہیں جارہا ہوں۔”
سالار نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے کو تھپکا۔
”کیا چند سال بعد نہیں جاسکتے تم؟”
”نہیں، جو کام آج ہونا چاہئے اسے آج ہی ہونا چاہئے۔ میرا موڈ ہے آگے پڑھنے کا۔ چند سال بعد شاید خواہش نہ رہے۔”
سالار نے چائے کے گھونٹ لیتے ہوئے کہا وہ اب بائیں ہاتھ سے ریڈیو کو ٹیون کرنے میں مصروف تھا۔
”روٹری (Rotary)کلب والے اگلے ویک اینڈپر ایک فنکشن کررہے ہیں۔ میرے پاس انویٹیشن آیا ہے۔ چلوگے؟”
اس نے ریڈیو کو ٹیون کرتے ہوئے فرقان سے پوچھا۔
”کیوں نہیں چلوں گا۔ ان کے پروگرام دلچسپ ہوتے ہیں۔”
فرقان نے جواباً کہا۔ گفتگو کا موضوع بدل چکا تھا۔
٭…٭…٭
One Comment
👍