پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

لاہور کی حدود میں داخل ہوتے ہی امامہ نے اس سے کہا۔ ”اب تم مجھے کسی بھی اسٹاپ پر اتار دو… میں چلی جاؤں گی۔”
”تم جہاں جانا چاہتی ہو، میں تمہیں وہاں چھوڑ دیتا ہوں۔ اتنی دھند میں کسی ٹرانسپورٹ کا انتظار کرتے تمہیں بہت وقت لگے گا۔” سڑکیں اس وقت تقریباً ویران تھیں، حالاں کہ صبح ہوچکی تھی مگر دھند نے ہر چیز کو لپیٹ میں لے رکھا تھا۔
”مجھے نہیں پتا، مجھے کہاں جانا ہے پھر تمہیں میں کس جگہ کا پتا بتاؤں۔ ابھی تو شاید میں ہاسٹل جاؤں اور پھر وہاں…” سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تو پھر میں تمہیں ہوسٹل چھوڑ دیتا ہوں۔” کچھ فاصلہ اسی طرح خاموشی سے طے ہوا پھر ہاسٹل سے کچھ فاصلے پر امامہ نے اسے کہا۔
”بس تم یہاں گاڑی روک دو، میں یہاں سے خود چلی جاؤں گی… میں تمہارے ساتھ ہاسٹل نہیں جانا چاہتی۔” سالار نے سڑک کے کنارے گاڑی روک دی۔
”پچھلے کچھ ہفتوں میں تم نے میری بہت مدد کی ہے، میں اس کے لیے تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔ تم میری مدد نہ کرتے تو آج میں یہاں نہ ہوتی۔” وہ ایک لمحہ کے لیے رکی۔”تمہارا موبائل ابھی میرے پاس ہے، مگر مجھے ابھی اس کی ضرورت ہے، میں کچھ عرضہ بعد اسے واپس بھجوادوں گی۔”
”اس کی ضرورت نہیں، تم اسے رکھ سکتی ہو۔”
”میں کچھ دنوں بعد تم سے دوبارہ رابطہ کروں گی پھر تم مجھے طلاق کے پیپرز بھجوا دینا۔” وہ رکی۔ ”میں امید کرتی ہوں کہ تم میرے پیرنٹس کو کچھ نہیں بتاؤگے۔”
”یہ کہنے کی ضرورت تھی؟” سالار نے بھنویں اچکاتے ہوئے کہا۔ ”مجھے کچھ بتانا ہوتا تو میں بہت پہلے بتا چکا ہوتا۔” سالار نے قدرے سرد مہری سے کہا۔ ”تم مجھے بہت برا لڑکا سمجھتی تھیں، کیا ابھی بھی تمہاری میرے بارے میں وہی رائے ہے یا تم نے اپنی رائے میں کچھ تبدیلی کی ہے۔” سالار نے اچانک تیکھی مسکراہٹ کے ساتھ اس سے پوچھا۔
”تمہیں نہیں لگتا کہ میں دراصل بہت اچھا لڑکا ہوں۔”
”ہوسکتا ہے۔” امامہ نے مدھم آواز میں کہا۔ سالار کو اس کی بات پر جیسے شاک لگا۔
”ہوسکتا ہے۔” وہ بے یقینی سے مسکرایا۔ ”ابھی بھی ہوسکتا ہے۔ تم بہت ناشکری ہو امامہ، میں نے تمہارے لیے اتنا کچھ کیا ہے، جو اس زمانے میں کوئی لڑکا نہیں کرے گا اور تم پھر بھی مجھے اچھا ماننے پر تیار نہیں۔”
”میں ناشکری نہیں ہوں۔ مجھے اعتراف ہے کہ تم نے مجھ پر بہت احسان کیے ہیں اور شاید تمہاری جگہ کوئی دوسرا کبھی نہ کرتا۔۔۔۔”
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تو میں اچھا ہوا نا۔”
وہ کچھ نہیں بولی، صرف اسے دیکھتی رہی۔
”نہیں، مجھے پتا ہے تم یہی کہنا چاہتی ہو، حالاں کہ مشرقی لڑکی کی خاموشی اس کا اقرار ہوتی ہے مگر تمہاری خاموشی تمہارا انکار ہوتی ہے۔ ٹھیک کہہ رہاہوں نا۔”
”ہم ایک فضول بحث کر رہے ہیں۔”




”ہوسکتا ہے۔” سالار نے کندھے اچکائے۔ ”مگر مجھے حیرانی ہے کہ تم۔۔۔۔”
اس بار امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تم نے میرے لیے یقینا بہت کچھ کیا ہے… اور اگر میں تمہیں جانتی نہ ہوتی تو یقینا میں تمہیں ایک بہت اچھا انسان سمجھتی اور کہہ بھی دیتی… مگر میں تمہیں اتنی اچھی طرح جانتی ہوں کہ میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ تم ایک اچھے انسان ہو۔۔۔”
وہ رُکی۔ سالار پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھ رہا تھا۔
”جو آدمی خود کشی کی کوشش کرتا ہو، شراب پیتا ہو، جس نے اپنا کمرہ عورتوں کی برہنہ تصویروں سے بھر رکھا ہو… وہ اچھا آدمی تو نہیں ہوسکتا۔ ” اِمامہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”تم کسی ایسے آدمی کے پاس جاتیں جو یہ تینوں کام نہ کرتا مگر تمہاری مدد بھی نہ کرتا تو کیا تمہارے لیے وہ اچھا آدمی ہوتا؟” سالار نے تیز آواز میں کہا۔ “جیسے جلال انصر؟”
امامہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ ”ہاں، اس نے میری مدد نہیں کی، مجھ سے شادی نہیں کی مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ برا ہوگیا ہے۔ وہ اچھا آدمی ہے… ابھی بھی میرے نزدیک اچھا آدمی ہے۔”
“اور میں نے تمہاری مدد کی… تم سے شادی کی مگر یقینا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اچھا ہو گیا ہوں، میں برا آدمی ہوں۔” وہ عجیب سے انداز میں کہتے ہوئے مسکرایا۔ ”تمہارا خود اپنے بارے میں کیا خیال ہے امامہ… کیا تم اچھی لڑکی ہو؟”
اس نے اچانک چبھتے ہوئے انداز میں پوچھا اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر کہنے لگا۔
”میرے نزدیک تم بھی اچھی لڑکی نہیں ہو، تم بھی ایک لڑکے کے لیے اپنے گھر سے بھاگی ہو… اپنے منگیتر کو دھوکہ دیا ہے تم نے… اپنی فیملی کی عزت کو خراب کیا ہے تم نے…” سالار نے ہر لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے صاف گوئی سے کہا۔
امامہ کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آگئی۔ ”تم ٹھیک کہتے ہو، میں واقعی اچھی لڑکی نہیں ہوں۔ ابھی مجھے یہ جملہ بہت سے لوگوں سے سننا ہے۔”
”میں تمہیں بہت لمبی چوڑی وضاحت دے سکتی ہوں مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں، تم ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے۔”
”فرض کرو، میں تمہیں لاہور نہ لے کر آتا کہیں اور لے جاتا پھر… مگر میں تمہیں بحفاظت یہاں لے آیا… یہ میرا تم پر کتنا بڑا احسان ہے، تمہیں اندازہ ہے اس کا۔”
امامہ گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔
”مجھے یقین تھا تم مجھے کہیں اور نہیں لے جاؤگے۔”
وہ اس کی بات پر ہنسا۔ ”مجھ پر یقین تھا… کیوں؟ میں تو ایک برا لڑکا ہوں۔”
”مجھے تم پر یقین نہیں تھا… اللہ پر یقین تھا۔” سالار کے ماتھے پر کچھ بل پڑگئے۔
”میں نے اللہ اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے سب کچھ چھوڑ دیا ہے، یہ کبھی نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ مجھے تمہارے جیسے آدمی کے ہاتھوں رسوا کرتے، یہ ممکن ہی نہیں تھا۔”
”فرض کرو ایسا ہو جاتا۔” سالار مصر ہوا۔ ”میں ایسی بات کیوں فرض کروں جو نہیں ہوئی۔” وہ اپنی بات پر قائم تھی۔
”یعنی تم مجھے کسی قسم کا کوئی کریڈٹ نہیں دوگی۔” وہ مذاق اڑانے والے انداز میں مسکرایا۔
”اچھا فرض کرو میں اب تمہیں جانے نہیں دیتا تو تم کیا کروگی۔ گاڑی کا دروازہ جب تک میں نہیں کھولوں گا، نہیں کھلے گا… یہ تم جانتی ہو… اب بتاؤ تم کیا کروگی۔”
وہ یک ٹک اسے دیکھتی رہی۔ ”یا میں یہ کرتا ہوں۔” سالار نے ڈیش بورڈ پر پڑا ہوا اپنا موبائل اٹھایا اور اس پر ایک نمبر ڈائل کرنے لگا۔ ”کہ تمہارے گھر فون کردیتا ہوں۔” اس نے موبائل کی اسکرین کو اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ اس پر امامہ کے گھر کا نمبر تھا۔
”میں انہیں تمہارے بارے میں بتاتا ہوں کہ تم کہاں ہو، کس کے ساتھ ہو… پھر یہاں سے تمہیں سیدھا پولیس اسٹیشن لے جاکر ان کی تحویل میں دے دیتا ہوں… تو پھر تمہارے اعتقاد اور اعتبار کا کیا ہوتا۔” وہ مذاق اڑانے والے انداز میں کہہ رہا تھا۔
امامہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ سالار کو بے حد خوشی محسوس ہوئی۔ سالار نے موبائل آف کرتے ہوئے ایک بار پھر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔
”کتنا بڑا احسان کر رہا ہوں میں تم پر کہ ایسا نہیں کر رہا۔” اس نے موبائل کو دوبارہ ڈیش بورڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔ ”حالاں کہ تم بے بس ہو، کچھ بھی نہیں کرسکتیں، اسی طرح رات کو میں تمہیں کہیں اور لے جاتا تو تم کیا کرلیتیں۔”
”میں تمہیں شوٹ کردیتی۔” سالار نے حیرانی سے اسے دیکھا پھر قہقہہ مار کر ہنسا۔
”کیا کردیتیں۔ میں … تمہیں… شوٹ… کر … دیتی۔”
اس نے اسی انداز میں رک رک کر اس سے کہا۔ وہ اسٹیئرنگ پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھلکھلا کر ہنسا۔
”کبھی زندگی میں پسٹل دیکھا بھی ہے تم نے۔” اس نے امامہ کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا۔
سالار نے اسے جھکتے اور اپنے پاؤں کے طرف ہاتھ بڑھاتے دیکھا۔ جب وہ سیدھی ہوئی تو اس نے سالار سے کہا۔ ”شاید اسے کہتے ہیں۔”
سالار ہنسنا بھول گیا۔ اس کے دائیں ہاتھ میں چھوٹے سائز کا ایک بہت خوب صورت اور قیمتی لیڈیز پستول تھا۔ سالار پستول پر اس کے ہاتھ کی گرفت دیکھ کر جان گیا تھا کہ وہ کسی اناڑی کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ اس نے بے یقینی سے امامہ کو دیکھا۔
”تم مجھے شوٹ کر سکتی تھیں؟”
”ہاں، میں تمہیں شوٹ کرسکتی تھی مگر میں نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ تم نے مجھے کوئی دھوکا نہیں دیا۔” اس نے مستحکم آواز میں کہا۔ اس نے پستول سالار کی طرف نہیں کیا تھا، صرف اپنے ہاتھ میں رکھا تھا۔
”گاڑی کا لاک…” اس نے بات ادھوری چھوڑتے ہوئے سالار سے کہا۔ سالار نے غیر ارادی طور پر اپنی طرف موجود بٹن دبا کر لاک کھول دیا۔ امامہ نے دروازہ کھول دیا۔ وہ اب پستول اپنی گود میں موجود بیگ میں رکھ رہی تھی۔ دونوں کے درمیان مزید کوئی بات نہیں ہوئی۔ امامہ نے گاڑی سے باہر نکل کر اس کا دروازہ بند کردیا۔ سالار نے اسے تیز قدموں کے ساتھ ایک قریب آتی ہوئی وین کی طرف جاتے اور پھر اس میں سوار ہوتے دیکھا۔
اس کی قوت مشاہدہ بہت تیز تھی… وہ کسی بھی شخص کے چہرے کو پڑھ سکتا تھا… اور اسے اس چیز پر بڑا زعم تھا… مگر وہاں اس دھند آلود سڑک پر گاڑی پر بیٹھے ہوئے اس نے اعتراف کیا۔ وہ امامہ ہاشم کو نہیں جان سکا تھا… وہ اگلے کئی منٹ اسٹیئرنگ پر دونوں ہاتھ رکھے بے یقینی کے عالم میں وہیں بیٹھا رہا تھا۔ امامہ ہاشم کے لیے اس کی ناپسندیدگی میں کچھ اور اضافہ ہوگیا تھا۔
وہ واپسی پر دھند کی پروا کیے بغیر پوری رفتار سے گاڑی چلا کر آیا تھا۔ پورا راستہ اس کا ذہن اسی اُدھیڑ بن میں لگا ہوا تھا کہ اس نے پستول آخر کہاں سے نکالا تھا۔ وہ پورے وثوق سے کہہ سکتا تھا کہ جس وقت وہ وضو کے لیے پاؤں دھو رہی تھی اس وقت وہ پستول اس کی پنڈل کے ساتھ نہیں تھا ورنہ وہ ضرور اسے دیکھ لیتا۔ بعد میں نماز پڑھنے کے دوران بھی وہ بغور اسے سر سے پاؤں تک دیکھتا رہا تھا، پستول تب بھی اس کی پنڈل کے ساتھ بندھا ہوا نہیں تھا۔ وہ برگر کھانے اور چائے پینے کے بعد گاڑی میں آکر بیٹھ گئی تھی اور وہ کچھ دیر بعد گاڑی میں آیا تھا۔ یہ یقینا گاڑی میں موجود اس کے بیگ میں ہی ہوگا۔ وہ اندازے لگاتا رہا۔
وہ جس وقت اپنے گھر پہنچا اس کا موڈ آف تھا۔ گیٹ سے گاڑی اندر لے جاتے ہوئے اس نے چوکیدار کو اپنی طرف بلایا۔ ”رات کو میں جس لڑکی کے ساتھ یہاں سے گیا تھا تم اس کے بارے میں کسی کو نہیں بتاؤگے بلکہ میں رات کو کہیں نہیں گیا، سمجھ میں آیا۔” اس نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
”جی… میں کسی کو نہیں بتاؤں گی۔” چوکیدار نے فرماں برداری سے سر ہلایا۔ وہ احمق نہیں تھا کہ ایسی چیزوں کے بارے میں کسی کو بتاتا پھرتا۔
اپنے کمرے میں آکر وہ اطمینان کے ساتھ سوگیا۔ اس کا اس دن کہیں جانے کا ارادہ نہیں تھا۔
٭…٭…٭
وہ اس وقت گہری نیند میں تھا، جب اس نے اچانک کسی کو اپنے کمرے کے دروازے کو زور زور سے بجاتے سنا۔ وہ یک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دروازہ واقعی بج رہا تھا۔ اس نے مندی ہوئی نظروں سے وال کلاک کو دیکھا جو چار بجا رہا تھا۔ اپنی آنکھوں کو رگڑتے ہوئے وہ اپنے بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسے دروازہ بجانے والے پر شدید غصہ آرہا تھا۔ اسی غصے کے عالم میں اس نے بڑبڑاتے ہوئے ایک جھٹکے کے ساتھ دروازہ کھول دیا۔ باہر ملازم کھڑا تھا۔
”کیا تکلیف ہے تمہیں… کیوں اس طرح دروازہ بجا رہے ہو؟ دروازہ توڑنا چاہتے ہو تم؟” وہ دروازہ کھولتے ہی ملازم پر چلایا۔
”سالار صاحب باہر پولیس کھڑی ہے۔” ملازم نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا۔ سالار کا غصہ اور نیند ایک منٹ میں غائب ہوگئے۔ ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں وہ پولیس کے وہاں آنے کی وجہ جان گیا تھا اور اسے ان کی اور امامہ کے گھر والوں کی اس مستعدی پر حیرت ہوئی تھی۔ آخر وہ چند گھنٹوں میں سیدھے اس تک کیسے پہنچ گئے تھے۔
”کس لیے آئی ہے پولیس؟” اس نے اپنی آواز کو پرسکون رکھتے ہوئے بے تاثر چہرے کے ساتھ پوچھا۔
”یہ تو جی پتا نہیں، وہ بس کہہ رہے ہیں کہ آپ سے ملنا ہے، مگر چوکیدار نے گیٹ نہیں کھولا۔ اس نے ان سے کہہ دیا ہے کہ آپ گھر پر نہیں ہیں مگر ان کے پاس آپ کے وارنٹ ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انہیں اندر نہیں آنے دیا گیا تو وہ زبردستی اندر آجائیں گے اور تمام لوگوں کو گرفتار کر کے لے جائیں گے۔”
سالار نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیا۔ چوکیدار نے واقعی بڑی عقل مندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسے یقینا یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ پولیس رات والی لڑکی کے معاملے میں ہی تفتیش کے لیے وہاں آئی تھی اس لیے اس نے نہ تو پولیس کواندر آنے دیا، نہ ہی انہیں یہ بتایا کہ سالار گھر پر موجود تھا۔
”تم فکر مت کرو۔ میں کچھ نہ کچھ کرتا ہوں۔” سالار نے ملازم سے کہا اور واپس اپنے بیڈ روم میں آگیا، وہ کسی عام شہری کا گھر ہوتا تو پولیس شاید دیواریں پھلانگ کر بھی اندر موجود ہوتی مگر اس وقت وارنٹ ہونے کے باوجود اس گھر کا سائز اور جس علاقے میں وہ واقع تھا انہیں خوف میں مبتلا کر رہے تھے۔ اگر امامہ کا خاندان بھی اثر و رسوخ والا نہیں ہوتا تو شاید اس وقت پولیس اس سیکٹر میں آنے اور خاص طور پر وارنٹ کے ساتھ آنے کی جرأت ہی نہ کرتی مگر اس وقت پولیس کے سامنے آگے کنواں پیچھے کھائی والی صورت تھی۔
سالار نے بیڈ روم کے اندر آتے ہی فون اٹھا کر کراچی سکندر عثمان کو فون کیا۔
”پاپا! ایک چھوٹا سا پرابلم ہوگیا ہے۔” اس نے چھوٹتے ہی کہا۔
”یہاں ہمارے گھر کے باہر پولیس کھڑی ہے اور ان کے پاس میرے گرفتاری کے وارنٹ ہیں۔”
سکندر عثمان کے ہاتھ سے موبائل گرتے گرتے بچا۔
”کیوں…؟”
”یہ تو پتا نہیں پایا… میں سو رہا تھا، ملازم نے جگا کر مجھے بتایا، کیا میں جاکر پولیس والوں سے پوچھوں کہ وہ کس سلسلے میں مجھے گرفتار کرنا چاہتے ہیں؟” سالار نے بڑی فرماں برداری اور معصومیت کے ساتھ سکندر عثمان سے پوچھا۔
”تمہیں باہر نکلنے یا پولیس کو اندر بلوانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنے کمرے میں ہی رہو۔ میں تھوڑی دیر بعد تمہیں رنگ کرتا ہوں۔” سکندر عثمان نے عجلت کے عالم میں موبائل بند کر دیا۔ سالار نے مطمئن ہوکر فون رکھ دیا وہ جانتا تھا کہ اب کچھ دیر بعد پولیس وہاں نہیں ہوگی اور واقعی ایسا ہی ہوا تھا۔ دس پندرہ منٹ کے بعد ملازم نے آکر اسے پولیس کے جانے کے بارے میں بتایا۔ ملازم ابھی اس سے بات کر ہی رہا تھا جب سکندر نے دوبارہ کال کی تھی۔
”پولیس چلی گئی ہے؟” سکندر نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”ہاں چلی گئی ہے۔” سالار نے بڑے اطمینان بھرے انداز میں کہا۔
”اب تم میری بات ٹھیک طرح سنو۔میں اور تمہاری ممی رات کو کراچی سے اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔ تم تب تک گھر سے کہیں نہیں نکلوگے… سنا تم نے۔” سالار کو ان کے بات کرنے کا انداز بہت عجیب سا لگا۔ انہوں نے بہت اکھڑ انداز اور سرد مہری سے اس سے بات کی تھی۔
”سن لیا…” وہ دوسری طرف سے فون بند کرچکے تھے۔
”سالار ابھی فون بند کر رہا تھا، جب اس کی نظر اپنے کمرے کے کارپٹ پر پڑی۔ وہاں جوتے کے نشانات تھے اور اس نے دیکھا کہ ملازم بھی قدرے حیرانی کے عالم میں ان نشانات کو دیکھ رہا تھا جو کھڑکی سے قطار کی صورت میں بڑھ رہے تھے۔
”جوتے کے ان نشانات کو صاف کردو۔” سالار نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
ملازم کمرے سے باہر چلا گیا، سالار اٹھ کر کھڑکی کی طرف آگیا اور اس نے وہ سلائیڈنگ ونڈو پوری طرح کھول دی۔ اس کا اندازہ ٹھیک تھا، جوتے کے وہ مٹی والے نشانات باہر برآمدے میں بھی موجود تھے۔ امامہ اپنی کیاریوں سے گزر کر دیوار پھلانگ کر ان کی کیاریوں میں کودی تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس کے جوتے کے تلے مٹی سے بھر گئے تھے۔ اوس کی وجہ سے وہ مٹی کم اور کیچڑ زیادہ تھی اور اس کے برآمدے کے سفید ماربل پر وہ نشانات بالکل ایک قطار کی صورت میں آرہے تھے۔ وہ ایک گہری سانس لیتا ہوا اندر آگیا، ملازم کمرے میں ان نشانات کو صاف کرنے میں مصروف تھا۔
”باہر برآمدے میں بھی پیروں کے کچھ نشانات ہیں انہیں ابھی صاف کردینا۔” سالار نے اس سے کہا۔
”یہ کس کے نشان ہیں۔” ملازم زیادہ دیر اپنے تجسس پر قابو نہیں رکھ سکا۔
”میرے…” سالار نے اکھڑ لہجے میں کہا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۳

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!