جویریہ اور رابعہ رات بھر سو نہیں سکیں۔ وہ مکمل طور پر خوف کی گرفت میں تھیں۔ اگر وہ نہ آئی تو کیا ہوگا، یہ سوال ان کے سامنے بار بار بھیانک شکلیں بدل بدل کر آرہا تھا۔ انہیں اپنا کیریئر ڈوبتا ہوا نظر آرہا تھا۔ انہیں اندازہ تھا کہ ان کے گھر والے ایسے معاملے پر کیسا رد عمل ظاہر کریں گے۔ وہ انہیں بری طرح ملامت کرتے، انہیں امامہ کے والد کو سب کچھ صاف صاف نہ بتانے پر تنقید کا نشانہ بناتے اور پھر وارڈن سے سارے معاملے کو چھپانے پر اور بھی ناراض ہوتے۔
انہیں اندازہ نہیں تھا کہ حقیقت سامنے آنے پر خود ہاشم مبین اور ان کی فیملی کا ردعمل کیا ہوگا، وہ اس سارے معاملے میں ان دونوں کے رول کو کس طرح دیکھیں گے۔ ہاسٹل میں لڑکیاں ان کے بارے میں کس طرح کی باتیں کریں گی اور پھر اگر یہ سارا معاملہ پولیس کیس بن گیا تو پولیس ان کی اس پردہ پوشی کو کیا سمجھے گی، وہ اندازہ کرسکتی تھی اور اسی لیے بار بار ان کے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے۔
مگر سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ گئی کہاں… وہ دونوں اس کے پچھلے رویوں کا تجزیہ کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ کس طرح پچھلے ایک سال سے وہ بالکل بدل گئی تھی، اس نے ان کے ساتھ گھومنا پھرنا بند کردیا تھا، وہ الجھی الجھی رہنے لگی تھی، پڑھائی میں اس کا انہماک بھی کم ہوگیا تھا اور اس کی کم گوئی۔
”اور وہ جو ایک بار وہ ہمارے شاپنگ کے لیے جانے پر پیچھے سے غائب تھی، تب بھی یقینا وہ وہیں گئی ہوگی جہاں وہ اب گئی ہے اور ہم نے کس طرح بے وقوفوں کی طرح اس پر اعتبار کرلیا۔” رابعہ کو پچھلی باتیں یاد آرہی تھیں۔
”مگر امامہ ایسی نہیں تھی، میں تو اسے بچپن سے جانتی ہوں۔ وہ ایسی بالکل بھی نہیں تھی۔” جویریہ کو اب بھی اس پر کوئی شک نہیں ہو رہا تھا۔
”ایسا ہونے میں کوئی دیر تھوڑی لگتی ہے، بس انسان کا کردار کمزو رہونا چاہیے۔” رابعہ بدگمانی کی انتہا پر پہنچی ہوئی تھی۔
”رابعہ! اس کی مرضی سے اس کی منگنی ہوئی تھی، وہ اور اسجد ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے پھر وہ اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتی ہے؟” جویریہ نے اس کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔
”پھر تم بتاؤ کہ وہ کہاں ہے… میں نے تو مکھی بنا کر اسے کسی دیوار کے ساتھ نہیں چپکایا ہے، اس کے بابا اس سے ملنے یہاں آئے ہیں اوروہ اپنے گھرسے آئے ہیں، تو ظاہر ہے وہ گھر پر نہیں گئی اور ہم سے وہ یہی کہہ کر گئی تھی کہ وہ گھر جا رہی ہے۔” رابعہ نے بے چارگی سے کہا۔
”ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ اسے کوئی حادثہ پیش آگیا ہو۔” ”ہوسکتا ہے، وہ اسی لیے گھر نہ پہنچ سکی ہو۔”
”وہ ہر بار یہاں سے فون کر کے اسلام آباد اپنے گھر والوں کو اپنے آنے کی اطلاع دے دیتی تھی تاکہ اس کا بھائی اسے کوسٹر کے اسٹینڈ سے پک کرلے۔ اگر اس بار بھی اس نے اسے اطلاع دی تھی تو پھر اس کے وہاں نہ پہنچنے پر وہ لوگ اطمینان سے وہاں نہ بیٹھے ہوتے، وہ یہاں ہاسٹل میں فون کرتے اور اس کے والد کے انداز سے تو ایسا محسوس ہوا ہے جیسے اس کا اس ویک اینڈ پر اسلام آباد کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔” رابعہ نے اس کے قیاس کو مکمل طورپر رد کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔ وہ کبھی بھی ایک ماہ میں دوبار اسلام آباد نہیں جاتی تھی، مگر اس بار تو وہ دوسرے ہی ہفتے اسلام آباد جا رہی تھی اوراس نے وارڈن سے خاص طور پر یہ کہہ کر اجازت لی تھی۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے، کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ ضرور غلط ہے۔” جویریہ کو پھر خدشات ستانے لگے۔
”اس کے ساتھ ساتھ ہم بھی بری طرح ڈوبیں گے۔ ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی جو ہم نے سب کچھ اس طرح کور اپ کیا، ہمیں صاف صاف بات کرنی چاہیے تھی اس کے والد سے کہ وہ یہاں نہیں ہے، پھر وہ جو چاہے کرتے۔ یہ ان کا مسئلہ ہوتا، کم از کم ہم تو اس طرح نہ پھنستے جس طرح اب پھنس گئے ہیں۔” رابعہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی۔
”خیر۔ اب کیا ہوسکتا ہے، صبح تک انتظار کرتے ہیں اگروہ کل بھی نہیں آئی تو پھر وارڈن کو سب کچھ بتادیں گے۔” جویریہ نے کمرے کے چکر لگاتے ہوئے کہا۔
وہ رات ان دونوں نے اسی طرح باتیں کرتے جاگتے ہوئے گزاری۔ اگلے دن وہ دونوں کالج نہیں گئیں۔ اس حالت میں کالج جانے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا۔
امامہ ویک اینڈ پر ہفتہ کو واپسی پر نو بجے کے قریب آجایا کرتی تھی مگر اس دن وہ نہیں آئی، ان کے اعصاب جواب دینے لگے، ڈھائی بجے کے قریب وہ فق رنگت اور کانپتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اپنے کمرے سے وارڈن کے کمرے میں جانے کے لیے نکل آئیں، ان کے ذہن میں وہ جملے گردش کر رہے تھے، جو انہیں وارڈن سے کہنے تھے۔
وہ وارڈن کے کمرے سے ابھی کچھ دور ہی تھیں جب انہوں نے امامہ کو بڑے اطمینان کے ساتھ اندر آتے دیکھا۔ اس کا بیگ اس کے کاندھے پر تھا اورفولڈر ہاتھوں میں، وہ یقینا سیدھی کالج سے آرہی تھی۔
جویریہ اوررابعہ کو یوں لگا جیسے ان کے پیروں کے نیچے سے نکلتی ہوئی زمین یک دم تھم گئی تھی۔ ان کی رکی ہوئی سانس ایک بار پھر چلنے لگی تھی۔ کل کے اخبارات میں متوقع وہ ہیڈ لائنز جو بھوت بن کر ان کے گرد ناچ رہی تھیں یک دم غائب ہوگئیں اور ان کی جگہ اس غصے نے لے لی تھی جو انہیں امامہ کی شکل دیکھ کر آیا تھا۔
وہ انہیں دیکھ چکی تھی اور اب ان کی طرف بڑھ رہی تھی، اس کے چہرے پر بڑی خوش گوار سی مسکراہٹ تھی۔
”تم دونوں آج کالج کیوں نہیں آئیں؟”سلام دعا کے بعد اس نے ان سے پوچھا۔
”تمہاری مصیبتوں سے چھٹکارا ملے گا تو ہم کہیں آنے جانے کا سوچ سکیں گے۔” رابعہ نے تند و تیز لہجے میں اس سے کہا۔
اِمامہ کے چہرے کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔
”کیا ہوا رابعہ، اس طرح غصے میں کیوں ہو؟” امامہ نے قدرے تشویش سے پوچھا۔
”تم ذرا اندر کمرے میں آؤ پھر تمہیں بتاتی ہوں کہ میں غصے میں کیوں ہوں؟” رابعہ نے اسے بازو سے پکڑ لیا اورتقریباً کھینچتے ہوئے کمرے میں لے آئی۔ جویریہ کچھ کہے بغیر ان دونوں کے پیچھے آگئی۔ اِمامہ ہکا بکا تھی وہ رابعہ اور جویریہ کے رویے کو سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی رابعہ نے دروازہ بند کر لیا۔
”کہاں سے آرہی ہو تم؟” رابعہ نے مڑ کر انتہائی تلخ اور درشت لہجے میں اس سے پوچھا۔
”اسلام آباد سے اور کہاں سے۔” امامہ نے اپنا بیگ نیچے زمین پر رکھ دیا اس کے جواب نے رابعہ کو کچھ اور مشتعل کیا۔
”شرم کرو اِمامہ… ! اس طرح ہمیں دھوکا دے کر، ہماری آنکھوں میں دھول جھونک کر آخر تم کیا ثابت کرنا چاہتی ہو۔ یہ کہ ہم ڈفر ہیں۔ ایڈیٹ ہیں۔ پاگل ہیں۔ بھئی ہم ہیں۔ ہم مانتے ہیں … نہ ہوتے تو یوں تم پر اندھا اعتبار نہ کیا ہوتا تم سے اتنا بڑا دھوکہ نہ کھایا ہوتا۔” رابعہ نے کہا۔
”مجھے تمہاری کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ کون سا دھوکا… کیسا دھوکا، کیا یہ بہتر نہیں کہ تم آرام سے مجھے اپنی بات سمجھاؤ۔” امامہ نے بے چارگی سے کہا۔
”تم ویک اینڈ کہاں گزار کر آئی ہو؟” جویریہ نے پہلی بار گفتگو میں مداخلت کی۔
”تمہیں بتا چکی ہوں اسلام آباد میں، وہاں سے آج سیدھا کالج آئی ہوں اور اب کالج سے …” رابعہ نے اسے با ت مکمل نہیں کرنے دی۔
”بکواس بند کرو… یہ جھوٹ اب نہیں چل سکتا، تم اسلام آباد نہیں گئی تھیں۔”
”یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو ؟” اس بار امامہ نے بھی قدرے بلند آواز میں کہا۔
”کیوں کہ تمہارے فادر یہاں آئے تھے کل” امامہ کا رنگ اڑ گیا۔ وہ کچھ بول نہیں سکی۔
”اب کیوں منہ بند ہوگیا ہے۔ اب بھی کہو کہ تم اسلام آباد سے آرہی ہو۔” رابعہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”بابا یہاں۔ آئے تھے؟” امامہ نے اٹکتے ہوئے کہا۔
”ہاں آئے تھے، تمہاری کچھ کپڑے دینے کے لیے۔” جویریہ نے کہا۔
”انہیں یہ پتا چل گیا کہ میں ہاسٹل میں نہیں ہوں۔”
”میں نے جھوٹ بول دیا کہ تم ہاسٹل سے کسی کام کے لیے باہر گئی ہو، وہ کپڑے دے کر چلے گئے۔” جویریہ نے کہا۔ امامہ نے بے اختیار اطمینان کا سانس لیا۔
”یعنی انہیں کچھ پتا نہیں چلا؟” اس نے بستر پر بیٹھ کر اپنے جوتے کے اسٹریپس کھولتے ہوئے کہا
”نہیں انہیں کچھ پتا نہیں چلا … تم منہ اٹھا کر اگلے ہفتے پھر کہیں روانہ ہو جانا۔ مائنڈ یو امامہ! میں اب وارڈن سے اس سلسلے میں بات کرنے والی ہوں۔ ہم تمہاری وجہ سے خاصی پریشانی اٹھا چکے ہیں، مزید اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بہتر ہے تمہارے پیرنٹس کو تمہاری ان حرکتوں کے بارے میں پتا چل جائے۔” رابعہ نے دو ٹوک انداز میں اس سے کہا۔ اِمامہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
”کون سی حرکتوں کے بارے میں … میں نے کیا کیا ہے؟”
”کیا کیا ہے…؟ ہاسٹل سے اس طرح دو دن کے لیے گھر کا کہہ کر غائب ہو جانا تمہارے نزدیک کوئی بڑی بات نہیں ہے۔”
”امامہ جواب دینے کے بجائے دوسرے جوتے کے بھی اسٹریپس کھولنے لگی۔
”مجھے وارڈن کے پاس چلے ہی جانا چاہیے۔”
رابعہ نے غصے کے عالم میں دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
جویریہ نے آگے بڑھ کر اسے روکا۔ ”وارڈن سے بات کرلیں گے، پہلے اس سے تو بات کرلیں۔ تم جلد بازی مت کرو۔”
”مگر تم اس ڈھیٹ کا اطمینان دیکھو… مجال ہے ذرہ برابر شرمندگی بھی اس کے چہرے پر جھلک رہی ہو۔” رابعہ نے غصے میں امامہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”میں تم دونوں کو سب کچھ بتاؤں گی۔ اتنا غصے میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا نہ ہی کسی غلط جگہ پر گئی ہوں اورہاں بھاگی بھی نہیں ہوں۔” امامہ نے جوتوں کی قید سے اپنے پیروں کو آزاد کرتے ہوئے قدرے دھیمے لہجے میں کہا۔
”پھر تم کہاں گئی تھیں؟” اس بار جویریہ نے پوچھا۔
”اپنی ایک دوست کے ہاں۔”
”کون سی دوست؟”
” ہے ایک۔”
”اس طرح جھوٹ بول کر کیوں؟”
”میں تم لوگوں کے سوالوں سے بچنا چاہتی تھی اور گھر والوں کو بتاتی یا ان سے اجازت لینے کی کوشش کرتی تووہ کبھی اجازت نہ دیتے۔”
”کس کے ہاں گئی تھیں؟ اور کس لیے؟” جویریہ نے اس بار قدرے تجسس آمیز انداز میں پوچھا۔
”میں نے کہا نا، میں بتادوں گی۔ کچھ وقت دو مجھے۔ ” امامہ نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”کوئی وقت نہیں دے سکتے تمہیں… تمہیں وقت دیں تاکہ ایک بار پھر غائب ہوجاؤ اور اس بار واپس نہ آؤ۔” رابعہ نے اس بار بھی ناراضی سے کہا مگر پہلے کی نسبت اس بار اس کا لہجہ دھیما تھا۔
“تمہیں تو اس بات کا بھی احساس نہیں ہواکہ تم نے ہماری پوزیشن کتنی آکورڈ بنا دی تھی، اگر تمہارے اس طرح غائب ہونے کا پتہ چل جاتا تو ہماری کتنی بے عزتی ہوتی۔ اس کا احساس تھا تمہیں؟” رابعہ نے اسی انداز میں کہا۔
”مجھے یہ توقع ہی نہیں تھی کہ بابا یہاں اس طرح اچانک آجائیں گے۔ اس لیے میں یہ بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ تم لوگوں کو کسی نازک صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ورنہ میں اس طرح کبھی نہ کرتی۔” اِمامہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”تم کم از کم ہم پر اعتبار کر کے، ہمیں بتا کر جاسکتی تھیں۔” جویریہ نے کہا۔
”میں آئندہ ایسا کبھی نہیں کروں گی۔” امامہ نے کہا۔
”کم از کم میں تمہارے کسی وعدے، کسی بات پر اعتبار نہیں کرسکتی۔” رابعہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
”مجھے اپنی پوزیشن کلیئر کرنے دورابعہ! تم مجھے غلط سمجھ رہی ہو۔” امامہ نے اس بار قدرے کمزور انداز میں کہا۔
”تم کو احساس ہے کہ تمہاری وجہ سے ہمارا کیریئر اور ہماری زندگی کس طرح داؤ پر لگ گئی تھی۔ یہ دوستی ہوتی ہے؟ اسے دوستی کہتے ہیں؟”
”ٹھیک ہے۔ مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے معاف کردو۔” اِمامہ نے جیسے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا۔
”جب تک تم یہ نہیں بتاؤگی کہ تم کہاں غائب ہوگئی تھیں، میں تمہاری کوئی معذرت قبول نہیں کروں گی۔” رابعہ نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
امامہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
”میں صبیحہ کے گھر چلی گئی تھی۔” جویریہ اور رابعہ نے حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھا۔
”کون…؟” ان دونوں نے تقریباً بیک وقت پوچھا۔
”تم لوگ جانتی ہو اسے۔” اِمامہ نے کہا۔
”وہ فورتھ ایئر کی صبیحہ؟” جویریہ نے بے اختیار پوچھا۔
امامہ نے سر ہلایا۔ ”مگر اسکے گھر کس لیے گئی تھیں تم؟”
”دوستی ہے اس سے میری۔” امامہ نے کہا۔
”دوستی…؟ کیسی دوستی…؟ چار دن کی سلام دعا ہے تمہارے ساتھ اس کی اور میرا خیال ہے تم تو اسے اچھی طرح جانتی بھی نہیں ہو پھر اس کے گھر رہنے کے لیے کیوں چل پڑیں؟” جویریہ نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔
”وہ بھی اس طرح جھوٹ بول کر… کم از کم اس کے گھر جاکر رہنے کے لیے تمہیں ہم سے یا اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔” رابعہ نے اسی لہجے میں کہا
”تم اسے کال کر کے پوچھ لو کہ میں اس کے گھر پر تھی یا نہیں…” امامہ نے کہا۔
”چلو یہ مان لیا کہ تم اس کے گھر پر تھیں مگر کیوں تھیں…؟” جویریہ نے پوچھا۔
”امامہ خاموش رہی پھر کچھ دیر بعد اس نے کہا ”مجھے اس کی مدد کی ضرورت تھی۔”
ان دونوں نے حیران ہوکر دیکھا ”کس سلسلے میں؟”
اِمامہ نے سر اٹھایا اور پلکیں جھپکائے بغیر دیکھتی رہی۔ جویریہ نے کچھ بے چینی محسوس کی۔ ”کس سلسلے میں؟”
”تم اچھی طرح جانتی ہو۔” امامہ نے قدرے مدھم انداز میں کہا۔
”میں…؟” جویریہ نے کچھ گڑبڑ ا کر رابعہ کو دیکھا جواب بڑی سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔
”ہاں، تم تو اچھی طرح جانتی ہو۔”
”تم پہیلیاں مت بجھواؤ۔ سیدھی اور صاف بات کرو۔” جویریہ نے قدرے سخت لہجے میں کہا۔ امامہ سر اٹھا کر خاموشی سے دیکھنے لگی پھر کچھ دیر بعد شکست خوردہ انداز میں اس نے سر جھکا دیا۔
٭…٭…٭
”بتاؤ نا۔ آخر تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟” اس دن کالج میں امامہ نے جویریہ سے اصرار کیا۔
”جویریہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔ ”میری خواہش ہے کہ تم مسلمان ہوجاؤ۔”
اِمامہ کو جیسے ایک کرنٹ سا لگا۔ اس نے شاک اور بے یقینی کے عالم میں جویریہ کو دیکھا۔ وہ دھیمے لہجے میں کہتی جا رہی تھی۔
”تم میری اتنی اچھی اور گہری دوست ہو کہ مجھے یہ سوچ کر تکلیف ہوتی ہے تم گمراہی کے راستے پر چل رہی ہو اورتمہیں اس کا احساس تک نہیں ہے… نہ صرف تم بلکہ تمہاری پوری فیملی… میری خواہش ہے کہ نیک اعمال پر اگر اللہ مجھے جنت میں بھیجے تو تم میرے ساتھ ہو لیکن اس کے لیے مسلمان ہونا تو ضروری ہے۔”
امامہ کے چہرے پر ایک کے بعد ایک رنگ آرہا تھا۔ بہت دیر بعد وہ کچھ بولنے کے قابل ہوسکی۔
”میں توقع نہیں کرسکتی تھی جویریہ کہ تم مجھ سے تحریم جیسی باتیں کروگی۔ تمہیں تو میں اپنا دوست سمجھتی تھی مگر تم بھی…” جویریہ نے نرمی سے اس کی بات کاٹ دی۔
”تحریم نے تم سے تب جو کچھ کہا تھا، ٹھیک کہا تھا۔” اِمامہ پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتی رہی، اسے جویریہ کی باتوں سے بہت تکلیف ہو رہی تھی۔
”اور صرف آج ہی نہیں، میں اس وقت بھی تحریم کو صحیح سمجھتی تھی مگر میری تمہارے ساتھ دوستی تھی اور میں چاہنے کے باوجود تم سے یہ نہیں کہہ سکی کہ میں تحریم کو حق بجانب سمجھتی ہوں۔ اگر وہ یہ کہتی تھی کہ تم مسلمان نہیں ہو تو یہ ٹھیک تھا۔ تم مسلمان نہیں ہو۔”
اِمامہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کچھ بھی کہے بغیر وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ جویریہ بھی اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ امامہ نے کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے جانے کی کوشش کی مگر جویریہ نے اس کا بازو پکڑ لیا۔
”تم میرا بازو چھوڑ دو… مجھے جانے دو، آئندہ کبھی تم مجھ سے بات تک مت کرنا۔” امامہ نے بھرائے ہوئے لہجے میں اس سے اپنا بازو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”امامہ! میری بات سمجھنے کی کوشش کرو… میں …”
امامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تم نے کتنا ہرٹ کیا ہے مجھے۔ جو یریہ مجھے کم از کم تم سے یہ امید نہیں تھی۔”
”میں تمہیں ہرٹ نہیں کر رہی ہوں۔ حقیقت بتا رہی ہوں۔ رونے یا جذبات میں آنے کے بجائے تم ٹھنڈے دل و دماغ سے میری بات پر سوچو… میں آخر تم کو بے کار کسی بات پر ہرٹ کیوں کروں گی۔” جویریہ نے اس کا بازو نہیں چھوڑا۔
”یہ تو تمہیں پتا ہوگا کہ تم مجھے ہرٹ کیوں کر رہی ہو، مگر مجھے آج یہ اندازہ ضرور ہوگیا ہے کہ تم میں اور تحریم میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ تم نے تو مجھے اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی ہے۔ اس سے میری دوستی اتنی پرانی نہیں تھی، جتنی تمہارے ساتھ ہے۔” امامہ کے گالوں پر آنسو بہہ رہے تھے اوروہ مسلسل اپنا بازو جویریہ کی گر فت سے آزاد کروانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”یہ تمہارا اصرار تھا کہ میں تمہیں اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاؤں۔ میں اسی لیے تمہیں نہیں بتا رہی تھی اورمیں نے تمہیں پہلے ہی متنبہ کر دیا تھا کہ تم میری بات پر بہت ناراض ہوگی مگر تم نے مجھے یقین دلایا تھا کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔” جویریہ نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی۔
”مجھے اگر یہ پتا ہوتا کہ تم میرے ساتھ اس طرح کی بات کروگی تو میں کبھی تم سے تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش جاننے پر اصرار نہ کرتی۔” امامہ نے اس بار قدرے غصے سے کہا۔
”اچھا میں دوبارہ اس معاملے پر تم سے بات نہیں کروں گی۔” جویریہ نے قدرے مدافعانہ انداز میں کہا۔
”اس سے کیا ہوگا۔ مجھے تو یہ پتا چل گیا ہے کہ تم در حقیقت میرے بارے میں کیا سوچتی ہو… ہماری دوستی اب کبھی بھی پہلے جیسی نہیں ہوسکتی۔ آج تک میں نے کبھی تم پر اس طرح کی تنقید نہیں کی مگر تم مجھے اسلام کا ایک فرقہ سمجھنے کے بجائے غیر مسلم بنا رہی ہو۔” امامہ نے کہا۔
”میں اگر ایسا کر رہی ہوں تو غلط نہیں کر رہی۔ اسلام کے تمام فرقے کم از کم یہ ایمان ضرور رکھتے ہیں کہ حضورﷺاللہ کے آخری رسول ہیں اور ان کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے۔” اس بار جویریہ کو بھی غصہ آگیا۔
”مائنڈ یور لینگویج۔”اِمامہ بھی بھڑک اٹھی۔
”میں تمہیں حقیقت بتا رہی ہوں امامہ … اور میں ہی نہیں یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ تمہاری فیملی نے روپے کے حصول کے لیے مذہب بدلا ہے۔”
”اِمامہ! میری باتوں پر اتنا ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹھنڈے دل و دماغ سے۔۔۔”
امامہ نے جویریہ کی بات کاٹ دی۔ ”مجھے ضرورت نہیں ہے تمہاری کسی بھی بات پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے کی۔ میں جانتی ہوں حقیقت کیا ہے اور کیا نہیں۔۔۔”
”تم نہیں جانتیں اور یہی افسوس ناک بات ہے۔” جویریہ نے کہا۔ اِمامہ نے جواب میں کچھ کہنے کے بجائے اس بار بہت زور کے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا اور تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے چل پڑی۔
اس بار جویریہ نے اس کے پیچھے جانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ کچھ افسوس اور پریشانی سے اسے دور جاتے دیکھتی رہی۔ اِمامہ اس طرح ناراض نہیں ہوتی تھی جس طرح وہ آج ہوگئی تھی اور یہی بات جویریہ کو پریشان کر رہی تھی۔
٭…٭…٭