پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۱

وسیم نے امامہ کو دور سے ہی لان میں بیٹھے دیکھ لیا۔ وہ کانوں پر ہیڈ فون لگائے واک مین پر کچھ سن رہی تھی۔ وسیم دبے قدموں اس کی پشت کی جانب سے اس کے عقب میں گیا اور اس کے پاس جاکر اس نے یک دم اِمامہ کے کانوں سے ہیڈ فون کے تار کھینچ لیے۔ اِمامہ نے برق رفتاری سے واک مین کا stopکا بٹن دبایا تھا۔
”کیا سنا جا رہا ہے یہاں اکیلے بیٹھے؟” وسیم نے بلند آواز میں کہتے ہوئے ہیڈ فون کو اپنے کانوں میں ٹھونس لیا مگر تب تک امامہ کیسٹ بند کرچکی تھی۔ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہوکر اس نے ہیڈ فون کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے وسیم سے کہا۔
”بدتمیزی کی کوئی حد ہوتی ہے وسیم! بی ہیو یور سیلف۔” اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہو رہا تھا۔ وسیم نے ہیڈ فون کے سروں کو نہیں چھوڑا، اِمامہ کے غصے کااس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”میں سننا چاہتا ہوں، تم کیا سن رہی تھیں۔ اس میں بدتمیزی والی کیا بات ہے، کیسٹ کو آن کرو۔”
”اِمامہ نے کچھ جھنجلاتے ہوئے ہیڈ فون کو واک مین سے الگ کر دیا۔ ”میں تمہارے سننے کے لیے واک مین لے کر یہاں نہیں بیٹھی، دفع ہو جاؤ یہ ہیڈ فون لے کر۔”
وہ ایک بار پھر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی، اس نے واک مین کو بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں جکڑا ہوا تھا۔
وسیم کو لگا جیسے وہ کچھ گھبرائی ہوئی ہے، مگر وہ گھبرائے گی کیوں؟ وسیم نے سوچا اور اس خیال کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے سامنے والی کرسی پر جاکر بیٹھ گیا۔ ہیڈ فون کو اس نے میز پر رکھ دیا۔
”یہ لو، اپنا غصہ ختم کرو، واپس کر رہا ہوں میں، تم سنو، جو بھی سن رہی ہو۔” اس نے بڑے صلح جویانہ انداز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”نہیں، اب مجھے نہیں سننا کچھ، تم ہیڈ فون رکھو اپنے پاس۔” امامہ نے ہیڈ فون کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔
”ویسے تم سن کیا رہی تھیں؟”
”کیا سنا جاسکتا ہے؟” اِمامہ نے اسی کے انداز میں کہا۔
”غزلیں سن رہی ہوگی؟” وسیم نے خیال ظاہر کیا۔
”تمہیں پتا ہے وسیم! تم میں بہت ساری عادتیں بوڑھی عورتوں والی ہیں؟”
”مثلاً”
”مثلاً بال کی کھال اُتارنا۔”
”اور۔”
”اور دوسروں کی جاسوسی کرتے پھرنا اور شرمندہ بھی نہ ہونا۔”
”اور تمہیں یہ پتا ہے کہ تم آہستہ آہستہ کتنی خود غرض ہوتی جا رہی ہو۔” وسیم نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا۔ امامہ نے اس کی بات پر برا نہیں مانا۔
”اچھا… تمہیں پتا چل گیا ہے کہ میں خود غرض ہوں؟” اس بار اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”حالاں کہ تم جتنے بے وقوف ہو میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ نتیجہ اخذ کرلوگے۔”
”تم اگر مجھے شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہی ہو تو مت کرو، میں شرمندہ نہیں ہوں گا۔” وسیم نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی ایسے کاموں کی کوشش تو ہر ایک پر فرض ہوتی ہے۔”
”آج تمہاری زبان کچھ زیادہ چل رہی؟” وسیم نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہوسکتا ہے۔”
”ہوسکتا ہے نہیں ایسا ہی ہے۔ چلو اچھا ہے، وہ چپ شاہ کا روزہ تو توڑ دیا ہے تم نے جو اسلام آباد آنے پر تم رکھ لیتی ہو۔” اِمامہ نے غور سے وسیم کو دیکھا۔
”کون سا چپ شاہ کا روزہ؟”
”تم جب سے لاہور گئی ہو خاصی بدل گئی ہو۔”
”مجھ پر اسٹڈیز کا بہت بوجھ ہے۔”
”سب پر ہوتا ہے امامہ! مگر کوئی بھی اسٹڈیز کو اتنا سرپر سوار نہیں کرتا۔” وسیم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”چھوڑو اس فضول بحث کو، یہ بتاؤ تم آج کل کیا کر رہے ہو؟”
”عیش۔” وہ اسی طرح کرسی جھلاتا رہا۔
”یہ تو تم پورا سال ہی کرتے ہو، میں آج کل کی خاص مصروفیت کا پوچھ رہی ہوں۔”
”آج کل تو بس دوستوں کے ساتھ پھر رہا ہوں۔ تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ پیپرز کے بعد میری مصروفیات کیا ہوتی ہیں۔ سب کچھ بھولتی جا رہی ہو تم۔” وسیم نے افسوس بھری نظروں سے کہا۔





”میں نے اس امید میں یہ سوال کیا تھا کہ شاید اس سال تم میں کوئی بہتری آجائے مگر نہیں، میں نے بے کارسوال کیا۔” اِمامہ نے اس کے تبصرے کے جواب میں کہا۔
”تمہیں پتا ہونا چاہیے کہ میں تم سے ایک سال بڑا ہوں، تم نہیں، اس لیے اب اپنی ملامتی تقریر ختم کردو۔” وسیم نے اسے کچھ جتاتے ہوئے کہا۔
”یہ ساتھ والوں کے لڑکے سے تعلقات کا کیا حال ہے؟” اِمامہ کو اچانک یاد آیا۔
”چوچو سے؟” بس کچھ عجیب سے ہی تعلقات ہیں۔” وسیم نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ ”بڑا عجیب سا بندہ ہے وہ، موڈ اچھا ہے، تو دوسرے کو ساتویں آسمان پر بٹھا دے گا، موڈ خراب ہے تو سیدھا گٹر میں پہنچا دے گا۔”
”تمہارے زیادہ تر دوست اسی طرح کے ہیں۔” اِمامہ نے مسکراتے ہوئے کہا ”کند ہم جنس باہم جنس پرواز۔”
”نہیں، خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے۔کم از کم میری عادتیں اور حرکتیں چوچو جیسی تونہیں ہیں۔”
”وہ تو باہر جانے والا تھا نا؟” اِمامہ کو اچانک یاد آیا۔
”ہاں جانا تو تھا مگر پتا نہیں میرا خیال ہے اس کے پیرنٹس نہیں بھجوا رہے۔”
”حلیہ بڑا عجیب سا ہوتا ہے اس کا۔ مجھے بعض دفعہ لگتا ہے ہپیوں کے کسی قبیلے سے کسی نہ کسی طرح اس کا تعلق ہوگا یا آئندہ ہوجائے گا۔”
”تم نے دیکھا ہے اسے؟”
”کل میں باہر سے آرہی تھی تو دیکھا تھا۔ وہ بھی اسی وقت باہر نکل رہا تھا، کوئی لڑکی بھی تھی ساتھ۔”
”لڑکی؟ جینز وغیرہ پہنی ہوئی تھی اس نے؟” وسیم نے اچانک دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔”
”مشروم کٹ بالوں والی… فیئر سی؟”
”ارسہ۔” وسیم چٹکی بجاتے ہوئے مسکرایا۔ ”اس کی گرل فرینڈ ہے۔”
”پچھلی دفعہ تو تم کسی اور کا نام لے رہے تھے۔” اِمامہ نے اسے گھورا۔
”پچھلی دفعہ کب؟” وسیم سوچ میں پڑ گیا۔
”سات آٹھ ماہ پہلے شاید تم سے اس کی گرل فرینڈ کی بات ہوئی تھی۔”
”ہاں تب شیبا تھی۔ اب پتا نہیں وہ کہاں ہے؟”
”اس بار تو گاڑی کے پچھلے شیشے پر اس نے اپنی موبائل کا نمبر بھی پینٹ کروایا ہوا تھا۔” امامہ ایک موبائل نمبر دہراتے ہوتے ہنسی۔
”تمہیں یاد ہے؟” وسیم بھی ہنسا۔
”میں نے زندگی میں پہلی بار اتنا بڑا موبائل نمبر کہیں لکھا دیکھا تھا اور وہ بھی ایک گاڑی کے شیشے پر اس کے نام کے ساتھ، یاد تو ہو نا ہی تھا۔” امامہ پھر ہنسی۔
”میں تو خود سوچ رہا ہوں اپنی گاڑی کے شیشے پر موبائل نمبر لکھوانے کا۔” وسیم نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
”کون سے موبائل کا۔ وہ جو تم نے ابھی خریدا بھی نہیں۔” اِمامہ نے وسیم کا مذاق اڑایا۔
”میں خرید رہا ہوں اس ماہ۔”
”بابا کے جوتے کھانے کے لیے تیار رہنا، اگر تم نے موبائل کے نمبر کو گاڑی کے شیشے پر لکھوایا سب سے پہلا فون ان ہی کا آئے گا۔”
”بس اسی لیے ہر بار میں رک جاتا ہوں۔” وسیم نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔
”یہ تمہارے لیے اچھا ہی ہے۔ بابا سے ہڈیاں تڑوانے سے بہتر ہے کہ بندہ اپنے جذبات پر کچھ قابو رکھے اور تمہارے لیے تو خطرات ویسے بھی زیادہ ہیں۔ سمیعہ کو پتا چلانا اگر اس قسم کے کسی موبائل فون کا تو…” وسیم نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تو کیا کرے گی وہ، میں اسے ڈرتا نہیں ہوں۔”
”میں جانتی ہوں تم اس سے ڈرتے نہیں ہو، مگر چھ بھائیوں کی اکلوتی بہن سے منگنی کرنے سے پہلے تمہیں تمام نفع نقصان پر غور کرلینا چاہیے تھا، جن کا سامنا تمہیں کسی ایسی ویسی حرکت کے بعد ہوسکتا ہے۔” اِمامہ نے ایک بار پھر اس کی منگیتر کا حوالہ دیتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔
”اب کیا کیا جاسکتا ہے۔ بس میرے مقدر میں تھا یہ سب کچھ۔” وسیم نے ایک مصنوعی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
”مجھے کبھی بھی موبائل فون نہیں خریدنا چاہیے کیوں کہ یہ میرے کسی کام نہیں آسکے گا۔ کم از کم جہاں تک گرل فرینڈ کی تلاش کا سوال ہے۔” وہ ایک بار پھر کرسی جھلانے لگا۔
”دیر سے سہی مگر بات تمہاری سمجھ میں آہی گئی۔” امامہ نے ہاتھ بڑھا کر میز سے ہیڈ فون اٹھاتے ہوئے کہا۔
”ویسے تم سن کیا رہی تھیں؟”وسیم کو اسے ہیڈفون اٹھاتے دیکھ کر پھر یاد آیا۔
”ویسے ہی کچھ خاص نہیں تھا۔” اِمامہ نے اٹھتے ہوئے اسے جیسے ٹالا۔
٭…٭…٭
”آپ لاہور جا رہے ہیں تو واپسی پر امامہ کے ہاسٹل چلے جائیں، یہ کچھ کپڑے ہیں اس کے، درزی سے لے کر آئی ہوں، آپ اسے دے آئیں۔” سلمیٰ نے ہاشم سے کہا۔
”بھئی۔ میں بڑا مصروف ہوں گا لاہور میں، کہاں آتا جاتا پھروں گا اس کے ہاسٹل۔” ہاشم کو قدرے تامل ہوا۔
”آپ ڈرائیور کو ساتھ لے کر جا رہے ہیں، خود نہیں جاسکتے تو اسے بھیج دیجئے گا، وہ دے آئے گا یہ پیکٹ۔ سیزن ختم ہو رہا ہے پھر یہ کپڑے اسی طرح پڑے رہیں گے۔ اس کا تو پتا نہیں اب کب آئے۔” سلمیٰ نے لمبی چوڑی وضاحت کی۔
”اچھا ٹھیک ہے، میں لے جاتا ہوں۔ فرصت ملی تو خود دے آؤں گا، ورنہ ڈرائیور کے ہاتھ بھجوا دوں گا۔” ہاشم رضامند ہوگئے۔
لاہور میں انہوں نے خاصا مصروف دن گزارا۔ شام پانچ بجے کے قریب انہیں کچھ فرصت ملی اور تب انہیں اس پیکٹ کا بھی خیال آگیا۔ ڈرائیور کو پیکٹ لے جانے کا کہنے کے بجائے وہ خود اِمامہ کے ہاسٹل چلے آئے۔ اس کے ایڈمیشن کے بعد آج پہلی بار وہ وہاں آئے تھے۔ گیٹ کیپر کے ہاتھ انہوں نے امامہ کے لیے پیغام بھجوایا اور خود انتظار کرنے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی آجائے گی مگر ایسا نہ ہوا، دس منٹ، پندرہ منٹ، بیس منٹ… وہ اب کچھ بیزار ہونے لگے۔ اس سے پہلے کہ وہ اندر دوبارہ پیغام بھجواتے انہیں گیٹ کیپر ایک لڑکی کے ساتھ آتا دکھائی دیا۔ کچھ قریب آنے پر انہوں نے اس لڑکی کو پہچان لیا وہ جویریہ تھی امامہ کی بچپن کی دوست اور اس کا تعلق بھی اسلام آباد سے ہی تھا۔
”السلام علیکم انکل!” جویریہ نے پاس آکر کہا۔
”وعلیکم السلام بیٹا! کیسی ہو تم؟”
”میں ٹھیک ہوں۔”
”میں یہ اِمامہ کے کچھ کپڑے دینے آیا تھا، لاہور آرہا تھا تو اس کی امی نے یہ پیکٹ دے دیا۔ اب یہاں بیٹھے مجھے گھنٹہ ہوگیا ہے مگر انہوں نے اسے نہیں بلایا۔” ہاشم کے لہجے میں شکوہ تھا۔
”انکل! اِمامہ مارکیٹ گئی ہے کچھ دوستوں کے ساتھ، آپ یہ پیکٹ مجھے دے دیں، میں خود اسے دے دوں گی۔”
”ٹھیک ہے، تم رکھ لو۔” ہاشم نے وہ پیکٹ جویریہ کی طرف بڑھا دیا۔
رسمی علیک سلیک کے بعد وہ واپس مڑ گئے۔ جویریہ بھی پیکٹ پکڑ کر ہاسٹل کی طرف چلی گئی مگر اب اس کے چہرے پر موجود مسکراہٹ غائب ہوچکی تھی، کوئی بھی اس وقت اس کے چہرے پر پریشانی کو واضح طور پر بھانپ سکتا تھا۔
ہاسٹل کے اندر آتے ہی وارڈن سے اس کا سامنا ہوگیا، جو سامنے ہی کھڑی تھیں، جویریہ کے چہرے پر ایک بار پھر مسکراہٹ آگئی۔
”بات ہوئی تمہاری اس کے والد سے؟” وارڈن نے اسے دیکھتے ہی اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
”جی بات ہوئی، پریشانی والا کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ اسلام آباد میں اپنے گھر پر ہی ہے، اس کے والد یہ پیکٹ لے کر آئے تھے، میرے گھر والوں نے میرے کچھ کپڑے بھجوائے ہیں۔ انکل لاہور آرہے تھے، تو امامہ نے کہا کہ وہ لے جائیں۔ انکل نے غلطی سے یہاں آکر میرا نام لینے کے بجائے امامہ کا نام لے دیا۔”جویریہ نے ایک ہی سانس میں کئی جھوٹ روانی سے بولے۔
”وارڈن نے سکون کا سانس لیا۔ ”خدا کا شکر ہے ورنہ میں تو پریشان ہی ہوگئی تھی کہ مجھے تو وہ ویک اینڈ پر گھر جانے کا کہہ کر گئی ہے… تو پھر وہ کہاں ہے؟”
وارڈن نے مڑتے ہوئے کہا۔ جویریہ پیکٹ پکڑے اپنے کمرے کی طرف چلی آئی۔ رابعہ اسے دیکھتے ہی تیر کی طرح اس کی طرف آئی۔
”کیا ہوا… اسلام آباد میں ہی ہے وہ؟”
”نہیں۔” جویریہ نے مایوسی سے سر ہلایا۔
”مائی گاڈ۔” رابعہ نے بے یقینی سے اپنے دونوں ہاتھ کراس کر کے سینے پر رکھے۔” تو پھر کہاں گئی ہے وہ؟”
”مجھے کیا پتا مجھ سے تو اسنے یہی کہا تھا کہ گھر جا رہی ہے، مگر وہ گھر نہیں گئی، آخر وہ گئی کہاں ہے؟ اِمامہ ایسی تو نہیں ہے۔” جویریہ نے پیکٹ بستر پر پھینکتے ہوئے کہا۔
”وارڈن سے کیا کہا تم نے؟” رابعہ نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا۔
”کیا کہا؟ جھوٹ بولا ہے اور کیا کہہ سکتی ہوں۔ یہ بتا دیتی کہ وہ اسلام آباد میں نہیں ہے تو ہاسٹل میں تو ابھی ہنگامہ شروع ہو جاتا، وہ تو پولیس کو بلوا لیتیں۔” جویریہ نے ناخن کاٹتے ہوئے کہا۔
”اور انکل کو … ان کو کیا بتایا ہےَ” رابعہ نے پوچھا۔
”ان سے بھی جھوٹ بولا ہے، یہی کہا ہے کہ وہ مارکیٹ گئی ہے۔”
”مگر اب کیا ہوگا؟” رابعہ نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”مجھے تو یہ فکر ہو رہی ہے کہ اگر وہ واپس نہ آئی تو میں تو بری طرح پکڑی جاؤں گی۔ سب یہی سمجھیں گے کہ مجھے اس کے پروگرام کا پتا تھا، اس لیے میں نے وارڈن اور اس کے گھر والوں سے سب کچھ چھپایا۔” جویریہ کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔
”کہیں امامہ کو کوئی حادثہ ہی پیش نہ آگیا ہو؟ ورنہ وہ ایسی لڑکی تو نہیں ہے کہ اس طرح …” رابعہ کو اچانک ایک خدشے نے ستایا۔
”مگر اب ہم کیا کریں۔ ہم تو کسی سے اس سارے معاملے کو ڈسکس بھی نہیں کرسکتے۔” جویریہ نے ناخن کترتے ہوئے کہا۔
”زینب سے بات کریں۔” رابعہ نے کہا۔
”فارگارڈ سیک رابعہ! کبھی تو عقل سے کام لیا کرو، اس سے کیا بات کریں گے ہم۔” جویریہ نے جھنجلا کر کہا۔
”تو پھر انتظار کرتے ہیں، ہوسکتا ہے وہ آج رات تک یا کل تک آجائے اگر آگئی پھر تو کوئی مسئلہ نہیں رہے گا اور اگر نہ آئی تو پھر ہم وارڈن کو سب کچھ سچ مچ بتا دیں گے۔” رابعہ نے سنجیدگی سے سارے معاملے پر غور کرتے ہوئے طے کیا۔ جویریہ نے اسے دیکھا مگر اس کے مشورے پر کچھ کہا نہیں۔ پریشانی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

عمراں لنگیاں پباں پار — ماہ وش طالب

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!