”جویریہ! پروفیسر امتنان کے لیکچر کے نوٹس مجھے دینا” امامہ نے جویریہ کو مخاطب کیا جو ایک کتاب کھولے بیٹھی ہوئی تھی۔ جویریہ نے ہاتھ بڑھا کر اپنی ایک نوٹ بک اسے تھما دی۔ امامہ نوٹ بک کھول کر صفحے پلٹنے لگی، جویریہ ایک بار پھر کتاب کے مطالعے میں مصروف ہوگئی۔ کچھ دیر بعد اچانک اسے جیسے ایک خیال آیا تھا۔ اس نے مڑکر اپنے بستر پر بیٹھی ہوئی امامہ کو دیکھا۔
”تم نے لیکچر نوٹ کرنا کیوں بند کردیا ہے؟” اس نے امامہ کو مخاطب کیا۔ اِمامہ نے نوٹ بک سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
”مجھے کچھ سمجھ میں آئے تو میں نوٹ کروں۔”
”کیا مطلب؟ تمہیں پروفیسر امتنان کا لیکچر بھی سمجھ میں نہیں آتا۔” جویریہ کو جیسے حیرت ہوئی۔ ”اتنا اچھا تو پڑھاتے ہیں۔”
”میں نے کب کہا کہ برا پڑھاتے ہیں، بس مجھے۔۔۔”
اس نے کچھ الجھے ہوئے لہجے میں بات ادھوری چھوڑ دی۔ وہ ایک بار پھر ہاتھ میں پکڑی نوٹ بک کو دیکھ رہی تھی۔ جویریہ نے غور سے اسے دیکھا۔
”تم آج کل کچھ غائب دماغ نہیں ہوتی جارہیں؟ ڈسٹرب ہو کسی وجہ سے؟” جو یریہ نے اپنے سامنے رکھی کتاب بند کرتے ہوئے بڑے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔
”ڈسٹرب؟” وہ بڑبڑائی۔ ”نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔”
”تمہاری آنکھوں کے گرد حلقے بھی پڑے ہوئے ہیں۔ کل رات کو شاید ساڑھے تین کا وقت تھا، جب میری آنکھ کھلی اور تم اس وقت بھی جاگ رہی تھیں۔”
”میں پڑھ رہی تھی۔” اس نے مدافعانہ لہجے میں کہا۔
”نہیں، صرف کتاب اپنے سامنے رکھے بیٹھی ہوئی تھیں، مگر کتاب پر نظر نہیں تھی تمہاری۔” جویریہ نے اس کا عذر رد کرتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟”
”کیا مسئلہ ہوسکتا ہے مجھے؟”
”پھر تم اتنی چپ چپ کیوں رہنے لگی ہو؟” جویریہ اس کی ٹال مٹول سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔
”نہیں، میں کیوں چپ رہوں گی۔” امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔ ”میں تو پہلے ہی کی طرح بولتی ہوں۔”
”صرف میں ہی نہیں، باقی سب بھی تمہاری پریشانی کو محسوس کر رہے ہیں۔” جویریہ سنجیدگی سے بولی۔
”کوئی بات نہیں، صرف اسٹڈیز کی ٹینشن ہے مجھے۔”
”میں یقین نہیں کرسکتی ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں، تمہیں ہم سے زیادی ٹینشن تو نہیں ہوسکتی۔” جویریہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ اِمامہ نے ایک گہرا سانس لیا، وہ اب زچ ہو رہی تھی۔
”تمہارے گھر میں تو خیریت ہے نا؟”
”ہاں، بالکل خیریت ہے۔”
”اسجد کے ساتھ تو کوئی جھگڑا نہیں ہوا”
”اسجد کے ساتھ جھگڑا کیوں ہوگا؟” امامہ نے اسی کے انداز میں پوچھا۔
”پھر بھی اختلافات تو ایک بہت ہی …”جویریہ کی بات اس نے درمیان میں ہی کاٹ دی۔
”جب کہہ رہی ہوں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے تو تمہیں یقین کیوں نہیں آرہا۔ اتنے سالوں سے کون سی بات ہے جو میں نے تم سے شیئر نہیں کی یا جو تمہیں پتا نہیں ہے پھر تم اس طرح مجھے مجرم سمجھ کر تفتیش کیوں کر رہی ہو۔” وہ اب خفا ہو رہی تھی۔
جویریہ گڑبڑا گئی۔ ”یقین کیوں نہیں کروں گی، میں صرف اس لیے اصرار کر رہی تھی کہ شاید تم مجھے اس لیے اپنا مسئلہ نہیں بتا رہیں کہ میں پریشان نہ ہوں اور تو کوئی بات نہیں۔”
جویریہ کچھ نادم سی ہوکر اس کے پاس سے اٹھ کر واپس اپنی اسٹڈی ٹیبل کے سامنے جا بیٹھی۔ اس نے ایک بار پھر وہ کتاب کھول لی جسے وہ پہلے پڑھ رہی تھی۔ کافی دیر تک کتاب پڑھتے رہنے کے بعد اس نے ایک جما ہی لی اور گردن موڑ کر لاشعوری طور پر امامہ کو دیکھا۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے اس کی نوٹ بک کھولے بیٹھی تھی مگر اس کی نظریں نوٹ بک پر نہیں تھیں وہ سامنے والی دیوار پر نظریں جمائے بیٹھی تھی۔
٭…٭…٭
اس نے گاڑی نہر کے پل سے کچھ فاصلے پر کھڑی کردی پھر ڈگی سے ایک بوری اور رسی نکال لی۔ وہ بوری کو کھینچتے ہوئے اس پل کی طرف بڑھتا رہا۔ پاس سے گزرنے والے کچھ راہ گیروں نے اسے دیکھا مگر وہ رکے نہیں، اوپر پہنچ کر اس نے اپنی شرٹ اُتار کر نہر میں پھینک دی۔ چند لمحوں میں اس کی شرٹ بہتے پانی کے ساتھ غائب ہوچکی تھی۔ ڈارک بلو کلر کی تنگ جینز میں اس کا لمبا قد اور خوب صورت جسم بہت نمایاں تھا۔
اس وقت اس شخص کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر تھا، جسے پڑھنا دوسرے کسی بھی شخص کے لیے ناممکن تھا۔ اس کی عمر انیس بیس سال ہوگی، مگر اس کے قد و قامت اور حلیے نے اس کی عمر کو جیسے بڑھا دیا تھا۔ اس نے رسی پل سے نیچے نہر میں لٹکانی شروع کردی، جب رسی کا سرا پانی میں غائب ہوگیا تو اس نے رسی کا دوسرا سرا بوری کے منہ پر لپیٹ کر سختی سے گرہیں لگانی شروع کردیں اور اس وقت تک لگاتا رہا جب تک کوائل ختم نہیں ہوگیا پھر پانی میں پڑا سر واپس کھینچ کر اس نے اندازے سے تین فٹ کے قریب رسی چھوڑی اور اپنے دونوں پیر ساتھ جوڑتے ہوئے اس نے اپنے پیروں کے گرد رسی کو بہت مضبوطی کے ساتھ اس نے دو پھندے بنائے پھر اچک کر پل کی منڈیر پر بیٹھ گیا۔ اپنا دایاں ہاتھ کمر کے پیچھے لے جاتے ہوئے اس نے بائیں ہاتھ کے ساتھ پہلے پھندے میں سے دایاں ہاتھ گزارا اور پھر بائیں ہاتھ کے ساتھ اس نے وہ پھندا کھینچ کر کس دیا۔ اس کے بعد اس نے کمر کے پیچھے دائیں ہاتھ کے ساتھ دوسرے پھندے میں سے بایاں ہاتھ گزارا اور دائیں ہاتھ سے اسے کس دیا۔
اس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے پشت کے بل خود کو پل کی منڈیر سے نیچے گرا دیا۔ ایک جھٹکے کے ساتھ اس کا سر پانی سے ٹکرایا اور کمر تک کا حصہ پانی میں ڈوب گیا پھر رسی ختم ہوگئی۔ اب وہ اس طرح لٹکا ہوا تھا کہ اس کے بازو پشت پر بندھے ہوئے تھے اور کمر تک کا دھڑ پانی کے اندر تھا۔ بوری میں موجود وزن یقینا اس کے وزن سے زیادہ تھا یہی وجہ تھی کہ بوری اس کے ساتھ نیچے نہیں آئی اور وہ اس طرح لٹک گیا۔ اس نے اپنا سانس روکا ہوا تھا۔ پانی کے اندر اپنا سر جاتے ہی اس نے آنکھیں کھلی رکھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ پانی گدلا تھا اور اس میں موجود مٹی اس کی آنکھوں میں چبھنے لگی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ اس کے پھیپھڑے اب جیسے پھٹنے لگے تھے۔ اس نے یک دم سانس لینے کی کوشش کی اورپانی منہ اور ناک سے اس کے جسم کے اندر داخل ہونے لگا۔ وہ اب بری طرح پھڑپھڑا رہا تھا مگر نہ وہ اپنے بازوؤں کو استعمال کر کے خود کو سطح پر لا سکتا تھا اور نہ ہی اپنے جسم کو اٹھا سکتا تھا۔ اس کے جسم کی پھڑپھڑاہٹ آہستہ آہستہ دم توڑ رہی تھی۔
چند لوگوں نے اسے پل سے نیچے گرتے دیکھا اور چیختے ہوئے اس طرف بھاگے، رسی ابھی تک ہل رہی تھی، ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ پانی کے نیچے ہونے والی حرکت اب دم توڑ گئی تھی۔ اس کی ٹانگیں اب بالکل بے جان نظر آرہی تھیں۔ پل پر کھڑے لوگ خوف کے عالم میں اس بے جان وجود کو دیکھ رہے تھے۔ پل پر موجود ہجوم بڑھ رہا تھا۔ نیچے پانی میں موجود وہ وجود ابھی بھی ساکت تھا۔ صرف پانی اسے حرکت دے رہا تھا۔ کسی پنڈولم کی طرح … آگے پیچھے… آگے پیچھے… آگے پیچھے۔
٭…٭…٭
”اِمامہ جلدی سے تیار ہوجاؤ۔” رابعہ نے اپنی الماری سے اپنا ایک سوٹ نکال کر بیڈ پر پھینکتے ہوئے کہا۔
امامہ نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا۔ ”کس لیے تیار ہوجاؤں؟”
”بھئی، شاپنگ کے لیے جا رہے ہیں، ساتھ چلو۔” رابعہ نے اسی تیز رفتاری کے ساتھ استری کا پلک نکالتے ہوئے کہا۔
”نہیں، مجھے کہیں نہیں جانا۔” اس نے ایک بار پھر اپنی آنکھوں پر اپنا بازو رکھتے ہوئے کہا۔ وہ اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔
”کیا مطلب ہے… مجھے کہیں نہیں جانا… تم سے پوچھ کون رہا ہے… تمہیں بتا رہے ہیں۔” رابعہ نے اسی لہجے میں کہا۔
”اور میں نے بتا دیا ہے، میں کہیں نہیں جا رہی۔” اس نے آنکھوں سے بازو ہٹائے بغیر کہا۔
”زینب بھی چل رہی ہے ہمارے ساتھ، پورا گروپ جا رہا ہے۔ فلم بھی دیکھیں گے واپسی پر۔” رابعہ نے پورا پروگرام بتاتے ہوئے کہا۔
اِمامہ نے ایک لحظہ کے لیے اپنی آنکھوں سے بازو ہٹا کر اسے دیکھا۔ ”زینب بھی جا رہی ہے؟”
”ہاں! زینب کو ہم راستے سے پک کریں گے۔” امامہ کسی سوچ میں ڈوب گئی۔
”تم بہت ڈل ہوتی جا رہی ہو امامہ!” رابعہ نے قدرے ناراضی کے ساتھ تبصرہ کیا۔ ”ہمارے ساتھ کہیں آنا جانا ہی چھوڑ دیا ہے تم نے، آخر ہو تا کیا جا رہا ہے تمہیں۔”
”کچھ نہیں، بس میں آج کچھ تھکی ہوئی ہوں، اس لیے سونا چاہ رہی ہوں۔” امامہ نے بازو ہٹا کر اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر بعد جویریہ بھی اندر آگئی اور وہ بھی اسے ساتھ چلنے کے لیے مجبور کرتی رہی، مگر امامہ کی زبان پر ایک ہی رٹ تھی۔ ”نہیں مجھے سونا ہے، میں بہت تھک گئی ہوں۔” وہ مجبوراً اسے برا بھلا کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں۔
رستے سے انہوں نے زینب کو اس کے گھر سے پک کیا اور زینب کو پک کرتے ہوئے جویریہ کو یاد آیا کہ اس کے بیگ کے اندر اس کا والٹ نہیں ہے، وہ اسے ہاسٹل میں ہی چھوڑ آئی تھی۔
”واپس ہاسٹل چلتے ہیں، وہاں سے والٹ لے کر پھر بازار چلیں گے۔” جویریہ کے کہنے پر وہ لوگ دوبارہ ہاسٹل چلی آئیں، مگر وہاں آکر انہیں حیرانی کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ کمرے کے دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔
”یہ اِمامہ کہاں ہےَ” رابعہ نے حیرانی سے کہا۔
”پتا نہیں۔ کمرہ لاک کر کے اس طرح کہاں جاسکتی ہے۔ وہ تو کہہ رہی تھی کہ اسے سونا ہے۔” جویریہ نے کہا۔
”ہاسٹل میں تو کسی کے روم میں نہیں چلی گئیَ” رابعہ نے خیال ظاہر کیا۔ وہ دونوں اگلے کئی منٹ ان واقف لڑکیوں کے کمروں میں جاتی رہیں، جن سے ان کی ہیلو ہائے تھی، مگر اِمامہ کا کہیں پتا نہیں تھا۔
”کہیں ہاسٹل سے باہر تو نہیں گئی؟” رابعہ کو اچانک خیال آیا۔
”آؤ وارڈن سے پوچھ لیتے ہیں۔” جویریہ نے کہا، وہ دونوں وارڈن کے پاس چلی آئیں۔
”ہاں، امامہ ابھی کچھ دیر پہلے باہر گئی ہے” وارڈن نے ان کی انکوائری پر بتایا، جویریہ اور رابعہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگیں۔
”وہ کہہ رہی تھی شام کو آئے گی۔” وارڈن نے انہیں مزید بتایا، وہ دونوں، وارڈن کے کمرے سے نکل آئیں۔
”یہ گئی کہاں ہے؟ ہمارے ساتھ تو جانے سے انکار کر دیا تھا کہ اسے سونا ہے اور وہ تھکی ہوئی ہے اور اس کی طبیعت خراب ہے، اور اب اس طرح غائب ہوگئی ہے۔” رابعہ نے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
رات کو وہ قدرے لیٹ واپس آئیں اور جس وقت وہ واپس آئیں۔ امامہ کمرے میں موجود تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے ان دونوں کا استقبال کیا۔
”لگتا ہے۔ خاصی شاپنگ ہوئی ہے آج۔” اس نے ان دونوں کے ساتھ پکڑے ہوئے شاپرز کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ان دونوں نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا، بس شاپرز رکھ کر اسے دیکھنے لگیں۔
”تم کہاں گئی ہوئی تھیں؟” جویریہ نے اس سے پوچھا۔ اِمامہ کو جیسے ایک جھٹکا لگا۔
”میں اپنا والٹ لینے واپس آئی تھی تو تم یہاں نہیں تھیں، کمرہ لاکڈ تھا۔” جویریہ نے اسی انداز میں کہا۔
”میں تم لوگوں کے پیچھے گئی تھی۔”
”کیا مطلب؟” جویریہ نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کہا۔
”تمہارے نکلنے کے بعد میرا ارادہ بدل گیا تھا۔ میں یہاں سے زینب کی طرف گئی کیوں کہ تم لوگوں کو اسے پک کرنا تھا، مگر اس کے چوکیدار نے بتایا کہ تم لوگ پہلے ہی وہاں سے نکل گئے ہو، پھر میں وہاں سے واپس آگئی۔ بس رستے میں کچھ کتابیں لی تھیں میں نے۔” اِمامہ نے کہا۔
”دیکھا۔ تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ ہمارے ساتھ چلو مگر اس وقت تم نے فوراً انکار کردیا، بعد میں بے وقوفوں کی طرح پیچھے چل پڑیں۔ ہم لوگ تو مشکوک ہوگئے تھے تمہارے بارے میں۔” رابعہ نے کچھ اطمینان سے ایک شاپر کھولتے ہوئے کہا۔
اِمامہ نے کوئی جواب نہیں دیا، وہ صرف مسکراتے ہوئے ان دونوں کو دیکھتی رہی۔ وہ دونوں اب اپنے شاپر کھولتے ہوئے خریدی ہوئی چیزیں اسے دکھا رہی تھیں۔
٭…٭…٭
”تمہارا نام کیا ہے؟”
”پتا نہیں؟”
”ماں باپ نے کیا رکھا تھا؟”
”یہ ماں باپ سے پوچھیں۔” … خاموشی۔
”لوگ کس نام سے پکارتے ہیں تمہیں؟”
”لڑکے یا لڑکیاں؟”
”لڑکے؟”
”بہت سارے نام لیتے ہیں۔”
”زیادہ تر کون سا نام پکارتے ہیں؟”
”daredevil…” خاموشی…
”اور لڑکیاں؟”
”وہ بھی بہت سے نام لیتی ہیں۔”
”زیادہ تر کس نام سے پکارتی ہیں؟”
”یہ میں نہیں بتا سکتا۔ it’s too personal” (یہ بالکل ذاتی ہے)۔
گہری خاموشی… طویل سانس… پھر خاموشی۔
”میں آپ کو ایک مشورہ دوں؟”
”کیا؟”
”آپ میرے بارے میں وہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے جو نہ آپ پہلے جانتے ہیں نہ میں۔ آپ کے دائیں طرف ٹیبل پر جو سفید فائل پڑی ہے اس میں میرے سارے particulars موجود ہیں پھر آپ وقت ضائع کیوں کر رہے ہیں؟”
سائیکو انالسٹ نے اپنے پاس موجود ٹیبل لیمپ کی روشنی میں سامنے کاؤچ پر دراز اس نوجوان کو دیکھا جو اپنے پیر مسلسل ہلا رہا تھا، اس کے چہرے پر گہرا اطمینان تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سائیکلو انالسٹ کے ساتھ ہونے والی اس ساری گفتگو کو بے کارسمجھ رہا تھا۔ کمرے میں موجود ٹھنڈک، خاموشی اور نیم تاریکی نے اس کے اعصاب کو بالکل متاثر نہیں کیا تھا۔ وہ بات کرتے ہوئے وقتاً فوقتاً کمرے میں چاروں طرف نظریں دوڑا رہا تھا۔ سائیکلو انالسٹ کے لیے سامنے لیٹا ہوا نوجوان ایک عجیب کیس تھا، وہ فوٹو گرافک میموری کا مالک تھا۔ اس کا آئی کیو لیول 150 کی رینج میں تھا۔ وہ تھرو آؤٹ، آؤٹ اسٹینڈنگ اکیڈمک ریکارڈ رکھتا تھا وہ گالف میں پریزیڈنٹس گولڈ میڈل تین بار جیت چکا تھا اور وہ … وہ تیسری بار خود کشی کی ناکام کوشش کرنے کے بعد اس کے پاس آیا تھا۔ اس کے والدین ہی اسے اس کے پاس لے کر آئے تھے او وہ بے حد پریشان تھے۔
وہ ملک کے چند بہت اچھے خاندانوں میں سے ایک سے تعلق رکھتا تھا۔ ایسا خاندان جس کے پاس پیسے کی بھرمار تھی، چار بھائیوں اور ایک بہن میں وہ چوتھے نمبر پر تھا۔ دو بھائی اور ایک بہن اس سے بڑے تھے، اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے وہ اپنے والدین کا بہت زیادہ چہیتا تھا۔ اس کے باوجود پچھلے تین سال میں اس نے تین بار خود کشی کی کوشش کی۔
پہلی دفعہ اس نے سڑک پر بائیک چلاتے ہوئے ون وے کی خلاف ورزی کی اور بائیک سے ہاتھ اٹھا لیے، اس کے پیچھے آنے والے ٹریفک کانسٹبل نے ایسا کرتے ہوئے اسے دیکھا تھا۔ خوش قسمتی سے گاڑی سے ٹکرانے کے بعد وہ ہوا میں اچھل کر ایک دوسری گاڑی کی چھت پر گرا اور پھر زمین پر گرا۔ اس کی کچھ ribsایک بازو اور ایک ٹانگ میں فریکچرز ہوئے، تب اس کے والدین کانسٹبل کے اصرار کے باوجود اسے ایک حادثہ ہی سمجھے، کیوں کہ اس نے اپنے ماں باپ سے یہی کہا تھا کہ وہ غلطی سے ون وے سے ہٹ گیا تھا۔
دوسری بار پورے ایک سال کے بعد اس نے لاہور میں خود کو باندھ کر پانی میں ڈوبنے کی کوشش کی۔ ایک بار پھر اسے بچا لیا گیا۔ پل پر کھڑے لوگوں نے اسے اس رسی سمیت باہر کھینچ لیا تھا، جس کے ساتھ باندھ کر اس نے خود کو نیچے گرایا تھا۔ اس بار اس بات کی گواہی دینے والوں کی تعداد زیادہ تھی کہ اس نے خود اپنے آپ کو پانی میں گرایا تھا مگر اس کے ماں باپ کو ایک بار پھر یقین نہیں آیا۔ سالار کا بیان یہ تھا کہ کچھ لڑکوں نے اس کی گاڑی کو پل کے پاس روکا اور پھر اسے باندھ کر پانی میں پھینک دیا، جس طرح وہ بندھا ہوا تھا، اس سے یوں ہی لگتا تھا کہ اسے واقعی ہی باندھ کر گرایا گیا تھا۔ پولیس اگلے کئی ہفتے اس کے بتائے گئے حلیے کے لڑکوں کو پورے شہر میں تلاش کرتی رہی۔ سکندر عثمان نے خاص طور پر ایک گارڈ اس کے ساتھ تعینات کر دیا جو چوبیس گھنٹے اس کے ساتھ رہتا تھا۔
مگر تیسرے بار وہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکا۔ خواب آور گولیوں کی ایک بڑی تعداد کو پیس کر اس نے کھالیا تھا۔ گولیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ معدہ واش کرنے کے باوجود اگلے کئی دن وہ بیمار رہا تھا۔ اس بار کسی کو بھی کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ اس نے خانساماں کے سامنے ان گولیوں کے پاؤڈر کو دودھ میں ڈال کر پیا تھا۔
سکندر عثمان اور طیبہ سکندر شاکڈ رہ گئے تھے۔ پچھلے دونوں واقعات بھی انہیں پوری طرح یاد آگئے تھے اوروہ پچھتانے لگے تھے کہ انہوں نے پہلے اس کی بات پر اعتبار کیوں کیا… پورا گھر اس کی وجہ سے پریشان ہوگیا تھا، اس کے بارے میں اسکول، کالونی اور خاندان ہر جگہ خبریں پھیل رہی تھیں۔ وہ اس بار اس بات سے انکار نہیں کرسکا کہ اس نے خود کشی کی کوشش کی تھی، مگر وہ یہ بتانے پر تیار نہیں تھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تھا۔ بھائی، بہن، ماں باپ اس نے کسی کے سوال کا بھی جواب نہیں دیا تھا۔
سکندر اے لیولز کے بعد اسکے بڑے دو بھائیوں کی طرح اسے بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھجوانا چاہتے تھے، وہ جانتے تھے اسے کہیں بھی نہ صرف بڑی آسانی سے اڈمیشن مل جائے گا بلکہ اسکالر شپ بھی … لیکن ان کے سارے پلانز جیسے بھک کر کے اڑ گئے تھے۔
اور اب وہ اس سائیکوانالسٹ کے سامنے موجود تھا، جس کے پاس سکندر عثمان نے اسے اپنے ایک دوست کے مشورہ پر بھجوایا تھا۔
”ٹھیک ہے سالار! بالکل ٹودا پوائنٹ بات کرتے ہیں۔ مرنا کیوں چاہتے ہو تم؟” سالار نے کندھے اچکائے۔
”آپ سے کس نے کہا کہ میں مرنا چاہتا ہوں؟”
”خود کشی کی تین کوششیں کرچکے ہو تم۔”
”کوشش کرنے اورمرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔”
”تینوں دفعہ تم اتفاقاً بچے ہو ورنہ تم نے خود کو مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔”
”دیکھیں۔ جس کو آپ خود کشی کی کوشش کہہ رہے ہیں میں اسے خود کشی کی کوشش نہیں سمجھتا۔ میں صرف دیکھنا چاہتا تھا کہ موت کی تکلیف کیسی ہوتی ہے۔”
وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگا جو بڑے پرسکون انداز میں انہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔
”اور موت کی تکلیف تم کیوں محسوس کرنا چاہتے تھے؟”
”بس ایسے ہی، curiosity(تجسس) سمجھ لیں۔” سائیکوانا لسٹ نے ایک گہرا سانس لے کر اس 150 آئی کیو لیول والے نوجوان کو دیکھا، جو اب چھت کو گھور رہا تھا۔
”تو ایک بار خود کشی کی کوشش سے تمہارا یہ تجسس ختم نہیں ہوا۔”
”اوہ تب … تب میں بے ہوش ہوگیا تھا اس لیے میں ٹھیک سے کچھ بھی محسوس نہیں کرسکا۔ دوسری بار بھی ایسا ہی ہوا۔ تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا۔” وہ مایوسی سے سر ہلاتے ہوئے بولا۔
”اور اب تم چوتھی بار کوشش کروگے؟”
”یقیناً میں محسوس کرنا چاہتا ہوں کہ درد کی انتہا پر جاکر کیسا لگتا ہے”
”کیا مطلب؟”
”جیسے Joyکی انتہا ecstaseyہوتی ہے مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ خوشی کی اس انتہا کے بعد کیا ہے، اسی طرح درد کی بھی تو کوئی انتہا ہوتی ہوگی، جس کے بعد آپ کچھ بھی سمجھ نہیں سکتے جیسے ecstasyمیں آپ کچھ بھی سمجھ نہیں سکتے۔”
”میں نہیں سمجھ سکا۔”
”فرض کریں آپ ایک بار میں stripteaseدیکھ رہے ہیں، بہت تیز میوزک بج رہا ہے، آپ ڈرنک کر رہے ہیں، آپ نے کچھ ڈرگز بھی لی ہوئی ہیں، آپ ناچ رہے ہیں پھر آہستہ آہستہ آپ اپنے ہوش و حواس کھو دیتے ہیں، آپ ecstasy(سرور) میں ہیں، کہاں ہیں؟ کیوں ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ آپ کو کچھ بھی پتا نہیں لیکن آپ کو یہ ضرور پتا ہوتا ہے کہ آپ جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ آپ کو اچھا لگ رہا ہے۔ میں جب باہر چھٹیاں گزارنے جاتا ہوں تو اپنے کزنز کے ساتھ ایسے بارز میں جاتا ہوں۔ میرا پرابلم یہ ہے کہ ان کی طرح میں ecstatic(مدہوش) نہیں ہوتا I never get wild with joyمجھے ان چیزوں سے اتنی خوشی نہیں مل پاتی جتنی باقی لوگوں کو ملتی ہے اوریہی چیز مجھے مایوس کرتی ہے۔ میں نے سوچا کہ اگر سرور کی انتہا پر نہیں پہنچ سکتا تو شاید میں درد کی انتہا پر پہنچ سکوں لیکن وہ بھی نہیں ہو سکا۔” وہ خاصا مایوس نظر آرہا تھا۔
”تم اس طرح کی چیزوں میں وقت ضائع کیوں کرتے ہو، اتنا شاندار اکیڈمک ریکارڈ ہے تمہارا ۔۔۔”
سالار نے اس بار انتہائی بیزاری سے اس سے کہا ”پلیز، پلیز، اب میری ذہانت کے راگ الاپنا مت شروع کیجئے گا۔ مجھے پتا ہے میں کیا ہوں۔ تنگ آگیا ہوں، میں اپنی تعر یفیں سنتے سنتے۔” اس کے لہجے میں تلخی تھی۔ سائیکلوانا لسٹ کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔
”اپنے لیے کوئی گول کیوں نہیں سیٹ کرتے تم؟”
”میں نے کیا ہے؟”
”کیا؟”
”مجھے خود کشی کی ایک اور کوشش کرنی ہے۔” مکمل اطمینان تھا۔
”کیا تمہیں کوئی ڈپریشن ہے؟”
”ناٹ ایٹ آل۔”
”تو پھر مرنا کیوں چاہتے ہو؟” ایک گہرا سانس۔
”کیا آپ کو ایک با رپھر سے بتانا شروع کروں کہ میں مرنا نہیں چاہتا، میں کچھ اور کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔” وہ اکتایا۔
بات گھوم پھر کر پھر وہیں آگئی تھی۔ سائیکلوانالسٹ کچھ دیر سوچتا رہا۔
”کیا تم یہ سب کسی لڑکی کی وجہ سے کر رہے ہو؟”
”سالار نے گردن موڑ کر حیرانی سے اسے دیکھا۔” لڑکی کی وجہ سے؟”
”ہاں۔ کوئی ایسی لڑکی جو تمہیں اچھی لگتی ہو جس سے تم شادی کرنا چاہتے ہو؟” اس نے بے اختیار قہقہہ لگایا اور پھر وہ ہنستا ہی گیا۔
”مائی گاڈ! آپ کا مطلب ہے کہ کسی لڑکی کی محبت کی وجہ سے میں خود کشی …” وہ ایک بار پھر بات ادھوری چھوڑ کرہنسنے لگا۔ ”لڑکی کی محبت … اور خود کشی… کیا مذاق ہے۔” وہ اب اپنی ہنسی پر قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔
سائیکلوانالسٹ نے اس طرح کے کئی سیشنز اس کے ساتھ کیے تھے اور ہر بار نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات رہا۔
”آپ اس کو تعلیم کے لیے بیرون ملک بھجوانے کے بجائے یہیں رکھیں اور اس پر بہت زیادہ توجہ دیں۔ ہوسکتا ہے یہ توجہ حاصل کرنے کے لیے یہ سب کرتا ہو۔”
اس نے کئی ماہ کے بعد سالار کے ماں باپ کو مشورہ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسے باہر بھجوانے کے بجائے اسلام آباد کے ایک ادارے میں ایڈمیشن دلوا دیا گیا۔ سکندر عثمان کو یہ اطمینان تھا کہ وہ اسے اپنے پاس رکھیں گے تو شاید وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے۔ سالار نے ان کے اس فیصلے پر کسی رد عمل کا اظہا رنہیں کیا بالکل اسی طرح جس طرح اس نے ان کے اس فیصلے پر کسی خوشی کا اظہار نہیں کیا تھا کہ اسے بیرون ملک تعلیم کے لیے بھجوایا جائے گا۔
سائیکلوانالسٹ کے ساتھ آخری سیشن کے بعد سکندر عثمان اسے گھر لے آئے اور انہوں نے طیبہ کے ساتھ مل کر اس سے ایک لمبی چوڑی میٹنگ کی۔ وہ دونوں اپنے بیڈ روم میں بٹھا کر اسے ان تمام آسائشوں کے بارے میں بتاتے رہے جو وہ پچھلے کئی سالوں میں اسے فراہم کرتے رہے تھے۔ انہوں نے اسے ان توقعات کے بارے میں بھی بتایا جو وہ اس سے رکھتے تھے۔ اسے ان محبت بھرے جذبات سے بھی آگاہ کیا گیا جو وہ اس کے لیے محسوس کرتے تھے۔ وہ بے تاثر چہرے کے ساتھ چیونگم چباتا باپ کی بے چینی اور ماں کے آنسو دیکھتا رہا۔ گفتگو کے آخر میں سکندر عثمان نے تقریباً تنگ آکر اس سے کہا۔
”تمہیں کس چیز کی کمی ہے؟ کیا ہے جو تمہارے پاس نہیں ہے یا جو تمہیں چاہیے۔ مجھے بتاؤ۔” سالار سوچ میں پڑ گیا۔
”اسپورٹس کار۔” اگلے ہی لمحے اس نے کہا۔
”ٹھیک ہے، میں تمہیں اسپورٹس کار باہر سے منگوا دیتا ہوں مگر دوبارہ ایسی کوئی حرکت مت کرنا جو تم نے کی ہے، او کے؟” سکندر عثمان کو کچھ اطمینان ہوا۔
سالار نے سر ہلا دیا۔ طیبہ سکندر نے ٹشو سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے جیسے سکون کا سانس لیا۔
وہ کمرے سے چلا گیا تو سکندر عثمان نے سگار سلگاتے ہوئے ان سے کہا۔
”طیبہ! تمہیں اس پر بہت توجہ دینی پڑے گی۔ اپنی activitiesکچھ کم کرو اور کوشش کرو کہ اس کے ساتھ روزانہ کچھ وقت گزار سکو۔” طیبہ نے سر ہلا دیا۔
٭…٭…٭