پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۱

ڈائننگ ٹیبل پر ہاشم مبین کی پوری فیملی موجود تھی۔ کھانا کھاتے ہوئے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے۔ موضوعِ گفتگو اس وقت امامہ تھی جو اس ویک اینڈ پر بھی اسلام آباد میں موجود تھی۔
”بابا… آپ نے یہ بات نوٹ کی کہ امامہ دن بہ دن سنجیدہ سے سنجیدہ ہوتی جا رہی ہے۔” وسیم نے قدرے چھیڑنے والے انداز میں امامہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں! یہ تو میں بھی پچھلے کئی ماہ سے نوٹ کر رہا ہوں۔” ہاشم مبین نے وسیم کی بات پر بیٹی کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
امامہ نے چاولوں کا چمچہ منہ میں رکھتے ہوئے وسیم کو گھورا۔
”کیوں امامہ! کوئی مسئلہ ہےَ”
”بابا! یہ بڑی فضول کی باتیں کرتا ہے اور آپ بھی خوامخواہ اس کی باتوں میں آرہے ہیں۔ میں اپنی اسٹڈیز کی وجہ سے مصروف اور سنجیدہ ہوں۔ اب ہرکوئی وسیم کی طرح نکما تو نہیں ہوتا۔” اس نے اپنے ساتھ بیٹھے وسیم کے کندھے پر کچھ ناراضی سے ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
”بابا! آپ ذرا اندازہ کریں، میڈیکل کے شروع کے سالوں میں اس کا یہ حال ہے تو جب یہ ڈاکٹر بن جائے گی تب اس کا کیا حال ہوگا۔” وسیم نے امامہ کی تنبیہ کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔ ”سالوں گزر جایا کریں گے مس امامہ ہاشم کو مسکرائے ہوئے۔”
ڈائننگ ٹیبل پر موجود لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ ان دونوں کے درمیان یہ نوک جھونک ہمیشہ ہی رہتی تھی۔ بہت کم مواقع ایسے ہوتے تھے جب وہ دونوں اکٹھے ہوں اوران کے درمیان آپس میں جھگڑا نہ ہو۔ مستقل بنیادوں پر ہوتے رہنے والے ان جھگڑوں کے باوجود امامہ کی سب سے زیادہ دوستی بھی وسیم کے ساتھ ہی تھی۔ اس کی وجہ شاید ان کی اوپر تلے کی پیدائش بھی تھی۔
”اور آپ تصور کریں کہ …” اس بار امامہ نے اسے اپنی بات مکمل کرنے نہیں دی، اس نے اس کے کندھے پر پوری طاقت سے مکا مارا۔ وسیم پر کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا۔
”ہمارے گھر میں ایک ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا کے سوا اورکیا کیا ہوسکتا ہے۔ آپ اس کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں، اس سے آپ یہ اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ آج کل کے ڈاکٹرز وارڈ میں مریضوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہوں گے۔ملک میں بڑھتی ہوئی شرحِ اموات کی ایک وجہ…”
”بابا! اس کو منع کریں۔” امامہ نے بالآخر ہتھیار ڈالتے ہوئے ہاشم مبین سے کہا۔
”وسیم…” ہاشم مبین نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے وسیم کو جھڑکا، وہ بڑی سعادت مندی سے فوراً خاموش ہوگیا۔
٭…٭…٭
اس نے پورے لفافے کو گرائنڈر میں خالی کر دیا اور پھر اسے بند کرکے جلا دیا۔ خانساماں اسی وقت اندر آیا۔
”چھوٹے صاحب! لائیں، میں آپ کی مدد کردوں۔” وہ اس کی طرف بڑھا مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔
”نہیں میں خود کرلیتا ہوں۔ تم مجھے دودھ کا ایک گلاس دے دو۔” اس نے گرائنڈر آف کرتے ہوئے کہا۔ خانساماں ایک گلاس میں دودھ لے کر اس کے پاس چلا آیا۔ دودھ کے آدھے گلاس میں اس نے گرائنڈر میں موجود تمام پاؤڈر ڈال دیا اور ایک چمچہ سے اچھی طرح ہلانے لگا پھر ایک ہی سانس میں وہ دودھ پی گیا۔
”کھانے میں آج کیا پکایا ہے تم نے؟” اس نے خانساماں سے پوچھا۔
”خانساماں نے کچھ ڈشز گنوانی شروع کردیں۔ اس کے چہرے پر کچھ ناگواری ابھری۔
”میں کھانا نہیں کھاؤں گا، سونے جا رہا ہوں، مجھے ڈسٹرب مت کرنا۔”
اس نے سختی سے کہا اور کچن سے نکل گیا۔
پیروں میں پہنی ہوئی باٹا کی چپل کو وہ فرش پر تقریباً گھسیٹ رہاتھا۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور آنکھیں سرخ تھیں۔ شرٹ کے چند ایک کے سوا سارے ہی بٹن کھلے ہوئے تھے۔
اپنے کمرے میں جاکر اس نے دروازے کو لاک کرلیا اور وہاں موجود جہازی سائز کے میوزک سسٹم کی طرف گیا اور کمرے میں بولٹن کا when a man loves a womanبلند آواز میں بجنے لگا۔ وہ ریموٹ لے کر اپنے بیڈ پر آگیا اور اوندھے منہ بے ترتیبی کے عالم میں لیٹ گیا۔
اس کا ریموٹ والا بایاں ہاتھ بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا اور مسلسل ہل رہا تھا۔ اس کے دونوں پاؤں بھی میوزک کے ساتھ گردش میں تھے۔
کمرے میں بیڈ اور اس کے اپنے حلیے کے علاوہ ہر چیز اپنی جگہ پر تھی، کہیں پر کچھ بھی بے ترتیب نہیں تھا۔ کہیں پر گرد کا ایک ذرّہ تک نظر نہیں آرہا تھا۔ میوزک سسٹم کے پاس موجود دیواری شیلف میں تمام آڈیو اور وڈیو کیسٹس بڑے اچھے طریقے سے لگی ہوئی تھیں۔ ایک دوسری دیوار میں موجود ریکس پر کتابوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ کونے میں پڑی ہوئی کمپیوٹر ٹیبل سے عیاں تھا کہ اسے استعمال کرنے والا بہت آرگنائزڈ ہے۔ کمرے کی مختلف دیواروں پر ہالی ووڈ کی ایکٹریسیز اوروہاں کے بینڈز کے پوسٹرز لگے تھے۔ باتھ روم کے دروازے اورکمرے کی کھڑکیوں کے شیشوں کو پلے بوائے میگزین سے کاٹی گئی کچھ ماڈلز کی نیوڈ تصویروں سے سجایا گیا تھا، کمرے میں پہلی بار داخل ہونے والا دروزہ کھولتے ہی بہت بری طرح چونکتا کیوں کہ بالکل سامنے کھڑکیوں کے شیشوں پر موجود وہ تصویریں چند لمحوں کے لیے دیکھنے والوں کو تصویریں نہیں بلکہ اصل لڑکیاں نظر آتی تھیں۔ ان تصویروں کو وہاں لگاتے ہوئے ترتیب کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔ میوزک سسٹم جس دیوار کے ساتھ موجود تھا اسی دیوا رکے ایک کونے میں دیوار پر ایک الیکٹرک گٹار لٹکایا گیا تھا اور اسی کونے میں ایک کی بورڈ بھی اسٹینڈ پر رکھا ہوا تھا۔ دیوار پر گٹار سے کچھ فاصلے پر piccolo، فلوٹ اور oboeبھی لٹکائے گئے تھے اس کمرے کے مکین کویقینا میوزک سے گہری دلچسپی تھی۔ بیڈ کے بالکل سامنے والی دیوار میں موجود کیبنٹ میں ٹی وی موجود تھا اور اسی کیبنٹ کے مختلف خانوں میں مختلف ٹرافیز اور شیلڈز پڑی ہوئی تھیں۔
کمرے کا چوتھا کونا بھی خالی نہیں تھا وہاں دیوار پر مختلف ریکٹس لٹکے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک ٹینس کا تھا اور دو اسکواش کے، ان ریکٹس کو دیوا رپر لٹکانے سے پہلے نیچے پوسٹرز لگائے گئے تھے اور پھر ریکٹس اس طرح لٹکائے گئے تھے کہ یوں لگتا تھا وہ ریکٹس ان کھلاڑیوں نے پکڑے ہوں ٹینس کے ریکٹ کے نیچے گبریلا سباٹینی کا پوسٹر تھا جب کہ اسکواش کے ایک ریکٹ کے نیچے جہانگیر خان کا پوسٹر تھا جب کہ دوسرے ریکٹ کے نیچے روڈنی مارٹن کا۔
کمرے میں واحد جگہ جہاں بے ترتیبی تھی وہ ڈبل بیڈ تھا، جس پر وہ لیٹا ہوا تھا۔ سلک کی بیڈ شیٹ بری طرح سلوٹ زدہ تھی اور اس پر ادھر ادھر چند پور نوگرافی کے غیر ملکی میگزین پڑے ہوئے تھے جن میں پلے بوائے نمایاں تھا بیڈ پر ایک پیپر کٹر اور کاغذ کی کچھ چھوٹی چھوٹی کترنیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ یقینا کچھ دیر پہلے وہ ان میگزنیز سے تصویریں کاٹ رہا تھا۔ چیونگمز کے کچھ ریپرز بھی تڑے مڑے بیڈ پر ہی پڑے ہوئے تھے۔ ڈن ہل کا ایک پیکٹ اور لائٹر بھی ایش ٹرے کے ساتھ بیڈ پر ہی پڑا تھا جب کہ سلک کی سفید چمک دار بیڈ شیٹ پر کئی جگہ ایسے نشان تھے جیسے وہاں پر سگریٹ کی راکھ بھی تھی۔ کافی کا ایک خالی مگ بھی بیڈ پر پڑا ہوا تھا اور اس کے پاس ایک ٹائی اور رسٹ واچ بھی تھی۔ ان سب چیزوں سے کچھ فاصلے پر سرہانے ایک موبائل پڑا تھا جس پر یک دم کوئی کال آنے لگی تھی۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا ہوا وہ نوجوان اب شاید نیند کے عالم میں تھا کیوں کہ موبائل کی بیپ پر اس نے سر اٹھائے بغیر اپنا دایاں ہاتھ بیڈ پر ادھر ادھر پھیرتے ہوئے جیسے موبائل تلاش کرنے کی کوشش کی مگر موبائل اس کے ہاتھ کی رسائی سے بہت دور تھا۔ اس پر مسلسل کال آرہی تھی۔ کچھ دیر اسی طرح ادھر ادھر ہاتھ پھیرنے کے بعد اس کا ہاتھ ساکت ہوگیا شاید اب وہ واقعی سوچکا تھا کیوں کہ اس کے تھرکتے پیر رک چکے تھے۔ موبائل پر اب بھی کال آرہی تھی۔ بیڈ سے باہر نکلے ہوئے اسکے بائیں ہاتھ میں پکڑا ہوا ریموٹ یک دم اس کی گرفت سے نکل کر نیچے کارپٹ پر گر پڑا۔ مائیکل بولٹن کی آواز ابھی بھی کمرے میں گونج رہی تھی۔ “when a man loves a woman”پھر یک دم کمرے کے دروازے پر کسی نے دستک دی اور پھر دستک کی یہ آواز بڑھتی ہی گئی۔ موبائل کی کال ختم ہوچکی تھی، دروازے پر دستک دینے والے ہاتھ بڑھتے گئے وہ بیڈ پر اوندھے منہ بے حس و حرکت پڑا تھا۔
٭…٭…٭





”ڈونٹ ٹیل می، اِمامہ! کیا تم واقعی انگیجڈ ہو؟”
زینب کو جویریہ کے انکشاف پر جیسے کرنٹ لگا۔ امامہ نے ملامتی نظروں سے جویریہ کو دیکھا جو پہلے ہی معذرت خواہانہ انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔
”اسے نہیں مجھے دیکھ کر بتاؤ، کیا تم واقعی انگیجڈ ہو؟” زینب نے اس بار اسے کچھ جھڑکتے ہوئے کہا۔
”ہاں، مگر یہ اس قدر غیر معمولی اور حیرت انگیز واقعہ تو نہیں کہ تم اس پر اس طرح ری ایکٹ کرو۔” اِمامہ نے بڑی رسانیت سے کہا۔ وہ سب لائبریری میں بیٹھی ہوئی تھیں اور اپنی طرف سے حتی المقدور سرگوشیوں میں باتیں کر رہی تھیں۔
”مگر تمہیں ہمیں بتانا تو چاہئے تھا، آخر راز میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔” اس بار رابعہ نے کہا۔
”راز میں تو نہیں رکھا، بس یہ کوئی اتنا اہم واقعہ نہیں تھا کہ تمہیں بتاتی اور پھر تم لوگوں سے میری دوستی تو اب ہوئی ہے جب کہ اس منگنی کو کئی سال گزر چکے ہیں۔” اِمامہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”کئی سال سے کیا مراد ہے، تمہاری؟”
”میرا مطلب ہے، دو تین سال۔”
”پھر بھی امامہ! بتانا تو چاہئے تھا تمہیں…” زینب کا اعتراض ابھی بھی اپنی جگہ قائم تھا، امامہ نے مسکراتے ہوئے زینب کو دیکھا۔
”اب کروں گی تو اور کسی کو بتاؤں یا نہ بتاؤں تمہیں ضرور بتاؤں گی۔”
”ویری فنی۔” زینب نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
”اور کچھ نہیں تو تم ہمیں کوئی تصویر وغیرہ ہی لاکر دکھا دو موصوف کی… ہے کون؟ … نام کیا ہے؟… کیا کرتا ہے؟”
رابعہ نے ہمیشہ کی طرح ایک ہی سانس میں سوال در سوال کر ڈالے۔
”فرسٹ کزن ہے… اسجد نام ہے۔” امامہ نے رک رک کر کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ”ایم بی اے کیا ہے اس نے اوربزنس کرتا ہے۔”
”شکل و صورت کیسی ہے؟”اس بار زینب نے پوچھا۔ اِمامہ نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا۔
”ٹھیک ہے۔”
”ٹھیک ہے؟ میں تم سے پوچھ رہی ہوں لمبا ہے؟ ڈارک ہے؟ ہینڈ سم ہے۔” اس بار امامہ مسکراتے ہوئے کچھ کہے بغیر زینب کو دیکھتی رہی۔
”اِمامہ نے اپنی پسند سے یہ منگنی کی ہے… وہ اچھا خاصا گڈ لکنگ ہے۔” جویریہ نے اس بار امامہ کی طرف سے جواب دیتے ہوئے کہا۔
”ہاں! ہمیں اندازہ کرلینا چاہیے تھا، آخر وہ امامہ کا فرسٹ کزن ہے… اب امامہ! تمہارا اگلا کام یہ ہے کہ تم ہمیں اس کی تصویر لاکر دکھاؤ۔” زینب نے کہا۔
”نہیں، اس سے پہلے کا ضروری کام یہ ہے کہ تم ہمیں کچھ کھلانے پلانے لے چلو۔” رابعہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔
”فی الحال تو یہاں سے چلیں، ہاسٹل جانا ہے مجھے۔” امامہ یک دم اٹھ کر کھڑی ہوگئی تو وہ بھی اُٹھ گئیں۔
”ویسے جویریہ! تم نے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی؟” ساتھ چلتے ہوئے زینب نے جویریہ سے پوچھا۔
”بھئی، امامہ نہیں چاہتی تھی… اس لیے میں نے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی۔” جویریہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ اِمامہ نے مڑکر ایک بار پھر جویریہ کو گھورا، اس کی نظروں میں تنبیہ تھی۔
”اِمامہ کیوں نہیں چاہتی تھی … میری منگنی ہوئی ہوتی تو میں تو شور مچاتی ہر جگہ، وہ بھی اس صورت میں جب یہ میری اپنی مرضی سے ہوتی۔” زینب نے بلند آواز میں کہا۔
اِمامہ نے اس بار کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔
٭…٭…٭
”آپ کا بیٹا آبادی کے اس 2.5 فیصد حصے میں شامل ہے، جو 150 سے زیادہ کا آئی کیو لیول رکھتے ہیں۔ اس آئی کیو لیول کے ساتھ وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ غیر معمولی سہی مگر غیر متوقع نہیں ہے۔” اس غیر ملکی اسکول میں سالار کو جاتے ہوئے ابھی صرف ایک ہفتہ ہوا تھا جب سکندر عثمان اور ان کی بیوی کو وہاں بلوایا گیا تھا۔ اسکول کے سائیکا لوجسٹ نے انہیں سالار سکندر کے مختلف آئی کیو ٹیسٹ کے بارے میں بتایا تھا، جس میں اس کی پرفارمنس نے اس کے ٹیچرز اور سائیکالوجسٹ کو حیران کر دیا تھا۔ اس اسکول میں وہ 150کا آئی کیو لیول والا پہلا اور واحد بچہ تھا اور چند ہی دنوں میں وہ وہاں سب کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا۔
سکندر عثمان اور ان کی بیوی سے ملاقات کے دوران سائیکالوجسٹ کو اس کے بچپن کے بارے میں کچھ اور کھوج لگانے کا موقع ملا۔ وہ کافی دلچسی سے سالار کے کیس کو اسٹڈی کر رہا تھا اور دلچسپی کی یہ نوعیت پروفیشنل نہیں ذاتی تھی۔ اپنے کیریئر میں وہ پہلی بار اس آئی کیو کے بچے کا سامنا کر رہا تھا۔
سکندر عثمان کو آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد تھا۔ سالار اس وقت صرف دو سال کا تھا اور غیر معمولی طور پر وہ اس عمر میں ایک عام بچے کی نسبت زیادہ صاف لہجے میں باتیں کرتا تھا اور باتوں کی نوعیت ایسی ہوتی تھی کہ وہ اور ان کی بیوی اکثر حیران ہوتے۔
ایک دن جب وہ اپنے بھائی سے فون پر بات کرنے کے لیے فون کر رہے تھے تو سالار ان کے پاس کھڑا تھا۔ وہ اس وقت ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے اورفون پر باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی بھی دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد انہوں نے فون رکھ دیا۔ ریسیور رکھنے کے فوراً بعد انہوں نے سالار کو فون کا ریسیور اُٹھاتے ہوئے دیکھا۔
”ہیلو انکل! میں سالا رہوں۔” وہ کہہ رہا تھا۔ انہوں نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ اطمینان سے ریسیور کان سے لگائے کسی سے باتوں میں مصروف تھا۔
”میں ٹھیک ہوں، آپ کیسے ہیں؟” سکندر نے حیرت سے اسے دیکھا، پہلے ان کے ذہن میں یہی آیا کہ وہ جھوٹ موٹ فون پر باتیں کر رہا ہے۔
”پاپا میرے پاس بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ نہیں، انہوں نے فون نہیں کیا، میں نے خود کیا ہے۔” وہ اس کے اگلے جملے پر چونکے۔
”سالار! کس سے باتیں کر رہے ہو؟” سکندر نے پوچھا۔
”انکل شاہ نواز سے۔” سالار نے سکندر کو جواب دیا، انہوں نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اس سے لے لیا۔ ان کا خیال تھا کہ اس نے غلطی سے کوئی نمبر ملا لیا ہوگا یا پھر نمبر کو ری ڈائل کردیا ہوگا۔ انہوں نے کان سے ریسیور لگایا، دوسری طرف ان کے بھائی ہی تھے۔
”یہ سالار نے نمبر ڈائل کیا ہے۔” انہوں نے معذرت کرتے ہوئے اپنے بھائی سے کہا۔
”سالار نے کیسے ڈائل کیا وہ تو بہت چھوٹا ہے۔” ان کے بھائی نے دوسری طرف کچھ حیرانی سے پوچھا۔
”میرا خیال ہے اس نے آپ کا نمبر ری ڈائل کردیا ہے۔ اتفاق سے ہاتھ لگ گیا ہوگا۔ ہاتھ مار رہا تھا سیٹ پر۔” انہوں نے فون بند کردیا اور ریسیور نیچے رکھ دیا۔ سالار جو خاموشی کے ساتھ ان کی گفتگو سننے میں مصروف تھا ریسیور کے نیچے رکھتے ہی اس نے ایک بار پھر ریسیور اٹھا لیا۔ اس بار سکندر عثمان اسے دیکھنے لگے، وہ بالکل کسی میچور آدمی کی طرح ایک بار پھر شاہ نواز کا نمبر ڈائل کر رہا تھا اور بڑی روانی کے ساتھ۔ وہ ایک لمحہ کے لیے دم بخود رہ گئے۔ دو سال کے بچے سے انہیں یہ توقع نہیں تھی۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر کریڈل دبا دیا۔
”سالار! تمہیں شاہ نواز کا نمبر معلوم ہے؟” انہوں نے حیرانی کے اس جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے کہا۔
”ہاں!” بڑے اطمینان سے جواب دیا گیا۔
”کیا نمبر ہے؟” اس نے بھی روانی کے ساتھ وہ نمبر دہرا دیا۔ وہ اس کا چہرہ دیکھنے لگے۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ گنتی کے اعداد سے واقف ہوگا اور پھر وہ نمبر۔۔۔
”تمہیں یہ نمبر کس نے سکھایا؟”
”میں نے خود سیکھا ہے۔”
”کیسے؟”
”ابھی آپ نے ملایا تھا۔” سالار نے ان کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”تمہیں گنتی آتی ہے؟”
”ہاں۔”
”کہاں تک؟”
”ہنڈرڈ تک۔”
”سناؤ۔”
وہ مشین کی طرح شرو ع ہوگیا۔ ایک ہی سانس میں اس نے انہیں سو تک گنتی سنادی۔ سکندر عثمان کے پیٹ میں بل پڑنے لگا۔
”اچھا۔ میں ایک اور نمبر ڈائل کرتا ہوں میرے بعد تم اسے ڈائل کرنا۔” انہوں نے ریسیور اس سے لیتے ہوئے کہا۔
”اچھا۔” سالار کو یہ سب ایک دلچسپ کھیل کی طرح لگا۔ سکندر عثمان نے ایک نمبر ملایا اور پھر فون بند کر دیا۔ سالار نے فوراً ریسیور ان سے پکڑ کر انہیں کی روانی کے ساتھ وہ نمبر ملایا۔ سکندر عثمان کا سر گھومنے لگا تھا۔ وہ واقعی وہی نمبر تھا جو انہوں نے ملایا تھا۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی نمبر ملائے اور پھر سالار سے وہی نمبر ملانے کے لیے کہا۔ وہ کوئی غلطی کیے بغیر وہی نمبر ملاتا رہا۔ وہ یقینا فوٹو گرافک میموری رکھتا تھا۔ انہوں نے اپنی بیوی کو بلایا۔
”میں نے اسے گنتی نہیں سکھائی، میں نے تو بس کچھ دن پہلے اسے چند کتابیں لاکر دی تھیں اور کل ایک بار ایسے ہی اس کے سامنے سو تک گنتی پڑھی تھی۔” انہوں نے سکندر عثمان کے استفسار پر کہا۔ سکندر عثمان نے سالار کوایک بار پھر گنتی سنانے کے لیے کہا، وہ سناتا گیا۔ ان کی بیوی ہکا بکا اسے دیکھتی رہیں۔
دونوں میاں بیوی کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا بچہ ذہنی اعتبار سے غیر معمولی صلاحیتیں رکھتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ ان دونوں نے اپنے باقی بچوں کی نسبت اسے بہت جلد ہی اسکول میں داخل کروا دیا تھا اور اسکول میں بھی وہ اپنی ان غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے بہت جلد ہی دوسروں کی نظروں میں آگیا تھا۔
”اس بچے کو آپ کی خاص توجہ کی ضرورت ہے، عام بچوں کی نسبت ایسے بچے زیادہ حساس اور پیچیدہ فطرت کے مالک ہوتے ہیں، اگر آپ اسکی اچھی تربیت کرنے میں کامیاب ہوگئے تویہ بچہ آپ کے اور آپ کے خاندان کے لیے ایک سرمایہ ہوگا نہ صرف خاندان کے لیے بلکہ آپ کے ملک کے لیے بھی۔” سکندر عثمان اور ان کی بیوی اس غیر ملکی سائیکالوجسٹ کی باتیں بڑے فخریہ انداز میں سنتے رہے۔
اپنے دوسرے بچوں کے مقابلے میں وہ سالار کو زیادہ اہمیت دینے لگے تھے۔ وہ ان کی سب سے چہیتی اولاد تھا اور انہیں اس کی کامیابیوں پر فخر تھا۔
اسکول میں ایک ٹرم کے بعد اسے اگلی کلاس میں پروموٹ کر دیا گیا اور دوسری ٹرم کے بعد اس سے اگلی کلاس میں اور اس وقت پہلی بار سکندر عثمان کو کچھ تشویش ہونے لگی۔ وہ نہیں چاہتے تھے سالار آٹھ دس سال کی عمر میں اولیولزیا اے لیولز کرلیتا مگر جس رفتار سے وہ ایک کلاس سے دوسری کلاس میں جارہا تھا یہی ہونا تھا۔
”میں چاہتا ہوں آپ میرے بیٹے کو اب پورے ایک سال کے بعد ہی اگلی کلاس میں پروموشن دیں۔ میں نہیں چاہتا وہ اتنی جلدی اتنے ابنارمل طریقے سے اپنا اکیڈمک کیریئر ختم کرلے۔ آپ اس کے سبجیکٹس اور ایکٹیوٹیز بڑھادیں، مگر اسے نارمل طریقے سے ہی پروموٹ کریں۔”
اُن کے اصرار پر سالا رکو دوبارہ ایک سال کے اندر ڈبل یا ٹرپل پروموشن نہیں دیا گیا، اس کے ٹیلنٹ کو اسپورٹس اور دوسری چیزوں کے ذریعے چینلائز کیا جانے لگا۔ شطرنج، ٹینس، گالف اور میوزک۔وہ چا رشعبے تھے جن میں اسے سب سے زیادہ دلچسپی تھی مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ خود کو صرف ان چاروں چیزوں تک ہی محدود رکھتا تھا۔ وہ اسکول میں ہونے والے تقریباً ہر گیم میں شریک ہوتا تھا اگر کسی میں شریک نہیں ہوتا تھا تو اس کی وجہ صرف یہ ہوتی تھی کہ وہ گیم یا سپورٹ اسے زیادہ چیلنجنگ نہیں لگتی تھی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

عمراں لنگیاں پباں پار — ماہ وش طالب

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!