اسجد دروازہ کھول کر اپنی ماں کے کمرے میں داخل ہوا۔
”امی! آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔”
”ہاں کہو… کیا بات ہے؟”
اسجد صوفے پر بیٹھ گیا۔ ”آپ ہاشم انکل کی طرف نہیں گئیں؟”
”نہیں کیوں کوئی خاص بات ہے؟”
”ہاں اِمامہ اس ویک اینڈ پر آئی ہوئی ہے۔”
”اچھا … آج شام کو چلیں گے … تم گئے تھے وہاں؟” شکیلہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ہاں! میں گیا تھا۔”
”کیسی ہے وہ… اس بار تو خاصے عرصے کے بعد آئی ہے” شکیلہ کو یاد آیا۔
”ہاں دو ماہ کے بعد …” شکیلہ کو اسجد کچھ الجھا ہوا لگا۔
”کوئی مسئلہ ہے؟”
”امی! مجھے اِمامہ پچھلے کچھ عرصے سے بہت بدلی بدلی لگ رہی ہے۔” اس نے ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
”بدلی بدلی کیا مطلب؟”
”مطلب تو میں شاید آپ کو نہیں سمجھا سکتا، بس اس کا رویہ میرے ساتھ کچھ عجیب سا ہے۔” اسجد نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”آج تو وہ ایک معمولی سی بات پر ناراض ہوگئی۔ پہلے جیسی کوئی بات ہی نہیں رہی اس میں… میں سمجھ نہیں پا رہا کہ اسے ہوا کیا ہے۔”
”تمہیں وہم ہوگیا ہوگا اسجد … اس کا رویہ کیوں بدلنے لگا … تم کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوکر سوچ رہے ہو۔”شکیلہ نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
”نہیں امی …! پہلے میں بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ شاید مجھے وہم ہوگیا ہے لیکن اب خاص طور پر آج مجھے اپنے یہ احساسات صرف وہم نہیں لگے ہیں۔ وہ بہت اکھڑے سے انداز میں بات کرتی رہی مجھ سے۔”
”تمہارا کیا خیال ہے، اس کا رویہ کیوں بدل گیا ہے؟” شکیلہ نے برش میز پر رکھتے ہوئے کہا۔
”یہ تو مجھے نہیں پتا؟”
”تم نے پوچھا اس سے؟”
”ایک بار نہیں کئی بار…”
”پھر …؟”
”ہر بار آپ کی طرح وہ بھی یہی کہتی ہے کہ مجھے غلط فہمی ہوگئی ہے۔” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”کبھی وہ کہتی ہے اسٹڈیز کی وجہ سے ایسا ہے… کبھی کہتی ہے وہ اب میچور ہوگئی ہے اس لیے…”
”یہ ایسی کوئی غلط بات تو نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے واقعی یہ بات ہو۔” شکیلہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”امی! بات سنجیدگی کی نہیں ہے، مجھے لگتا ہے وہ مجھ سے کترانے لگی ہے۔” اسجد نے کہا۔
”تم فضول باتیں کر رہے ہو اسجد! میں نہیں سمجھتی کہ ایسی کوئی بات ہوگی، ویسے بھی تم دونوں تو بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہو، ایک دوسرے کی عادت سے واقف ہو۔”
شکیلہ کو بیٹے کے خدشات بالکل بے معنی لگے۔
”ظاہر ہے۔ عمر کے ساتھ کچھ تبدیلیاں آہی جاتی ہیں، اب بچے تو رہے نہیں ہو تم لوگ … تم معمولی معمولی باتوں پر پریشان ہونے کی عادت چھوڑ دو…؟” انہوں نے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ ”ویسے بھی ہاشم بھائی اگلے سال اس کی شادی کردینا چاہتے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ بعد میں اپنی تعلیم مکمل کرتی رہے گی۔ کم از کم وہ تواپنے فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔” شکیلہ نے انکشاف کیا۔
”انکل نے ایسا کب کہا؟” اسجد کچھ چونکا۔
”کئی بار کہا ہے… میرا خیال ہے وہ لوگ توتیاریاں بھی کر رہے ہیں۔” اسجد نے ایک اطمینان بھرا سانس لیا۔
”ہوسکتا ہے امامہ اسی وجہ سے قدرے پریشان ہو۔”
”ہاں ہوسکتا ہے… بہرحال یہ ہی صحیح ہے۔ اگلے سال شادی ہو جانی چاہیے۔” اسجد نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
٭…٭…٭
وہ سولہ سترہ سال کا ایک دبلا پتلا مگر لمبا لڑکا تھا، اس کے چہرے پر بلوغت کا وہ گہرا رواں نظر آرہا تھا جسے ایک بار بھی شیو نہیں کیا گیا تھا اور اس روئیں نے اس کے چہرے کی معصومیت کو برقرار رکھا تھا۔ وہ اسپورٹس شارٹس اور ایک ڈھیلی ڈھالی شرٹ پہنے ہوئے تھا۔ اس کے پیروں میں کاٹن کی جرابیں اور جاگرز تھے، چیونگم چباتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ایک عجیب طرح کی بے چینی اور اضطراب تھا۔
وہ اس وقت ایک پرہجوم سڑک کے بیچوں بیچ ایک ہیوی ڈیوٹی موٹر سائیکل پر بیٹھا ہوا تیزی سے تقریباً اسے اڑائے لے جا رہا تھا۔ وہ کسی قسم کے ہیلمٹ کے بغیر تھا اور بہت ریش انداز میں موٹر سائیکل کو چلا رہا تھا۔ اس نے دو دفعہ سگنل توڑا… تین دفعہ خطرناک طریقے سے کچھ گاڑیوں کو اوور ٹیک کیا… چار دفعہ بائیک چلاتے چلاتے اس کا اگلا پہیہ اٹھا دیا اور کتنی ہی دیر دور تک صرف ایک پہیے پر بائیک چلاتا رہا … دودفعہ دائیں بائیں دیکھے بغیر اس نے برق رفتاری سے اپنی مرضی کا ٹرن لیا … ایک دفعہ وہ زگ زیگ انداز میں بائیک چلانے لگا، چھ دفعہ اس نے پوری رفتار سے بائیک چلاتے ہوئے اپنے دونوں پاؤں اٹھا دیے۔
پھر یک دم اسی رفتار سے بائیک چلاتے ہوئے اس نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے اس لین کو توڑا اور دوسری لین میں زناٹے کے ساتھ گھس گیا، سامنے سے آتی ہوئی ٹریفک کی بریکیں یک دم چرچرانے لگیں … اس نے فل اسپیڈ پر بائیک چلاتے ہوئے یک دم ہینڈل پر سے اپنے ہاتھ ہٹادیے۔ بائیک پوری رفتار کے ساتھ سامنے سے آنے والی گاڑی کے ساتھ ٹکرائی، وہ ایک جھٹکے کے ساتھ ہوا میں بلند ہواور پھر کس چیز پر گرا… اسے اندازہ نہیں ہوا۔ اس کا ذہن تاریک ہوچکا تھا۔
٭…٭…٭
وہ دونوں لڑکے اسٹیج پر ایک دوسرے کے بالمقابل روسٹرم کے پیچھے کھڑے تھے، مگر ہال میں موجود اسٹوڈنٹس کی نظریں ہمیشہ کی طرح ان میں سے ایک پر مرکوز تھیں،وہ دونوں ہیڈ بوائے کے انتخاب کے لیے کنویسنگ کر رہے تھے اور وہ پروگرام بھی اس کا ایک حصہ تھا۔ دونوں کے روسٹرم پر ایک ایک پوسٹر لگا ہوا تھا، جن میں سے ایک پرووٹ فار سالار اور دوسرے پر ووٹ فار فیضان لکھا ہوا تھا۔
اس وقت فیضان ہیڈ بوائے بن جانے کے بعد اپنے ممکنہ اقدامات کا اعلان کر رہا تھا، جب کہ سالار پوری سنجیدگی کے ساتھ اسے دیکھنے میں مصروف تھا۔ فیضان اسکول کا سب سے اچھا مقرر تھا اور اس وقت بھی وہ اپنے جوش خطابت کے کمال دکھانے میں مصروف تھا اور اسی برٹش لب و لہجے میں بات کر رہا تھا جس کے لیے وہ مشہور تھا۔بہترین ساؤنڈ سسٹم کی وجہ سے اس کی آواز اور انداز دونوں ہی خاصے متاثر کن تھے۔ ہال میں بلاشبہ سکوت طاری تھا اور یہ خاموشی صرف اسی وقت ٹوٹتی جب فیضان کے سپورٹرز اس کے کسی اچھے جملے پر داد دینا شروع ہوتے ہال یک دم تالیوں سے گونج اٹھتا۔
آدھ گھنٹہ کے بعد وہ جب اپنے لیے ووٹ کی اپیل کرنے کے بعد خاموش ہوا تو ہال میں اگلے کئی منٹ تالیاں اور سیٹیاں بجتی رہیں۔ ان تالیاں بجانے والوں میں خود سالار سکندر بھی شامل تھا۔ فیضان نے ایک فاتحانہ نظر ہال پر اور سالار پر ڈالی اور اسے تالیاں بجاتے دیکھ کر اس نے گردن کے ہلکے سے اشارے سے اسے سراہا، سالار سکندر آسان حریف نہیں تھا یہ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔
اسٹیج سیکریٹری اب سالار سکندر کے لیے اناؤنسمنٹ کر رہا تھا۔ تالیوں کی گونج میں سالار نے بولنا شروع کیا۔
”گڈ مارننگ فرینڈز…” وہ یک لحظہ ٹھہرا۔ ”فیضان اکبر ایک مقرر کے طور پر یقینا ہمارے اسکول کا اثاثہ ہیں۔ میں یا دوسرا کوئی بھی ان کے مقابلے میں کسی اسٹیج پر کھڑا نہیں ہوسکتا۔” وہ ایک لمحہ کے لیے رکا اس نے فیضان کے چہرے کو دیکھا، جس پر ایک فخریہ مسکراہٹ ابھر رہی تھی مگر سالار کے جملے کے باقی حصے نے اگلے لمحے اس مسکراہٹ کو غائب کر دیا۔
”اگر معاملہ صرف باتیں بنانے کا ہو تو ۔۔۔”
ہال میں ہلکی سی کھلکھلاہٹیں ابھریں۔ سالار کے لہجے کی سنجیدگی برقرار تھی۔
”مگر ایک ہیڈ بوائے اور مقرر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ مقرر کو باتیں کرنی ہوتی ہیں۔ ہیڈ بوائے کو کام کرنا ہوتا ہے۔ دونوں کے درمیان فرق talker اور doerکا ہوتا ہے اور great talkers are not great doers”سالار کے سپورٹرز کی تالیوں سے ہال گونج اٹھا۔
”میرے پاس فیضان اکبر جیسے خوب صورت لفظوں کی روانی نہیں ہے۔” اس نے اپنی بات جاری رکھی۔” میرے پاس صرف میرا نام ہے اور میرا متاثر کن ریکارڈ اور مجھے کنویسنگ کے لیے لفظوں کے کوئی دریا نہیں بہانے، مجھے صرف چند الفاظ کہنے ہیں۔” وہ ایک بار پھر رکا۔
“trust me and vote for me” (مجھ پر اعتماد کریں اور مجھے ووٹ دیں)۔
اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے جس وقت اپنے مائیک کو آف کیا اس وقت ہال تالیوں سے گونج رہا تھا ایک منٹ چالیس سیکنڈ میں وہ اسی نپے تلے اور calculatedانداز میں بولا تھا، جو اس کا خاصا تھا… اور اسی ڈیڑھ منٹ نے فیضان کا تختہ کر دیا تھا۔
اس ابتدائی تعارف کے بعد دونوں امیدواروں سے سوال وجواب کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ سالار سکندر ان جوابات میں بھی اتنے ہی اختصار سے کام لے رہا تھا جتنا اس نے اپنی تقریر میں لیا تھا۔ اس کا سب سے طویل جواب چار جملوں پر مشتمل تھا، جب کہ فیضان کا سب سے مختصر جواب بھی چار جملوں پر مشتمل نہیں تھا۔ فیضان کی وہ فصاحت و بلاغت جو پہلے اس کی خوبی سمجھی جاتی تھی اس وقت اس اسٹیج پر سالار کے مختصر جوابات کے سامنے چرب زبانی نظر آرہی تھی اور اس کا احساس خود فیضان کو بھی ہو رہا تھا، جس سوال کا جواب سالار ایک لفظ یا ایک جملے میں دیتا، اس کے لیے فیضان کو عادتاً تمہید باندھنی پڑتی اور سالار کا اپنی تقریر میں اس کے بارے میں کیا ہوا یہ تبصرہ وہاں موجود اسٹوڈنٹس کو کچھ اور صحیح محسوس ہوتا کہ ایک مقرر صرف باتیں کرسکتا ہے۔
”سالار سکندر کو ہیڈ بوائے کیوں ہونا چاہیے؟” سوال کیا گیا۔
”کیوں کہ آپ بہترین شخص کا انتخاب چاہتے ہیں۔” جواب آیا۔
”کیا یہ جملہ خود ستائشی نہیں ہے؟” اعتراض کو رد کر دیا گیا۔
”نہیں یہ جملہ خود شناسی نہیں۔” اعتراض کو رد کر دیا گیا۔
”خود ستائشی اورخود شناسی میں کیا فرق ہے؟” ایک بار پھر چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا گیا۔
”وہی جو فیضان اکبر اور سالار سکندر میں ہے۔” سنجیدگی سے کہا گیا۔
”اگر آپ کو ہیڈ بوائے نہ بنایاتو آپ کو کیا فرق پڑے گا؟”
”فرق مجھے نہیں آپ کو پڑے گا؟”
”کیسے…؟”
”اگر بہترین آدمی کو ملک کا لیڈر نہ بنایا جائے تو فرق قوم کو پڑتا ہے، اس بہترین آدمی کو نہیں۔”
”آپ اپنے آپ کو پھر بہترین آدمی کہہ رہے ہیں۔” ایک بار پھر اعتراض کیا گیا۔
”کیا اس ہال میں کوئی ایسا ہے جو خود کو برے آدمی کے ساتھ equate کرے؟”
”ہوسکتا ہے ہو؟”
”پھر میں اس سے ملنا چاہوں گا۔” ہال میں ہنسی کی آوازیں ابھریں۔
”ہیڈ بوائے بننے کے بعد سالار سکندر جو تبدیلیاں لائے گا اس کے بارے میں بتائیں۔”
”تبدیلی بتائی نہیں جاتی دکھائی جاتی ہے اور یہ کام میں ہیڈ بوائے بننے سے پہلے نہیں کرسکتا۔”
چند اور سوال کیے گئے پھر اسٹیج سکریٹری نے حاضرین میں سے ایک آخری سوال لیا۔ وہ ایک سری لنکن لڑکا تھا جو کچھ شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے کھڑا ہوا۔
”اگر آپ میرے ایک سوال کا جواب دے دیں تو میں اورمیرا پورا گروپ آپ کو ووٹ دے گا۔”
سالار اس کی بات پر مسکرایا۔ ”جواب دینے سے پہلے میں جاننا چاہوں گا کہ آپ کے گروپ میں کتنے لوگ ہیںَ” اس نے پوچھا۔
”چھ …” اس لڑکے نے کہا۔
سالار نے سر ہلایا ”اوکے، سوال کریں۔”
”آپ کو کچھ حساب کتاب کرتے ہوئے مجھے بتانا ہے کہ اگر ہم 267895میں 952852کو جمع کریں پھر اس میں سے 399999کو تفریق کریں پھر اس میں 929292کو جمع کریں اور اسے …” وہ سری لنکن لڑکا ٹھہر ٹھہر کر ایک کاغذ پر لکھا ہوا ایک سوال پوچھ رہا تھا۔” چھ کے ساتھ ضرب دیں پھر اسے دو کے ساتھ تقسیم کریں اور جواب میں 492359کو جمع کریں تو جواب کا ایک چوتھائی کیا ہو…” وہ لڑکا اپنی بات مکمل نہیں کرسکا۔
“1435619.8”بڑی برق رفتاری کے ساتھ سالار نے اس ”احمقانہ” سوال کا جواب دیا۔ اس لڑکے نے کاغذ پر ایک نظر دوڑائی اورپھر کچھ بے یقینی سے سر ہلاتے ہوئے تالیاں بجانے لگا۔ فیضان اکبر کو اس وقت اپنا آپ ایک ایکٹر سے زیادہ نہیں لگا۔ پورا ہال اس لڑکے کے ساتھ تالیاں بجانے میں مصروف تھا۔ فیضان اکبر کو وہ پورا پروگرام ایک مذاق محسوس ہونے لگا۔
ایک گھنٹے کے بعد جب وہ سالار سکندر سے پہلے اس اسٹیج سے اُتر رہا تھا تو وہ جانتا تھا کہ وہ مقابلے سے پہلے ہی مقابلہ ہار چکا تھا۔ 150 کے آئی کیو لیول والے اس لڑکے سے اسے زندگی میں اس سے پہلے کبھی اتنا حسد محسوس نہیں ہوا۔
٭…٭…٭
”اِمامہ آپا! آپ لاہو رکب جائیں گی؟”
وہ اپنے نوٹس کو دیکھتے ہوئے چونکی۔ سر اٹھا کر اس نے سعد کو دیکھا۔ وہ سائیکل کی رفتار کو اب بالکل آہستہ کیے اس کے گرد چکر لگا رہا تھا۔
”کل… کیوں…؟ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟” امامہ نے اپنی فائل بند کرتے ہوئے کہا۔
”جب آپ چلی جاتی ہیں تو میں آپ کو بہت مس کرتا ہوں۔” وہ بولا۔
”کیوں…؟” اِمامہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”کیوں کہ آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں، اور آپ میرے لیے بہت سے کھلونے لاتی ہیں اور آپ مجھے سیر کروانے لے کر جاتی ہیں اور آپ میرے ساتھ کھیلتی ہیں اس لیے۔” اس نے تفصیلی جواب دیا۔
”آپ مجھے اپنے ساتھ لاہور نہیں لے جاسکتیں؟” امامہ اندازہ نہیں کرسکی، یہ تجویز تھی یا سوال۔۔۔۔
”میں کیسے لے جاسکتی ہوں… میں تو خود ہاسٹل میں رہتی ہوں، تم کیسے رہوگے وہاں؟” امامہ نے کہا۔
سعد سائیکل چلاتے ہوئے کچھ سوچنے لگا پھر اس نے کہا ”تو پھر آپ جلدی یہاں آیا کریں۔”
”اچھا، جلدی آیا کروں گی۔” امامہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ”تم ایسا کیا کرو کہ مجھ سے فون پر بات کرلیا کرو، میں فون کیا کروں گی تمہیں۔”
”ہاں یہ ٹھیک ہے۔” سعد کو اس کی تجویز پسند آئی۔ سائیکل کی رفتار میں اضافہ کرتے ہوئے وہ لان کے لمبے لمبے چکر کاٹنے لگا، امامہ بے دھیانی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی۔
وہ اس کا بھائی نہیں تھا، دس سالہ سعد پانچ سال پہلے ان کے گھر آیا تھا کہاں سے آیا تھا اس کے بارے میں وہ نہیں جانتی تھی، کیوں کہ اسے اس کے بارے میں اس وقت کوئی تجسس نہیں ہوا تھا مگر کیوں لایا گیا تھا۔ یہ وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ سعد اب دس سال کا تھا اور وہ گھر میں بالکل گھل مل گیا تھا۔ اِمامہ سے وہ سب سے زیادہ مانوس تھا، امامہ کو اس پر اکثر ترس آتا۔ ترس کی وجہ اس کا لاوارث ہونا نہیں تھا۔ ترس کی وجہ اس کا مستقبل تھا… اس کے دو چچاؤں اور ایک تایا کے گھر بھی اس وقت اسی طرح کے گود لیے ہوئے بچے پل رہے تھے۔ وہ ان کے مستقبل پر بھی ترس کھانے پر مجبور تھی۔
فائل ہاتھ میں پکڑے سائیکل پر لان میں گھومتے سعد پر نظریں جمائے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ اسی طرح کی بہت سی سوچوں میں الجھ جاتی تھی مگر اس کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔ وہ اس کے لیے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
٭…٭…٭
وہ چاروں اس وقت لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا میں موجود تھے۔ ان کی عمریں اٹھارہ، انیس سال کے لگ بھگ تھیں اور اپنے حلیے سے وہ چاروں اپر کلاس کے لگتے تھے مگر وہاں پر نہ ان کی عمر کوئی نمایاں کردینے والی چیز تھی نہ ہی ان کی اپر کلاس سے تعلق رکھنے کی امتیازی خصوصیت… کیوں کہ وہاں پر ان سے بھی کم عمر لڑکے آتے تھے اور اپر کلاس اس علاقے کے مستقل کسٹمرز میں شامل تھی۔
چاروں لڑکے ریڈلائٹ ایریا کی ٹوتی ہوئی گلیوں سے گزرتے جا رہے تھے، تین لڑکے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ جب کہ صرف چوتھا قدرے تجسس اور دلچسپی سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا، یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پہلی بار وہاں آیا تھا اوران تینوں کے ساتھ تھوڑی دیر بعد ہونے والی اس کی گفتگو سے یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ وہ واقعی وہاں پہلی بار آیا تھا۔
گلی کے دونوں اطراف میں کھلے دروازوں پر بناؤ سنگھار کیے نیم عریاں کپڑوں میں ملبوس ہر عمر اور ہر شکل کی عورت کھڑی تھیں سفید … سانولی … سیاہ… گندی… بہت خوب صورت … درمیانی … اور معمولی شکل و صورت والی۔
گلی میں سے ہر شکل اور عمر کا مرد گزر رہا تھا۔ وہ لڑکا وہاں سے گزرتے ہوئے ہر چیز پر غور کر رہا تھا۔
”تم یہاں کتنی بار آئے ہو؟” چلتے چلتے اس لڑکے نے اچانک اپنے دائیں طرف چلنے والے لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
وہ لڑکا جواباً ہنسا ”کتنی بار …؟ یہ تو پتا نہیں… اب تو گنتی بھی بھول چکا ہوں، اکثر آتا ہوں یہاں پر۔” اس لڑکے نے قدرے فخریہ انداز میں کہا۔
”ان عورتوں میں مجھے تو کوئی اٹریکشن محسوس نہیں ہو رہی۔”
” nothing special abut them” اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”اگر کہیں رات ہی گزارنی ہو تو کم از کم environment(ماحول) تو اچھا ہو۔”
”یہ تو بہت ہی گندی جگہ ہے۔” اس نے گلی میں موجود گڑھوں اور کوڑے کے ڈھیروں کو دیکھتے ہوئے کچھ ناگواری سے کہا۔
”پھر گرل فرینڈز کے ہوتے ہوئے یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے؟” اس نے اس بار اپنی بھنویں اُچکاتے ہوئے کہا۔
”اس جگہ کا اپنا ایک چارم ہے۔ گرل فرینڈز اور یہاں کی عورتوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ گرل فرینڈز اس طرح کے ڈانس تو نہیں دکھا سکتیں جو ابھی کچھ دیر بعد تم دیکھوگے۔” تیسرا لڑکا ہنسا ”اور پھر پاکستان کی جس بڑی ایکٹریس کا ڈانس دکھانے ہم تمہیں لے جا رہے ہیں وہ تو بس۔۔۔۔”
دوسرے لڑکے کی بات کو پہلے لڑکے نے کاٹ دیا۔” اس کا ڈانس تو تم پہلے بھی مجھے دکھا چکے ہو۔”
”ارے وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ بھائی کی شادی پر ایک مجرا کیا تھا… مگر یہاں پر تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔”
”وہ ایکٹریس تو ایک پوش علاقے میں رہتی ہے پھر یہاں کیوں آتی ہے؟” پہلے لڑکے نے کچھ غیر مطمئن انداز میں اس سے پوچھا۔
”یہ تم آج خود اس سے پوچھ لینا میں کبھی اس سے اس طرح کے سوال نہیں کرتا۔” دوسرے لڑکے کی بات پر باقی دونوں لڑکے ہنسے مگر تیسرا لڑکا اسی طرح چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔
ان کا سفر بالآخر اس گلی کے آخر میں ایک عمارت کے سامنے ختم ہوگیا، عمارت کے نیچے موجود دکان سے تینوں لڑکوں نے موتیے کے بہت سے ہار خریدے اور اپنی کلائیوں میں لپیٹ لیے۔ ایک ہار دوسرے لڑکے نے اس لڑکے کی کلائی میں بھی لپیٹ دیا جو وہاں آنے پر اعتراض کر رہا تھا پھر ان لوگوں نے وہاں سے پان خریدے۔ تمباکو والا پان دوسرے لڑکے نے اس لڑکے کو بھی دیا جو شاید زندگی میں پہلی بار پان کھا رہا تھا۔ پان کھاتے ہوئے وہ چاروں اس عمارت کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ اوپر پہنچ کر پہلے لڑکے نے ایک بار پھر تنقیدی نظروں سے چاروں طرف دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر اطمینان کی ایک جھلک نمودار ہوئی۔ وہ جگہ بہت صاف ستھری اور خاصی حد تک آراستہ تھی۔
گاؤ تکیے اور چاندنیاں بچھی ہوئی تھیں اور باریک پردے لہرا رہے تھے، کچھ لوگ پہلے ہی وہاں موجود تھے۔ رقص ابھی شروع نہیں ہوا تھا ایک عورت لپکتی ہوئی ان کی طرف آئی۔ اس کے چہرے پر ایک خوب صورت مصنوعی مسکراہٹ سجی ہوئی تھی اس نے دوسرے لڑکے کو مخاطب کیا پہلے لڑکے نے غور سے اس عورت کو دیکھا۔ ادھیڑ عمر کی وہ عورت اپنے چہرے پر بے تحاشا میک اب تھوپے اور بالوں میں موتیے اور گلاب کے گجرے لٹکائے، شیفون کی ایک چنگھاڑتی ہوئی سرخ ساڑھی میں ملبوس تھی۔ جس کا بلاؤز اس کے جسم کوچھپانے میں ناکام ہو رہا تھا، مگر وہ جسم کو چھپانے کے لیے پہناگیا بھی نہیں تھا۔ ان چاروں کو وہ ایک کونے میں لے گئی اور وہاں اس نے انہیں بٹھا دیا۔
پہلے لڑکے نے وہاں بیٹھتے ہی منہ میں موجود پان اس اگالدان میں تھوک دیا، جو ان کے قریب موجود تھا، کیوں کہ پان منہ میں ہوتے ہوئے اس سے بات کرنا مشکل ہو رہا تھا، پان کا ذائقہ بھی اس کے لیے کچھ زیادہ خوش گوار نہیں تھا۔ تینوں لڑکے وہاں بیٹھے مدھم آواز میں باتیں کرنے لگے جب کہ پہلا لڑکا اس ہال کے چاروں طرف موجود گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے ہوئے لوگوں کو دیکھتا رہا جن میں سے کچھ اپنے سامنے شراب کی بوتلیں اور نوٹوں کی گڈیاں رکھے بیٹھے تھے۔ ان میں سے اکثریت سفید لٹھے کے کلف لگے کپڑوں میں ملبوس تھی۔ اس نے عید کے اجتماعات کے علاوہ آج پہلی بار کسی اور جگہ پر سفید لباس پہننے والوں کا اتنا بڑا اجتماع دیکھا تھا۔ خود وہ اپنے ساتھیوں کی طرح سیاہ جینز اور اسی رنگ کی آدھے بازوؤں والی ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔ ان کی عمر کے کچھ اور لڑکے بھی وہاں انہیں کی طرح جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھے۔
تھوڑی دیر بعد ایک اور عورت اسی طرح کے چیختے چنگھاڑتے رنگوں والے کپڑوں میں ملبوس وہاں آکر ہال کے درمیان میں بیٹھ کر ایک غزل سنانے لگی تھی۔ اس کے ساتھ کچھ سازندے بھی تھے۔ دو غزلیں سنانے اوراپنے اوپر اچھالے جانے والے کچھ نوٹ اٹھا کر وہ خاصی خوش اور مطمئن واپس چلی گئی اوراس کے جانے کے فوراً بعد ہی فلم انڈسٹری کی وہ ایکٹریس ہال میں داخل ہوئی اور ہال میں موجود ہر مرد کی نظر اس سے جیسے چپک کر رہ گئی تھی۔ اس نے ہال میں باری باری چاروں طرف گھوم کر ہر ایک کو سر کے اشارے سے خوش آمدید کہا تھا۔
سازندوں کو اس بار کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ کیسٹ پلیئر پر باری باری چند ہیجان انگیز گانے لگائے گئے تھے، جن پر اس عورت نے اپنا رقص پیش کرنا شروع کردیا تھا اور کچھ دیر پہلے کی خاموشی یک دم ختم ہوگئی تھی، چاروں طرف موجود مرد اس عورت کو داد و تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ شراب نوشی میں مصروف تھے۔ ان میں سے کچھ جو زیادہ جوش میں آرہے تھے وہ اٹھ کر اس ایکٹرس کے ساتھ ڈانس میں مصروف ہوجاتے۔
ہال میں واحد شخص جو اپنی جگہ پر کسی حرکت کے بغیر بے تاثر چہرے کے ساتھ بیٹھا تھا وہ وہی لڑکا تھا مگر اس کے باوجود یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ اس ایکٹریس کے رقص سے خاصا محظوظ ہو رہا تھا۔
تقریباً دو گھنٹے کے بعد جب اس ایکٹریس نے اپنا رقص ختم کیا تو وہاں موجود آدھے سے زیادہ مرد اتنا غافل ہوچکے تھے، واپس گھر جانا ان کے لیے زیادہ مسئلہ اس لیے نہیں تھا کیوں کہ ان میں سے کوئی بھی گھر جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ وہ سب وہاں رات گزارنے آئے تھے۔ ان چاروں نے بھی رات وہاں گزاری۔
اگلے دن وہاں سے واپسی پر گاڑی میں اس دوسرے لڑکے نے جما ہی لیتے ہوئے پہلے لڑکے سے پوچھا، جو اس وقت لاپروائی سے گاڑی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔
”کیسا رہا یہ تجربہ؟”
”اچھا تھا…” پہلے لڑکے نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”بس اچھا تھا… اورکچھ نہیں… تم بھی بس…” اس نے قدرے ناراضی کے عالم میں بات ادھوری چھوڑ دی۔
”کبھی کبھار جانے کے لیے اچھی جگہ ہے… اس کے علاوہ اورکیا کہہ سکتا ہوں… مگر something specialوالی کوئی بات نہیں ہے۔ میری گرل فرینڈ اس لڑکی سے بہتر ہے جس کے ساتھ میں نے رات گزاری ہے۔”
اس لڑکے نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
٭…٭…٭