پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۱

وہ دونوں ایک بار پھر خاموش تھے، اسجد کو الجھن ہونے لگی۔ امامہ اتنی کم گو نہیں تھی جتنی وہ اس کے سامنے ہو جاتی تھی۔ پچھلے آدھے گھنٹے میں اس نے گنتی کے لفظ بولے تھے۔
وہ اسے بچپن سے جانتا تھا۔ وہ بہت خوش مزاج تھی۔ ان دونوں کی نسبت ٹھہرائے جانے کے بعد بھی ابتدائی سال میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اسجد کو اس سے بات کر کے خوشی محسوس ہوتی تھی۔ وہ بلا کی حاضر جواب تھی، مگر پچھلے کچھ سالوں میں وہ یک دم بدل گئی تھی اور میڈیکل کالج میں جاکر تو یہ تبدیلی اور بھی زیادہ محسوس ہونے لگی تھی۔ اسجد کو بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا جیسے اس سے بات کرتے ہوئے وہ حد درجہ محتاط رہتی ہے۔ کبھی وہ الجھی ہوئی سی محسوس ہوتی اور کبھی اسے اس کے لہجے میں عجیب سی سرد مہری محسوس ہوتی۔ اسے لگتا وہ جلد از جلد اس سے چھٹکارا پاکر اس کے پاس سے اٹھ کر چلی جانا چاہتی ہے۔
اس وقت بھی وہ ایسا ہی محسوس کر رہا تھا۔
”میں کئی بار سوچتا ہوں کہ میں خوامخواہ ہی تمہارے لیے یہاں آنے کا تردد کرتا ہوں … تمہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہوگا کہ میں آؤں یا نہ آؤں۔” اسجد نے ایک گہری سانس لے کر کہا۔ وہ اس کے بالمقابل لان چیئر پر بیٹھی دور باؤنڈری وال پر چڑھی ہوئی بیل کو گھور رہی تھی۔ اسجد کی شکایت پر اس نے گردن ہلائے بغیر اپنی نظریں بیل سے ہٹا کر اسجد پر مرکوز کردیں۔ اسجد نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا مگر وہ خاموش رہی تو اس نے لفظوں میں کچھ رد و بدل کے ساتھ اپنا سوال دہرایا۔
”تمہیں میرے نہ آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اِمامہ … کیوں ٹھیک کہہ رہا ہوں میں؟”
”اب میں کیا کہہ سکتی ہوں اس پر؟”
”تم کم از کم انکار تو کرسکتی ہو۔ میری بات کو جھٹلا تو سکتی ہو کہ ایسی بات نہیں ہے۔ میں غلط سوچ رہا ہوں اور ۔۔۔”
”ایسی بات نہیں ہے، آپ غلط سوچ رہے ہیں۔” اِمامہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا۔ اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی ٹھنڈا اور چہرہ اتنا ہی بے تاثر تھا جتنا پہلے تھا، اسجد ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گیا۔
”ہاں، میری دعا اور خواہش تو یہی ہے کہ ایسا نہ ہو اور میں واقعی غلط سوچ رہا ہوں مگر تم سے بات کرتے ہوئے میں ہر بار ایسا ہی محسوس کرتا ہوں۔”
”کس بات سے آپ ایسا محسوس کرتے ہیں؟” اس بار پہلی بار اسجد کو اس کی آواز میں کچھ ناراضی جھلکتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”بہت سی باتوں سے … تم میری کسی بات کا ڈھنگ سے جواب ہی نہیں دیتیں۔”
”حالاں کہ میں آپ کی ہر بات کا ڈھنگ سے جواب دینے کی بھرپور کوشش کرتی ہوں… لیکن اب اگر آپ کو میرے جواب پسند نہ آئیں تو میں کیا کرسکتی ہوں۔”
اسجد کو اس بار بات کرتے ہوئے وہ کچھ مزید خفا محسوس ہوئی۔
”میں نے یہ کب کہا کہ مجھے تمہارے جواب پسند نہیں آئے۔ میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ میری ہر بات کے جواب میں تمہارے پاس … ہاں اور نہیں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ تو مجھے لگتا ہے میں اپنے آپ سے باتیں کر رہا ہوں۔”
”اگر آپ مجھ سے یہ پوچھیں گے کہ تم ٹھیک ہو؟ تو میں اس کا جواب ہاں یا نہیں میں ہی دوں گی۔ ہاں اور نہیں کے علاوہ اس سوال کا جواب کسی تقریر سے دیا جاسکتا ہے تو آپ مجھے وہ دے دیں، میں وہ کر دوں گی۔” وہ بالکل سنجیدہ تھی۔
”ہاں اور نہیں کے ساتھ بھی تو کچھ کہا جاسکتا ہے… اور کچھ نہیں، تم جواباً میرا حال ہی پوچھ سکتی ہو۔”
”میں آپ کا کیا حال پوچھوں، ظاہر ہے اگر آپ میرے گھر آئے ہیں، میرے سامنے بیٹھے مجھ سے باتیں کر رہے ہیں تو اس کا واضح مطلب تو یہی ہے کہ آپ ٹھیک ہیں ورنہ آپ اس وقت اپنے گھر، اپنے بستر پر پڑے ہوتے۔”
”یہ فار میلٹی ہوتی ہے اِمامہ۔۔۔!”
”اور آپ جانتے ہیں، میں فارمیلیٹیز پر یقین نہیں رکھتی۔ آپ بھی مجھ سے میرا حال نہ پوچھا کریں۔ میں بالکل مائنڈ نہیں کروں گی۔” اسجد جیسے لاجواب ہوگیا۔
”ٹھیک ہے فارمیلیٹز کو چھوڑو، بندہ کوئی اور بات کرلیتا ہے۔ کچھ ڈسکس کرلیتا ہے۔ اپنی مصروفیات کے بارے میں ہی کچھ بتا دیتا ہے۔”





”اسجد! میں آپ سے کیا ڈسکس کروں… آپ بزنس کرتے ہیں، میں میڈیکل کی اسٹوڈنٹ ہوں… آپ سے میں کیا پوچھوں، اسٹاک مارکیٹ کی پوزیشن …؟ ٹرینڈ Bullish تھایا bearishانڈیکس میں کتنے پوائنٹس کا اضافہ ہوا؟یا آپ لوگ کنسائنمنٹ کہاں بھیج رہے ہیں؟ اس بار گورنمنٹ نے آپ کو کتنی ریبیٹ دی؟” اس کا لہجہ اب بھی اتنا ہی سرد تھا “یا آپ سے اناٹومی ڈسکس کروں، کون سے عوامل انسان کے جگر کو متاثر کرسکتے ہیں۔ بائی پاس سرجری میں اس سال کون سی نئی تکنیک استعمال کی گئی ہے۔ دل کی دھڑکن بحال کرنے کے لیے کتنے سے کتنے وولٹ کا الیکٹرک شاک دیا جاسکتا ہے۔ تو ہم دونوں کی مصروفیات تو یہ ہیں اب ان کے بارے میں ڈسکشن سے آپ اور میں محبت اور بے تکلفی کی کون سی منزلیں طے کریں گے۔ وہ میری سمجھ سے باہر ہے۔”
اسجد کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ اب وہ اس لمحہ کو کوس رہا تھا، جب اس نے اِمامہ سے شکایت کی تھی۔
”اور بھی تو مصروفیات ہوتی ہیں انسان کی۔” اسجد نے قدرے کمزور لہجہ میں کہا۔
”نہیں پڑھائی کے علاوہ میری تو اورکوئی مصروفیات نہیں ہیں۔” اِمامہ نے قطعیت سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”پہلے بھی تو ہم دونوں آپس میں بہت سی باتیں کرتے تھے۔” اِمامہ نے اس کی بات کاٹ دی۔
”پہلے کی بات چھوڑیں، اب میں وقت ضائع کرنا افورڈ نہیں کرسکتی۔ حیرت مجھے آپ پر ہو رہی ہے، آپ بزنس مین ہوکر اتنی امیچور اور ایموشنل سوچ رکھتے ہیں۔ آپ کو تو خود بہت پریکٹیکل ہونا چاہئے۔”
اسجد کچھ بول نہ سکا۔
”ہم دونوں کے درمیان جو رشتہ ہے وہ ہم دونوں جانتے ہیں۔ اب اگر آپ میری پریکٹیکل اپروچ کو بے التفاتی،بے نیازی، ناراضی سمجھیں تو میں کیا کرسکتی ہوں۔ میں آپ کے ساتھ یہاں بیٹھی ہوں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ میں اس رشتے کو اہمیت دیتی ہوں ورنہ کوئی اجنبی تو اس طرح یہاں میرے ساتھ بیٹھ کر چائے نہیں پی سکتا۔” وہ ایک لمحے کے لیے رکی۔ ”اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ آپ کے آنے یا نہ آنے سے مجھے کوئی فرق پڑے گا یا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم دونوں ہی بہت مصروف رہتے ہیں۔ ہم ماڈرن ایج کی پیداوار ہیں نہ میں کوئی ہیر ہوں کہ آپ کے لیے گھی کی چوری لے جاکر گھنٹوں آپ کی بانسری سنتی رہوں گی نہ ہی آپ رانجھے کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں کہ میرے لیے گھنٹوں یہ فریضہ سر انجام دیں۔ سچ یہی ہے کہ فرق واقعی نہیں پڑتا کہ ہم دونوں ملیں یا نہ ملیں، باتیں کریں یا نہ کریں۔ ہمارا رشتہ وہی رہے گا جو اب ہے یا آپ کولگتا ہے اس میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے؟”
اگر اسجد کے ماتھے پر پسینہ نہیں آیا تھا تو اس کی واحد وجہ دسمبر کا مہینہ تھا ان دونوں کی عمر میں آٹھ سال کا فرق تھا مگر اس وقت پہلی بار اسجد کو یہ فرق اٹھارہ سال کا محسوس ہوا تھا۔ وہ اسے اپنے سے اٹھارہ سال بڑی لگی تھی۔ دو ہفتے پہلے وہ انیس سال کی ہوئی تھی مگر اس وقت اسجد کو لگ رہا تھا جیسے وہ ٹین ایج سے سیدھی ادھیڑ عمری میں چلی گئی تھی اور خود وہ ایک بار پھر Pre-teenمیں آگیا تھا۔ وہ اس کے بالمقابل ٹانگ پر ٹانگ رکھے اسجد کے چہرے پر نظریں جمائے اس بے تاثر انداز میں اس کے جواب کی منتظر تھی۔ اسجد نے کرسی کے ہتھے پر ٹکے اس کے ہاتھ میں منگنی کی انگوٹھی کو دیکھا اور کھنکھار کر اپنا گلا صاف کرنے کی کوشش کی۔
”تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو؟ میں صرف اس لیے ڈسکشن کی بات کر رہا تھا کہ ہمارے درمیان انڈر اسٹینڈنگ ڈویلپ ہوسکے۔”
”اسجد! میں اپ کو بہت اچھی طرح سمجھتی اور جانتی ہوں اور یہ جان کر مجھے افسوس ہوا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ ہمارے درمیان ابھی بھی کسی انڈر اسٹینڈنگ کو ڈویلپ کرنے کی ضرورت ہے۔ میرا خیال تھا ہم دونوں کے درمیان اچھی خاصی انڈر اسٹینڈنگ ہے۔”
وہ اسجد کا دن نہیں تھا، اسجد نے اعتراف کیا۔
”اور اگر آپ کا یہ خیال ہے کہ اناٹومی اور بزنس کو ڈسکس کر کے ہم کوئی انڈر اسٹینڈنگ ڈویلپ کرلیں گے تو ٹھیک ہے، آئندہ ہم یہی ڈسکس کرلیا کریں گے۔” اِمامہ کے لہجے میں لاپروائی کا عنصر واضح تھا۔
”تم کو میری بات بری لگی ہے؟”
”بالکل بھی نہیں… میں کیوں برامانوں گی؟” اس کے لہجے میں موجود حیرت کے عنصر نے اسجد کو مزید شرمند ہ کیا۔
”شاید میں نے غلط بات کی ہے۔” ”شاید نہیں یقینا۔” اس نے تینوں لفظوں پر باری باری زور دیتے ہوئے کہا۔
”تم جانتی ہو میرے نزدیک یہ رشتہ کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ میرے بہت سے خواب ہیں۔ اس رشتے کے حوالے سے، تمہارے حوالے سے۔” اسجد نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔ امامہ بے تاثر چہرے کے سات اسی بیل کو دیکھ رہی تھی۔
”شاید اس لیے میں ضرورت سے زیادہ حساس ہو جاتا ہوں۔ مجھے اس رشتے کے حوالے سے کوئی خوف نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں، یہ رشتہ ہم دونوں کی مرضی سے ہوا ہے۔”
وہ اس کے چہرے پر نظریں جمائے بڑے جذب سے کہہ رہا تھا اور یک دم ہی اسے ایک بار پھر یہ احساس ہونے لگا تھا جیسے وہ وہاں موجود نہیں تھی۔ اس کی بات نہیں سن رہی تھی۔ اسجد کولگا وہ ایک بار پھر خود سے باتیں کر رہا تھا۔
٭…٭…٭
ایک بہت بڑی کوٹھی کے عقب میں موجود انیکسی سے میوزک کی آواز باہر لان تک آرہی تھی۔ باہر موجود کوئی بھی شخص انیکسی کے اندر موجود لوگوں کی قوتِ برداشت پر حیرانی کا اظہار کرسکتا تھا لیکن وہ انیکسی کے اندر موجود لوگوں کی حالت دیکھ لیتا تو وہ اس حیران کن قوتِ برداشت کی وجہ جان جاتا۔ انیکسی کے اندر موجود چھ لڑکے جس حالت میں تھے اس حالت میں اس سے زیادہ تیز اور بلند میوزک بھی ان پر اثر انداز نہ ہوسکتا تھا اور جہاں تک ساتویں لڑکے کا تعلق تھا تو وہ ایسی کسی چیز سے متاثر نہیں ہوتا تھا۔
انیکسی کا وہ کمرہ اس وقت دھویں کے مرغولوں اور عجیب قسم کی بو سے بھرا ہوا تھا، قالین پر ایک مشہور ریسٹورنٹ سے لائے گئے کھانے کے کھلے ہوئے ڈبے اور ڈسپوزیبل پلیٹیں، چمچے بھی پڑے تھے۔ قالین پر کھانے پینے کی بچی کھچی چیزیں اور ہڈیاں بھی ادھر ادھر پھینکی گئی تھیں۔ سوفٹ ڈرنک کی پلاسٹک کی بوتلیں بھی ادھر ادھر لڑھک رہی تھیں۔ کیچپ کی بوتلوں سے نکلنے والی کیچپ قالین کو کچھ اور بدنما بنا رہی تھی۔ وہ سات لڑکے اسی قالین پر ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر براجمان تھے۔ ان کے سامنے قالین پر بیئر کے خالی کینز کا ایک ڈھیر بھی لگا ہوا تھا اور تفریح کا یہ سلسلہ وہیں تک نہیں رکا تھا اس وقت وہ ان ڈرگز کو استعمال کرنے میں مصروف تھے جن کا انتظام ان میں سے ایک نے کیا تھا۔
پچھلے دو ماہ میں وہ تیسری بار اس ایڈونچر کے لیے اکٹھے ہوئے تھے اور ان تین مواقع پر وہ چار مختلف قسم کی ڈرگز استعمال کرچکے تھے۔ پہلی بار انہوں نے وہ ڈرگ استعمال کی تھی جو ان میں سے ایک کو اپنے باپ کی دراز سے ملی تھی۔ دوسری بار انہوں نے جوڈرگ استعمال کی تھی وہ انہوں نے اپنے ایک اسکول فیلو کے توسط سے اسلام آباد کے ایک کلب سے خریدی تھی، اور اس بار وہ جو ڈرگ استعمال کر رہے تھے وہ انہوں نے ایک ٹرپ پر راولپنڈ ی کی ایک مارکیٹ میں ایک افغان سے خریدی تھی۔ تینوں مواقع پر انہوں نے ان ڈرگز کے ساتھ الکوحل کا استعمال کیا تھا جس کا حصول ان کے لیے مشکل نہیں تھا۔
اس وقت بھی ان سات لڑکوں میں سے چھ لڑکے پوری طرح نشے میں تھے۔ ان میں سے ایک ابھی بھی کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ڈرگ کو سونگھنے کی کوشش کر رہا تھا، جب کہ دو لڑکے سگریٹ پیتے ہوئے باقی لڑکوں کے ساتھ ٹوٹی پھوٹی گفتگو کر رہے تھے۔ صرف ساتواں لڑکا مکمل طور پر ہوش میں تھا اس لڑکے کا چہرہ مہاسوں سے بھرا ہوا تھا اور اس کے گلے میں موجود ایک سیاہ تنگ ڈوری میں تین چار تانبے کی عجیب سے شکلوں کے زیورات پروئے ہوئے تھے۔ ایلوس پریسلے اسٹائل کے کالرز والی ایک چیکرڈ ڈارک بلو شرٹ کے ساتھ وہ ایک بے ہودہ سی سرمئی جینز پہنے ہوئے تھا جس کے دونوں گھٹنوں پر میڈونا کا چہرہ پینٹ کیا گیا تھا۔
اس نے آنکھیں کھول کر اپنی دائیں طرف موجود لڑکوں پر ایک اچٹتی نظر ڈالی۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں مگر اس سرخی کے باوجود وہ ایسا کوئی تاثر نہیں دے رہی تھیں کہ وہ باقی لڑکوں کی طرح مکمل طور پر نشے کی گرفت میں تھا۔ چند منٹ انہیں دیکھنے کے بعد اس نے سیدھے ہوتے ہوئے ڈبیا میں موجود باقی ڈرگ کون میں ڈال دی اور ایک چھوٹے سے سڑاکے کے ساتھ اسے سونگھنے لگا، کافی دیر کے بعد اس نے اسٹرا کو ایک طرف پھینک دیا اور اپنے ہاتھ کی پور پر تھوڑی سی ڈرگ رکھ کر زبان کی نوک کے ساتھ کچھ دلچسپی، تجسس مگر احتیاط کے ساتھ اسے چکھا۔ دوسرے ہی لمحے اس نے برق رفتاری کے ساتھ اپنے بائیں جانب تھوکا، ڈرگ یقینا بہت اچھی کوالٹی کی تھی۔ اس کی آنکھیں اب پہلے سے زیادہ سرخ ہو رہی تھیں مگر ابھی بھی وہ اپنے ہوش و حواس میں تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ اپنی اس سرگرمی سے کچھ زیادہ محظوظ نہیں ہوا۔ ایک دو منٹ کے بعد اس نے اپنے پاس قالین پر پڑے ہوئے بیئر کے canسے چند گھونٹ لیتے ہوئے جیسے ڈرگ کے ذائقے کو صاف کرنے کی کوشش کی۔ canرکھنے کے بعد وہ چند منٹ تک کون میں موجود ڈرگ کو دیکھتا رہا ، دوسرے چھے لڑکے اس وقت تک نشے میں پوری طرح دھت کارپٹ پر اوندھے سیدھے پڑے تھے مگر وہ اب بھی اسی طرح بیٹھا تھا، canمیں موجود بیئر کے گھونٹ لیتے ہوئے وہ پر سوچ انداز میں ان سب کو دیکھتا رہا۔ اس کی آنکھیں اب متورم ہو رہی تھیں، مگر ان میں موجود چمک بتا رہی تھی کہ وہ ابھی بھی مکمل طور پر نشے میں نہیں ہے۔
یہ اس کے ساتھ تیسری بار ہوا تھا۔ پہلی دو بار ڈرگ استعمال کرنے کے بعد بھی وہ اسی طرح بیٹھا رہا تھا، جب کہ اس کے دوست بہت جلد نشے میں دھت ہوئے تھے۔رات کے پچھلے پہر وہ ان لوگوں کو اسی حالت میں چھوڑ کر خود گھر آگیا تھا۔ آج بھی وہ یہ ہی کرنا چاہتا تھا۔ کمرے کے اندر موجود ڈرگ کی بو سے اب پہلی بار وہ الجھنے لگا تھا اس نے کھڑا ہونے کی کوشش کی اور وہ لڑکھڑایا۔ اپنی لڑکھڑاہٹ پر قابو پاتے ہوئے وہ سیدھا کھڑا ہوگیا۔ نیچے جھک کر ا س نے کی رنگ، والٹ اور کریڈٹ کارڈ اُٹھائے پھر آگے بڑھ کر اس نے اسٹیریو کو بند کر دیا۔ اپنی متورم اور سرخ آنکھوں سے اس نے کمرے میں ایک نظر دوڑائی۔ یوں جیسے وہ کوئی چیز یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو پھر وہ کمرے کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
ایک بار پھر نیچے بیٹھ کر اس نے جاگرز پہنے اور ان کے تسموں کو ٹخنوں کے گرد لپیٹ کر گرہ باندھی پھر دروازے کا لاک کھول کر وہ باہر نکل گیا۔ روشنی سے یک دم وہ کوریڈور کی تاریکی میں آگیا تھا۔ اندھیرے میں اپنا راستہ ڈھونڈتے ہوئے وہ انیکسی کے بیرونی دروازے کو کھولتا ہوا باہر لان میں آگیا۔ انیکسی کی سیڑھیاں اترتے ہوئے اسے اپنی ناک سے کوئی چیز بہتی ہوئی محسوس ہوئی۔ بایاں ہاتھ اٹھا کر اس نے اپنے اوپری ہونٹ پر رکھا اس کی انگلیاں چپچپانے لگی تھیں۔ اس نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اپنی انگلیوں کو انیکسی کی بیرونی لائٹ کی روشنی میں دیکھا۔ اس کی پوروں پر خون کے قطرے لگے ہوئے تھے، اس نے اپنی ٹراؤزر کی جیب ٹٹولتے ہوئے اندر سے ایک رومال برآمد کیا اور اپنی پوروں پر لگا ہوا خون صاف کیا اس کے بعد اس رومال کے ساتھ اس نے اپنے ناک سے ٹپکنے والا خون صاف کیا اسے اپنے حلق میں کوئی چیز چبھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے کھنکار کر اپنا گلا صاف کرنے کی کوشش کی۔ اسے اب اپنے سینے میں بھی گھٹن کا احساس ہونے لگا۔ چند گہرے سانس لے کر اس نے اس گھٹن کو کم کرنے کی کوشش کی۔ وہیں کھڑے کھڑے اس نے دو تین بار نیچے تھوکا اور ایک بار پھر سیڑھیاں اُترنے کے لیے قدم بڑھایا۔ وہ یک دم ٹھٹک گیا۔ اس کے ناک میں عجیب سی سنسناہٹ ہوئی اور پھر ایک دم کوئی چیز پوری قوت سے بہنے لگی۔ وہ بے اختیار کمر کے بل جھک گیا۔ ایک دھار کی صورت میں اس کی ناک سے نکلنے والا خون سیڑھیوں پر گرنے لگا تھا۔ ماربل پر پھسلتا ہوا خون، وہ اسے دیکھتا رہا۔
٭…٭…٭
گالف کلب میں تقریب تقسیم انعامات منعقد کی جا رہی تھی۔ سولہ سالہ سالار سکندر بھی انڈر سکسٹین کی کیٹیگری میں seven under parکے اسکور کے ساتھ پہلی پوزیشن کی ٹرافی وصول کرنے کے لیے موجود تھا۔
سکندر عثمان نے سالار سکندر کا نام پکارے جانے پر تالیاں بجاتے ہوئے اس ٹرافی کیبنٹ کے بارے میں سوچا، جس میں اس سال انہیں کچھ مزید تبدیلیاں کروانی پڑیں گی۔ سالار کو ملنے والی شیلڈز اور ٹرافیز کی تعداد اس سال بھی پچھلے سالوں جیسی ہی تھی۔ ان کے تمام بچے ہی پڑھائی میں بہت اچھے تھے مگر سالار سکندر باقی سب سے مختلف تھا۔ ٹرافیز، شیلڈز اور سرٹیفکیٹس کے معاملے میں وہ سکندر عثمان کے باقی بچوں سے بہت آگے تھا۔ 150 آئی کیو لیول کے حامل اس بچے کا مقابلہ کرنا ان میں سے کسی کے لیے ممکن تھا بھی نہیں۔
فخریہ انداز میں تالیاں بجاتے ہوئے سکندر عثمان نے دائیں طرف بیٹھی ہوئی اپنی بیوی سے سرگوشی میں کہا: ”یہ گالف میں اس کی تیرہویں اور اس سال کی چوتھی ٹرافی ہے۔”
”ہر چیز کا حساب رکھتے ہیں آپ۔” اس کی بیوی نے مسکراتے ہوئے جیسے قدرے ستائشی انداز میں اپنے شوہر سے کہا، جس کی نظریں اس وقت مہمان خصوصی سے ٹرافی وصول کرتے ہوئے سالار پر مرکوز تھیں۔
”صرف گالف کا اور کیوں، وہ تم اچھی طرح جانتی ہو۔” سکندر عثمان نے اپنی بیوی کو دیکھا جو اب سیٹ کی طرف جاتے ہوئے سالار کو دیکھ رہی تھی۔
”I bet”اگر یہ اس وقت اس مقابلے میں شرکت کرنے والے پروفیشنل کھلاڑیوں کے ساتھ کھیل رہا ہو تو بھی اس وقت اس کے ہاتھ میں یہی ٹرافی ہوتی۔” سکندر عثمان نے بیٹے کو دور سے دیکھتے ہوئے کچھ فخریہ انداز میں دعویٰ کیا۔ سالار اب اپنی سیٹ کے اطراف میں موجود دوسری سیٹوں پر موجود دوسرے انعامات حاصل کرنے والوں سے ہاتھ ملانے میں مصروف تھا۔ ان کی بیوی کو سکندر عثمان کے دعویٰ پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی کیوں کہ وہ جانتی تھیں سالار کے بارے میں یہ ایک باپ کا جذباتی جملہ نہیں تھا۔ وہ واقعی اتنا ہی غیر معمولی تھا۔
اسے دو ہفتے پہلے اپنے بھائی زبیر کے ساتھ اس گالف کورس پر اٹھارہ ہول پر کھیلا جانے والا گالف کا میچ یاد آیا۔ rough میں اتفاقاً گر جانے والی ایک بال کو وہ جس صفائی اور مہارت کے ساتھ واپس گرین پر لایا تھا اس نے زبیر کو محو حیرت کردیا، وہ پہلی بار سالار کے ساتھ گالف کھیل رہا تھا ”مجھے یقین نہیں آرہا۔” اٹھارہ ہول کے خاتمہ تک کسی کو بھی یہ یاد نہیں تھا کہ اس نے یہ جملہ کتنی بار بولا تھا۔
roughسے کھیلی جانے والی اس شاٹ نے اگر اسے محوحیرت کیا تھا تو سالار سکندر کے Putters نے اسے دم بخود کر دیا تھا۔ گیند کو ہول میں جاتے دیکھ کر اس نے کلب کے سہارے کھڑے کھڑے صرف گردن موڑ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں سالار سکندر اور اس ہول کے درمیان موجود فاصلے کو ماپا تھا اور پھر جیسے بے یقینی سے سر ہلاتے ہوئے سالار کو دیکھا۔
”آج سالار صاحب اچھا نہیں کھیل رہے۔” زبیر نے مڑ کر بے یقینی کے عالم میں اپنے پیچھے کھڑے کیڈی کو دیکھا جو گالف کارٹ پکڑے سالار کو دیکھتے ہوئے بڑبڑا رہا تھا۔
”ابھی یہ اچھا نہیں کھیل رہا؟” زبیر نے کچھ استہزائیہ انداز میں کلب کے کیڈی کو دیکھا۔
”ہاں صاحب ورنہ بال کبھی roughمیں نہ جاتی۔” کیڈی نے بڑے معمول کے انداز میں انہیں بتایا۔ ”آپ آج یہاں پہلی بار کھیل رہے ہیں اور سالار صاحب پچھلے سات سال سے یہاں کھیل رہے ہیں، میں اسی لیے کہہ رہا ہوں کہ آج وہ اچھا نہیں کھیل رہے۔”
کیڈی نے زبیر کی معلومات میں اضافہ کیا اور زبیر نے اپنی بہن کو دیکھا جو فخریہ انداز میں مسکرا رہی تھیں۔
”اگلی بار میں پوری تیاری کے ساتھ آؤں گا اور اگلی بار کھیل کی جگہ کا انتخاب بھی میں کروں گا۔” زبیر نے کچھ خفت کے عالم میں اپنی بہن کے ساتھ سالار کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”any tme, any place”(کسی بھی وقت کسی بھی جگہ) انہوں نے اپنے بیٹے کی طرف سے اپنے بھائی کو پر اعتماد انداز میں چیلنج کرتے ہوئے کہا ”میں تمہیں اس ویک اینڈ پرٹی اے ڈی اے کے ساتھ کراچی بلوانا چاہتا ہوں۔” انہوں نے سالار کے قریب پہنچ کر ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔ سالار مسکرایا۔
”کس لیے…؟”
”میرے behalfپر تمہیں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر کے ساتھ ایک میچ کھیلنا ہے میں اس بار الیکشن میں اس سے ہارا ہوں، مگر وہ اگر کسی سے گالف کا میچ ہار گیا تو اسے ہارٹ اٹیک ہو جائے گا اور وہ بھی ایک بچے کے ہاتھوں so let’s “settle the scores وہ اپنے بھائی کی بات پر ہنسی تھیں، مگر سالار کے ماتھے پر چند بل نمودار ہوگئے تھے۔
”بچہ؟” اس نے ان کے جملے میں موجود واحد قابل اعتراض لفظ پر زور دیتے ہوئے اسے دہرایا۔ ”میرا خیال ہے انکل! مجھے کل آپ کے ساتھ اٹھارہ ہولز کا ایک اور گیم کرنا پڑے گا۔”
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

عمراں لنگیاں پباں پار — ماہ وش طالب

Read Next

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۲

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!