مسز سمانتھارچرڈز نے دوسری رو میں کھڑکی کے ساتھ پہلی کرسی پر بیٹھے ہوئے اس لڑکے کو چوتھی بار گھورا۔ وہ اس وقت بھی بڑی بے نیازی سے کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔ وقتاً فوقتاً وہ باہر سے نظریں ہٹاتا… ایک نظر مسز سمانتھا کو دیکھتا۔ اس کے بعد پھر اسی طرح باہر جھانکنے لگتا۔
اسلام آباد کے ایک غیر ملکی اسکول میں وہ آج پہلے دن اس کلاس کی بیالوجی پڑھانے کے لیے آئی تھیں۔ وہ ایک ڈپلومیٹ کی بیوی تھیں اور کچھ دن پہلے ہی اسلام آباد اپنے شوہر کے ساتھ آئی تھیں۔ ٹیچنگ ان کا پروفیشن تھا اور جس جس ملک میں ان کے شوہر کی پوسٹنگ ہوئی وہ وہاںسفارت خانہ سے منسلک اسکولز میں پڑھاتی رہیں۔
اپنے سے پہلے بیالوجی پڑھانے والی ٹیچر مسز میرین کی سکیم آف ورک کو ہی جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کلاس کے ساتھ کچھ ابتدائی تعارف اور گفتگو کے بعد دل اور نظامِ دورانِ خون کو ڈایا گرام رائٹنگ بورڈ پر بناتے ہوئے اسے سمجھانا شروع کیا۔
ڈایا گرام کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے اس لڑکے کو کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے دیکھا۔ پرانی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی نظریں اس لڑکے پر مرکوز رکھتے ہوئے انہوں نے اچانک بولنا بند کر دیا۔ کلاس میں یک دم خاموشی چھا گئی۔ اس لڑکے نے سر گھماکر اندر دیکھا۔ مسز سمانتھا رچرڈز سے اس کی نظریں ملیں۔ مسز سمانتھا رچرڈز مسکرائیں اور ایک بار پھر انہوں نے اپنا لیکچر شروع کردیا۔ کچھ دیر تک انہوں نے اسی طرح بولتے ہوئے اپنی نظریں اس لڑکے پر رکھیں، جو اب اپنے سامنے پڑی نوٹ بک پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا اس کے بعد مسز سمانتھا رچرڈز نے اپنی توجہ کلاس میں موجود دوسرے اسٹوڈنٹس پر مرکوز کرلی۔ ان کا خیال تھا وہ خاصا شرمندہ ہوچکا ہے دوبارہ باہر نہیں دیکھے گا مگر صرف دو منٹ کے بعد انہوں نے اسے ایک بار پھر کھڑکی سے باہر متوجہ دیکھا۔ وہ ایک بار پھر بولتے بولتے خاموش ہوگئیں۔ بلا توقف اس لڑکے نے گردن موڑ کر پھر ان کی طرف دیکھا، اس بار مسز سمانتھا رچرڈز مسکرائیں نہیں، بلکہ قدرے سنجیدگی سے اسے دیکھتے ہوئے ایک بار پھر لیکچر دینا شروع کر دیا۔ چند لمحے گزرنے کے بعد انہوں نے رائٹنگ بورڈ کو دیکھنے کے بعد دوبارہ اس لڑکے کو دیکھا تو وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر کچھ دیکھنے میں مصروف تھا۔ اس بار غیر محسوس طور پر ان کے چہرے پر کچھ ناراضی نمودار ہوئی اور وہ کچھ جھنجلاتے ہوئے خاموش ہوئیں اور ان کے خاموش ہوتے ہی اس لڑکے نے کھڑکی کے باہر سے اپنی نظریں ہٹا کر ان کی طر ف دیکھا، اس بار اس لڑکے کے ماتھے پر بھی کچھ شکنیں تھیں۔ ایک نظر مسزسمانتھا رچرڈز کو ناگواری سے دیکھ کر وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔
اس کا انداز اس قدر توہین آمیز تھا کہ مسز سمانتھا رچرڈز کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
”سالار! تم کیا دیکھ رہے ہو؟” انہوں نے سختی سے پوچھا۔
”nothing…” یک لفظی جواب آیا۔ وہ اب چبھتی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔
”تمہیں پتا ہے، میں کیا پڑھا رہی ہوں؟”
”hope so” اس نے اتنے روڈ انداز میں کہا کہ سمانتھا رچرڈز نے یک دم ہاتھ میں پکڑا ہوا مار کر کیپ سے بند کر کے ٹیبل پر پھینک دیا۔
”یہ بات ہے تو پھر یہاں آؤ اور یہ ڈایا گرام بنا کر اس کو لیبل کرو۔” انہوں نے اسفنج کے ساتھ رائٹنگ بورڈ کو صاف کرتے ہوئے کہا۔ یکے بعد دیگرے لڑکے کے چہرے پر کئی رنگ آئے۔ انہوں نے کلاس میں بیٹھے ہوئے اسٹوڈنٹس کو آپس میں نظروں کا تبادلہ کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ لڑکا اب سرد نظروں کے ساتھ سمانتھا رچرڈز کو دیکھ رہا تھا، جیسے ہی انہوں نے رائٹنگ بورڈ سے آخری نشان صاف کیا وہ اپنی کرسی سے ایک جھٹکے کے ساتھ اٹھا، تیز قدموں کے ساتھ اس نے ٹیبل پر پڑا ہوا مارکر اٹھایا اور برق رفتاری کے ساتھ رائٹنگ بورڈ پر ڈایا گرام بنانے لگا۔ پورے دو منٹ ستاون سیکنڈز کے بعد اس نے مارکر پر کیپ لگا کر اسے میز پر اسی انداز میں اچھالا، جس انداز میں سمانتھا رچرڈز نے اچھالا تھا اور سمانتھا رچرڈز کی طرف دیکھے بغیر اپنی کرسی پر آخر بیٹھ گیا۔ مسز رچرڈز نے اسے مارکر اچھالتے یا اپنی کرسی کی طرف جاتے نہیں دیکھا۔ وہ بے یقینی کے عالم میں رائٹنگ بورڈ پر تین منٹ سے بھی کم عرصہ میں بنائی جانے والی اس labelled ڈایا گرام کو دیکھ رہی تھیں، جسے بنانے میں انہوں نے دس منٹ لیے تھے اور وہ ان کی ڈایا گرام سے زیادہ اچھی تھی۔ وہ کہیں بھی معمولی سی غلطی بھی نہیں ڈھونڈ سکیں۔ کچھ خفیف سی ہوتے ہوئے انہوں نے گردن موڑ کر ایک بار پھر اس لڑکے کو دیکھا وہ پھر کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا۔
٭… ٭…٭
وسیم نے تیسری بار دروازے پر دستک دی، اس بار اندر سے ا ِمامہ کی آواز سنائی دی۔
”کون ہے؟”
”اِمامہ! میں ہوں … دروازہ کھولو۔” وسیم نے دروازے سے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔ اندر خاموشی چھا گئی۔
کچھ دیر بعد دروازے کا لاک کھلنے کی آواز سنائی دی۔ وسیم نے دروازے کے ہینڈل کو گھما کر دروازہ کھول دیا۔ اِمامہ اس کی جانب پشت کیے اپنے بیڈ کی طرف بڑھی۔
”تمہیں اس وقت کیا کام آن پڑا ہے مجھ سے؟”
”آخر تم نے اتنی جلدی دروازہ کیوں بند کرلیا تھا۔ ابھی تو دس بجے ہیں…” وسیم کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔
”بس نیند آرہی تھی مجھے۔” وہ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ وسیم اس کا چہرہ دیکھ کر چونک گیا۔
”تم رو رہی تھیں؟” بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔ امامہ کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی تھیں اور وہ اس سے نظریں چرانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”نہیں رو نہیں رہی تھی، بس سر میں کچھ درد ہو رہا تھا۔” امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی۔
وسیم نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اس کاہاتھ پکڑ کرٹمپریچر چیک کرنے کی کوشش کی۔
”کہیں بخار تو نہیں ہے۔” اس نے کچھ تشویش بھرے انداز میں کہا اور پھر ہاتھ چھوڑ دیا۔ ”بخار تونہیں ہے… پھر تم کوئی ٹیبلٹ لے لیتیں۔”
”میں لے چکی ہوں۔”
”اچھا تم سوجاؤ… میں باتیں کرنے آیا تھا مگر اب اس حالت میں کیا باتیں کروں گا تم سے۔” وسیم نے قدم باہر کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ اِمامہ نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ خود بھی اٹھ کر اس کے پیچھے گئی اوروسیم کے باہر نکلتے ہی اس نے دروازے کو پھر لاک کر لیا۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ کر اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا۔ وہ ایک بار پھر ہچکیوں کے ساتھ رو رہی تھی۔
٭… ٭… ٭
تیرہ سال کا وہ لڑکا اس وقت ٹی وی پر میوزک شو دیکھنے میں مصروف تھا، جب طیبہ نے اندر جھانکا، بے یقینی سے انہوں نے اپنے بیٹے کو دیکھا اور پھر کچھ ناراضی کے عالم میں اندر چلی آئیں۔
”یہ کیا ہو رہا ہے؟” انہوں نے اندر آتے ہی کہا۔
”ٹی وی دیکھ رہا ہوں۔” اس نے ٹی وی سے نظریں نہیں ہٹائیں۔
”ٹی وی دیکھ رہا ہوں… فار گاڈ سیک، تمہیں احساس ہے کہ تمہارے پیپرز ہو رہے ہیں؟” طیبہ نے اس کے سامنے آتے ہوئے کہا۔
”سو واٹ…” اس لڑکے نے اس بار کچھ خفگی سے کہا۔
”سو واٹ؟” تمہیں اس وقت اپنے کمرے میں کتابوں کے درمیان ہونا چاہیے نہ کہ یہاں اس بے ہودہ شو کے سامنے۔” طیبہ نے ڈانٹا۔
”مجھے جتنا پڑھنا تھا میں پڑھ چکا ہوں، آپ سامنے سے ہٹ جائیں…” اس کے لہجے میں ناگواری آگئی۔
”پھر بھی اُٹھو اور اندر جاکر پڑھو۔” طیبہ نے اسی طرح کھڑے کھڑے اس سے کہا۔
”نہ میں یہاں سے اٹھوں گا نہ اندر جاکر پڑھوں گا۔ میری اسٹڈیز اور پیپرز میرا مسئلہ ہیں۔ آپ کا نہیں۔
”اگر تمہیں اتنی پروا ہوتی اسٹڈیز کی تو اس وقت تم یہاں بیٹھے ہوتے؟”
”step aside” اس نے طیبہ کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی بدتمیزی کے ساتھ ساتھ ہاتھ کے اشارے سے کہا۔
”آج تمہارے پاپا آجائیں تو میں ان سے بات کرتی ہوں۔” طیبہ نے اسے دھمکانے کی کوشش کی۔
”ابھی بات کرلیں… کیا ہوگا؟ پاپا کیا کرلیں گے۔ جب میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھے جتنی تیاری کرنی ہے میں نے کرلی ہے تو پھر آپ کو کیا مسئلہ ہے؟”
”یہ تمہارے سالانہ امتحان ہیں، تمہیں احساس ہونا چاہیے اس بات کا۔” طیبہ نے یک دم اپنے لہجے کو نرم کرتے ہوئے کہا۔
”میں کوئی دو چار سال کا بچہ نہیں ہوں کہ میرے آگے پیچھے پھرنا پڑے آپ کو… میں اپنے معاملات میں آپ سے زیادہ سمجھ دار ہوں، اس لیے یہ تھرڈ کلاس قسم کے جملے مجھ سے مت بولا کریں۔ ایگزام ہو رہے ہیں۔ اسٹڈیز پر دھیان دو، اس وقت تمہیں اپنے کمرے میں ہونا چاہیے۔”
”میں تمہارے فادر سے بات کروں گی؟”
“what rubbish”
وہ بات کرتے کرتے غصے میں صوفہ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا ہاتھ میں پکڑا ہوا ریموٹ اس نے پوری قوت سے سامنے والی دیوار پر دے مارا اور پاؤں پٹختا ہوا کمرے سے نکل گیا۔ طیبہ کچھ بے بسی اور خفت کے عالم میں اسے کمرے سے باہر نکلتا ہوا دیکھتی رہیں۔
٭…٭…٭
فلومینا فرانسس نے اپنے ہاتھ میں پکڑے پیکٹ میز پر رکھتے ہوئے ایک نظر ہال میں دوڑائی، پیپر شروع ہونے میں ابھی دس منٹ باقی تھے اور ہال میں موجود اسٹوڈنٹس کتابیں، نوٹس اور نوٹ بکس پکڑے تیزی سے صفحے آگے پیچھے کرتے ان پر آخری نظریں ڈال رہے تھے۔ ان کی جسمانی حرکات سے ان کی پریشانی اور اضطراب کا اظہار ہو رہا تھا۔ فلومینا فرانسس کے لیے یہ ایک بہت مانوس سین تھا پھر ان کی نظریں ہال کے تقریباً درمیان میں بیٹھے ہوئے سالار پر جا ٹھہریں۔ پچیس اسٹوڈنٹس میں اس وقت وہ واحد اسٹوڈنٹ تھا جو اطمینان سے اپنی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ میں اسکیل پکڑے آہستہ آہستہ اسے اپنے جوتے پر مارتے ہوئے وہ اطمینان سے ادھر ادھردیکھ رہا تھا، فلو مینا کے لیے یہ سین بھی نیا نہیں تھا۔ اپنے سات سالہ کیریئر میں انہوں نے پیپرز کے دوران سالار کو اسی بے فکری اور لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پایا تھا۔
نو بج کر دو منٹ پر انہوں نے سالار کے پاس گزرتے ہوئے اسے Mcq’s پر مبنی Objective paper تھمایا، تیس منٹ کے بعد اسے وہ پییر ان سے لے لینا تھا۔ نو بج کر دس منٹ پر انہوں نے سالار کو اپنی کرسی سے کھڑا ہوتے دیکھا۔ اس کے کھڑے ہوتے ہی ہال میں اس سے پیچھے موجود تمام اسٹوڈنٹس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ پیپر ہاتھ میں لیے فلومینا فرانسس کی طرف جا رہا تھا۔ فلومینا فرانسس کے لیے یہ بھی نیا سین نہیں تھا۔ وہ پہلے بھی یہی کچھ دیکھتی آئی تھیں۔ تیس منٹ میں حل کیا جانے والا پیپر وہ آٹھ منٹ میں حل کر کے ان کے سر پر کھڑا تھا۔
”پیپر کو دوبارہ دیکھ لو۔” انہوں نے یہ جملہ اس سے نہیں کہا۔ وہ جانتی تھیں اس کا جواب کیا ہوگا۔ ”میں دیکھ چکا ہوں۔” وہ اگر اسے ایک بار پھر پیپر دیکھنے پر مجبور کرتیں تو وہ ہمیشہ کی طرح پیپر لے جاکر اپنی کرسی کے ہتھے پر رکھ کر یا بازو سینے پر لپیٹ کر بیٹھ جاتا۔ انہیں یاد نہیں تھا کبھی اس نے ان کے کہنے پر پیپر کو دوبارہ چیک کیا ہو اور وہ یہ تسلیم کرتی تھیں کہ اسے اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اس کے پیپر میں کسی ایک بھی غلطی کو ڈھونڈنا بہت مشکل کام تھا۔
انہوں نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ہاتھ سے پیپر پکڑ لیا۔
”تم جانتے ہو سالار! میری زندگی کی سب سے بڑی تمنا کیا ہے؟” انہوں نے پیپر پر نظر ڈالتے ہوئے کہا: ”کہ میں تمہیں تیس منٹ کا… پیپر … تیس منٹ … کے بعد Submit کرواتے ہوئے دیکھوں۔” وہ ان کی بات پر خفیف سے انداز میں مسکرایا۔ ”آپ کی یہ خواہش اس صورت میں پوری ہو سکتی ہے میم اگر میں یہ پیپر 150 سال کی عمر میں حل کرنے بیٹھوں۔”
”نہیں میرا خیال ہے 150 سال کی عمر میں تم یہ پیپر دس منٹ میں کروگے۔”
اس بار وہ ہنسا اور واپس مڑ گیا۔ فلومینا فرانسس نے ایک نظر اس کے پیپر کے صفحات کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ ایک سرسری سی نظر بھی انہیں یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ وہ اس پیپر میں کتنے نمبر گنوائے گا… ”زیرو۔”
٭…٭…٭
سلمیٰ نے اپنی بیٹی کے ہاتھوں میں گفٹ پیپر میں لپٹے ہوئے پیکٹ کو حیرانی سے دیکھا۔
”یہ کیا ہے امامہ؟” تم تو مارکیٹ گئی تھیں۔ شاید کچھ کتابیں لینی تھیں تمہیں؟”
”ہاں امی! مجھے کتابیں ہی لینی تھیں، مگر کسی کو تحفے میں دینے کے لیے۔”
”کس کو تحفہ دینا ہے؟”
”وہ لاہور میں ایک دوست ہے میری، اس کی سال گرہ ہے۔ اسی کے لیے خریدا ہے کو رئیر سروس کے ذریعے بھجوادوں گی کیوں کہ مجھے تو ابھی یہاں رہنا ہے۔”
”لاؤ پھر مجھے دے دویہ پیکٹ، میں وسیم کو دے دوں گی، وہ بھجوادے گا۔”
”نہیں امی! میں ابھی نہیں بھجواؤں گی… ابھی اس کی سال گرہ کی تاریخ نہیں آئی۔” سلمیٰ کو لگا جیسے وہ ایک دم گھبرا گئی ہو۔ انہیں حیرانی ہوئی۔ کیا یہ گھبرانے والی بات تھی؟
تین سال پہلے اِمامہ کی وجہ سے انہیں بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہیں اور ان کے شوہر ہاشم کو۔ وہ تب اپنی بیٹی کے بارے میں بہت فکر مند تھیں اور ہاشم ان سے زیادہ مگر پچھلے تین سال میں سب کچھ ٹھیک ہوگیا تھا۔ وہ دونوں اب اس کی طرف سے مکمل طور پر مطمئن تھے۔ خاص طور پر اسجد سے اس کی نسبت طے کرکے۔ وہ جانتی تھیں اِمامہ اسجد کو پسند کرتی ہے اور صرف وہی نہیں اسجد کو کوئی بھی پسند کرسکتا تھا۔ وہ ہر لحاظ سے ایک اچھا لڑکا تھا… وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ اسجدسے نسبت طے ہونے پر بہت خوش ہوئی تھی۔ اسجد اور اس کے درمیان پہلے بھی خاصی دوستی اور بے تکلفی تھی مگر بعض دفعہ انہیں لگتا جیسے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت چپ ہوتی جارہی ہے۔ وہ پہلے ایسی نہیں تھی۔
” مگر اب وہ اسکول جانے والی بچی بھی تو نہیں رہی۔ میڈیکل کالج کی اسٹوڈنٹ ہے… پھر وقت بھی کہاں ہوتا ہے اس کے پاس …” سلمیٰ ہمیشہ خود کو تسلی دے لیتیں۔
وہ ان کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ بڑی دونوں بیٹیوں کی وہ شادی کرچکی تھیں۔ ایک بیٹے کی بھی شادی کرچکی تھیں جب کہ دو بیٹے اور امامہ غیر شادی شدہ تھے۔
”اچھا ہی ہے کہ یہ سنجیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ لڑکیوں کے لیے سنجیدگی اچھی ہوتی ہے۔ انہیں جتنی جلدی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو جائے، اتنا ہی اچھا ہے۔” سلمیٰ نے ایک گہری سانس لیتے ہوے امامہ سے نظریں ہٹالیں۔ وہ چھٹیوں میں گھر آئی ہوئی تھی اور جتنے دن وہ یہاں رہتی ان کی نظریں اس پر اسی طرح مرکوز رہتیں۔
”پتا نہیں، یہ ساجد کہاں رہ گیا ہے جو بھی کام اس کے ذمے لگاؤ بس بھول ہی جاؤ۔” انہیں اچانک اپنے ملازم کا خیال آیا۔ جس کے پیچھے وہ لاؤنج میں آئی تھیں۔ بڑبڑاتے ہوئے وہ لاؤنج سے نکل گئیں۔
٭…٭…٭
یہ نیو ایئر نائٹ تھی۔ نیا سال شروع ہونے میں تیس منٹ باقی تھے۔ دس لڑکوں پر مشتمل چودہ پندرہ سال کے لڑکوں کا وہ گروپ پچھلے دو گھنٹے سے اپنے اپنے موٹر سائیکلز پر شہر کی مختلف سڑکوں پر اپنے کرتب دکھانے میں مصروف تھا، ان میں سے چند نے اپنے ماتھے پر چمکدار بینڈز باندھے ہوئے تھے جن پر نئے سال کے حوالے سے مختلف پیغامات درج تھے۔ وہ لوگ ایک گھنٹہ پہلے پوش علاقے کی ایک بڑی سپر مارکیٹ میں موجود تھے اور وہاں وہ مختلف لڑکیوں پر آوازے کستے رہتے تھے۔
اپنی بائیکس پر سوار اب مختلف سڑکوں پر چکر لگا رہے تھے، ان کے پاس فائر کریکرز موجود تھے جنہیں وہ وقتاً فوقتاً چلا رہے تھے۔ پونے بارہ بجے وہ جم خانہ کے باہر موجود تھے جہاں پارکنگ لاٹ گاڑیوں سے بھر چکا تھا۔ یہ گاڑیاں ان لوگوں کی تھیں جو جم خانے میں نئے سال کے سلسلے میں ہونے والی ایک پارٹی میں آئے تھے۔ ان لڑکوں کے پاس بھی اس پارٹی کے دعوتی کارڈ موجود تھے، کیوں کہ ان میں سے تقریباً تمام کے والدین جم خانہ کے ممبر تھے۔
وہ لڑکے اندر پہنچے تو گیارہ بج کر پچپن منٹ ہو رہے تھے چند منٹوں بعد ڈانس فلور سمیت تمام جگہوں کی لائٹس آف ہو جانی تھیں اور اس کے بعد باہر لان میں آتش بازی کے ایک مظاہرہ کے ساتھ نیا سال شروع ہونے پر لائٹس آن ہونا تھیں اور اسکے بعد تقریباً تمام رات وہاں رقص کے ساتھ ساتھ شراب پی جاتی، جس کا اہتمام نئے سال کی اس تقریب کے لیے جم خانہ کی انتظامیہ خاص طور پر کرتی تھی۔ لائٹس آف ہوتے ہی وہاں ایک طوفانِ بدتمیزی کا آغاز ہو جاتا تھا، اور وہاں موجود لوگ اسی ”طوفانِ بدتمیزی” کے لیے وہاں آئے تھے۔
پندرہ سالہ وہ لڑکا بھی دس لڑکوں کے اس گروپ کے ساتھ آنے کے بعد اس وقت ڈانس فلور پر راک بیٹ پر ڈانس کر رہا تھا، ڈانس میں اس کی مہارت قابل دید تھی۔
بارہ بجنے میں دس سیکنڈرہ جانے پر لائٹس آف ہوگئیں اور ٹھیک بارہ بجے لائٹس یک دم دوبارہ آن کردی گئیں۔
اندھیرے کے بعد سکینڈز گننے والوں کی آوازیں اب شور اور خوشی کے قہقہوں اور چیخوں میں بدل گئی تھیں چند سیکنڈز پہلے تھم جانے والا میوزک ایک بار پھر بجایا جانے لگا۔ وہ لڑکا اب اپنے دوستوں کے ساتھ باہر پارکنگ میں آگیا جہاں بہت سے لڑکے اپنی اپنی گاڑیوں کے ہارن بجا رہے تھے۔ ان ہی لڑکوں کے ساتھ بیئر کے کین پکڑے وہ وہاں موجود ایک گاڑی کی چھت پر چڑھ گیا۔ اس لڑکے نے گاڑی کی چھت پر کھڑے کھڑے اپنی جیکٹ کی جیب سے بیئر کا ایک بھرا ہوا کین نکالا اور پوری طاقت سے کچھ فاصلے پر کھڑی ایک گاڑی کی ونڈاسکرین پر دے مارا۔ ایک دھماکے کے ساتھ گاڑی کی ونڈا سکرین چور چور ہوگئی اور لڑکا اطمینان کے ساتھ اپنے بائیں ہاتھ میں پکڑا کین پیتا رہا۔
٭…٭…٭
وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے کامران کو ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اسکرین پر موجود اسکور میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہو رہا تھا، شاید اس کی وجہ وہ مشکل ٹریک تھا، جس پر کامران کو گاڑی ڈرائیو کرنی تھی۔ سالار لاؤنج کے صوفوں میں سے ایک صوفے پر بیٹھا اپنی نوٹ بک پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا، مگر وقتاً فوقتاً نظر اٹھا کر ٹی وی اسکرین کو بھی دیکھ رہا تھا، جہاں کامران اپنی جدوجہد میں مصروف تھا۔
ٹھیک آدھ گھنٹہ کے بعد اس نے نوٹ بک بند کر کے سامنے پڑی میز پر رکھ دی۔ پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائی روکی۔ دونوں ٹانگیں سامنے پڑی میز پر رکھ کر اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں سر کے پیچھے باندھے وہ کچھ دیر اسکرین کو دیکھتا رہا، جہاں کامران اپنے تمام چانسز ضائع کرنے کے بعد ایک بار پھر نیا گیم کھیلنے کی تیاری کر رہا تھا۔
”کیا پرابلم ہے کامران؟” سالار نے کامران کو مخاطب کیا۔
”ایسے ہی … نیا گیم لے کر آیا ہوں مگر اسکور کرنے میں بڑی مشکل ہو رہی ہے۔” کامران نے بے زاری سے کہا۔
”اچھا مجھے دکھاؤ…” اس نے صوفے سے اٹھ کر ریموٹ کنٹرول اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
کامران نے دیکھا۔ پہلے بیس سیکنڈ میں ہی سالار اسے جس اسپیڈ پر دوڑا رہا تھا اس اسپیڈ پر کامران اب تک نہیں دوڑا پایا تھا۔ جو ٹریک اسے بہت مشکل لگ رہا تھا وہ سالار کے سامنے ایک بچکانہ چیز محسوس ہو رہا تھا۔ ایک منٹ بعد وہ جس اسپیڈ پر گاڑی دوڑا رہا تھا اس اسپیڈ پر کامران کے لیے اس پر نظریں جمانا مشکل ہوگیا جب کہ سالار اس اسپیڈ پر بھی گاڑی کو مکمل طور پر کنٹرول کیے ہوئے تھا۔
تین منٹ کے بعد کامران نے پہلی بار گاڑی کو ڈگمگاتے اور پھر ٹریک سے اُتر کر ایک دھماکے کے ساتھ تباہ کرتے دیکھا۔ کامران نے کچھ مسکراتے ہوئے مڑ کر سالار کو دیکھا۔ گاڑی کیوں تباہ ہوئی تھی، وہ جان گیا تھا ریموٹ اب سالار کے ہاتھ کے بجائے میز پر پڑا تھا اور وہ اپنی نوٹ بک اُٹھائے کھڑا ہو رہا تھا۔ کامران نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ”بہت بورنگ گیم ہے۔” سالار نے تبصرہ کیا اور کامران کی ٹانگوں کو پھلانگتے ہوئے لاؤنج سے باہر نکل گیا۔ کامران ہونٹ بھینچے سات ہندسوں پر مبنی اس اسکور کو دیکھ رہا تھا جو اسکرین کے ایک کونے میں جگمگا رہا تھا، کچھ نہ سمجھ میں آنے والے انداز میں اس نے بیرونی دروازے کو دیکھا جس سے وہ غائب ہوا تھا۔
٭…٭…٭