”میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش؟” بال پوائنٹ ہونٹوں میں دبائے وہ سوچ میں پڑ گئی پھر ایک لمبا سانس لیتے ہوئے قدرے بے بسی سے مسکرائی۔
”بہت مشکل ہے اس سوال کا جواب دینا۔”
”کیوں مشکل ہے؟” جویریہ نے اس سے پوچھا۔
”کیوں کہ میری بہت ساری خواہشات ہیں اور ہر خواہش ہی میرے لیے بہت اہم ہے۔” اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں آڈیٹوریم کے عقبی حصے میں دیوا رکے ساتھ زمین پر ٹیک لگائے بیٹھی تھیں۔
ایف ایس سی کلاسز میں آج ان کا آٹھواں دن تھا اور اس وقت وہ دونوں اپنے فری پیریڈ میں آڈیٹوریم کے عقبی حصے میں آکر بیٹھ گئی تھیں۔ نمکین مونگ پھلی کے دانوں کو ایک ایک کر کے کھاتے ہوئے جویریہ نے اس سے پوچھا۔
”تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے امامہ؟”
امامہ نے قدرے حیرانی سے اسے دیکھا اور سوچ میں پڑ گئی۔
”پہلے تم بتاؤ، تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ امامہ نے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کر دیا۔
”پہلے میں نے پوچھا ہے، تمہیں پہلے جواب دینا چاہیے۔” جویریہ نے گردن ہلائی۔
”اچھا… ٹھیک ہے… مجھے اور سوچنے دو۔” امامہ نے فوراًہار مانتے ہوئے کہا ”میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش؟” وہ بڑبڑائی۔ ”ایک خواہش تو یہ ہے کہ میری زندگی بہت لمبی ہو۔” اس نے کہا۔
”کیوں…؟” جویریہ ہنسی۔
”بس پچاس، ساٹھ سال کی زندگی مجھے بڑی چھوٹی لگتی ہے… کم سے کم سو سال تو ملنے چاہئیں انسان کو دنیا میں… اور پھر میں اتنا سب کچھ کرنا چاہتی ہوں… اگر جلدی مرجاؤں گی تو پھر میری ساری خواہشات ادھوری رہ جائیں گی۔” اس نے مونگ پھلی کا ایک دانہ منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”اچھا اور …؟” جویریہ نے کہا۔
”اور یہ کہ میں ملک کی سب سے بڑی ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں… سب سے اچھی آئی اسپیشلسٹ۔ میں چاہتی ہوں جب پاکستان میں آئی سرجری کی تاریخ لکھی جائے تو اس میں میرا نام ٹاپ آف دا لسٹ ہو۔” اس نے مسکراتے ہوئے آسمان کو دیکھا۔
”اچھا اور اگر کبھی تم ڈاکٹر نہ بن سکیں تو …؟” جویریہ نے کہا: ”آخر یہ میرٹ اور قسمت کی بات ہے۔”
”ایسا ممکن ہی نہیں ہے۔ میں اتنی محنت کر رہی ہوں کہ میرٹ پر ہر صورت آؤں گی۔ پھر میرے والدین کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ میں اگر یہاں کسی میڈیکل کالج میں نہ جاسکی تو وہ مجھے بیرون ملک بھجوا دیں گے۔”
”پھر بھی اگر کبھی ایسا ہو کہ تم ڈاکٹر نہ بن سکو تو…؟”
”ہو ہی نہیں سکتا … یہ میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش ہے میں اس پروفیشن کے لیے سب کچھ چھوڑ سکتی ہوں۔ یہ میرا خواب ہے اور خوابوں کو بھلا کیسے چھوڑا یا بھلایا جاسکتا ہے۔ امپاسبل…”
امامہ نے قطعی انداز میں سر ہلاتے ہوئے ہتھیلی پر رکھے ہوئے دانوں میں سے ایک اور دانہ منہ میں ڈالا۔
”زندگی میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا … کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے، فرض کرو کہ تم ڈاکٹر نہیں بن پاتیں تو …؟ پھر تم کیا کروگی …؟ کیسے ری ایکٹ کروگی؟” امامہ اب سوچ میں پڑ گئی۔
”پہلے تو میں بہت روؤں گی۔ بہت ہی زیادہ… کئی دن … اورپھر میں مرجاؤں گی۔”
جویریہ بے اختیار ہنسی ”اور ابھی کچھ دیر پہلے تو تم یہ کہہ رہی تھیں کہ تم لمبی زندگی چاہتی ہو… اور ابھی تم کہہ رہی ہو کہ تم مرجاؤگی۔”
”ہاں تو پھر زندہ رہ کر کیا کروں گی۔ سارے پلانز ہی میرے میڈیکل کے حوالے سے ہیں … اور یہ چیز زندگی سے نکل گئی تو پھر باقی رہے گا کیا؟”
”یعنی تمہاری ایک بری خواہش دوسری بڑی خواہش کو ختم کردے گی؟”
”تم یہی سمجھ لو….”
”تو پھر اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ تمہاری سب سے بڑی خواہش ڈاکٹر بننا ہے، لمبی زندگی پانا نہیں۔”
”تم کہہ سکتی ہو”….
”اچھا… اگر تم ڈاکٹر نہ بن سکیں تو پھر مروگی کیسے … خود کشی کروگی یا طبعی موت؟” جویریہ نے بڑی دلچسپی سے پوچھا۔
”طبعی موت ہی مروں گی … خود کشی تو کر ہی نہیں سکتی۔” امامہ نے لاپروائی سے کہا۔
”اور اگر تمہیں طبعی موت آ نہ سکی تو … میرا مطلب ہے جلد نہ آئی تو پھر تو تم ڈاکٹر نہ بننے کے باوجود بھی لمبی زندگی گزاروگی۔”
”نہیں، مجھے پتا ہے کہ اگر میں ڈاکٹر نہ بنی تو پھر بہت جلد مرجاؤں گی۔ مجھے اتنا دکھ ہوگا کہ میں تو زندہ رہ ہی نہیں سکوں گی۔” وہ یقین سے بولی۔
”تم جس قدر خوش مزاج ہو، میں کبھی یقین نہیں کرسکتی کہ تم کبھی اتنی دکھی ہوسکتی ہو کہ رو رو کر مرجاؤ اور وہ بھی صرف اس لیے کہ تم ڈاکٹر نہیں بن سکیں۔ Looks funny۔” جویریہ نے اس بار اس کا مذاق اڑانے والے انداز میں کہا۔
”تم اب میری بات چھوڑو، اپنی بات کرو، تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟” اِمامہ نے موضوع بدلتے ہوئے کہا۔
”رہنے دو”…
”کیوں رہنے دوں …َ بتاؤنا؟”
”تمہیں برا لگے گا؟” جویریہ نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا۔
اِمامہ نے گردن موڑ کر حیرانی سے اسے دیکھا: ”مجھے کیوں برا لگے گا؟”
جویریہ خاموش رہی۔
”ایسی کیا بات ہے جو مجھے بری لگے گی؟” امامہ نے اپنا سوال دہرایا۔
”بری لگے گی۔” جویریہ نے مدھم آواز میں کہا۔
”آخر تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کا میری زندگی سے کیا تعلق ہے کہ میں اس پر برا مانوں گی۔” امامہ نے اس بار قدرے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔ ”کہیں تمہاری یہ خواہش تو نہیں ہے کہ میں ڈاکٹر نہ بنوں؟” اِمامہ کو اچانک یاد آیا۔
جویریہ ہنس دی۔ ”نہیں … زندگی صرف ایک ڈاکٹر بن جانے سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔” اس نے کچھ فلسفیانہ انداز میں کہا۔
”پہیلیاں بجھوانا چھوڑو اور مجھے بتاؤ۔” اِمامہ نے کہا۔
”میں وعدہ کرتی ہوں، میں برا نہیں مانوں گی۔” اِمامہ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”وعدہ کرنے کے باوجود میری بات سننے پر تم بری طرح ناراض ہوگی۔ بہتر ہے ہم کچھ اور بات کریں۔” جویریہ نے کہا۔
”اچھا میں اندازہ لگاتی ہوں، تمہاری اس خواہش کا تعلق میرے لیے کسی بہت اہم چیز سے ہے… رائٹ…” اِمامہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا جویریہ نے سر ہلایا۔
”اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میرے لیے کون سی چیز اتنی اہم ہوسکتی ہے کہ میں …” وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔
”مگر جب تک میں تمہاری خواہش کی نوعیت نہیں جان لیتی، میں کچھ بھی اندازہ نہیں کرسکتی۔ بتا دو جویریہ… پلیز… اب تو مجھے بہت ہی زیادہ تجسس ہو رہا ہے۔” اس نے منت کی۔
وہ کچھ دیر سوچتی رہی۔ اِمامہ غور سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی، کچھ دیر کی خاموشی کے بعد جویریہ نے سر اٹھاکر امامہ کو دیکھا۔
”میرے پروفیشن کے علاوہ میری زندگی میں فی الحال جن چیزوں کی اہمیت ہے، وہ صرف ایک ہی ہے اور اگر تم اس کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتی ہو تو کہو میں برا نہیں مانوں گی۔” اِمامہ نے سنجیدگی سے کہا۔
جویریہ نے قدرے چونک کر اسے دیکھا، وہ اپنے ہاتھ میں موجود ایک انگوٹھی کو دیکھ رہی تھی۔ جویریہ مسکرائی۔
”میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ تم …” جویریہ نے اسے اپنی خواہش بتائی۔ اِمامہ کا چہرہ یک دم سفید پڑ گیا۔ وہ شاکڈ تھی یا حیرت زدہ… جویریہ اندازہ نہیں کرسکی، مگر اس کے چہرے کے تاثرات یہ ضرور بتا رہے تھے کہ جویریہ کے منہ سے نکلنے والے جملے اس کے ہر اندازے کے برعکس تھے۔
”میں نے تم سے کہا تھا نا تم برا مانوگی۔” جویریہ نے جیسے صفائی پیش کرنے کی کوشش کی مگر اِمامہ کچھ کہے بغیر اسے دیکھتی رہی۔
٭… ٭ …٭
معیز حلق کے بل چلاتا ہوا درد سے دوہرا ہوگیا، اس کے دونوں ہاتھ اپنے پیٹ پر تھے۔ اس کے سامنے کھڑے بارہ سالہ لڑکے نے اپنی پھٹی ہوئی ٹی شرٹ کی آستین سے اپنی ناک سے بہتا ہوا خون صاف کیا اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے ٹینس ریکٹ کو ایک بار پھر پوری قوت سے معیز کی ٹانگ پر دے مارا۔ معیز کے حلق سے ایک بار چیخ نکلی اور وہ اس بار سیدھا ہوگیا۔ کچھ بے یقینی کے عالم میں اس نے خود سے دو سال چھوٹے بھائی کو دیکھا جواب بغیر کسی لحاظ اور مروت کے اسے اس ریکٹ سے پیٹ رہا تھا جو معیز کچھ دیر پہلے اسے پیٹنے کے لیے لے کر آیا تھا۔
اس ہفتے میں ان دونوں کے درمیان ہونے والا یہ تیسرا جھگڑا تھا اور تینوں بار جھگڑا شروع کرنے والا اس کا چھوٹا بھائی تھا۔ معیز او اس کے تعلقات ہمیشہ ہی ناخوش گوار رہے تھے۔
آج بھی یہی ہوا تھا وہ دونوں اسکول سے اکٹھے واپس آئے تھے اور گاڑی سے اُترتے ہوئے اس کے چھوٹے بھائی نے بڑی درشتی کے ساتھ پیچھے ڈگی سے اس وقت اپنا بیگ کھینچ کر نکالا جب معیز اپنا بیگ نکال رہا تھا۔ بیگ کھینچتے ہوئے معیز کے ہاتھ کو بری طرح رگڑ آئی۔ معیز بری طرح تلملایا۔
”تم اندھے ہوچکے ہو؟”
وہ اطمینان سے اپنا بیگ اٹھائے بے نیازی سے اندر جا رہا تھا، معیز کے چلاّنے پر اس نے پلٹ کر اس کودیکھا اور لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر چلا گیا۔ معیز کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی، وہ تیز قدموں سے اس کے پیچھے اندر چلا آیا۔
”اگر دوبارہ تم نے ایسی حرکت کی تو میں تمہارا ہاتھ توڑ دوں گا۔” اس کے قریب پہنچتے ہوئے معیز ایک بار پھر دھاڑا۔ اس نے بیگ کندھے سے اُتار کر نیچے رکھ دیا اور دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ ”نکالوں گا… تم کیا کروگے…؟ ہاتھ توڑ دوگے؟ اتنی ہمت ہے؟”
”یہ میں تمہیں اس وقت بتاؤں گا جب تم دوبارہ یہ حرکت کروگے۔” معیز اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔
مگر اس کے بھائی نے پوری قوت سے اس کا بیگ کھینچتے ہوئے اسے رکنے پر مجبور کر دیا۔
”نہیں تم مجھے ابھی بتاؤ۔” اس نے معیز کا بیگ اُٹھا کر دور پھینک دیا۔ معیز کا چہرہ سرخ ہوگیا اس نے زمین پر پڑا ہوا اپنے بھائی کا بیگ اٹھا کر دور اچھال دیا۔ ایک لمحے کا انتظار کیے بغیر اس کے بھائی نے پوری قوت سے معیز کی ٹانگ پر ٹھوکر ماری۔ جواباً اس نے پوری قوت سے چھوٹے بھائی کے منہ پر مکامارا جو اس کی ناک پر لگا۔ اگلے ہی لمحے اس کی ناک سے خون ٹپکنے لگا۔ اتنے شدید حملے کے باوجود اس کے حلق سے کوئی آواز نہیں نکلی تھی۔ اس نے معیز کی ٹائی کھینچتے ہوئے اس کا گلا دبانے کی کوشش کی۔ معیز نے جواباً اس کی شرٹ کو کالرز سے کھینچا اسے شرٹ کے پھٹنے کی آواز آئی۔ اس نے پوری قوت سے اپنے چھوٹے بھائی کے پیٹ میں مکا مارا اس کے بھائی کے ہاتھ سے اس کی ٹائی نکل گئی۔
”ٹھہرو میں تمہیں اب تمہارا ہاتھ توڑ کر دکھاتا ہوں۔” معیز نے اسے گالیاں دیتے ہوئے لاؤنج کے ایک کونے میں پڑے ہوئے ایک ریکٹ کو اٹھالیا اور اپنے چھوٹے بھائی کو مارنے کی کوشش کی مگر اگلے ہی لمحے ریکٹ اس کے بھائی کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے پوری قوت سے گھما کر اتنی برق رفتاری کے ساتھ اس ریکٹ کو معیز کے پیٹ میں مارا کہ وہ سنبھل یا خود کو بچا بھی نہیں سکا۔ اس نے یکے بعد دیگرے اس کی کمر اورٹانگ پر ریکٹ برسادیے۔
اندر سے ان دونوں کا بڑا بھائی اشتعال کے عالم میں باہر لاؤنج میں آگیا۔
”کیا تکلیف ہے تم دونوں کو … گھر میں آتے ہی ہنگامہ شروع کردیتے ہو۔” اس کو دیکھتے ہی چھوٹے بھائی نے اٹھا ہوا ریکٹ نیچے کرلیا تھا۔
“اور تم … تمہیں شرم نہیں آتی اپنے سے بڑے بھائی کو مارتے ہو۔” اس کی نظر اب اس کے ہاتھ میں پکڑے ریکٹ پر گئی۔
”نہیں آتی۔” اس نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہتے ہوئے ریکٹ ایک طرف اچھال دیا اور بڑی بے خوفی سے کچھ فاصلے پر پڑا ہوا اپنا بیگ اٹھا کر اندر جانے لگا۔ معیز نے بلند آواز میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا۔
”تم کو اس کا خمیازی بھگتنا پڑے گا۔” وہ ابھی تک اپنی ٹانگ سہلا رہا تھا۔
”sure why not.” (ہاں، کیوں نہیں) ایک عجیب سی مسکراھٹ کے ساتھ سیڑھیوں کے آخری سرے پر رُک کر اس نے معیز سے کہا: ”اگلی بار تم بیٹ لے کر آنا… ٹینس ریکٹ سے کچھ مزہ نہیں آیا… تمہاری کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی۔” معیز کو اشتعال آگیا۔
”تم اپنی ناک سنبھالو… وہ یقینا ٹوٹ گئی ہے۔”
معیز غصے کے عالم میں سیڑھیوں کو دیکھتا رہا، جہاں کچھ دیر پہلے وہ کھڑا تھا۔
٭ … ٭…٭