رات کے دو بج رہے تھے۔ ہر طرف سناٹا چھایاہوا تھا۔ عارف سڑک کے کنارے پیدل چل رہا تھا، پوری دنیا سے بے خبر اور تنہا ۔ وہ ہر چیز کی امید کھو بیٹھا تھا۔ گھر میں سارے پریشان تھے۔ بیمار ماں کتنی دیر سے اس کی راہ تک رہی تھی اور دو بہنیں جن کی شادی کی فکر عارف کو ستاتی رہتی تھی، وہ بھی ہاتھ اٹھائے دعائیں کر رہی تھیں مگر عارف ہر چیز سے واقف ہو کر بھی ناواقف تھا۔
عارف وہ بدقسمت شخص تھا جو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بے روزگار تھا اور مقروض بھی۔ نوکری اسے ملتی نہیں تھی اور کاروبار میں وہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا تھا ۔ بال بکھرے ہوئے، کپڑے گندے، بھوک سے بے حالمگر کھانا وہ چاہتا نہیں تھا ۔ بہنوں کی شادی نہیں ہوتی تھی اور اگر کہیں رشتہ طے ہوتا تو کسی وجہ سے وہ بھی ٹوٹ جاتا۔ ماں بیمار تھی، اس کی دوائیوں کے خرچے الگ تھے۔ وہ اپنے آپ کو دنیا کا بدقسمت شخص سمجھتا تھا ۔
اس گہری رات کی تاریکی میں کچھ لمحے پہلے اس نے ہمت کی اور تیز رفتار گاڑی کے سامنے آکر جان دینا چاہی مگر کسی اجنبی نے دھکا دے کر اس کی جان بچا لی اور عارف کو ’’پاگل‘‘ کہتا ہوا آگے نکل گیا ۔ معلوم نہیں وہ کتنا پیدل چل چکا تھا، اس کو اندازہ بھی نہ ہوا ۔ موت اس کو گلے لگانے کو تیار نہ تھی اور زندگی سے اس نے منہ پھیر لیا تھا مگر سڑک کنارے چلتے جب اس کو کوئی خیال تنگ کرتا تو اس کے آنسو نکل آتے اور وہ عینک اتار کر آنسو صاف کرنے لگ جاتا۔
چل چل کر جب اس کی ٹانگیں جواب دے گئیں اور ہمت مکمل طور پر ختم ہو چکی تو اس نے بیٹھنے کے لیے جگہ تلاش کرنا چاہی۔ وہ کہاں تھا اسے کچھ معلوم نہ تھا۔ سڑک کنارے ایک بس سٹاپ آیا توعارف ادھر ہی بیٹھ گیا۔ یہ جگہ بیٹھنے کے لیے مناسب تھی ۔ پاس ہی ایک شخص چادر لیے لیٹا ہوا تھا۔ سٹریٹ لائٹس جل رہی تھیں۔ عارف ادھر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اس نے دور دور تک نظر دوڑائی مگر اسے کوئی نظر نہ آیا تھا۔ آج سے پہلے اس پر کبھی اتنی نا امیدی نہیں چھائی تھی ۔ بیٹھے بیٹھے اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ سو گیا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کچھ ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ قریبی مسجد سے اذان کی آواز سنائی دی اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کے ساتھ ہی جو شخص لیٹا ہوا تھا وہ بھی حرکت کرنے لگا ۔ اس شخص نے منہ سے چادر ہٹائی اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ نحیف سا بابا تھا۔ سفید داڑھی اور آنکھوں میں عجیب سی چمک رکھتا تھا۔ بابا جی نے جیب سے ٹوپی نکال کر سر پر پہنی اور اذان کی طرف متوجہ ہو گیا۔ جب اذان ختم ہو ئی تو اس نے دونوں ہاتھ دعا کے لیے اٹھا لیے اور دعا مانگنے لگ گیا۔ یہ سب ماجرا عارف بڑے غور سے دیکھ رہا تھا اور اندر ہی اندر اس کو عجیب سی کیفیت محسوس ہو رہی تھی ۔ بابا جی کے چہرے پر انتہا کا سکون تھا جو کہ اس وقت عارف کے پاس موجود نہیں تھا۔
بزرگ نے جب دعا مانگ لی تو عارف کو دیکھنے لگے۔ عارف نے جب باباجی کی آنکھوں میں دیکھا تو اس کو عجیب سا سکون مل رہا تھا۔ باباجی نے عارف کو دیکھ کر کہا :
’’السلام علیکم میاں! خیر تو ہے اس وقت ادھر کیا کر رہے ہو؟‘‘باباجی کہتے ہوئے اپنی چادر سمیٹنے لگ گے۔
’’آپ بھی تو اس وقت ادھر ہیں۔‘‘ عارف نے باباجی کا سوال ان کو واپس کر دیا ۔ باباجی عارف کی بات سُن کر مُسکرا دیے۔
’’مگر میاں میرا ادھر ہونا اور تمہارا ادھر ہونا مختلف معنی رکھتا ہے۔‘‘ باباجی مُسکراتے ہوئے بالکل ایسے بیٹھ گئے جیسے وہ عارف سے باتیں کرنا چاہتے ہوں اور جب عارف بھی باباجی کو دیکھتا تو اس کا دل بھی بات کرنے کو کرتا تھا۔
’’شکل سے تو اچھے گھر کے لگتے ہو، اتنے پریشان کیوں بیٹھے ہو؟ کوئی مسئلہ ہے؟‘‘ باباجی عارف کے قریب ہو گئے۔ انہوں نے عارف کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
’’میں خود ایک مسئلہ ہوں، میری ذات ایک مسئلہ ہے۔ شاید میں پیدا ہی مسائل کے لیے کیا گیا ہوں۔‘‘ عارف کی آنکھوں سے پھر آنسو ٹپکنے لگے۔
’’نہ بیٹا! پریشان کیوں ہوتے ہو؟ جس نے مسئلے بنائے ہیں ضرور اس نے مسئلوں کا حل بھی بنایا ہو گا اور اوپر والا تو اتنا رحیم ہے کہ وہ کسی کو اس کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ بیٹے کسی مسئلے کا حل ناامیدی اور پریشانی ہوتا ہے؟ مجھے بتائو تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ شاید کوئی حل نکل آئے۔‘‘باباجی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو اس کا دل چاہا کہ سب کچھ کھول کر باباجی کے سامنے رکھ دے۔
’’میں ایک ناکام شخص ہوں باباجی! ایک بد قسمت شخص ہوں، سونے کو ہاتھ لگاتا ہوں وہ مٹی بن جاتا ہے ۔ گھر کے خرچے، ماں کی بیماری، بہنوں کے رشتے، کئی کاروبار کیے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اُلٹا ادھار سر پر چڑھ گیا۔ کئی جگہوں پر نوکری کی درخواستیں دیں مگر کہیں منظور نہیں ہوئی۔ آپ بتائیں میں کیا کروں؟‘‘ عارف نے کہتے ہوئے عینک اتار دی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ باباجی ساری باتیں خاموشی سے سن رہے تھے۔
’’ہاں تو نوکری کرنی ہے تو اللہ کی کرو اور اگر کاروبار کرنا ہے تب بھی اللہ کے ساتھ کرو۔ ہم لوگوں کا یہی تو مسئلہ ہوتا ہے جس نے ہمیں پیدا کیا ہم اس سے نہیں مانگتے۔ ہم دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور بدلے میں لوگ وہی دیتے ہیں جو ان کے پاس ہوتا ہے۔ پریشانی، تنگی، فتنہ،دغا اور ایسی کئی بیماریاں۔ مگر جو اللہ سے مانگتا ہے بدلے میں اللہ اس کی جھولی بھر دیتا ہے۔ برکتوں سے، رحمتوں سے، سکون سے۔ جو کرنا ہے یا جو مانگنا ہے اللہ سے مانگو، اس کے ساتھ کرو۔‘‘ باباجی کہہ رہے تھے اور عارف سُن رہا تھا۔ اس کو سکون محسوس ہو رہا تھا۔ وہ خاموشی سے باباجی کو دیکھ رہا تھا اور اپنے اندر تبدیلی کی ایک لہر محسوس کر رہا تھا۔
’’مگر باباجی !شاید مجھے اللہ کے ساتھ کاروبار کرنے کا طریقہ نہیں آتا ۔‘‘ عارف نے عینک پہن لی۔ اس کے اندر تجسس پیدا ہونے لگ گیا ۔ وہ باباجی کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
’’دیکھو بیٹا! جب تم اللہ کے ساتھ کاروبار شروع کرو گے اور اس کے حصے کا مال اس کی راہ میں خرچ کرو گے تو ناکامی کا خوف ختم ہو جائے گا اور تم کام یابی کی طرف نکل پڑو گے۔ تم اس کو اپنے کاروبار کا حصہ دار بنا لو، جس کو انگریزی میں کہتے ہے نا ’’پارٹنر‘‘ہاں پارٹنر بنالو۔ تم دیکھنا وہ تم پر کیسے رحمتوں کی بارش کرتا ہے۔ بھوکوں کی بھوک مٹائوگے وہ تمہاری بھوک مٹائے گا۔ لوگوں کے مسئلے حل کرو، تمہارا کوئی مسئلہ باقی نہیں رہے گا۔ میری بات کو اپنے ذہن میں بٹھا لو ان شاء اللہ وہ کسی کو مایوس نہیں کرتا۔ گھر میں تمہاری ماں تمہارا انتظار کررہی ہے ۔ماں خدا کی بہت بڑی نعمت ہے، اس کی قدرکرو۔‘‘ باباجی کہتے ہوئے اٹھے اور عارف کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے۔
’’چلو اٹھو! نماز کا وقت ہو رہا ہے، نماز پڑھ لو اور چڑھتے سورج کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرو۔‘‘ باباجی کی باتیں عارف کی روح میں اتر رہی تھیں۔ اس کا جسم ایک دم ڈھیلا ہو گیا۔ باباجی مڑے اور مسجد کی طرف چل دیے، عارف ان کو جاتا دیکھ رہا تھا۔ باباجی کافی دور نکل گئے تھے، کچھ لمحے ادھر بیٹھنے کے بعد عارف اٹھا اور گھر کی طرف تیز قدموں کے ساتھ چل دیا۔
اس بات کو دس سال گزر چکے تھے۔ عارف کی شادی ہو چکی ہے اور اس کی بہنوں کی بھی۔ جو عارف دس سال پہلے تھا آج وہ عارف نہیں رہا تھا۔ آج عارف مُلک کا ایک نام ور شخص بن چکا۔ مُلک کے کئی شہروں میں اس کے دستر خوان چلتے تھے جہاں کئی غریب لوگ مفت کھانا کھاتے اور کئی فلاحی ادارے عارف فنڈز کے نام سے چل رہے ہیں ۔ جو پارٹنرشپ عارف نے پانچ سال پہلے شروع کی تھی وہ کام یاب ہو چکی تھی۔ آج اس کے اپنے مسئلے نہ ہونے کے باوجود مسئلوں میں گھرا رہتا تھا ۔ کسی کو علاج کی ضرورت یا کسی مقروض کو پیسوں کی آج اس نے لوگوں کے مسئلوں کو اپنا مسئلہ بنا لیا تھا، اس لیے شاید اس کے سارے مسائل حل ہو گئے اور کام یابیاں اس کے قدم چوم رہی تھیں۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});