ٹرانسفر لیٹر — افتخار چوہدری

چودھری بشارت کا وسیع و عریض پر شکوہ فارم ہاوؑس کسی شہزادے کی رہائش گاہ جیسا تھا ۔ اس وقت رات اپنے آخری پہر میں داخل ہو چکی تھی۔ جب میں فارم ہاوؑس کی عقبی دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوا، تو مزید کارروائی کے لیے مجھے کافی انتظا ر کرنا پڑا۔ اس کی وجہ دو بلڈاگ تھے جو کسی ناگہانی بلا کی صورت راستہ روکنے کے لیے موجود تھے ۔ بے ہوشی کی دوا ملا گوشت انہوں نے بہت ناک بھوں چڑھانے کے بعد نوش کیا تھا۔ اب وہ بے ہوش پڑے تھے۔ میں اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانپے ہوئے تھا جس میں سے صرف آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ بیرونی چار دیواری سے فارم ہاوؑس کی عمارت تک کی درمیانی جگہ میں مختلف قسم کے پھلدار درخت لگے ہوئے تھے۔ فارم ہاوؑس کی عمارت پر نصب سرچ لائٹوں سے باغ بقعہ نور بنا ہوا تھا ۔ میں درختوں کی اوٹ لیتا ہوا لمبا چکر کا ٹ کر مین گیٹ کے ساتھ بنے سکیورٹی کیبن کے پاس پہنچ گیا۔ پھر احتیاط سے اندر جھانکا، تو گارڈ موجود تھا۔ وہ کرسی پر بیٹھا اونگھ رہا تھا ،جب کہ اس کی گن پیروں میں لڑھکی پڑی تھی۔ میں دبے قدموں اس کے سامنے پہنچا اور اس سے پہلے کہ اس کی آنکھ کھلتی، میرے ریوالور کے دستے کی نپی تلی ایک ہی ضرب سے اس کی کنپٹی پر آلو ابھر آیا ۔ وہ بے ہوشی کی حالت میں کرسی سے نیچے گر گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے سیدھا کیا، تو چونک گیا۔ اس گارڈ کو تو میں نے اس دن حویلی میں دیکھا تھا، جب وہ میری لٹکائی ہوئی رسی کا معائنہ کر رہے تھے۔ گو میں نے اسے ایک نظر ہی دیکھا تھا، مگر اس کا لحیم شحیم وجود میرے ذہن میں رہ گیا تھا۔ میں نے اسی کے ازار بند سے اس کی مشقیں کس دیں اور اپنے پاس موجود بیگ میں سے ٹیپ نکال کر اس کے منہ پر چپکا دی۔ اسے گھسیٹ کر دیوار کے سہارے بٹھا دیا اور پھر پوری قوت سے اس کے چہرے پر تھپڑوں کی بارش کر دی ۔ کچھ ہی دیر میں اس نے آنکھیں کھول دیں۔ ہوش میں آنے کے بعد اس نے لاشعوری طور پر اٹھنے کی کوشش کی، مگر بندھے ہونے کی وجہ سے صرف کسمسا کر رہ گیا۔
اس دوران میں بیگ میں سے خنجر نکال چکا تھا ۔ سٹیل لیس سٹیل کے خنجر کے ایک طرف تیز دھار جب کہ دوسری طرف آری کی طرز پر دندانے بنے ہوئے تھے ،چمکتے ہوئے خنجر پر نظر پڑتے ہی اس آنکھیں خوف کی وجہ سے حلقوں سے باہر آگئیں۔ میں تمہارے منہ سے ٹیپ ہٹا رہا ہوں اگر تم نے چیخنے کی کوشش کی، تو ایک لمحے میں تمہاری شہ رگ کاٹ دوں گا۔ مجھے علم ہے یہاں تمہارے علاوہ اور کوئی گارڈ موجود نہیں اور رہی بات چودھری کی تو وہ یقینا کسی ساوؑنڈ پروف کمرے میں ہے۔ وہاں تک تمہاری آواز جا ہی نہیں سکتی اور اگر تم تعاون کرتے ہوئے چند سوالوں کے جواب دے دو گے، تو تمہاری جان بخشی جا سکتی ہے۔ تم بہرحال ایک مہرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ۔بولو کیا کہتے ہو۔‘‘ میں نے اس کے سامنے دو آپشن رکھے ،تو وہ زور زور سے سر ہلا کر اپنی رضا مندی ظاہر کرنے لگا ۔





’’ٹھیک ہے میں ٹیپ اتارنے لگا ہوں، اب یہ تمہارے ہاتھ میں ہے کہ تم زندہ رہنا چاہتے ہو کہ نہیں ۔‘‘ میں نے ایک بار پھر سے اسے غلط حرکت سے باز رہنے کی وارننگ دی اور ایک جھٹکے سے اس کے منہ پر چپکی ٹیپ کھینچ کر اتار دی۔ ٹیپ کے ساتھ اس کی مونچھوں کے کافی بال بھی اتر آئے جس کی تکلیف سے وہ سسک کر رہ گیا۔ اس کی آنکھوں میں خوف جیسے ثبت ہو گیا تھا۔
’’آج سے پہلے وہ بے بس اور مجبور لوگوں پر ظلم ہی ڈھاتا رہا ہوگا، مگر آج موت کو سامنے دیکھ کر بھیگی بلی بنا ہوا تھا۔ میں پہلے چند ایسی باتیں پوچھوں گا جن کا جواب مجھے خود معلوم ہے، اگر تم نے ان سوالوں کے ٹھیک جواب دیے، تو پھر اصل بات پوچھوں گا ۔ یقین مانو جہاں مجھے محسوس ہوا کہ تم مجھے ڈاج دینے کی کوشش کر رہے ہو ،اسی لمحے تم تڑپتے ہوئے نظر آوؑ گے۔ میں نے اسے نفسیاتی ٹریپ میں جکڑتے ہوئے کہا۔
’’م م میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔‘‘ اس کے گلے میں پھنسی پھنسی سی آواز برآمد ہوئی۔ اس کے لمبے تڑنگے جسم کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی ڈر جائے گا۔ بہرحال موت کا خوف اس کے چہرے سے عیاں ہو رہا تھا۔
’’تمہارا نام کیا ہے، تم کل رات چودھری کی حویلی میں پہرہ دے رہے تھے۔ اسی دوران تم لوگوں نے اس رسی کو ٹریس کیا تھا جس کے ذریعے کوئی شخص حویلی کے اندر داخل ہوا تھا۔ ظاہر ہے تم لوگوں نے چودھری کو آگاہ کیا ہو گا ،تو اس کا ردِ عمل کیا تھا۔‘‘ میں نے خنجر اس کے حلقوم پر رکھتے ہوئے انتہائی سرد لہجے میں پوچھا۔ وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگا۔ اسے میری آنکھوں کے سوا کچھ نظر نہیں آرہا تھا ، یقینا اسے میری بات سن کر کنفرم ہو گیا تھا کہ کل رات حویلی میں داخل ہونے والا شخص اس کے سامنے کھڑا ہے۔
’’میرا نام شیر علی ہے، چودھری صاحب پیار سے شیرو کہتے ہیں ۔ کل رات حویلی کے گرد راوؑنڈ کرتے ہوئے میں نے ہی دیوار کے ساتھ رسی دیکھی تھی۔ اس کے بعد ہم سب سکیورٹی والوں نے اس شخص کو تلاش کرنا شروع کیا، تو انکشاف ہوا کہ وہ مین گیٹ سے باہر نکل گیا ہے ۔اگر ہم اس واقعے کی اطلاع چودھری کو دیتے تو وہ ہمارا خون پی جاتا۔ اسی خوف سے ہم نے کسی سے ذکر ہی نہیں کیا۔‘‘ شیرو نے تھوک نگلتے ہوئے تفصیل بتائی۔
’’او کے ٹھیک ہے اب یہ بتاوؑ اس وقت چودھری کے ہمراہ کتنے لوگ موجود ہیں۔‘‘ میں نے بدستور جارحانہ لہجے میں پوچھا۔
’’وہ وہ مجھے جان سے مار دے گا، اگر میں نے بتایا تو۔‘‘ اس نے گھگیاتے ہوئے جواب دیا۔
’’وہ تو پتا نہیں کب مارے گا ،میں تو ابھی تمہارا نر خرہ کاٹ دوں گا۔‘‘ میں نے دانت نکوستے ہوئے کہا، تواس دوران غیر ارادی طور پر میرے ہاتھ کا دباوؑ اس کی گردن پر بڑھ گیا جس سے اس کی گردن پر خون کی لکیر بہنے لگی ۔
’’اس کے ساتھ ایک لڑکی ہے، مگر میں نے اس کا چہرہ نہیں دیکھا ،نہ ہی ہمیں کوئی سوال پوچھنے کی اجازت ہے۔‘‘ شیرو نے جواب دیا، تو ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کہیں دور سے دوڑتا ہوا آرہا ہو۔ اس کا سانس دھونکنی کی طرح چل رہا تھا۔
’’تم نے ٹھیک جواب دے کر وقتی طور پر تو اپنی جان بچا لی ہے، پہلے میں اس خبیث چودھری سے نپٹ لوں، اس کے بعد سوچتے ہیں تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔‘‘ میں نے خنجر واپس بیگ میں رکھتے ہوئے کہا اور پھر دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کو ہک کی طرح موڑتے ہوئے پوری طاقت کے ساتھ اس کی کنپٹی پر دے ماریں۔ وہ ایک لمحے کے لیے کسی ذبح کیے ہوئے جانور کی طرح تڑپا اور پھر اس کے ہاتھ پاوؑں سیدھے ہو گئے۔
مجھے وہاں سے نکل کر فارم ہاوؑس کی عمارت تک پہنچے میں چند سیکنڈ سے زیادہ وقت نہیں لگا۔ گیراج میں نئے ماڈل کی لینڈ کروزر کھڑی تھی ،اس کے قریب سے گزر کر اندرونی دروازے تک پہنچا جو اندر سے لاک تھا اُسے کھولنے میں مجھے چند سیکنڈ لگے۔ جیسے ہی میں دبے پاوؑں سٹنگ روم میں داخل ہوا، تو میری توقع کے خلاف چودھری نا صرف جاگ رہا تھا ،بلکہ اکیلا بیٹھا شراب پی رہا تھا۔ اس وقت بھی ٹیبل پر دو خالی اور ایک آدھی بوتل موجود تھی۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی وہ ایسے ساکت ہوا ،جیسے چلتے ہوئے کھلونے کی اچانک چابی ختم ہوجائے ۔
’’کون ہو تم اور تمہاری جرأت کیسے ہوئی یہاں آنے کی؟‘‘ کچھ دیر بعد جب چودھری کی حیرت کم ہوئی تو اس نے نشے سے چُور لہجے میں رعب جھاڑنے کی کوشش کی۔ میں نے اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے اس کے سامنے رکھے ہوئے ٹیبل کو ایک جاندار ٹھوکر رسید کی تو ٹیبل الٹ کر اس پر جاگرا جس سے بوتلیں فرش پر گر کر چکنا چور ہو گئیں۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی، مگر لڑکھڑا کر واپس صوفے پر گر گیا۔ اس دوران میں نے آگے بڑھ کر اس کی کنپٹی پر نپی تُلی سپین راوؑنڈ کک جڑ دی، تو وہ بے ہوشی کی وادی میں اترتا چلا گیا۔ میں نے ٹرانسمیٹرنکال کر ایس پی صاحب کی فریکونسی ملا لی ، کال فوراً ہی رسیو کر لی گئی۔
’’یس ۔اوور۔‘‘ رابطہ ملتے ہی ایس پی صاحب کی سپاٹ آواز سنائی دی ۔
’’سر!راستہ کلیئر ہے۔اوور۔‘‘ میں نے انہیں مختصر سی رپورٹ دی۔
’’ویل ڈن بوائے۔ ہم آرہے ہیں اوور اینڈ آل۔‘‘ رابطہ منقطع ہوتے ہی میں نے ٹرانسمیڑ واپس رکھا اور اطراف میں موجود کمروں کو چیک کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں، میں نے پوری عمارت کھنگال ڈالی، مگر رفعت تو کیا کوئی اور لڑکی بھی برآمد نہیں ہوئی ۔ کیا شیرونے مجھے ڈاج دیا ہے ۔میں خود کلامی کے انداز میں بڑبڑاتا ہوا واپس سٹنگ روم میں داخل ہوا، تو ایس پی صاحب سپیشل فورس کے پانچ مسلح کمانڈوز کے ساتھ وہاں موجود تھے ۔ان سب کے چہروں پر نقاب تھے۔
’’لگتا ہے رفعت یہاں نہیں ہے۔‘‘ ایس پی صاحب نے میری چال میں چھپی مایوسی کو نوٹ کرتے ہوئے پوچھا۔
’’واقعی سر پوری عمارت خالی پڑی ہے ، مگر گیٹ پر موجود گارڈ شیر علی عرف شیرو نے تصدیق کی تھی کہ یہاں ایک لڑکی موجود ہے ،گو کہ اس نے لڑکی کا چہرہ نہیں دیکھا تھا اور جس حالت میں اس نے یہ معلومات اُگلیں ہیں، اس میں جھوٹ بولنا دل گردے کا کام ہے۔‘‘ میں نے ہونٹ چباتے ہوئے جواب دیا ۔
’’ڈونٹ وری بوائے اب یہ شیطان کا چیلا خود ہی بتائے گا کہ اس نے رفعت کو کہاں چھپایا ہے۔ نمبر فور اس کے ہاتھ پاوؑں باندھ کر ہوش میں لے آوؑ۔‘‘ انہوں نے مجھے تسلی دینے کے بعد ایک کمانڈو کو کوڈنام سے مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا ، تو اس نے چودھری کی مشقیں کس دیں اور پھر ایک ہی ہاتھ سے اس کا ناک اور منہ بند کر دیا۔ جب چودھری کو آکسیجن ملنا بند ہو ئی تو اس کے جسم میں حرکت کے آثار پیدا ہوگئے۔ پھر جیسے ہی اس کے جسم کو جھٹکے لگنے لگے تو نمبر فور پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا ۔ اسی لمحے چودھری نے آنکھیں کھول دیں۔ اس دوران ایک کمانڈو کچن سے پانی کا بھرا ہو جگ لے آیا اور چودھری کے چہرے پر دھار کی صورت انڈیل دیا۔ اس کا نشہ ہرن ہوگیا ۔ اتنے سارے مسلح نقاب پوشوں کو دیکھ کر وہ ذرا سا بھی نروس نہیں ہوا تھا۔
’’شایدتم لوگ مجھے نہیں جانتے، اس لیے تم سے انجانے میں یہ حماقت ہوگئی ہے۔ میں تمہاری اس حرکت پر تمہیں تمہارے خاندانوں سمیت زمین میں گاڑ سکتاہوں۔ اگر تم لوگ خیریت چاہتے ہو تو مجھے کھول کر یہاں سے دفع ہو جاوؑ ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔‘‘ چودھری نے دہاڑے ہوئے کہا ۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا جیسے وہ نارمل حالات میں اپنے ملازموں سے مخاطب ہو ۔ ایس پی صاحب چند لمحے غور سے اس کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر کمانڈوزکو ایک مخصوص اشارہ کیا، تو وہ سب ایک ساتھ چودھری پر پَل پڑے۔ انہوں نے چند منٹوں میں ہی مارمار کر اس کا بھرکس نکال دیا۔ اس کے ناک اور منہ سے خون بہنے لگاتھا۔
’’تمہیں جو کچھ چاہیے یہاں سے لے جاوؑ مگر پلیز مجھے مت مارو۔‘‘ اس نے ہانپتے ہوئے لہجے میں التجا کی ۔ اس کے لہجے میں خوف در آیا تھا۔
’’رفعت کہاں ہے۔‘‘ ایس پی صاحب نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔ رفعت کا نام سن کر چودھری کو ایسے جھٹکالگا جیسے اس کا ہاتھ بجلی کے ننگے تار سے چھو گیا ہو۔
’’آ…آ…آپ لوگوں کو شدید کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ تو میرے استاد کی بیٹی ہے، بھلا میں کیوں اسے اغوا کروں گا۔‘‘ چودھری کی آواز پہلی بار لڑکھڑائی تھی۔ اس کالہجہ چغلی کھاتا ہوا محسوس ہوا جیسے اس نے خود کو سنبھال لیا ہے۔
’’تمہارے سکیورٹی گارڈ شیرو نے ہمیں بتایا ہے کہ رفعت تمہارے ساتھ یہاں موجود ہے۔ اس لیے سیدھی طرح بتا وؑ تم نے اسے کہاں چھپا رکھا ہے ۔ ورنہ اس فارم ہاوؑس کو شمشان گھاٹ ڈیکلیئر کر کے یہیں تمہاری چیتا جلا دوں گا۔‘‘ میں نے اس بار ایس پی صاحب کے کچھ کہنے سے پہلے ہی جھنجھلائے ہوئے لہجے میں دھمکی دی۔
’’مجھے نہیں علم کہ شیرو یہ بہتان مجھ پر کیوں لگا رہا ہے ۔ ہاں شاید اسے غلط فہمی ہوئی ہو گی۔ شام کے وقت سرگودھا سے ایک ڈانسر میرے ساتھ یہاں آئی تھی، مگر پھر وہ واپس چلی گئی۔ جب وہ واپس گئی تھی تب شیرو کو میں نے ایک کام سے حویلی بھیجا تھا۔ اس لیے اس نے لڑکی کو واپس جاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ ہو سکتا ہے شیرو نے اسے رفعت سمجھاہو۔ یہ پوری عمارت آپ کے سامنے ہے، بے شک تلاشی لے لیں اس وقت یہاں کوئی لڑکی موجود نہیں ہے۔‘‘ چودھری نے نارمل انداز میں جواب دیا۔ اس کا اعتماد بھرا جواب بتارہا تھاکہ وہ اپنے اعصاب پر مکمل کنٹرول حاصل کر چکا ہے۔
’’یہ ایسے نہیں مانے گا اس کی ایک بار پھر تواضع کرو ۔‘‘ ایس پی صاحب نے حکم دیا، تو کمانڈوز نے اسے دوبارہ ٹھڈوں پر رکھ لیا ۔ اگلے دو گھنٹوں تک ہم نے چودھری کو تختہ مشق بنائے رکھا۔ اس دوران وہ کئی بار بے ہوش ہوا ،مگر اپنی زبان پر ڈٹا رہا۔ تشدد کے باعث اس کا جسم شدید زخمی ہو چکا تھا۔ پھٹے ہوئے ہونٹ سوج کر کپا بن گئے تھے ،ایک آنکھ سوجنے کے باعث بند ہو چکی تھی ۔ اس وقت وہ فرش پر پڑا ،درد کی شدت سے کراہ رہا تھا۔ ایس پی صاحب سر پکڑے صوفے پر بیٹھے تھے، میرا دماغ بھی ماوؑف سا ہو رہا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا، کیا جائے ۔
’’ایک بار پھر عمارت کی باریکی سے تلاشی لو،ہو سکتا ہے کہیں کوئی خفیہ کمرا نہ ہو۔‘‘ایس پی صاحب نے کمانڈوز کو نئی ہدایات دیں اور اٹھ کھڑے ہوئے۔

Loading

Read Previous

دوسرا رخ — عبدالباسط ذوالفقار

Read Next

آسیب — دلشاد نسیم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!