ٹرانسفر لیٹر — افتخار چوہدری

اماوس کی گہری تاریک رات نے اپنے پر پھیلا کر ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ اندھیرا گہرا ہونے کے باوجود چودھری بشارت کی وسیع و عریض حویلی کا شاندار اور کئی منزلہ ڈھانچہ اپنے وجود کی غیرمعمولی حیثیت کو منوا رہا تھا۔ یہ محل نما حویلی گاؤں سے کچھ فاصلے پر تھی اور شاید الگ تھلگ بنانے کے پیچھے انفرادیت قائم رکھنے کی نفسیات کارگر رہی ہو گی ۔ اس وقت حویلی کے بر آمدوں میں اِکا دُکا بلب روشن تھے جن کی زرد روشنی اداسی لیے ہوئے تھی،جب کہ چھت پر بگھیاڑی نسل کے کتوں کا جوڑا اٹکھیلیاں کرتا پھر رہا تھا۔ میں پچھلے آدھے گھنٹے سے حویلی کی عقبی دیوار کے ساتھ موجود ایک دیوہیکل پیڑ پر موجود تھا۔ درخت کی شاخیں خاردارتاروں کے اوپر سے گزرتی حویلی کے اندر جھکی ہوئی تھیں۔ اب میرے پاس حویلی کی تلاشی لینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا۔ رفعت کو گم ہوئے آٹھ روز گزر چکے تھے، مگر کیس کو حل کرنا تو دور کی بات، میں ایک انچ بھی آگے نہیں کھسکا تھا۔ رفعت کی پوری کلاس اور ٹیچرز کی کئی بار تفتیش کر چکا تھا۔ گاؤں کے ہر اس شخص سے پوچھ گچھ کر چکا تھا جس پر ایک فیصد بھی شک کیا جا سکتا تھا ،مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ میری سروس کا یہ عجیب و غریب کیس مجھے نفسیاتی مریض بنانے پر تلا ہو اتھا۔ ایک جیتی جاگتی لڑکی غائب ہو گئی تھی اور میں محض اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا۔ اب میری سوچ کے تمام راستے اس حویلی کے سامنے آکر ختم ہو رہے تھے۔ ہو سکتا تھا کہ یہاں سے مجھے کوئی ایسا سراغ مل جاتا جس سے کیس کو حل کرنے میں مدد مل جاتی۔





حویلی کے اندر اس انداز میں داخل ہو نا بہت بڑا رسک تھا، مگر میں نے آخری حد تک کوشش کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اسی مقصد کے تحت میں پوری تیاری کے ساتھ یہاں موجود تھا۔ اصولی طور پر مجھے کور دینے کے لیے میرے ساتھ ایک دو ساتھی ہونے چا ہئیں تھے، مگر تھانے میں کوئی ایک بھی ملازم ایسا نہیں تھا جس پر اعتبار کیا جا سکتا۔اسی لیے یہ مہم مجھے اکیلے سر کرنا تھی ۔ حویلی کے مرکزی گیٹ پر کئی مسلح محافظ موجود تھے، مگر جب تک ان میں سے کوئی اس طرف نہ آتا تب تک کوئی خطرہ نہیں تھا ،البتہ حویلی میں اترتے وقت چھت پرموجود کتوں کی نظر مجھ پر پڑ جاتی، تو ان کے بھونکنے سے مسئلہ بن سکتا تھا۔ اس کا میں نے یہ حل نکالا کہ کتوں کے اس طرف آنے کے ٹائم کو مسلسل نظر میں رکھے ہوئے تھا۔ اب کی بار وہ جوں ہی اس طرف آکر واپس پلٹتے تو میرے پاس چند لمحوں کی مہلت ہونی تھی جس کا فائدہ اٹھا کر مجھے اندر داخل ہونا تھا۔ ابھی میں ذہن میں فائنلی ترتیب دہرا ہی رہا تھا ،جب دونوں کتے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑتے ہوئے چھت کی منڈیر پر لگی سٹیل کی ریلنگ تک آکر واپس پلٹے تو میں نے اپنی پشت پر موجود بیگ کی زپ کھول کر اندر تہ کر کے رکھی ہوئی لیدر کی چادر اور ایک رسی باہر نکال لی۔ رسی کے ایک سرے پر آنکڑہ بندھا ہوا تھا ۔ لیدر کی چادر کو خاردار تاروں پر ڈالنے کے بعد میں نے آنکڑے کو دیوار پر موجود لوہے کے اینگل میں پھنسایا اور رسی کو حویلی کے اندر اچھال دیا۔ اس کے ساتھ ہی میں شاخ چھوڑ کر خاردار تاروں پر موجود لیدر کی چادر پر اتر آیا اور پھر اگلے ہی لمحے رسی پکڑ کر حویلی میں اتر گیا ۔ حویلی کی یہ باؤنڈری وال اصل عمارت سے کافی فاصلے پر تھی۔ درمیانی جگہ میں باغیچہ تھا جس میں مختلف قسم کے پھل اور پھولدار پودے لگے ہوئے تھے۔ اُنہی پودوں کی اوٹ لیتے ہوئے میں اصل عمارت تک جا پہنچا ۔ عقبی طرف سے باغیچے میں آنے کے لیے ایک دروازہ رکھا گیا تھا۔ میں نے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر دباوؑ ڈالا تو وہ لاک تھا۔میرا ہاتھ اپنے ٹراؤزر کی پاکٹ میں رینگ گیا، جب باہر آیا، تو ایک ہک نما تار میری انگلیوں میں دبی ہوئی تھی۔ اس تار کو میں نے کی ہول میں ڈال کر چند بار مخصوص انداز میں گھمایا، تو ہلکی سی کڑک کی آواز کے ساتھ لاک کھل گیا ۔ اس با ر میں نے ہینڈل پر دباؤ ڈالا، تو دروازہ بے آواز کھلتا چلا گیا۔ اندر داخل ہونے پر گھپ اندھیرے نے میرا استقبال کیا۔ میں دم سادھے وہیں کھڑا ہوگیا۔ کچھ دیر بعد میری آنکھیں اندھیرے سے مانوس ہو گئیں۔ یہ ایک راہداری تھی جس کے دونوں اطراف میں کمروں کے دروازے نظر آرہے تھے۔ یہاں کوئی دروازہ لاک نہیں تھا۔ ایک کمرے میں دو بچے سو رہے تھے، جب کہ باقی کمرے فرنشڈ ہونے کے باوجود خالی تھے۔ راہداری کا اختتام ٹی وی لاؤنج میں ہوا۔ لاؤنج کے مختلف اطراف میں مزید تین راہداریا ں نظر آرہی تھیں۔ یہاں ایک کمرے میں چودھری بشارت مل گیا۔ وہ اپنی بیگم کے ساتھ لپٹا خراٹے مار رہا تھا۔ میں اس عورت کو داد دیے بغیر نہیں نہ رہ سکا۔ چودھری اس کے کان کے قریب خراٹے مار رہا تھا، مگر وہ مزے سے سو رہی تھی ۔ میں نے دروازے کو بے آواز بند کیا اور آگے بڑھ گیا۔ اگلے دو کمروں کے بعد ایک ایسے کمر ے میں پہنچ گیا، جو دفتر کے انداز میں ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔ یہاں الماریوں میں بے شمار فائلیں موجود تھیں۔ دیکھنے پر معلوم ہوا زیادہ تر فائلیں زرعی زمینوں اور کاروبار سے متعلقہ تھیں۔ چند منٹوں میں ہی میں نے سارا دفتر کھنگال ڈالا، مگر کوئی کام کی چیز ہاتھ نہیں لگی۔ میں یہاں بہت امید لے کر آیا تھا ،مگر بے نیل مرام کھڑا تھا۔ اب مزید یہاں ٹھہرنا خطرے کا موجب بن سکتا تھا۔ مایوسی سے میرے قدم عقبی باغیچے کی طرف جانے والی راہداری کی طرف اٹھنے لگے ۔پھر جیسے ہی عقبی دروازے کو کھول کر میں نے باہر جھانکا، تو میرے اوسان خطا ہو گئے۔ میں نے دروازے کو فوراً بند کر کے لاک کر دیا۔ میں جس رسی سے لٹک کر حویلی میں داخل ہوا تھا اس وقت بالکل اسی جگہ چار ہٹے کٹے مسلح گارڈز کھڑے تھے۔ ایک گارڈ رسی کو کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے لیے صورت حال گمبھیر رخ اختیار کرچکی تھی۔ اسی لمحے میرے ذہن میں ایک خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا،اس خیال کی تصدیق کرنے کے لیے میں دبے قدموں دوڑتا ہوا واپس ٹی وی لاوؑنج میں پہنچا اور پھر وہاں سے گیراج میں آگیا۔ یہاں سے مرکزی گیٹ کی ایک طرف بنا ہوا سکیورٹی کیبن صاف نظر آرہا تھا ۔اس وقت وہاں کوئی گارڈ موجود نہیں تھا۔ میرے ہونٹوں پر استہزائیہ مسکراہٹ در آئی۔ ان سے زیادہ بے وقوف گارڈ آج تک میری نظروں سے نہیں گزرے تھے۔ انہوں نے اپنا مین مورچہ ہی خالی کر دیا تھا۔ میرا اندازہ بالکل ٹھیک نکلا ،کوئی گارڈ حویلی کے گرد راوؑنڈ لگانے گیا ہو گا۔ جب اس کی نظر دیوار سے لٹکتی رسی پر پڑی، تو اس کی اطلاع پر سب ہی اس طرف بھاگ گئے ہوں گے۔ میں پھرتی سے گیٹ کے سامنے پہنچا اور ذیلی دروازہ کھول کر باہر نکل آیا ۔ باہر نکلتے ہی بے اختیار میرے منہ سے ایک گہری سانس خارج ہوئی۔ میں ایک یقینی تصادم سے بچ نکلا تھا۔ معروف راستے کے بجائے میں فصلوں سے ہوتا ہوا واپس اپنے کوارٹر پہنچ گیا۔ ناکام لوٹنے کی وجہ سے مجھ پر جھنجھلا ہٹ طاری تھی۔ میں ایک ہی سانس میں آدھے سے زیادہ جگ پانی پی گیا ۔ پھر خود کو پُر سکون کرنے کے لیے چند گہرے سانس لیے جس کا خاطر خوا ہ فائدہ ہوا۔ بستر پر لیٹ کر میں نے ایک بار پھر ازسر نو سارے کیس کا جائزہ لیا، مگر کوئی بھی ایسا پوائنٹ ڈھونڈنے میں ناکام رہا جس سے کیس میں کوئی پیش رفت ہو سکتی ۔ سوچتے سوچتے نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔ وہ سیل فون کی بھلی سی رنگ ٹون تھی جسے سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ کسلمندی سے اٹھتے ہوئے کھڑکی سے باہر جھانکا، تو سورج کافی چڑھ چکا تھا ۔ میں نے چونک کر وال کلاک کی طرف دیکھا، تو وہ دس بجا رہا تھا۔ سیل فون پر کوئی اجنبی نمبر فلش کر رہا تھا، میں نے کال اٹینڈ کرتے ہوئے ہیلو کہا، تو مجھے اپنی آواز کافی بھاری محسوس ہوئی۔
’’سر میں جمشید بات کر رہا ہوں۔‘‘ ائیر پیس سے جمشید کی آواز بر آمد ہوئی۔
’’ہاں جمشید بولو میں سن رہاہوں۔‘‘میں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’سر آپ کے علم میں ایک انتہائی اہم بات لانی تھی۔ ہمارے قصبے سے چند فرلانگ کے فاصلے پر نہر کے بالکل سامنے چودھری بشارت کا ایک بہت بڑا فارم ہاوؑس ہے۔ وہا ں پر چودھری اکثر اشتہاری ملزموں کو پناہ دیتا ہے، لیکن جب کبھی اس نے اپنی عیاشی کا سامان کرنا ہو تو وہاں پر موجود لوگوں کو کچھ دنوں کے لیے دائیں بائیں بھجوا دیتا ہے۔ تب وہا ں پر اس کے علاوہ بس اُس کا ایک خاص بندہ ہوتا ہے۔ میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ جس دن رفعت غائب ہوئی تھی اس سے ایک دن پہلے چودھری نے وہ فارم ہاوؑس اشتہاریوں سے خالی کروا لیا تھا۔ اس کا تو یہی مطلب ہوا کہ وہا ں پر رفعت یا کوئی اور لڑکی ضرور موجود ہے۔‘‘ جمشید نے پرجوش انداز میں اپنی بات مکمل کی۔
’’بالفرض اگر وہاں کوئی لڑکی موجود ہے، تو پھر چودھری وہاں جاتا کیوں نہیں۔ میری اطلاع کے مطابق وہ رات حویلی میں موجود ہوتا ہے اور دن میں تو وہ ہر وقت لوگوں میں گھرا رہتا ہے۔ رات میں خود اپنی آنکھوں سے چودھری کو حویلی میں دیکھ کر آیا تھا۔ اسی بنیاد پر میں نے جمشید کی بات رد کر دی۔
’’سر جی چودھری آج وہاں ضرور جائے گا ،کیوں کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس کی بیوی بچوں سمیت میکے گئی ہے۔‘‘ جمشید نے ایک اور انکشاف کیا۔
’’تمہیں کیسے معلوم ہوا ؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔
’’چودھری کاگھریلوڈرائیور ہمارا پڑوسی ہے،اس کی بیوی اکثر امی کے پاس بیٹھی ان کے متعلق باتیں کرتی رہتی ہے ،تو اتفاقاً کوئی نہ کوئی بات میرے کان بھی پڑ جاتی ہے۔‘‘ جمشید نے اپنا سورس بتایا، تو میں گہری سانس لے کر رہ گیا۔
’’ان سب باتوں سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہاں پر رفعت موجود ہے۔‘‘ میں نے سادہ سے لہجے میں کہا۔
’’سر میرا دل کہہ رہا ہے کہ رفعت ضرور وہیں ہے۔‘‘ اس نے زور دینے والے انداز میں کہا۔
’’یار میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ اپنے دل کو قابو میں رکھو ،کہیں یہ تمہیں بے موت نہ مروا دے۔ اگر کوئی کام کی بات معلوم ہو تب مجھے ضرور فون کرنا۔‘‘ میں نے سپاٹ لہجے میں جواب دے کر کال منقطع کر دی ۔ اس کی بات میں وزن تھا، مگر میں پہلے کی طرح مفروضوں کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہتا تھا، ہلکا سا ناشتا کرنے کے بعد میں تھانے آگیا۔ یہاں راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا ،کرسی سنبھالتے ہی میں نے اے ایس آئی کو طلب کر لیا۔
’’کچھ پتا چلا؟‘‘ میں نے اس کے سلیوٹ کا جواب سر ہلا کر دیتے ہوئے پوچھا ۔
’’سر جی میں نے سر توڑ کوشش کی ہے، مگر کچھ پتا نہیں چلا۔ میرے خیال میں تو لاش کو آبی مخلوق نے کھا لیا ہے۔ ورنہ اتنے دنوں میں تو مل جا نی چاہیے تھی۔ مجھے تو لگتا ہے یہ کیس داخل دفتر کرنا پڑے گا۔‘‘ اے ایس آئی نے اتنی بڑی بات عام سے لہجے میں اتنی آسانی سے کر دی کہ میں اس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔
’’گاڑی نکلواوؑ میں نے سرگودھا جانا ہے۔‘‘ میں نے خشک لہجے میں کہا، تو وہ سلیوٹ کر کے واپس مڑگیا ۔
اب میرے پاس اپنی مین برانچ کے ایس پی ملک صفدر سے مل کر تمام حالات ڈسکس کرنے کے علاوہ کوئی چارہ تھا۔ میں اپنی سروس کے شروع میں ان کے ساتھ کام کر چکا تھا۔ انتہائی با اصول اور شفیق انسان تھے، مجھے اپنا بیٹا کہتے تھے۔ طبیعت ملنے کی وجہ سے ہماری گاڑھی چھنتی تھی ۔ اگلے دو گھنٹے بعد میں ان کے سامنے بیٹھا تھا۔ میری ساری بات انہوں نے انتہائی انہماک سے سنی اور اب وہ ریوالونگ چیئر سے ٹیک لگائے چھت میں کوئی چیز کھوج رہے تھے۔ یہ ان کے سوچنے کا مخصوص انداز تھا۔
’’جمشید نے بہت اہم انفارمیشن دی ہے،اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ چودھری بشارت کو چیک کر لیا جائے۔ پہلے بھی وہاں سے کافی بچیوں کے اسی سے ملتے جلتے کیسوں کی اطلاعات ہیں، مگر چودھری کا اثرورسوخ اور سیٹ اپ کچھ ایسا ہے کہ لوگ تھانے کا رخ نہیں کرتے۔ بہرحال اب مزید دیر نہیں ہونی چاہیے۔
’’مگر کیسے سر؟‘‘ میں نے بے بسی سے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔
’’میرے ذہن میں ایک پلان ہے اس پر عمل کرتے ہیں۔‘‘انہوں نے پر اسرار لہجے میں کہا۔
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے اشتیاق سے پوچھا، تو وہ سرگوشی کے انداز میں اپنے ذہن میں موجود پلان مجھے بتانے لگے۔
’’سر اگر یہ پلان فیل ہوا اور میں ایکسپوز ہو گیا تو چودھری اور اس کا وزیر بھائی ہتھے سے اکھڑ جائیں گے۔‘‘ میں نے پلان سننے کے بعد اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
’’ڈونٹ وری میں تمہارا ٹرانسفر لیٹر پہلے سے تیار رکھوں گا۔ اگر ایسا کچھ ہوا، تو تمہیں فوری منظر سے ہٹا لیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’یہ ٹرانسفر لیٹر تو کسی بدروح کی طرح میرے پیچھے پڑا ہوا ہے ،جہاں بھی جاتا ہوں یہ میر اپیچھا کرتے ہو ئے وہیں پہنچ جاتا ہے۔‘‘ میں نے منہ بناتے ہوئے کہا ،تو ایس پی صاحب کے قہقہے سے دفتر گونج اٹھا ۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

دوسرا رخ — عبدالباسط ذوالفقار

Read Next

آسیب — دلشاد نسیم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!