ٹرانسفر لیٹر — افتخار چوہدری

’’ٹھیک ہے تھانیدار صاحب اب میں چلتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ جلد ہی رفعت کی کوئی خیر خبر دو گے۔‘‘ چودھری بشارت نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’اگر آپ ماسٹر صاحب کو یہیں چھوڑ جائیں تو اچھا ہے۔ ہو سکتا ہے ان سے کوئی کام کی بات معلوم ہو جائے ، کچھ دیر بعد میں انہیں واپس بھجوا دوں گا۔‘‘ میں نے بھی اٹھتے ہوئے کہا، تو اس نے ایک لمحے کے لیے ان دونوں میاں بیوی کی طرف دیکھا اور پھر کچھ سوچنے کے بعد اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے میں انہیں یہاں چھوڑ جاتا ہوں، مگر انہیں غیر ضروری سوال پوچھ کر تنگ مت کرنا، یہ پہلے ہی بہت زیادہ پریشان ہیں۔
’’آپ بے فکر رہیں چودھری صاحب آپ کے استادِ محترم ہمارے لیے بھی قابل احترام ہیں۔‘‘ میں نے محرر کو چودھری صاحب کے ساتھ باہر تک جانے کا اشارہ کیا اور خود ان میاں بیوی کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ ماسٹر صاحب افسردہ کھڑے تھے، ان کی آنکھیں شدت غم سے چھلکنے کو تھیں۔
’’سر تشریف رکھیں۔‘‘ میں نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں بیٹھنے کے لیے کہا، تو ان کے چہرے پر حیرت کے آثار ابھر آئے۔ وہ کبھی کرسی اور کبھی میری طرف دیکھنے لگے۔
’’پلیز سر بیٹھیں۔‘‘ میں نے اپنی بات دہرائی تو وہ دونوں بھلے مانس کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان کے انداز میں ہچکچاہٹ نمایاں تھی۔ میں نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’مجھے دلی دکھ اور افسوس ہے آپ اتنے اندوہناک حادثے کا شکار ہوئے میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ رفعت بیٹی کو ڈھونڈ نکالوں۔‘‘ میرے منہ سے ہمدردی کے دو بول سن کر میاں بیوی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ میں نے کچھ دیر تک انہیں دل کا غبار ہلکا کرنے دیا۔ ٹیبل پر پانی کا جگ اور گلاس موجود تھے۔ میں نے گلاسوں میں پانی انڈیل کر انہیں پینے کے لیے دیا۔ پانی پینے کے بعد ان کی حالت قدرے سنبھلی۔
’’جو کچھ چودھری صاحب نے بتایا ہے کیا سب معاملات ایسے ہی پیش آئے ہیں یا کوئی ایسی بات بھی ہے جو وہ بتانا بھول گئے ہیں؟‘‘ میں نے ہمدردانہ لہجے میں ایک بار پھر بات آگے بڑھائی۔




’’جیسے چودھری صاحب نے تفصیل بتائی ہے بالکل ویساہی ہوا ہے۔‘‘ ماسٹر الطاف نے پہلی بار زبان کھولی ان کی آواز رندھی ہوئی بلغم زدہ سی تھی۔
’’کوئی خاص بات جو ہمیں رفعت بیٹی تک پہنچنے میں مدد دے سکے۔‘‘ میں نے ایک بار پھر اپنی بات پر زور دیتے ہوئے پوچھا۔
’’میری بچی معصوم سی ہے اسے پڑھائی کے علاوہ اور کسی سر گرمی سے کوئی دل چسپی نہیں ہے، میں نے اس کی منگنی اس کے تایا زاد جمشید سے کی ہے ۔ وہ تو اس منگنی وغیرہ کے جھنجھٹ میں بھی پڑنا نہیں چاہتی تھی ،کیوں کہ ابھی وہ مزید پڑھنا چاہتی تھی۔ ہر کلاس میں پہلی پوزیشن لیتی رہی ہے، اب وہ میٹرک میں ہے ،نہ جانے وہ کون سی منحوس گھڑی تھی جب اس نے شمشان گھاٹ کا رخ کیا۔‘‘ ماسٹر صاحب یہ سب کچھ بتاتے ہوئے ایک بار پھر آبدیدہ ہو گئے۔ اس دوران انہوں نے اپنی جیب سے ایک تصویر نکال کر میری طرف بڑھائی ۔ تصویر میں رفعت اسکول کا یونیفارم پہنے معصوم سی گڑیا لگ رہی تھی۔
’’آپ پریشان نہ ہوں اور دعا کریں کہ اللہ پاک اسے اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ یہ جمشید کیا کام کرتاہے۔‘‘ میں نے تصویر دراز میں رکھتے ہوئے پوچھا ۔
’’سرگودھا شہر میں دھاگے کی مِل میں الیکٹریشن ہے۔رفعت کی گمشدگی کا سنتے ہی واپس آگیا ہے ،بہت بھلا مانس بچہ ہے۔‘‘
’’ارشد ڈرائیور کو ساتھ لے لو اور ماسٹر صاحب کو احترام کے ساتھ گھر چھوڑ آؤ ،واپسی پر رفعت کے منگیتر کو ساتھ لیتے آنا ماسٹر صاحب اس کے گھر کے بارے میں تمہیں بتا دیں گے۔میں اس سے بھی چند باتیں کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے ہیڈ کانسٹیبل سے کہا ، جو ابھی دفتر داخل ہوا تھا۔ میری بات سن کر وہ ماسٹر صاحب اور ان کی بیوی کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا۔
قبرستان یا شمشان گھاٹ میں قضائے حاجت کے لیے جانے سے ذہنی توازن جانے والا معاملہ میری سمجھ سے باہر تھا اور ا س علاقے میں چودھری بشارت کی اجازت کے بغیر کسی قسم کی سر گرمی کا ہو نا ناممکنات میں سے تھا ۔ میں نے ان میاں بیوی کو اسی لیے روک لیا تھا کہ اگر رفعت کے گم ہونے میں چودھری یا اس کے کارندے کا کوئی کردار ہو تو بات کلیئر ہو سکے ،مگر ماسٹر صاحب تو چودھری کی بات سے مکمل اتفاق کر رہے تھے ۔ اب مجھے کیس کو کسی اور زاویے سے دیکھنا تھا اس کے لیے جمشید سے ملنا ضروری تھا، ہو سکتا ہے اس سے مجھے کوئی سراغ مل جاتا۔ میں کافی دیر بیٹھا اس گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرتا رہا، مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا۔ میں ا س وقت چونکا جب ہیڈ کانسٹیبل ایک نوجوان کو لیے میرے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ اٹھارہ انیس سالہ معصوم سا نوجوان کچھ ڈرا سہما ہوا سا لگا تھا۔ شاید تھانے میں لائے جانے کا اثر تھا۔
’’سر یہ جمشید ہے۔‘‘ ارشد نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اسی لمحے جمشید نے ہاتھ اٹھا کر مجھے سلام کیا۔
’’بیٹھو جمشید۔‘‘وہ مودبانہ انداز میں ٹیبل کے دوسری طرف موجود کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’ٹھیک ہے تم جاسکتے ہو۔‘‘ میں نے ارشد سے کہا، تو وہ سلیوٹ کر کے باہر نکل گیا۔
’’جمشید جب رفعت گم ہوئی تو اس وقت تم کہا ں تھے؟‘‘ میں نے براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سپاٹ لہجے میں پہلا سوال پوچھا ،تو اس کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔ یا تو اس کے دل میں چور تھا یا پھر میرا لہجہ ضرورت سے زیادہ کرخت تھا۔
’’سر! کیا آپ مجھ پر شک کر رہے ہیں۔‘‘ اس نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے ،میں ہر اس شخص پر شک کر سکتا ہوں جو کسی بھی طرح رفعت کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ وہ تم سے منگنی کروانے پر راضی نہیں تھی۔ ہو سکتا ہے اس وجہ سے تم نے اسے نقصان پہنچایا ہو۔‘‘میں نے بدستور پہلے جیسے لہجے میں کہا ،تو اس کے چہرے پر زلزلے کے سے آثار پیدا ہو گئے۔
’’سر! آپ جیسے چاہیں تسلی کر لیں ،میں بالکل بے قصور ہوں ،جس وقت رفعت گم ہوئی میں ڈیوٹی پر تھا ۔ ہاں یہ بھی سچ ہے کہ وہ منگنی نہیں کروانا چاہتی تھی ،وہ اس لیے کہ وہ مزید پڑھنا چاہتی تھی ،اس پر میں نے اسے کہا کہ منگنی کروا لو ،جب تک تم پڑھتی رہو گی میں تمہیں شادی کے لیے نہیں کہوں گا۔ اس بات پر وہ راضی ہو گئی تھی۔‘‘ جمشید نے رفعت کی منگنی والی بات کی وضاحت کرتے ہوئے جواب دیا۔
’’ہونہہ…اس کا مطلب ہے کہ تم دونوں تنہائی میں بھی ملتے رہے ہو ،جو تم نے اسے منگنی کے لیے راضی کیا۔‘‘ میں نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
’’نہیں سر! ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ہم دونوں کزن ہیں ،کبھی میں ان کے گھر جاؤں یا وہ ہمارے گھر آئے تو بس سلام دعا کی حد تک ہی ہمارے درمیان بات ہو تی ہے۔ منگنی والی بات میں نے چاچی زینب کی موجودگی میں اس سے کی تھی ۔‘‘ اس بار جمشید نے جواب دیا، تو اس کے لہجے میں کچھ دیر پہلے کے برعکس اعتماد جھلک رہا تھا۔
’’تمہارے خیال میں کیا واقعی شمشان گھاٹ میں قضائے حاجت کے لیے جانے سے انسان کا ذہنی توازن بگڑ سکتا ہے؟‘‘میں نے اس کا ذہن پڑھنے کے لیے سوال کیا۔
’’بالکل بھی نہیں سر ،یہ سب افواہیں ہیں۔‘‘ اس نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا۔
’’تمہیں کیسے معلوم کہ یہ سب افواہیں ہیں، حالاں کہ کتنی ہی بد نصیب لڑکیاں اس سانحے کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار چکی ہیں اور پورا گاؤں اس بات کا گواہ ہے۔‘‘ میں نے جگ سے پانی گلاس میں انڈیل کر اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ میری بات سن کر اس کے چہرے پر سوچ کی لکیریں گہری ہو گئیں جب کہ اس کی نظریں پانی کے گلاس پر جمی ہوئی تھیں۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ میں نے کچھ دیر توقف کے بعد پوچھا۔
’’سر ایک بات بتاوؑں۔‘‘ اس نے اردگرددیکھ کر آگے کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔ مجھے لگا کہ وہ کوئی اہم بات بتانے والا ہے۔
’’ضرور بتاؤ تاکہ تمہاری منگیتر کو جلد از جلد بازیاب کروایا جا سکے۔‘‘ میں نے بھی آگے کی طرف جھکتے ہوئے اسی کے انداز میں سر گوشی کی۔
’’سر! کل جب مجھے رفعت کے گم ہونے کی خبر ملی، تو میں اسی وقت گاوؑں آگیا تھا۔ پہلے تو رات گئے تک گاوؑں والوں کے ساتھ مل کر اسے ڈھونڈتا رہا، مگر ناکامی پر میں کافی جذباتی ہو گیا اور پھر کسی کو بتائے بغیر ہی شمشان گھاٹ جا پہنچا اس وقت رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ میں رفعت کے بغیر جینا نہیں چاہتا ۔جس طرح وہ شمشا ن گھاٹ جا کر ذہنی توازن کھو کر گم ہوئی تھی ،میں بھی ویسے ہی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو جانا چاہتا تھا۔ اسی مقصد کے تحت میں وہاں گیا اور وہاں موجود سالوں پرانی مڑھیوں پر غصے سے بول کرتا رہا۔ سر میں جانتا ہوں کہ یہ غیر اخلاقی حرکت ہے ،مگر اس وقت میرا ذہن دکھ اور پریشانی سے ماوؑف ہو چکا تھا۔ میں فجر کی اذان تک وہیں ر ہا،مگر مجھے کچھ نہیں ہوا۔ دیکھ لیں میں آپ کے سامنے بھلا چنگا بیٹھا ہوں۔ خدارا میں ہاتھ جوڑ کر درخواست کرتا ہوں آپ ان افواہوں پر کان دھرنے کے بجائے سائنٹفک انداز میں تفتیش کریں۔‘‘ اس نے باقاعدہ ہاتھ جوڑتے ہوئے روہانسے لہجے میں التجا کی۔ اس کی بات سن کر میں ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔ اس نے بے وقوفی کی حد تک بہادری دکھائی تھی۔
’’سائنٹفک انداز میں کام کرنے کے لیے کوئی چھوٹا موٹا ثبوت تو پاس ہونا چا ہیے۔ اگر ثبوت نہ بھی ہو تو کم از کم کوئی مفروضہ تو ہو جس کی بنیاد پر کام شروع کیا جاسکے۔ پھر کوئی نہ کوئی راہ نکل آتی ہے ،مگر اس کیس میں تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔‘‘ میں نے مایوسانہ لہجے میں کہا۔ میری بات سن کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گیا ۔ میں نے اس کے سامنے موجود پانی کے گلاس کو مزید اس کی طرف کھسکایا، تو وہ چونک کر پہلے گلاس اور پھر مجھے دیکھنے لگا ۔ اگلے ہی لمحے اس نے گلاس اٹھا کر منہ سے لگا لیا اور پھر گلاس اس وقت رکھا جب سارا پانی حلق سے نیچے اتار لیا۔
’’سر مجھے یہ بات کرنی تو نہیں چاہیے، مگر آپ پر بھروسا کرتے ہوئے کر رہا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ یہ بات اپنے تک محدود رکھیں گے۔‘‘ اس کے لہجے میں تذبذب تھا، جیسے فیصلہ نہ کر پا رہا ہو کہ اپنے ذہن میں موجود بات میرے ساتھ شیئر کرے یا نہیں۔
’’تم جو کہنا چاہتے ہو بے فکر ہو کر کہو۔‘‘ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
’’سر چھوٹامنہ بڑی بات والا معاملہ ہے۔ اگر چودھری بشارت کو معلوم ہو گیا کہ میرے منہ سے ایسی کوئی بات نکلی ہے، تو وہ میرا خون پی جائے گا۔ میں اس پر الزام نہیں لگا رہا ،کیوں کہ میرے پاس کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ میں یہ بات صرف آپ کی معلومات میں اضافے کے لیے بتا رہا ہوں۔ چودھری بشارت نو عمر لڑکیوں کا نشئی ہے ،ہو سکتا ہے کہ …‘‘جمشید اپنی بات ادھوری چھوڑ کر ہونقوں کی طرح میری طرف دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے پر پسینہ قطروں کی صورت ظاہر ہو چکا تھا۔ وہ شاید میرے چہرے پر موجود تا ثرات سے اندازہ لگا رہا تھا کہ میں اس کی کہی ہوئی بات چودھری تک پہنچا کر اس کے خاندان کو کسی مصیبت میں تو نہیں دھکیل دوں گا۔
’’کچھ دیر پہلے تم نے کہا تھا کہ شمشان گھاٹ والی کہانی مفروضوں اور افواہوں پر مبنی ہے، تو تمہارا یہ بہتان بھی تو لوگو ں کی سنی سنائی باتو ں پر مشتمل ہو سکتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ تم خود اقرار کر رہے ہو کہ تمہارے پاس کسی قسم کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور ابھی تک مجھے بھی چودھری کے بارے میں ایسی کوئی رپورٹ نہیں ملی۔‘‘
’’سر جی! گستاخی معاف عام لوگ تو ایک طرف آپ کے تھانے کا عملہ بھی چودھری کی چوکھٹ پر سجدہ ریز رہتا ہے ،تو کوئی آپ کو اس بارے میں کیوں رپورٹ کرے گا؟‘‘ اس نے اعتماد بھرے لہجے میں دلیل دی۔ لڑکا دلیر ہونے کے ساتھ ذہین بھی تھا۔ گویا میں نے اس کے خیال سے اتفاق کرنے سے یکسر انکار کر دیا تھا ، مگر سچ یہی تھا کہ میں بھی دل میں وہی تمام باتیں سوچ رہا تھا جو وہ میرے سامنے بیٹھا کر رہا تھا ۔
’’اگر اس تھانے کا عملہ چودھری کے سامنے سجدہ ریز رہتا ہے، تو میں بھی تو اس تھانے کے عملے میں شامل ہوں ۔ تو پھر تمہیں ایسی بات کہنے کی جرأت کیسے ہوئی؟‘‘ میں نے اسے ٹٹولنے کی غرض سے کہا۔
’’سر…مجھے علم ہے آپ یہاں نئے آئے ہیں اور چند دن پہلے آپ نے ڈیرے پر جا کر جس انداز میں چودھری سے بات کی ایسا کوئی بہادر آدمی ہی کر سکتا ہے۔ آپ اس گاؤں کی تاریخ میں پہلے شخص ہیں جس نے اتنی جرأت کا مظاہرہ کیا ۔ اس دن سے پورے گاؤں میں آپ ہی کے چرچے ہیں۔ میرا دل گواہی دے رہا ہے اگر آپ ہمارے کیس میں کوئی مدد نہ بھی کر سکے، تو کم از کم میری کہی ہوئی باتو ں کو چودھری تک نہیں پہنچائیں گے۔‘‘ اس نے اپنی کہی ہوئی بات کی وضاحت کی، تو میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
’’مسڑ جمشید اپنے دل کی زیادہ نہ سنا کرو کہیں یہ تمہیں بے موت ہی نہ مر وادے ۔ کیوں کہ ہر بار تمہارے سامنے انسپکٹر خاور نہیں ہو گا۔ اب تم جا سکتے ہو ،اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھنا۔ اگر کوئی کام کی بات معلوم ہو، تو فوراًمجھے خبر کرنا ۔ یہ میرا سیل نمبر ہے۔‘‘ میں نے ایک تعارفی کارڈاس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ،تو اس نے کارڈ لے کر ایک نظر دیکھا اور جیب میں رکھ کر جانے کے لیے اٹھ کھڑاہوا۔
٭…٭…٭





Loading

Read Previous

دوسرا رخ — عبدالباسط ذوالفقار

Read Next

آسیب — دلشاد نسیم

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!