بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ نیند بہت ظالم چیز ہے جو سولی پر بھی آجاتی ہے، لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ سولی چڑھایا ہی نیند کے لیے جاتا ہے ، ہمیشہ کی پرسکون نیند ۔
کچھ لوگوں کی نیند ان کی پکی دوست ہوتی ہے ۔ ہر طرح کے حالات میں ان کے ساتھ رہتی ہے ۔ جیسے ہمارے ایک جاننے والے ہیں، وہ آفس سے گھر آنے کے لیے بھری بس میں سوار ہوتے ہیں۔ دھکے دے کر اندر گھستے ہیں اور اتنی بے چاری صورت حال میں بھی ایک ہاتھ سے ڈنڈا پکڑے ۔ اس پر سر ٹکا کر سو جاتے ہیں۔ اکثر ہی اپنے اسٹاپ سے آگے نکل جاتے اور پیدل واپس آتے دکھائی دیتے ہیں ۔ واپسی کے لیے بس اس وجہ سے نہیں لیتے کہ پھر اسٹاپ سے آگے نکلنے کا اندیشہ رہتا ہے۔
اب ایسے ایسے شاہکار، نیند کے رسیا ہمارے احباب میں ہیں، تو اپنی نیند پر غصہ آنا تو ہمارا حق بنتا ہے نا۔
ایسا نہیں کہ ہمیں نیند نہیں آتی، بہت آتی ہے لیکن ہمیشہ بے وقت آتی ہے۔
آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی ہوں اور دماغ شل لیکن ادھر بستر پر لیٹے اور ادھر نیند غائب ۔
اب نہ ہم کوئی عاشق ہیں کہ محبوب کی یاد میں رات کو جاگ کر آہیں بھریں ۔ستارے یوں نہیں گن سکتے کہ چھوٹے فلیٹوں کے مکین آسمان کے دیدار سے محروم ہی رہتے ہیں اور نہ ہم کوئی ذہین و فطین اور ذمہ دار طالب علم ہیں جو راتوں کو جاگ کر نصابی کتب پڑھیں ۔ بدقسمتی سے اتنے نیک بھی نہیں کہ نیند نہ آنے پر اٹھ کر عبادت یا ذکر و اذکار میں مشغول ہو جائیں۔
سو نیند نہ آنے پر بھی کروٹیں بدلتے سونے کی ہی کوشش کرتے ہیں، لیکن دن بھر کی ضروری اور غیر ضروری باتیں، آنے والے دن کے کام جو ہم اپنی سستی کے باعث دنوں نہیں بلکہ ہفتوں ٹال دیتے ہیں ، یوں ذہن پر سوار ہوتے ہیں جیسے ہم سے زیادہ ذمہ دار کوئی نہ ہو اور گھنٹوں بعد جب نیند مہربان ہوتی ہے اور ہم خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں ،تو الارم چنگھاڑنے لگتا ہے ۔
لوگوں کے نزدیک ہمیں رات دیر تک جاگنے کی بیماری ہے اور وہ بھی لاعلاج ۔گھروالوں نے ہمیں بہت لعن طعن کرنے کے بعد آخر تھک کر اس کی وجہ ہمارے وقتِ پیدائش کو ٹھہرا دیا ۔ چوں کہ ہم آدھی رات کو پیدا ہوئے سو راتوں کو جاگنا ہماری پیدائشی مجبوری ہے۔
گو کہ نیند لانے کا ایک شان دار اور آزمودہ نسخہ ہماری دوست نے ہمیں بتایا تھا جس پر ہم تو اپنی ازلی سستی کے باعث عمل نہیں کر پائے لیکن خلقِ خدا کے مفاد میں آپ کو بتا دیتے ہیں ۔
رات کو بستر پر لیٹتے ہوئے کوئی بھی درسی کتاب ہاتھ میں تھام لیں اور سو فیصد نتائج کے لیے اس مضمون کا انتخاب کریں جس سے آپ کو نفرت ہو۔
اب کتاب کا مشکل ترین موضوع کھول کر مکمل توجہ سے پڑھیں، بس تھوڑی دیر کا امتحان ہے پھر چاہے آپ چار دن سے لگاتار بھی سو رہے ہوں، تو بھی ایسی نیند آئے گی کہ لمحوں میں کتاب ہاتھ سے چھوٹے گی اور آپ بے خبر سو رہے ہوں گے ۔
ٹوٹکا بہت شان دار اور طلبہ کا آزمودہ ہے۔ اس کی واحد خامی صرف یہی ہے کہ آپ ”کچھ” پڑھ لیتے ہیں، لیکن ہمارے کس کام کا؟ ہمارے سرہانے درسی کتب کے بجائے ڈائجسٹ ہوتے، موبائل ہوتا اور بس تھوڑی دیر اور کے چکر میں اتنا وقت بیت جاتا ہے کہ اندازہ بھی نہیں ہوتا۔ رات گئے جب ہم سوتے تو صبح الارم کی پکار پر بھی نہ اٹھتے، حتیٰ کہ سب گھر والے اٹھ جاتے اور چلا چلاکر ہمیں جگاتے۔
ایک آدھ دفعہ ہماری بہن نے ہمیں جگانے کے بجائے الارم بند کر کے خود سونا چاہا۔ دن چڑھے بیدار ہونے کے بعد ہم نے وہ واویلا کیا کہ سب عاجز آگئے اور یوں اب وہ سارا دن ہمارا پھٹا ڈھول سننے کے بجائے صبح محنت کر کے ہمیں گھر سے نکال کر خود چین کی بانسری بجاتے ہیں ۔
اس بات سے آپ یہ سبق بھی سیکھ سکتے ہیں کہ ہر وقت اور ہر جگہ مدھر آواز اور دل آویز لہجہ ہی کام نہیں آتا، کبھی کبھار بے سرا بننے میں ہی بھلائی ہوتی ہے اور اگر آپ ہماری طرح پیدائشی بے سرے ہیں تو کیا کہنے ۔ اپنی صلاحیتوں کو استعمال میں لائیں اور زندگی آسان بنائیں۔
یہ گر ہم نے ایک مانگنے والے سے سیکھا ہے ۔ جس علاقے میں ہم رہتے ہیں وہاں دن بھر میں کئی بھکاری آتے، کوئی دعا دیتا تو کوئی بد دعا ۔ کسی کو مل جاتا اور کوئی رہ جاتا ۔
ایسے میں ایک ہٹا کٹا بھکاری گرمیوں کی دوپہر میں اس وقت آتا جب اکثر خواتین قیلولہ فرما رہی ہوتیں ۔ وہ جینئس آکر منہ سے ایک لفظ نکالتا نہ بیل بجاتا ۔ بس باری باری ہر گھر کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی بھونڈی بین بجاتا جس کی آواز قبر کے مردوں کو جگانے کے لیے بھی کافی تھی ۔وہ بین اس وقت تک بجاتا جب تک کچھ وصولی نہ ہو جاتی کیوں کہ اس کی لغت میں معافی نام کا کوئی لفظ نہیں ۔ اس کی بین کی بھیانک آواز سے بچنے کے لئے تمام خواتین جلدی جلدی پیسے دے کر اسے آگے کرتیں اوریوں وہ اپنی ”مفید ایڈورٹائزمنٹ” کی بہ دولت اپنا کاروبار خوب چمکاتا۔
بہرحال! اگر آپ بور ہو کر سو گئے ہیں تو پھر جاگ جائیں کیوں کہ ہماری نیند کہانی ابھی باقی ہے ۔
روز صبح جب ہم بھاگم بھاگ یونیورسٹی کے لیے نکلتے تو ہمیں علم نہیں ہوتا کہ آئینہ کسے کہتے ہیں اور ناشتا کس مرض کی دوا ہے۔اتنی عجلت کے باوجود آٹھ بجے کا پوائنٹ اور ساڑھے آٹھ بجے کی کلاس ہمیں کبھی نصیب نہیں ہوئی ۔طلبہ سے بھرے ، ٹھنسے بلکہ ابلتے پوائنٹس ہم نے ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے ”زن” سے نکلتے ہی دیکھے ہیں ۔ اس لیے ہمارے بھائی کاکہنا تھا کہ بسوںاور رکشوں کی طرح تم جیسے طلبہ کے لئے پوائنٹس کے پیچھے بھی شاعری ہونی چاہیے ۔
”جا اپنی حسرتوں پر آنسوبہا کر ”پھر” سے سو جا ”یا”ہم سے کب پیار ہے، ہاں نیند تمہیں پیاری ہے۔”
خیر لشتم پشتم ساڑھے نو بجے کی کلاس میں تو ہم دیر سے سہی لیکن پہنچ جاتے اور پھر وہ نیند جو رات کو آنے میں اتنے نخرے دکھا رہی تھی، کلاس میں بنا دعوت نامہ کے آ جاتی۔
اب صورتِ حال یوں ہوتی کہ پوری جماعت لیکچر نوٹ کرتی اور ہمارا سارا دھیان آنکھیں کھلی اور منہ بند رکھنے پر مرتکز ہوتا ۔بعض اوقات ایسے مواقع پر ہم نیند بھگانے کے لیے دوستوں کے ساتھ بیت بازی بھی کھیل لیتے۔ایسے ہی ایک دن جب لیکچر کے دوران سر نے اچانک ہمارا رجسٹر اٹھالیا اور اس میں لکھے اعلیٰ اشعار سے نہ صرف اپنے ذوق کی تسکین کی بلکہ بآواز بلند پوری کلاس کو بھی محظوظ کیا، تو ہم نے توبہ کر لی، بیت بازی سے نہیں بلکہ آگے بیٹھنے سے ۔ جیسے ہماری قوم نے توبہ کر لی ہے اپنے بچوں کی تربیت سے ۔ کہیں غلطی سے کوئی انقلابی لیڈریا شاعر بن گیا، تو سوئی قوم کو جگا نہ دے ۔ سوتے کو جگانا کتنی غلط حرکت ہے نا۔
سیاست دان کی طرح موضوع سے ہٹنے کے بجائے ہم واپس کمرا جماعت میں چلتے ہیں جہاں صبرآزما انتظار کے بعد جب لیکچر ختم ہوتا اور ہم شکر مناتے باہر نکلتے تو یونیورسٹی کی رونق دیکھتے ہی آنکھوں میں براجمان نیند غائب ہو جاتی اور بھوک غالب آ جاتی ۔
قدم خودبہ خود کینٹین لے چلتے جہاں ہمیشہ کلاس روم سے زیادہ رش ہوتا۔ بہ ظاہر سلیقیکا مظاہرہ کرتے طلبہ بھوک اور رش کی تاب نہ لا کر اپنی اخلاقیات کا چولا اتار کر سائیڈ پر رکھتے اور میدان میں کود پڑتے۔
تند وتیز جملوں اور دھکوں کے درمیان جو لوگ مہذب نظر آتے ، وہ کینٹین میں کام کرنے والے بہ ظاہر کم پڑھے لکھے افراد ہوتے جو تعلیم تو نہیں رکھتے، لیکن تہذیب کا دامن بھی نہیں چھوڑتے۔
کھا پی کر جب ہم دوبارہ لیکچر پر لیکچر کی دوڑ میں شامل ہوتے تو نیند دوبارہ یوں وارد ہوتی جیسے کہیں گئی ہی نہیں تھی ۔
بس آپ یہ سمجھ لیں کہ نیند کی یہ آنکھ مچولی ہر وقت ہمارے ساتھ چلتی ہے، آخر یہ ہمارا قومی ورثہ اور ہماری بین الاقوامی شناخت ہے۔
کیوں کہ صد افسوس! ہم ایک سوئی ہوئی قوم کا حصہ ہیں۔
٭…٭…٭