نگار خانہ میں زندگی آگے بڑھتی رہی کہ اچانک ہو کا عالم گزرا۔ کرب ہی ایسا تھا گویا ظالم نے کلیجوں پر ہاتھ ڈالا۔ اتنا پانی تو ساون بھادوں کے سیلاب میں نہ تھا جتنا ہر آنکھ نے برسا دیا اور کچھ میڈیا نے پیسہ کمانے کے چکر میں ایسے ایسے ترانے بنائے کہ دل کندچھری سے آٹھ آٹھ ٹکڑے ہوا۔ جن والدین نے کبھی اپنے پپو، مانی، ہنی سنی کو پیار نہ کیا تھا چوم چاٹ چاٹ رنگ گورے کر دیئے۔ بس نہ چلتا تھا سینے میں چھپا لیں۔ حکومت نے حسبِ عادت بہترین حل کے طور پر غیرمعینہ مدت کے لیے سکول بند کر دیئے۔ وجہ ناقص سیکیورٹی، کچھ دن بچے گھر بیٹھے۔ ٹیپو اور باجی بھی گھر تھے اور روزانہ دعا کرتے:
”اللہ جی سیکیورٹی کبھی پوری نہ ہو، سکول کھلیں نہ پڑھنا پڑے۔”
بچوں کی حرکات کی وجہ سے سکول والوں کے آگے جا کر ہاتھ جوڑے اور پائوں پکڑے۔ چندہ ہم سے لے لو لیکن خد اکے واسطے سیکیورٹی پوری کرو اور سکول کھولو۔
آخری وہ دن بھی آیا جب بچے پھر سے سکول جانے لگے۔ البتہ امید قوی تھی جیسے ہی سردی آئے گی اسکول ایک بار پھر بند ہوں گے اور ایسا ہی ہوا، اگلے سال دھند کے دنوں میں بچوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ ٹیپو نے دل کھول کر پتنگیں اڑائیں، کنچے کھیلے، کھیلنے کے حد تک تو ٹھیک تھا مگر نچلی منزل والے بڑے میاں کا سر اور چشمہ اپنا تھا۔ انہیں خواہ مخواہ میں ابا کا دشمن بنا دیا۔
”اچھی مصیبت ہے آئے دن سکول بند۔” بڑے میاں بَڑبَڑاتے۔ پھر انہوں نے بھی سمجھوتا کر لیا۔ زمین پر پریاں تو اس عمر میں کیا دکھائی دیتیں البتہ آسمان پر رنگین پتنگیں اور بچوں کی سیٹیاں جوانی کے مسرور جھونکے کی طرح دل پر لگتی تھیں۔
آپا آنکھیں سکیڑے کسی سوچ میں ڈوبی تھیں۔ سوکھی لمبی تڑنگی آپا کو ویسے ہی ڈوبنے کی عادت تھی کبھی شرم میں کبھی عشق تو کبھی میگزین میں، اگر کچھ نہ ملتا تو اچار کا مرتبان تو ہے ہی۔ سوچ میں ڈوبی تو کیا ہوا۔
آج کا دن اپنے معمول کی طرح چڑھا تھا۔ سورج کی وہی کرنیں جنہیں شاعر مبالغہ آرائی میں سونے کی چمک سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ آپا کی آنکھوں میں چُبھ رہی تھیں۔
انہوں نے گھر کے سارے کام نمٹائے اور سردیوں کے کپڑے کھول کر بیٹھ گئیں۔
لمبی تنبونما قمیصیں جو پچھلے سال لیس ربن لگا لگا کر لمبی کیں تھیں۔ کاٹ کر اب چھوٹی کرنی تھیں اور تھیلے نما پلازو کو چوڑی دار میں بدلنا تھا۔دروازے پر لٹکے اماں کے میلے دوپٹے کے پلوسے گرہ کھول کر پانچ روپے نکالے اور چیونگم کا پٹاخہ بجاتے ٹیپو کو انگلی کے اشارے سے اپنی جانب بلایا۔
”اوئے، ادھر آجا چوک سے اس رنگ کی ریل لاکر دے…”
اس نے ایک کترن میں پیسے لپٹتے ہوئے اسے تھمائی۔ باجی کہیں سے ٹپک پڑی اور اپنی گول گول آنکھیں نکال کر بولی:
”میرے لیے سلانٹی بھی لائیو (لانا)۔”
دروازے میں داخل ہوتی اماں نے سناتو ہاتھ نچا کر بولیں:
”کم بختوں اپنی ریلوں اور سلینٹیوں کے پیچھے میرے لال کی قربانی دینے لگی ہو۔ کہیں نہیں جا رہا ٹیپو، اندازہ بھی ہے تجھے، کتنے بچے اغوا ہو گئے۔ سب نے اپنے گھروں میں چُھپا رکھے ہیں اور تو میرے چاند کو باہر کے رستے دکھا رہی ہے۔”
ان دونوں کے خوب لتے لیتے ٹیپو کو اپنے بڑھے ہوئے پیٹ کے ساتھ لپٹنے کی کوشش کرنے لگیں وہ بازو چھڑا کر آپا کے کندھے سے لگا۔مزید پیسے مانگ رہا تھا تاکہ اپنے لیے پاپڑ بھی لاسکے۔
”اور اگر تیرا پاپڑ بنا دیا کسی نے۔”اماں نے اسے پھر سے گھرکا۔
”دل گردے نکال کر سری لنکا بھیج رہے ہیں۔” اماں یہ تازہ تازہ کہیں سن کر آئیں تھیں چارپائی پر پائوں پسارے پوری تفصیل اور تجزیہ پیش کرنے لگیں۔
”لاکھوں میں بکتے ہیں، مجھے تو لگتا ہے، سارے سری لنکن اندھے، کانے پیدا ہو رہے ہیں، جو اِدھر اُدھر سے اعضاء خریدتے پھر رہے ہیں۔”
”ہائے ہائے، کم بختوں نے ہمارے بچے پکڑنے شروع کر دیئے۔” اماں کے جاری و ساری تبصرے کے دوران ٹیپو نے آپا کا کندھا ہلایا اور پیسے نکلوائے۔ اُس نے بھی فوراً دے دیئے کہ کون سا کوسوں دور جا رہا ہے، یہ ساتھ چوک سے تو لانی ہے۔
اماں جب اسے دروازے سے باہر بھاگتے دیکھا پھر ہوش آیا۔ تب آپا سے نہ پوچھو اماں نے انہیں کتنی صلواتیں سنائیں…
سفید گرد آلود دھوپ میں سیاہی گُھلنے لگی تھی پھر سیاہی دیواروں پر چڑھ گئی ہر منظر اس میں لپٹنے لگا۔
ادھر اُدھر ہرجگہ چھان ماری۔ ابا دُکان سے اُٹھ آئے۔ اماں کو بار بار غشی طاری ہوتی لمحہ بھر کے لیے ہوش آتا تو آپا کو کوستی۔
پڑوسی اکٹھے ہو گئے۔ سب اپنی اپنی ہانک رہے تھے۔ پولیس کا کسی کو خیال نہ آیا تھا۔ بس اپنی ہی چھان پھٹک جا رہی تھی۔ ابا کے دماغ میں روز ملنے والی افواہیں، خبریںاور واقعات گھوم رہے تھے اور سکتہ زدہ آپا کے سامنے وہ تمام گم شدہ بچے آرہے تھے جن کا ذکر آج کل گلی گلی تھا۔
اماں کی ڈانٹ ڈپٹ پر آپا کو کچھ سُجھائی نہ دیا۔ صدقے کی غرض سے ایک مٹھی میں باجرہ چاول لیے چھت پر چلی گئی۔ دانے ڈالتے ہی گھروں کو لوٹتی چڑیاں نیچے اُتر آئیں۔ اک چڑیا کی چونچ پر کوے نے چونچ ماری۔ لوجی پھر تو میاں کوے کی آگئی شامت۔ ننھی چڑیوں کے نرغے میں پھنس گیا۔
پُھدک پُھدک کر سب نے چونچوں سے اس کی ایسی تواضع کی کہ جان بچا کر اُڑتے کوے کے پیچھے پیچھے سب نے اڑنے کی کوشش کی۔
”یہ ہوتا ہے ایکا، کسی کی غنڈہ گردی کیوں برداشت کی جائے؟ کیوں ظلم کو عادت بنا لیا جائے بلکہ خواہ مخواہ کی بدمعاشی جڑ سے اکھاڑ پھینکو۔”
آپا آنکھیں بند کیے جانے کتنے پل سوچتی رہی۔
”اب کیا ہم اتنے بے حس ہو گئے، بجلی، گیس، پٹرول کی کمی کی طرح اپنے بچوں کے اغوا کے بھی عادی ہو جائیں گے۔
متبادل ڈھونڈیں گے، دو دن احتجاج کر کے بات منوانے کے بجائے سہنے، رو دھو کر صبر کرنے پر اکتفا کیوں کرتے ہیں ہم؟پرندوں سے ہی سبق لیں کہ ایک ہو کر اپنے سے زیادہ طاقت ور کو بھگایا جاسکتا ہے۔”
آپا کی سوچوں کی بھٹکتی روح جانے کہاں سے کہاں تک کی پرواز پر تھی، ان کے اڑن کھٹولے کو اماں کی چنگھاڑنے نیچے اتارا۔
”کہاں مری ہے اوپر، نیچے آ، کہیں جا کر تو ہی پتا کر آ…”
ابا صحن میں بیٹھے اپنی قسمت کو رو رہے تھے۔ خاصا اندھیرا پھیل چکا تھا تب اتنی زور سے دروازہ دھڑ دھڑایا، اماں کا کلیجہ پھٹ جانے کی حد تک اچھلا تھا۔
نیچے والے بڑے میاں اٹھنے میں خاصا وقت لیتے ہیں لہٰذا ابا ننگے پائوں سیڑھیاں پھلانگتے گئیاور جھٹ سے دونوں پٹ کھول دیئے تین چار لوگوں کے بیچ ایک ادھ موا شخص تھا۔
حالت سے خاصا غریب لگتا تھا۔ کچھ مار مار کر اس کی حالت پتلی کر رکھی تھی۔ غالباً رات کو مٹرگشت کرتے محلے کے چند لڑکوں نے جیسے ہی چوک میں ٹیپو کو ایک مرد کے ہم راہ داخل ہوتے دیکھا اچھی طرح پہچان کر اس بندے کے نرغے سے ایک جوان نے جھپٹ کر ٹیپو کو گود میں لیا۔
ٹیپو نے لڑکوں کی غصیلی آوازیں، انگارہ آنکھیں دیکھ کر دم سادھ لیا اور اس کے کندھے سے جا لگا۔ سانس بھی بلی کی چال چل رہی تھی۔ اس کی آدھ موئی کیفیت پر لوگوں نے شور مچا دیا۔
”شاید گردہ نکال لیا اس کا ہائے ہائے۔”
”آنکھیں نکالیں ہوں گی، بول نہیں رہا بچہ۔” دوسری آواز کے آتے ہی ایک بڑی عمر کے خیراندیش بولے۔
”ناں ناں ناں… ابھی کچھ نہیں نکلا، نشے کا ٹیکہ لگایا ہو گا۔ کم بخت گردہ نکلوانے کے لیے ڈاکٹر ڈھونڈ رہا ہو گا۔” لوجی گردہ نہ ہو گیا۔ کھلونے کے سیل ہو گئے۔ ایسی بے ہنگم آوازوں پر شور مچا تو کئی اور گھروں سے ابل پڑے۔
ہمارے خون کو ویسے ہی ابلنے کی موروثی بیماری ہے پھر ابلتے خون نے ایسا جوش مارا کہ اس غریب کے ناک، کان، منہ سب جگہ لال چشمہ پھوٹنے لگا۔
کسی نے اس کا ایک حرف سنا، نہ پولیس کو اطلاع دی۔ دیتے بھی کیوں بھئی؟ انہوں نے زیادہ سے زیادہ دو تھپڑ مار کر آدھے پیسے لے کر اور مک مکا کر لینا تھا۔
ہم کسی نفری سے کم ہیں بھلا؟ کم از کم مار مار کر اپنی بھڑاس تو نکال لیں خواہ اگلا دنیا سے نکل جائے۔ مارتے سو، گنتے دو والا معاملہ ادھر ہو رہا تھا۔
وہ لاتوں، گھونسوں، ٹھڈوں کے فل پروٹوکول میں قریشی صاحب کے گھر تک لایا گیا اور قیامت خیز دروازہ بجایا ۔
دروازہ کھولا تو ہکا بکا سب دیکھ رہے تھے، جس کی گود میں ٹیپو لٹک رہا تھا وہ فل والیم میں چلایا۔”
”قریشی صاحب، اس بدبخت نے اغوا کیا تھا ہمارا بچہ۔”
جس نے اس کی گردن دبوچ رکھی تھی اس نے اس نحیف شخص کو دو تین جھولے دیئے ساتھ والے نے اعزازی طور پر جھکی کمر پر جھانپڑ مارا۔ پیچھے والے کے ٹھڈے پر وہ بِلبِلایا۔
”او اللہ کے واسطے مجھ پر رحم کرو!” اس نے اکھڑی سانسوں میں کہنے کی کوشش کی۔
”میری تو بھٹے کی ریڑھی ہے، اپنے بارہ بچے ہیں، ان کی روٹی پوری نہیں ہوتی۔ اس تیرہویں کو کہاں سے ٹھونسائوں گا…”
”بک رہا ہے…” ایک نے بازو مروڑا۔
غالباً ٹیپو کو گھر سے نکلتے ہی گلی کے نکڑ پر بھٹے کی ریڑھی دکھائی دی۔ وہ پیچھے پیچھے آوازیں لگاتا چلنا شروع ہو گیا۔ اس کی ریڑھی خالی تھی۔ قسمت سے بھٹے جلدی بک گئے۔
وہ تیز تیز جا رہا تھا۔ خیالوں میں کمائی کا مصرف بھی۔ اس کی آواز کان نہ پڑی۔ جب وہ قبرستان کے پیچھے گندے نالے کی جانب مُڑتے اپنے کچے علاقے کی جانب مڑا تب ہی ٹیپو کی آواز سنائی دی۔
وہ رُکا، ٹیپو بھی رُک گیا۔ اسے بھی تب ہوش آیا تھا گھر بہت پیچھے رہ گیا۔ سارے دن کا تھکا ہارا ریڑھی والا اسے لیے ساتھ پھر رہا تھا۔
”کچھ تو بتا تیرا گھر کہاں ہے ، کہاں سے پیچھے پڑ گیا میرے۔”
ٹیپو بس دھاڑیں مارے رو رہا تھا۔ اماں ابا کی یاد، اوپر سے اُترتی رات کا خوف۔ اس نے ایک بھٹہ دے کر اسے چپ کروایا۔
پیار سے ڈانٹ سے ہر طرح سے پوچھ لیا۔ دل میں آیا کم بخت کو یہاں ہی چھوڑ، ڈھونڈتے ڈھانڈتے خود ہی لے جائیں گے گھر والے… پھر اپنے بچوں کا خیال آتے ہی خوفِ خدا آیا۔
ویسے بھی یہ دونوں چیزیں غریب ہی کے دل میں آتی ہیں۔ بس پھر اس نے اس کی انگلی پکڑی لوگوں سے پوچھتا پچھاتا شامت کا مارا ان کے علاقے میں داخل ہو گیا۔ پھر نہ پوچھو، لوگوں نے بناتفتیش جو اس کی مرمت سازی کی۔ اگر اغوا کار دیکھ لیتے تو کم از کم چند سال توبہ پر کاربند رہتے۔
ٹیپو بھی اس سارے ہنگامے سے سہم گیا تھا۔ ہاتھ میں پکڑا بھٹہ اور ریل، سلنٹی کے پیسے بھی مٹھی کھل کر گر گئے تھے۔
ریڑھی والا بہ مشکل اپنی سانس کھینچتے کہہ رہا تھا۔
”ابے میں بک نہیں رہا، اپنے بچے کو جگا کر پوچھ لو، میں لے گیا تھا یا کمینہ خود آیا تھا پیچھے۔” باپ کی گود میں منتقل ہوتے ہی ٹیپو کے اندر جیسے آغوشِ پدر میں تحفظ کا کوئی احساس جاگا پھر دھاڑیں مار مار رویا۔
”ابا آپا کی ریل کے پیسے گر گئے، میرا بھٹہ بھی… مجھے اس چاچا سے دوسرا لے دو۔ میں نے اور بھٹہ کھانا ہے…”
اس کی دہائی سنتے ہی اہلیانِ محلہ کی آنکھیں پھٹ گئیں اور منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ اک دوجے کو حیرت سے دیکھا پھر سرد نگاہیں آخری دم گنتے اس بے چارے ریڑھی والے پر گئیں۔
اُف میرے خدا کیا اسرافیل کا صور سُن کر مردے قبروں سے نکل کر بھاگیں گے، جو اس وقت محلے والے سرپٹ بھاگے پیچھے، مُڑ کر بھی نہ دیکھا۔ غالباً لوہے کے جنگلوں سے تو اصلی کا شیر بھی کتراتا ہے وہ تو پھر چند منٹ کے شیر بنے اسے پیٹ رہے تھے۔
ابا نے پہلے تو ٹیپو کو نرمی سے دیکھا تھا اور جیسے جیسے اس نے ساری بات بتائی ان کی نگاہوں کی نرمی، گرمی میں بدل گئی۔ گود سے اتار دو چانٹے مار اوپر بھگایا اور ہاتھ جوڑ کر اس خوانچہ فروش کو ہسپتال پہنچایا تھا۔ بس جی اتنا ہی دم ہے اس نگار خانے میں مصلحت نہیں، غوروخوض نہیں، جوش و خروش سے شور مچا، مارپیٹ، توڑ پھوڑ پھر دبک جائو کسی خانے میں۔
٭…٭…٭