میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد

ایک آگ سی میرے وجود کو جلا رہی تھی۔ میں نے کار کا دروازہ کھول کر نیچے اترتے ہوئے اس بنگلے پر نظر دوڑائی۔ وہ میرے بنگلے سے بہت بڑا تھا۔ آگ بھڑکتی ہی جارہی تھی۔ میں گیٹ کی طرف بڑھ گئی۔ کال بیل بجاتے ہوئے میں نے گھر کے مالک کا نام پڑھا۔ مجھے لگا، کسی نے مجھے دھکیل کر پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا ہو۔ شبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہی تھی۔
چند لمحے بعد گیٹ کھول کر ایک چوکیدار باہر آیا۔ اس نے مجھ سے میرے آنے کا مقصد پوچھا تھا۔ میں نے اسے جواب دینے کے بجائے دروازہ دھکیل کر اندر چلی گئی۔ وہ میرے پیچھے آیا مگر مجھے روک نہیں سکا۔ سامنے وسیع و عریض پورچ میں ایک بچہ سائیکل چلا رہا تھا۔ وہ مجھے دیکھ کر رک گیا۔ میں اس کا چہرہ دیکھا۔ کسی نے میرے گلے میں پھندا ڈال دیا۔ چہرہ شناسا تھا آج زوال کا دن تھا۔ میں لپکتی ہوئی اس کے پاس گئی۔
”تمہارا نام کیا ہے؟”
”ولید عمر۔” اس نے کچھ کنفیوز ہو کر جواب دیا کسی نے پھندے کو کس دیا تھا۔
”تمہاری امی کہاں ہیں؟” میں نے رکتی ہوئی سانس کے ساتھ پوچھا۔ اس نے ہاتھ سے میری پشت کی طرف اشارہ کیا۔ میں پیچھے مڑ گئی، ایک عورت لان سے میری طرف آرہی تھی۔ میں نے اس کے چہرے پر نظر دوڑائی۔ چہرہ پہچاننے میں دیر نہیں لگی۔ سب کچھ شناسا تھا۔ کسی نے میرے پیروں کے نیچے سے تختہ نکال لیا۔ میں پھندے سے جھولنے لگی تھی۔ اس نے بھی مجھے دیکھا تھا۔ اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں ابھرا۔ اس نے دوبارہ مجھ پر نظر نہیں ڈالی۔ وہ میرے پاس سے گزر کر اپنے بیٹے کے پاس گئی اور اسے لے کر اندر چلی گئی۔ میں بھاگتی ہوئی گیٹ سے باہر آ گئی۔ ڈرائیور نے مجھے دیکھ کر دروازہ کھول دیا۔ میں نے اندر بیٹھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ دنیا ختم ہو گئی تھی۔ سب کچھ تباہ ہو گیا تھا اور میں… میں زندہ تھی۔
…***…
میں نے عمر حسن کو اتنا چاہا ہے کہ شاید کبھی کسی او رنے اسے نہیں چاہا ہو گا۔ اس کی ماں نے بھی نہیں۔ وہ میرے لئے میرے وجود کا دوسرا حصہ تھا اور حیرت کی بات یہ ہے میں کبھی بھی اسے یہ بات نہیں بتا سکتی تھی۔ وہ میری خالہ کا بیٹا تھا اور میرے چچا کا بھی۔ اس سے میرا دوہرا رشتہ تھا۔ ہم دونوں کے گھر پاس پاس تھے اور گھروں میں آنا جانا بھی بہت تھا۔ میرے ابو بزنس مین تھے، اس کے ابو واپڈا میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ مالی لحاظ سے ہم ان سے بہت بہتر تھے بلکہ یہ کہنا بہتر ہو گا کہ ہمارا اور ان کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ لیکن اس کے باوجود دونوں گھرانوں کے تعلقات بہت اچھے تھے، شاید وجہ وہ دہرا رشتہ ہو جو ہمارے والدین کے درمیان تھا بہر حال جو بھی وجہ تھی۔
ہم دونوں خاندان بہت قریب تھے۔ ہمارے گھروں کی دیواریں آپس میں ملی ہوئی تھیں اور صحن میں دروازہ بھی تھا۔ جو ہر وقت کھلا رہتا۔ ہم اسی دروازے سے ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے تھے۔ میری ایک بہن اور دو بھائی تھے اور عمر کی تین بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ وہ یونیورسٹی میں اکنامکس میں ماسٹرز کر رہا تھا۔ مجھے اس سے محبت کب ہوئی، میں نہیں جانتی۔ شاید کسی کو بھی یہ پتا نہیں چلتا کہ اسے محبت کب ہوتی ہے۔





عمر کی امی میری پسندیدگی کو جانتی تھیں اور صرف وہی نہیں، میری امی بھی اس بات سے واقف تھیں اور انہوں نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔ خالہ کئی بار اشاروں اشاروں میں کہتی رہتی تھیں کہ وہ مجھے بہو بنا کر اپنے گھر لائیں گی اور میں اپنے لئے ان کی محبت سے واقف تھی۔ وہ میری امی سے بھی اس رشتے کے بارے میں بات کر چکی تھیں اور امی کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ لیکن عمر سے میری شادی کوئی زیادہ جلدی نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ گھر میں سب سے بڑا تھا اور اس سے چھوٹی تین بہنیں تھیں اور وہ تینوں جوان تھیں خالہ کا خیال تھا کہ وہ کم از کم دو بیٹیوں کی شادی کرکے پھر عمر کی شادی کریں گی۔
عمر، بی اے کے بعد سے ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ سرجیکل کے آلات ایکسپورٹ کرنے کا چھوٹا موٹا بزنس شروع کئے ہوئے تھے اور وہ بہت مصروف رہتا تھا۔ خالہ سے شادی کے بارے میں اس کے خیالات کا اکثر پتا چلتا رہا تھا۔
”وہ کہتا ہے کہ جب تک کاروبار صحیح طرح سیٹ نہیں ہو جاتا، میں شادی نہیں کروں گا۔ خوامخواہ کی ذمہ داری اٹھانے اور بڑھانے کا مجھے کوئی شوق ہے نہ ہمت۔”
میں خالہ کے سامنے اس کی سوچ کی تعریف کرتی۔ لیکن اندر ہی اندر میری اداسی بڑھتی جاتی۔ پھر بھی ان دنوں میں بہت خوش رہا کرتی تھی۔ زندگی کا ہر رستہ کسی رکاوٹ کے بغیر تھا۔ عمر مجھ سے باتیں کر لیتا تھا بلکہ کافی باتیں کر لیتا تھا مگر وہ سب باتیں عام سی ہوتی تھیں مجھے اس کی نظروں، اس کی باتوں میں وہ جذبات دکھائی نہیں دیتے تھے جو میرے دل میں اس کے لئے تھے۔ وہ بڑی عام سی باتیں کرتا تھا۔
”کباب بہت اچھے بنائے ہیں، بناتی رہا کرو۔”
”آج چائے تم بناؤ کیونکہ چائے تم سے اچھی کوئی نہیں بناتا۔”
”ٹی وی ذرا کم دیکھا کرو۔ کوئی فائدہ نہیں ہے ان بے کار چیزوں کو دیکھنے کا۔”
”تم نے پلانٹس کو بہت اچھے طریقے سے رکھا ہے۔ پورے گھر کو خوبصورت بنا دیا ہے تم نے۔”
”کیا اسے نظر نہیں آتا کہ میری آنکھوں میں اس کے لئے کیا ہے؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ میں اس کے گھر کس کے لئے جاتی ہوں؟ وہ آخر یہ سب کیوں نہیں سمجھ لیتا یہ سب پہیلی تو نہیں ہے پھر آخر وہ یہ سب کیوں کرتا ہے۔ اتنا بے خبر، اتنا انجان کیوں بنا ہوا ہے۔ کیا مرد اتنا بے وقوف ہوتا ہے، کیا اس کا دل نہیں ہوتا؟”
میں سوچتی اور کمرے کے چکر لگاتی رہتی۔ پانی پیتی اور اپنے اندر کی آگ کو بجھاتی رہتی۔ گہرے سانس لیتی اور اپنے غصہ کو ٹھنڈا کرتی رہتی۔
…***…
”عمر حسن کسی اور سے محبت کرتا ہے۔ کسی اور سے شادی کرنا چاہتا ہے اور میں؟ میرا کیا ہو گا؟ مجھ میں کیا نہیں تھا جو اسے مجھ سے محبت نہیں ہوئی۔”
مجھے لگا تھا، کسی نے میرے وجود کو گہری کھائی میں دھکیل دیا تھا۔ میری امی کو تھوڑی بہت پریشانی ہوئی مگر پھر شاید انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا ہو گا کہ انہوں نے میرا اور عمر حسن کا رشتہ طے نہیں کیا تھا صرف زبانی کلامی ہی بات ہوئی تھی ورنہ ان کی بہت بدنامی ہوتی۔ مگر انہیں کیا پتا تھا کہ تعلق دلوں میں بنتے ہیں اور عمر حسن سے میرا جو تعلق بن چکا تھا وہ اب کبھی بھی نہیں ٹوٹنا تھا۔
ایک ہفتہ بعد خالہ، ثناء کا رشتہ مانگنے چلی گئی تھیں اور ثناء کے گھر والوں نے فوری طور پر ہاں کر دی تھی۔ اس رات میں بہت روئی تھی۔ اتنا روئی تھی کہ اگلی صبح میری آنکھیں کھل نہیں پا رہی تھیں۔ مجھ پر کیا گزر رہی تھی کوئی نہیں جانتا تھا، امی اسے میری… بیوقوفی سمجھ رہی تھیں۔
”تمہارا تو دماغ خراب ہو گیا ہے۔ تمہارے لئے رشتوں کی کیا کمی ہے اور عمر میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں۔ تمہارے لئے تو میں اس سے کئی گنا اچھا رشتہ ڈھونڈوں گی اور یہ اچھا ہی ہوا کہ ابھی میں نے اس سے تمہارا رشتہ طے نہیں کیا تھا ورنہ تم خود سوچو اگر کہیں بعد میں یہ سب پتا چلتا تو ہم کیا کرتے۔”
انہو ں نے اگلے دن میری سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر کہا تھا۔ میں نے بڑی خاموشی سے ان کی باتیں سنی تھیں اور اسی طرح انہیں دوسرے کان سے نکال دیا۔
”یہ محبت کو کیا سمجھتی ہوں گی۔ انہوں نے کبھی محبت کی ہوتی تو یہ جانتیں کہ کسی کو دل سے نکالنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔” میں نے سوچا تھا۔
…***…
عمر کی ثناء سے صرف نسبت طے نہیں ہوئی تھی بلکہ ایک ماہ کے اندر اندر وہ بیاہ کر عمر کے گھر آگئی۔ حالانکہ خالہ نے اس پر بہت شور مچایا تھا۔ وہ چاہتی تھیں کہ پہلے وہ کم از کم دو بیٹیوں کی شادی کریں پھر عمر کی شادی ہو مگر ثناء کے گھر والوں کو جلدی تھی اور عمر نے اپنی امی کو بس یہ کہہ کر چپ کروا دیا تھا۔
”میں جانتا ہوں، میری تین بہنیں ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ غیر شادی شدہ ہیں لیکن میں نے کب ان کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کیا ہے۔ وہ اب بھی میری ذمہ داری ہیں شادی کے بعد بھی میری ذمہ داری رہیں گی اور اس سلسلے میں آپ کو مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ جہاں تک ثنا کا تعلق ہے تو وہ کبھی بھی آپ کے لئے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کرے گی۔ وہ میرے گھر کے بارے میں بھی جانتی ہے اور میری ذمہ داریوں کے بارے میں بھی لیکن اس کے والدین کو بھی ابھی دو بیٹیاں بیاہنی ہیں۔ ثناء کی شادی کریں گے تو دوسری بیٹیوں کی شادی کر سکیں گے۔ ان کی بھی مجبوری ہے۔ آپ کو اگر یہ خدشہ ہے کہ بہت پیسہ خرچ کرنا پڑے گا تو اس کے بارے میں بھی پریشان نہ ہوں۔ بہت سادگی سے شادی کردیں۔
کسی دھوم دھام کی ضرورت نہیں ہے۔ جو روپیہ خرچ ہو گا، وہ میں خرچ کروں گا۔ آپ کو کوئی پریشانی اٹھانی نہیں پڑے گی۔”

بہت سادگی سے شادی ہوئی تھی۔ مہندی وغیرہ کی کوئی رسم نہیں ہوئی تھی۔ خالہ نے شادی پر بہت قریبی عزیزوں کو بلایا تھا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی شادی پر گئی تھی۔ کیونکہ یہ میری امی کی ضد تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ مجھے کسی بات پر ماتم کرنے کے لئے گھر میں نہیں بیٹھنا چاہئے۔ اس طرح صرف دوسرے لوگ تماشا دیکھتے ہیں۔ میں دل پر جبر کرتے ہوئے اس کی شادی میں شریک ہوئی تھی۔
عمر حسن بے حد خوش تھا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی بھی اس کو اتناخوش نہیں دیکھا۔ اس کا ہر قہقہہ میرے دل کا خون کر رہا تھا۔ اس کی بیوی خوبصورتی میں کسی طور پر بھی میرے مقابل نہیں آ سکتی تھی۔ وہ دلہن بن کر خوبصورت لگ رہی تھی اور میں اس دن دلہن نہ ہوتے ہوئے بھی بے تحاشا خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس رات شادی سے واپس آنے کے بعد میں کمرہ بند کرکے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔ آئینہ کہہ رہا تھا میں بے حد خوبصورت ہوں اور آج تو قیامت ہی ڈھا رہی ہوں۔
”لوگ کہتے ہیں میں خوبصورت ہوں اور لوگ جھوٹ نہیں بولتے۔ پھر بھی عمر حسن! تمہیں میرا حسن نظر کیوں نہیں آیا؟ اس کی کون سی چیز مجھ سے بہتر ہے؟ آنکھیں، بال، ہونٹ، ناک، رنگت کسی چیز میں بھی تو وہ مجھ سے بہتر نہیں ہے پھر بھی تم نے اسی کو کیوں چنا؟ مجھے کیو ں نہیں؟ اس نے تم پر کیا پڑھ کر پھونکا تھا کہ تم مجھے نہیں دیکھ سکے۔ وہ کون سا منتر ہے جو مجھے نہیں آتا۔ میں ساری دنیا کے لئے غلط ہو سکتی ہو ں مگر خدا جانتا ہے۔ تمہیں تو میں نے دل سے چاہا تھا، کم از کم تمہارے لئے میری محبت میں کوئی کھوٹ نہیں تھا۔ پھر بھی عمر حسن! آخر تم مجھے کیوں نہیں ملے؟”
اس رات میں ایک بار پھر بلک بلک کر روئی تھی۔ میں اس رات سو ہی نہیں سکی۔ ایک آگ تھی جو میرے وجود کو جلانے لگی۔
”وہ ثناء کو کیوں لایا ہے؟ اسے اس سے محبت کیوں ہوئی ہے؟ آج وہ ہنس رہا تھا بے حد خوش تھا۔ پتا نہیں آج وہ اس سے کیا کیا وعدے کر رہا ہوگا؟ وہ سب باتیں جو میں اپنے لئے اس کے منہ سے سننا چاہتی تھی آج وہ اس سے کہہ رہا ہو گا اور اسے احساس بھی نہیں ہے کہ اس نے مجھے تباہ کر دیا ہے۔ برباد کر دیا ہے۔”
میں جلے پیروں کی بلی کی طرح کمرے کے چکر کاٹتی رہی۔
”کاش ثناء مر جائے کاش وہ آج ہی مر جائے۔” میں جو بددعا اسے دے سکتی تھی میں نے دی تھی۔
مگر جس کی دعا میں اثر نہیں ہوتا، اس کی بد دعا میں کیا اثر ہو گا، قیامت تو صرف وہی تھی جو مجھ پر گزر گئی تھی۔ دوسروں کے لئے تو دنیا بھی باقی تھی اور ثناء اور عمر کے لئے تو زندگی شاید اب ہی شروع ہوئی تھی۔ پتا نہیں کیا بات تھی لیکن عمر حسن سے میری محبت میں کمی آنے کے بجائے اور شدت آگئی تھی۔ جتنی شدت سے میں اس سے محبت کرتی تھی۔ اتنی ہی شدت سے میں ثناء سے نفرت کرتی تھی۔ میں نے سوچ رکھا تھا کہ جب عمر کی شادی ہو جائے گی پھر میں کبھی خالہ کے گھر نہیں جاؤں گی۔ لیکن میں اپنے اس فیصلے پر قائم نہیں رہ سکی۔ میں اس کی شادی کے بعد بھی اس کے گھر پہلے ہی کی طرح جاتی رہی، بلکہ شاید پہلے سے بھی زیادہ اور خالہ پہلے سے بھی زیادہ میری خاطر مدارت کرتی تھیں۔ ثناء کے ساتھ ان کا رویہ بے حد روکھا اور خشک ہوتا تھا اور مجھے بہت اچھا لگتا تھا ان کی یہ کڑوی باتیں سن کر۔




Loading

Read Previous

آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

Read Next

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

One Comment

  • فائنلی۔۔۔۔ یہ پڑھنا ہے اب

Leave a Reply to مریم یوسف خان Cancel reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!