میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد

”اور بچوں کے بارے میں کیا سوچا ہے؟ کیا اپنا خاندان بڑھانا نہیں ہے؟” اس دفعہ ایک دوسری آواز نے پوچھا تھا۔
”دیکھو سعدیہ! ابھی بچے پیدا کرکے کیا کرنا ہے بچوں کے لیے ابھی ہمارے پاس ہے کیا۔ انہیں تو کم از کم اس طرح نہیں رکھ سکتے جس طرح ہم رہ رہے ہیں۔ پھر انہیں ابھی پیدا کرنے کا کیا فائدہ؟ ویسے بھی عمر بالکل نہیں چاہتا کہ ابھی کوئی بچہ پیدا ہو اور جب وہ ہی نہیں چاہتا تو پھر ظاہر ہے مجھے کس بات کی جلدی ہے۔”
”پھر بھی ثنائ! تمہاری شادی کو دو سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے کیا تمہارے سسرال والے کوئی اعتراض نہیں کرتے؟”
”کرتے ہیں، میری ساس طعنے وغیرہ بھی دیتی ہیں، مگر دونوں اس کے بارے میں پہلے ہی فیصلہ کر چکے ہیں، اس لیے نہ میں پرواہ کرتی ہوں نہ عمر اور جب عمر کو پرواہ نہیں ہے تو پھر ظاہر ہے میں کیوں پریشان ہوں گی۔”
”تم بہت ایثار کر رہی ہو عمر کے لئے۔ عورت کو عام طور پر ایسے ایثار راس نہیں آتے۔ تمہارا یہ ایثار، یہ قربانیاں وہ کب تک یاد رکھے گا مرد کی یاداشت بڑی کمزور ہوتی ہے ان معاملات میں اور کیا عمر مختلف ہو سکتا ہے۔”
”بالکل یاد رکھے گا۔ کیوں نہیں یاد رکھے گا میں یہ بالکل نہیں مانتی کہ مرد کے لئے قربانی دی جائے اور وہ اسے بھول جائے۔ اس کا کوئی صلہ نہ دے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو بندہ آپ کا شوہر ہو۔ آپ سے محبت کرتا ہو۔ آپ اس کے لئے کچھ کریں تو وہ اسے بھلا دے۔ اس کے نزدیک اس کی کوئی وقعت ہی نہ ہو اور پھر ہم دونوں میں تو ذہنی ہم آہنگی ہے، ہمیں تو اپنی باتیں ایک دوسرے تک پہنچانے کے لئے بعض دفعہ الفاظ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ کم از کم عمر حسن وہ واحد شخص ہے جس کے بارے میں، میں کہہ سکتی ہوں کہ وہ احسان فراموش نہیں ہے اس کے لئے کچھ کیا جائے تو وہ اس سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔”
”مگر ابھی تک تو تم ہی اس کے لئے کچھ نہ کچھ کئے جارہی ہو پہلے تم نے اس کی بہن کی شادی پر اپنا زیور بیچ کر روپے اسے دے دئیے پھر یہ جاب…”
میں اس کی دوست کی بات پر چونک پڑی تھی۔ ثناء نے اپنی دوست کو بات مکمل نہیں کرنے دی۔
”دیکھو رابعہ! زیور بیچنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ مجھے ان چیزوں کا شوق نہیں ہے۔ پھر میں نے اپنی مرضی سے اس کی مدد کی تھی اس نے مجھ سے نہیں کہا تھا۔ زیور کون سی چیز ہے جس کے بغیر رہا نہ جاسکے شادی بیاہ پر ہی پہنا جاتا ہے اور وہ کسی سے بھی لے کر پہنا جاسکتا ہے جیسے میں اپنی امی سے لے کر پہن لیتی ہوں۔ جب اس گھر میں آگئی ہوں تو اس گھر کی ہر ذمہ داری کو شیئر کرنا بھی میرا فرض ہے۔ پھر اس کی بہن اور میری بہن میں کیا فرق تھا۔ میں اتنی معمولی چیزوں کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان نہیں ہوتی۔ اس کے پاس جب روپیہ آئے تو دیکھ لینا، وہ مجھے کیا کیا دے گا۔”





اس کے لہجے میں ایک عجیب سا یقین تھا اور یہ یقین مجھے سانپ کی طرح ڈس رہا تھا۔ یہ کس مٹی سے بنی ہوئی ہے کہ اس کے گمان کبھی غلط ہوتے ہی نہیں۔ اس کا یقین کبھی ختم نہیں ہوتا۔
”عمر حسن نہ کبھی تمہارا رہے گا نہ تمہارے لئے کچھ کرے گا۔ وہ پہلے بھی میرا تھا اور اب بھی میرا ہے، وہ کل بھی میرا ہی رہے گا۔ میں دیکھوں گی تم کب تک اس کے دل میں بسی رہو گی۔” میں اندر ہی اندر چلا رہی تھی۔
پھر میں زیادہ دیر تک وہاں کھڑی نہیں رہ سکی۔ میں وہاں سے خالہ کے پاس آگئی تھی۔ انہوں نے مجھ سے ان کی گفتگو کے بارے میں پوچھا تھا اور میرے دل میں جو آیا، میں نے گھڑ کر خالہ کو بتا دیا۔ ان کا طیش بڑھتا ہی گیا تھا۔ میں وہاں سے آگئی تھی۔ اس شام عمر کے آنے پر خالہ نے گھر میں تماشا کھڑا کر دیا انہوں نے دونوں کو کھری کھری سنائی تھیں۔ ثناء نے بہت انکار کیا تھا کہ اس نے اپنی فرینڈز سے خالہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی مگر خالہ نے ایک نہیں سنی۔ انہیں مجھ پر بلا کا یقین تھا مجھے خالہ کے اس کارنامے کی تفصیل اگلے دن معلوم ہوئی تھی اور میرا دل باغ باغ ہو گیا۔
…***…

ان دنوں خالہ نے ان دونوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا۔ ثناء آفس سے گھر آتی اور کسی نہ کسی بات پر خالہ کوئی ہنگامہ شروع کر دیتیں۔ میں بعض دفعہ اس کی برداشت پر حیران ہوتی تھی اس میں صبر کا مادہ میری توقع سے کچھ زیادہ ہی تھا۔ وہ خالہ کی باتیں سرخ چہرے کے ساتھ سنتی رہتی بعض دفعہ اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے مگر وہ پھر بھی چپ ہی رہتی تھی۔
پھر جب رات کو عمر گھر آتا تو خالہ نے پھر کوئی تماشا تیار رکھا ہوتا۔ وہ بلند آواز سے بولتی جاتیں۔ اپنی قسمت کے رونے روتیں۔ ثناء کو گالیاں دیتیں۔ عمر کو بیوی کی کمائی کھانے اور اس کے غلام بن جانے کے طعنے دیتیں۔ لوگوں کے بیٹوں کی فرمانبرداری، محنت اور کاروبار میں ترقیوں کے قصے سناتیں اور پھر رونا شروع کر دیتیں۔ جب میں وہاں ہوتی تو میں انہیں تسلی دینے لگتی۔
عمر زرد چہرے کے ساتھ سر جھکائے یہ سب سنتا اور پھر باہر نکل جاتا۔ میرا دل کٹنے لتا۔ ”میں اسے تو کوئی تکلیف دینا نہیں چاہتی۔” میں سوچتی اور صرف سوچتی اگلی بار پھر کچھ ایسی ہی بات ہوتی، پھر وہی جھگڑا، وہی ہنگامہ، وہی تماشا اور وہی خاموشی۔
…***…
پھر ایک دن پتا چلا کہ عمر نے چچا سے ان کی گریجویٹی کی رقم مانگی ہے تاکہ وہ اپنے کاروبار میں لگا سکے۔ چچا نے صاف انکار کر دیا تھا۔
”ہم لوگوں نے اس سے کہہ دیا کہ اب اسے کوئی رقم نہیں دے سکتے۔ آخر اسے پہلے بھی تو بزنس شروع کرنے کے لئے روپے دئیے تھے ان سے اس نے کون سا تیر مار لیا جو اب وہ اور چاہتا ہے۔ پھر ہماری باقی اولاد بھی ہے، ان کا حق ہم کیوں ماریں۔ جو تھوڑا بہت روپیہ ہے، وہ یہی تو ہے۔ اس سے یاسمین کی شادی کرنی ہے اور انصر کو بھی کوئی کاروبار کروانا ہے۔ ویسے بھی وہ اب شادی شدہ ہے اسے پیسے کی ضرورت ہے تو اپنے سسرال والوں سے مانگے۔ سب لوگ مانگتے ہیں۔ ہم نے اس کا کوئی ٹھیکہ نہیں لے رکھا۔”
خالہ نے میری امی کو بتایا مجھے خالہ کی بات پر خوشی ہوئی تھی۔
”اچھا ہے بیوی سے مانگے، اس سے کہے، وہ لاکر دے۔ آخر اور بھی تو لڑکیاں اپنے میکے سے ضرورت کے وقت رقم لاکر دیتی ہیں، وہ کیوں نہیں دے سکتی۔”
میں نے خالہ سے کہا تھا خالہ میری بات پر ثناء کے خلاف تقریر کرنے لگی تھیں۔ مجھے ان کی تقریر میں دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے دلچسپی تھی تو صرف اس بات میں کہ عمر کا ردعمل کیا ہوگا اور اس کی خاموشی آخر کار ٹوٹ ہی گئی تھی۔
خالہ کی اس تجویز پر بلا کا ہنگامہ برپا ہوا تھا۔ اسے ان سے جو جو شکایتیں تھیں، وہ اس دن اس نے کر دی تھیں۔ ان کے رویے کے بارے میں، ان کی باتوں کے بارے میں، ان کی سوچ کے بارے میں ، ثناء سے ان کے سلوک کے بارے میں، پچھلے دو اڑھائی سال کا غبار آخر باہر آہی گیا تھا۔
جواب میں خالہ بھی چپ نہیں رہی تھیں۔ انہوں نے اسے کہہ دیا تھا کہ اگر وہ وہاں خوش نہیں تو بیوی کو لے کر چلا جائے۔
لیکن وہ نہیں گیا تھا۔ وہ نہیں جائے گا یہ بات خالہ بھی جانتی تھیں کہیں جانے کے لئے کہیں رہنے کے لئے روپے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے پاس کیا تھا۔ لیکن یہ ضرور ہوا کہ اس کا دل خالہ کی طرف سے اور بدگمان ہو گیا میں ہر بات پر غورکرتی رہتی تھی پھر اس کے مطابق اپنے مہرے آگے بڑھاتی تھی۔
پھر پتا نہیں کیا ہوا لیکن مجھے لگنے لگا کہ ثناء مجھے بے حد ناپسند کرتی ہے شاید اسے شک ہو گیا تھا کہ میں خالہ کو کچھ نہ کچھ سکھاتی رہتی ہوں۔ مجھے اس کی ناپسندیدگی کی کوئی پرواہ نہیں تھی یہ گھر خالہ کا تھا اس کا نہیں اور مجھے وہ کسی طور بھی وہاں آنے سے منع نہیں کر سکتی تھی۔ مجھے دیکھ کر اس کے چہرے پر عجیب سا رنگ لہرا جاتا تھا۔ وہ جن نظروں سے مجھے دیکھتی تھی وہ بعض دفعہ مجھے خوفزدہ کر دیتی تھیں۔ بے تاثر، سرد، گہری، سلاخوں کی طرح دل میں اتر جانے والی نظریں، مگر پھر میں نے خود پر قابو پانا سیکھ لیا تھا۔ اس سے ڈر جاؤں گی تو یہ جنگ کیسے جیتوں گی۔” میں ہر بار خود کو یقین کی رسی تھما دیتی۔
پھر خالہ سے پتا چلا کہ ثناء نے اپنے جہیز کی تقریباً ساری قیمتی چیزیں بیچ دی تھیں۔ فریج، ٹی وی، وی سی آر، ڈیک، فرنیچر تقریباً ہر چیز۔
میں نے اس سے اس بارے میں پوچھا تو چڑیل کہنے لگی۔ ”امی آپ نے ہی کہا تھا کہ مجھے اس کی مدد کرنی چاہئے تو میں عمر کی مدد کر رہی ہوں۔ میکے میں کبھی کچھ لینے نہیں جاؤں گی۔ کیونکہ ان پر میرا جتنا حق تھا وہ ادا کر چکے ہیں۔ پھر میں ان سے کچھ مانگ کر اپنے شوہر اور سسرال کو چھوٹا کرنا نہیں چاہتی۔ ہاں میری ہر چیز عمر کی ہے ان چیزو ں پر اس کا حق ہے۔ اسے ضرورت ہے اور میں ان چیزوں کو بیچ کر اس کی ضرورت پوری کردوں گی۔ یہ چیزیں رشتوں سے بڑھ کر نہیں ہوتیں۔” میرا دل چاہا میں اس کے منہ پر جوتا کھینچ ماروں۔ ”شوہر کا چیزوں پر حق ہے سسرال والوں کا نہیں۔ یہ پڑھی لکھی لڑکیاں بڑی مکار اور فریبی ہوتی ہیں انہیں شوہروں کو پھانسنے اور پھانسے رکھنے کے سو طریقے آتے ہیں۔”
خالہ مجھے بتا رہی تھیں اور میرا دل جل رہا تھا۔ ”اللہ کرے تو مر جائے ثناء اللہ کرے تو مر جائے۔” میرے دل سے بددعائیں نکل رہی تھیں۔
”کتنے خنجر گاڑے گی میرے سینے میں اور کتنے خنجر گاڑے گی۔”
اس سے میری نفرت میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔ عمر سے عشق اتنا ہی بڑھ گیا تھا خالہ نے بتایا تھا کہ اس نے پچاس ہزار کی کوئی کمیٹی ڈالی ہوئی تھی اور اس نے وہ بھی عمر کو دے دی تھی۔
عمر نے جاب چھوڑ دی تھی۔ پتہ نہیں ان دنوں وہ کہاں کہاں گھومتا رہتا تھا۔ عجیب حلیہ ہو گیا تھا اس کا۔ اسے کسی چیز کی ہوش ہی نہیں تھی سوائے اپنے بزنس کے بعض دفعہ وہ ساری ساری رات باہر رہتا۔

اب میں خالہ کے پاس جاتی تو وہاں میرا دم گھٹنے لگتا۔ ہر بگڑی ہوئی چیز صحیح ہونے لگی تھی۔ ثناء اکثر مسکرانے لگی تھی۔ اس کے چہرے پر چمک ہوتی تھی۔ بعض دفعہ وہ اور عمر ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکراتے تو مجھے لگتا جیسے کسی نے مجھے آگ میں پھینک دیا ہے اور اس دن تو میں بے تحاشا روئی تھی جب مجھے خالہ سے پتہ چلا تھا کہ عمر نے ثناء کی جاب چھڑوا دی ہے۔
میں خالہ کی بات پر گم صم ہو گئی تھی۔ میرا ہر داؤ ہر وار التا ہی پڑتا جارہا تھا اب میرا جی چاہنے لگا میں کسی طرح اسے زہر دے دوں۔ وہ مرجائے جب تک وہ زندہ ہے اس سے عمر کی جان چھوٹے گی نہ میری۔ مگر اسے زہر دینے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں۔
…***…
ان دنوں کی شادی کو تین سال سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا تھا اور پہلی بار میں نے ثناء میں تبدیلی محسوس کی تھی۔ اب وہ خالہ کی کسی بات کسی نکتہ چینی پر چپ نہیں رہتی تھی، وہ وضاحت کر دیا کرتی تھی۔ بڑے پر سکون اور اطمینان انداز میں اور خالہ کو تو بس آگ ہی لگ جاتی تھی۔ اگر وہ شروع سے اسی طرح اپنی پوزیشن کلیئر کرتی ہوتی تو شاید خالہ یہ سب اتنا برا نہ لگتا مگر اب انہیں لگتا تھا کہ وہ ان سے بحث کرنے لگی ہے۔
میں مانتی ہوں، خالہ کو اس طرح سوچنے پر بھی میں نے ہی مجبور کیا تھا۔ میں خالہ سے کہتی رہتی تھی کہ ”اب عمر کے پاس روپیہ آنا شروع ہو گیا ہے اب وہ اسے کبھی رہنے نہیں دے گی اور وہ آپ سے فضول بکواس اس لئے کرتی ہے کیونکہ اسے یہ لگتا ہے کہ آپ لوگ اس کے شوہر کی کمائی کھا رہی ہیں۔” میں خالہ کو اس طرح کی باتوں سے خوب بھڑکا دیا کرتی۔ وہ ثناء سے پہلے سے بھی زیادہ جھگڑا کرنے لگی تھیں اور میں پھر پرسکون ہونے لگی تھی۔ اچھا تھا کہ یہ تماشا اسی طرح جاری رہتا۔ پھر مجھے پتا چلا کہ ثناء میرے آنے پر اعتراض کرنے لگی تھی۔ میں خالہ کے سامنے خوب روئی تھی اور خالہ نے بھی مجھے گلے لگا کر خوب آنسو بہائے تھے۔
”جب تک میں زندہ ہوں، کسی کی مجال نہیں جو تمہیں یہاں آنے سے روک سکے پھر یہ چڑیل کیا کر لے گی۔”
انہوں نے مجھے تسلی دی تھی۔ وہ یہ یقین دہانی نہ بھی کراتیں تب بھی میں جانتی تھی کہ مجھے وہاں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ خالہ کی بدگمانیاں ثناء سے اور بڑھ گئی تھیں۔ عمر بہت مصروف رہتا تھا۔ رات کو بہت لیٹ آتا اور صبح بہت جلدی چلا جاتا۔ خالہ کو اس سے شکوے شکایتوں کا موقع کم ہی ملتا تھا اور یہ غبار پھر وہ ثناء پر برس کر نکالتی تھیں۔
…***…
اس شام بھی میں خالہ کے گھر پر تھی جب ثناء کی امی اور ممانی آئی ہوئی تھیں۔ ثناء کی چھوٹی بہن اس کی ممانی کے گھر بیاہی ہوئی تھی۔ وہ دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھنے کے بجائے صحن میں خالہ کے پاس آکر بیٹھ گئی تھیں۔ ثناء کچن میں چائے بنا رہی تھی۔
ثناء کی امی بار بار خود ہی خالہ کو مخاطب کرتیں اور کوئی نہ کوئی بات شروع کر دیتیں جبکہ خالہ بڑی بیزاری سے صرف ہوں ہاں کرتی جارہی تھیں۔ پھر پتا نہیں کیا ہوا لیکن ثناء کی امی کی کسی بات پر خالہ نے ثناء کی برائیاں کرنی شروع کر دی تھیں۔ اس کی امی کچھ گنگ سی ہو گئی تھیں۔ ثناء کی ممانی نے صورتحال کو قدرے بہتر کرنے کے لئے ثناء اور اس کی بہنوں کی تعریف کی تھی اور خالہ تو پھر جیسے پھٹ ہی پڑی تھیں۔
”ایسا بھی کوئی گن نہیں ہے اس میں۔ وہ ایک بد زبان، بے لحاظ اور بد تمیز لڑکی ہے۔ میری جگہ اگر کوئی اور عورت ہوتی تو اب تک اسے دھکے دے کر گھر سے نکال چکی ہوتی۔ ایک بچہ تک تو وہ پیدا کر نہیں سکی اور عمر کی شادی کو ساڑھے تین سال ہونے والے ہیں۔ یہ تو ہمارا حوصلہ ہے ہم پھر بھی اسے یہاں برداشت کر رہے ہیں ورنہ لوگ تو ایک سال میں ایسی عورت کو فارغ کرکے گھر بھیج دیتے ہیں۔ یہ تو عمر کا ہی دماغ خراب ہے جس نے اسے اب تک رکھا ہوا ہے ورنہ اسے اب بھی لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایک سے ایک اچھی لڑکی مل سکتی ہے اسے۔”
میں سرجھکائے ایک طرف کرسی پر بیٹھی خالہ کی باتیں سن رہی تھی۔ ثناء کی امی اور ممانی بالکل گم صم بیٹھی تھیں۔ وہ ایک لفظ نہیں کہہ رہی تھیں۔ شاید انہیں خالہ سے یہ سب سننے کی توقع ہی نہیں تھی۔ کچھ دیر تک اسی حالت میں بیٹھے رہنے کے بعد وہ کچھ کہے بغیر اٹھیں اور چلی گئی تھیں۔ انہوں نے چائے بھی نہیں پی تھی۔
ثناء ان سب باتوں سے بے خبر نہیں رہی تھی۔ اس نے بھی یہ سب کچھ سن لیا تھا۔ اپنی امی اور ممانی کے سامنے وہ بالکل چپ رہی تھی لیکن ان کے جاتے ہی وہ تیر کی طرح خالہ کے پاس آئی تھی۔
”آپ کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ آپ میری ماں سے میرے بارے میں ایسی باتیں کریں؟”
اس کی آواز نیچی تھی لیکن لہجہ تلخ تھا۔ پہلی دفعہ میں نے اسے خالہ سے اس انداز میں بولتے سنا تھا۔ خالہ اس کے سوال پر بھڑک اٹھی تھیں۔
”جو سچ ہے، وہ تو میں کہوں گی، چاہے کسی کو کڑوا لگے۔ تمہاری ماں سے بھی میں نے سچ ہی کہا ہے۔”
”تھوڑا سچ اپنے بارے میں بھی کہہ دیتیں۔” اس نے کافی بدتمیزی سے کہا تھا میں نے بڑی دلچسپی سے اس کے سرخ چہرے کو دیکھا تھا۔
”تمہیں اگر اتنا خوف تھا تو اپنی ماں کو یہاں بلایا کیوں؟ یہاں جو آئے گا، میں اسے تمہاری اصلیت تو ضرور بتاؤں گی۔”
”کیا اصلیت ہے میری؟ پہلے آپ مجھے تو بتائیں۔”
”مجھ سے فضول بکواس کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس قسم کی زبان درازی تمہاری ماں برداشت کرتی ہو گی میں نہیں۔”
خالہ اس کی بات پر مزید گرم ہو گئی تھیں۔
”میری ماں نے مجھے یہی ایک چیز تو نہیں سکھائی، جس کی سزا میں آج تک بھگت رہی ہوں۔ میں نے آپ کی بہت عزت کرنے کی کوشش کی تھی مگر کچھ لوگ عزت کے قابل ہوتے ہی نہیں۔”
”تمہاری ماں عزت کے قابل ہے؟”




Loading

Read Previous

آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

Read Next

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

One Comment

  • فائنلی۔۔۔۔ یہ پڑھنا ہے اب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!