میں نے اپنے دل میں عزم کیا تھا۔ میں اس گھر کے اندر چلی گئی تھی میرا وجود جیسے آگ میں جل رہا تھا جی چاہ رہا تھا میں اس گھر اور اس کی ہر چیز کو آگ لگادوں۔ پھر وہ بچہ میرے سامنے آیا تھا اور میرا دل چاہا میں اپنے بال نوچنے لگوں۔ اپنے کپڑے پھاڑدوں اس بچے کے ٹکڑے کردوں۔
”عمر حسن! میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔” میرا دل لہو ہو رہا تھا۔ میری آنکھوں میں بھی خون اترا ہوا تھا۔
اور پھر میں نے اسے دیکھا تھا مسز عمر کو، اس عورت کو جس نے میرے حق پر ڈاکہ ڈالا تھا، جس نے میرا گھر برباد کر دیا تھا۔ وہ چہرہ شناسا تھا۔ میں نے اسے دیکھا اور یوں لگا جیسے کسی نے میرے جلتے ہوئے وجود کو ایک برفیلی قبر میں دفن کر دیا ہو۔
ہاں وہ ثناء تھی۔ وہی ثناء جس سے میں نے عمر حسن کو چھینا تھا۔ میں کچھ بول سکی نہ کچھ سوچ سکی۔ اس کی آنکھوں میں بے تحاشا سکون تھا۔ مجھے لگا جیسے اس کی آنکھیں مجھ پر ہنس رہی ہوں۔ اس نے اپنے بیٹے کا ہاتھ تھاما اور اندر چلی گئی میں بھاگتی ہوئی باہر آگئی۔
سترہ سال میں پہلی بار میں دل سے روئی تھی اور اتنا روئی تھی کہ شاید کبھی کوئی نہیں روئے گا۔ میں جہاں سترہ سال پہلے تھی، اب بھی وہیں کھڑی تھی۔ سترہ سال میں نے خود کو فریب دے دے کر گزارے تھے اور مجھے پتا ہی نہیں کہ عمر حسن سراب ہے۔ نہ وہ سترہ سال پہلے میرا تھا نہ اب میرا ہے۔ میں اپنا کمرہ بند کرکے سارا دن ماتم کرتی رہی تھی اور مجھے اب کرنا ہی کیا تھا۔
وہ رات کو گھر آیا تھا۔ اسے کچھ کہنے، اسے کچھ بتانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔ وہ پہلے ہی باعلم تھا اور بے حد پرسکون تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ میرے سامنے کھڑا کہہ رہا تھا۔
”میں نے تم سے کبھی محبت نہیں کی۔ نہ پہلے کبھی، نہ آج، نہ ہی آئندہ کروں گا، میں تم سے محبت کر ہی نہیں سکتا۔ تم سے میرا رشتہ محبت کا رشتہ ہے نہ ضرورت کا۔ صرف مجبوری کا رشتہ ہے۔”
وہ بڑے سکون سے میرے کانوں میں صور پھونک رہا تھا۔
سترہ سالوں میں پہلی بار وہ اس طرح روبرو مجھ سے باتیں کر رہا تھا۔ اس نے سب کچھ کہا تھا، سب کچھ۔ مجھے خواہش تھی کہ وہ مجھ سے بہت سی باتیں کرے۔ اس نے آج میری وہ خواہش پوری کر دی تھی۔
”عمر! میں نے تم سے محبت کی تھی۔ تمہارے لئے قربانی دی تھی۔ تمہارا گھر بسایا تھا۔”
میں نے اس سے کہا تھا۔ اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا وہ بڑی بے رخی سے مسکرایا تھا۔
”یہ سب تمہاری خواہش تھا۔ میری نہیں۔ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ مجھ سے محبت کرو۔ میں نے نہیں کہا تھا کہ میرا گھر بناؤ اور کون سی قربانی دی ہے تم نے میرے لئے۔ کوئی قربانی نہیں دی تم نے۔ قربانی ثناء نے دی تھی۔ ایک دو نہیں بہت سی اور اب تک دیتی آرہی ہے۔ یہ وہ تھی جو میرے لئے بڑے گھر کو چھوڑ کر آئی تھی۔ یہ وہ تھی جس نے مجھ سے کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ یہ وہی تھی جس نے میری کنگالی کے دنوں میں مجھے اور میرے گھر کو سپورٹ کیا۔ یہ وہ تھی جس نے میری ماں کی ہر غلط اور ناجائز بات کو برداشت کیا۔ تمہیں برداشت کیا۔ یہ وہ تھی جس نے اپنا پورا زیور میری بہن کی شادی کے لئے بیچ دیا۔ قربانی اگر کسی نے دی تو اس نے دی، تم نے نہیں۔ تمہیں تو سب کچھ ملا۔ بتاؤ کیا نہیں ملا تمہیں؟ شادی کے بعد سے کون سی خواہش تمہاری پوری نہیں ہوئی؟ میں نے تمہیں سب کچھ دیا۔ سب کچھ تاکہ تم کبھی مجھ پر کوئی احسان نہ جتا سکو۔ مجھ پر اگر کسی کے احسان ہیں تو ثناء کے اور ایسا کوئی نہیں ہے جس کے احسان کا بدلہ میں نہ دے سکوں۔”
اس نے مجھے آسمان سے زمین پر لا پٹخا تھا۔
”شمائلہ! میں سب کچھ جان گیا تھا۔ تمہاری اور امی کی اصلیت دیر سے سہی مگر میں پہچان گیا تھا۔ تم نے پوری پلاننگ سے میرا گھر برباد کیا تھا۔ میں تب سوچتا تھا کہ تم صرف امی کے لئے آتی ہو مگر ثناء ٹھیک کہتی تھی، تم امی کے لئے نہیں اس گھر کو برباد کرنے کے لئے آتی تھیں۔ بہت ہنگامہ مچایا تھا تم نے کہ ثناء نے تمہیں بدنام کر دیا ہے۔ اب کوئی تم سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ نہیں شمائلہ! تمہیں بدنام ہونے کا کوئی دکھ نہیں تھا۔ تم بہت خوش تھیں کیونکہ تم یہی چاہتی تھیں کہ تم بدنام ہو اور میں مجبور ہو کر تم سے شادی کر لوں۔”
”یا اللہ کیا ہر انکشاف آج ہی ہو گا۔” میں نے کرب سے آنکھیں بند کر لی تھیں مگر وہ آواز بند نہیں ہوئی۔
”تمہارا والہانہ پن، تمہاری بے اختیاریاں، تمہارے انداز، تمہاری باتوں ہر چیز نے ثناء کے شبے کی تصدیق کی تھی۔ تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھیں اور اس کے لئے جو چاہا تم نے کیا۔ میں جان گیا تھا۔ میں تمہیں جان گیا تھا۔ تمہارے اندر کیا تھا۔ مجھ سے کچھ بھی چھپا نہیں رہا لیکن میرے پاس تم سے جان چھڑانے کا کوئی رستہ نہیں تھا۔ مجھے ثناء سے صرف دو دن کے لئے نفرت ہوئی تھی، صرف دو دن کے لئے اور اس دو دن نے میرے اور اس کے درمیان اتنی دیواریں کھڑی کر دی تھیں۔ جنہیں پار کرنے میں مجھے تین سال لگ گئے۔ میرے غصے، میری جلد بازی، میری حماقت نے ڈھائی سال تک اسے ایک جہنم میں رہنے پر مجبور کیا تھا اور یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا تھا۔ تمہاری وجہ سے میں نے اسے طلاق دی۔
تمہاری وجہ سے اسے اس شخص کے ساتھ ڈھائی سال گزارنے پڑے جس نے اسے جسمانی اور ذہنی دونوں طرح سے ٹارچر کیا۔ تم نے کبھی سگریٹ سے جسم پر پڑنے والے آبلے دیکھے ہیں؟ نہیں! کیونکہ میں نے کبھی تمہارے جسم کو سگریٹ سے نہیں جلایا۔ تمہارے جسم پر کبھی کسی نے ٹھوکریں ماریں ہیں؟ نہیں! اس کے جسم پر بہت دفعہ ماری گئی ہیں۔ تمہیں کبھی میں نے بیلٹوں سے پیٹا ہے؟ نہیں! مگر اسے اس کا شوہر پیٹتا رہا ہے۔ تمہیں میں نے کبھی گالی نہیں دی اسے بہت دی گئی ہیں اور یہ سب ایک دن دو دن یا ایک ہفتہ، دو ہفتہ نہیں ہوا، یہ سب ڈھائی سال ہوا ہے اور یہ سب میری اور تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔ میں اسے طلاق نہ دیتا تو وہ کبھی اس ذہنی مریض کے ہتھے نہ چڑھتی اور پھر طلاق کے لیبل سے بچنے کے لئے یہ سب چھپاتی نہ پھرتی۔ لیکن میں نے اسے طلاق دے دی جو اس نے برداشت کیا ہے وہ تم کبھی نہ کرتیں۔ تکلیف اور قربانی کے لفظ تمہیں صرف کہنا آتے ہیں تم ان کا مطلب نہیں جانتیں۔ تم جانتی ہو، میں نے اسے کہاں دیکھا تھا؟ وہ ایک سرکاری ہاسپٹل میں اپنے ہاتھ کی ٹوٹی ہوئی ہڈی اور خون سے لتھڑے ہوئے چہرے کے ساتھ ایک جمگٹھے میں کھڑی تھی او رمجھے دیکھ کر اس نے اپنے چہرے کو چادر سے چھپا لیا تھا۔ تم اس کرب کا اندازہ نہیں کرسکتیں جس سے میں گزرا تھا۔
ثناء وہ تھی جسے میں نے کبھی سخت ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا اور وہ شخص معمولی بات پر اسے جانوروں کی طرح پیٹتا تھا۔ پتا ہے شمائلہ! اس دن میرا دل کیا چاہا تھا؟ میرا دل چاہا تھا، میں بھی تمہارے جسم پر اسی طرح ٹھوکریں ماروں جیسے وہ اس کے جسم پر مارتا تھا، جلتے ہوئے سگریٹ کو تمہارے جسم پر مسل کر بجھاؤں تاکہ تمہیں پتا چلے کہ تم نے ثناء کے ساتھ کیا کیا تھا۔”
وہ کہتا جارہا تھا۔ بس کہتا جارہا تھا۔ اس کی آنکھوں اور اس کے چہرے پر میرے لئے اتنی نفرت تھی کہ میں اسے دیکھ نہیں پائی۔ میں نے اپنے سر کو گھٹنوں میں چھپا لیا وہ تب بھی خاموش نہیں ہوا تھا۔
”میں اس دن تمہیں طلاق دے دینا چاہتا تھا۔ میں تمہیں رکھنا نہیں چاہتا تھا مگر مجھے ارم کا خیال آگیا۔ وہ بہت چھوٹی تھی۔ اسے ابھی تمہاری ضرورت تھی۔ میں ایک بار پھر جلد بازی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے میں نے صبر کیا پھر میں نے وہی کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا۔ میں نے اس کے والدین سے مل کر اس شخص سے اس کو طلاق دلوائی تھی اور پھر اس سے شادی کر لی تھی۔ ایک سال تک ہم دونوں خاموش رہے ایک دوسرے سے کہنے کے لئے کچھ تھا ہی نہیں۔ وہ اگر کبھی روتی تو مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ میں اسے خاموش کروا سکوں۔ اسے کوئی دلاسا دے سکوں۔ ایک مجرم کی طرح میں اس کے سامنے جایا کرتا تھا اور یہ سب تم نے کیا تھا۔ اس سب کی ذمہ دار تم تھیں۔”
میں اس کی آواز سے اس کے دل کی کیفیت جان رہی تھی۔ آج جیسے یوم حشر تھا۔
”جب ارم کچھ بڑی ہوئی تو میں تمہیں طلاق دے دینا چاہتا تھا۔ میں نے ثناء سے اس بارے میں بات کی تھی اور اس نے سختی سے مجھے مجبور کیا تھا کہ میں ایسا نہ کروں، وہ نہیں چاہتی تھی کہ تمہاری بیٹی کی زندگی برباد ہو۔ تمہارے ساتھ وہ کچھ ہو جو اس کے ساتھ ہوا تھا۔ اس نے مجھے تمہارے ساتھ شیئر کرنا قبول کر لیا تھا۔ پھر ایسے بہت سے مواقع آئے تھے جب میں تم سے جان چھڑانا چاہتا تھا، میں صرف ایک گھر چاہتا تھا، ثناء کے ساتھ۔ دو گھروں سے تنگ آگیا تھا۔ لیکن ہر بار وہ نہیں مانی۔ ہر بار وہ مجھے مجبور کر دیتی کہ میں تمہیں طلاق نہ دوں۔”
اس نے ایک ایک کرکے بے شمار بھالے میرے سینے میں اتار دئیے تھے۔
”تو تمہارے ساتھ پچھلے سترہ سال میں نے بھیک میں ملی خیرات کے طور پر گزارے ہیں۔” میں اپنے سر کو اٹھا نہیں پارہی تھی۔
”میرے اور ثناء کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ میں تم سے اسی لئے اور کوئی اولاد نہیں چاہتا تھا کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ تمہارا کوئی بیٹا ہو اور ثناء کے بیٹوں کے ساتھ میرے کاروبار کو شیئر کرے۔ میرا سب کچھ ثناء اور اس کی اولاد کا ہے او رمیں چاہتا تھا کہ میرا نام اور میری نسل ثناء سے ہی چلے۔ تم پوچھتی تھیں ناکہ اتنے بڑے کاروبار کو کون سنبھالے گا۔ میرے اور ثناء کے بیٹے سنبھالیں گے۔ میں اپنا تقریباً سارا کاروبار اور جائیداد ان چاروں کے نام کر چکا ہوں۔ تمہارے لئے میں نے یہ گھر رکھا ہے اور ارم اور اقصیٰ کے لئے بنک میں کچھ روپیہ ڈیپازٹ کروا چکا ہوں۔ اس کے علاوہ اور کسی چیز پر تم لوگوں کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ اس شہر میں مسز عمر کے نام سے اگر کوئی جانا جاتا ہے تو وہ ثنا ہے۔ تم اگر اپناتعارف اس حوالے سے کراؤ گی تو لوگوں کے مذاق کا نشانہ بنو گی۔ اس لئے آئندہ کبھی اس حوالے سے اپنا تعارف مت کروانا، نہ ہی کبھی دوبارہ میرے گھر جانا۔ تم خاندانی بیوی ہو مگر دوسری بیوی، ہمیشہ دوسری ہی رہو گی۔ تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ تم شاپنگ کرتی رہو۔ خاندان سے میل ملاپ رکھو اور وہاں میرے حوالے سے عزت حاصل کرتی رہو۔ مگر ثناء میری پہلی بیوی ہے اور جہاں جہاں میں جاؤں گا، وہاں میری بیوی کی حیثیت سے وہی جائے گی اور اسے ہی عزت ملے گی تمہیں نہیں۔”
میں نے آنسوؤں سے تر چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا تھا وہ آج بھی اتنا ہی دور نظر آرہا تھا جتنا سترہ سال پہلے تھا۔
”تم نے اتنے سال مجھ سے یہ سب چھپایا کیوں؟” میں نے اس سے پوچھا تھا۔
”ہاں، صرف تم سے میں نے چھپایا تھا اور کسی سے نہیں۔ امی اور انصر دونوں ثناء سے میری شادی سے واقف ہیں۔ تمہیں بتانے کی میں نے کبھی ضرورت ہی نہیں محسوس کی۔”
میں اس کا چہرہ دیکھتی رہ گئی تھی۔ میرے قدموں تلے سے زمین کھینچنے میں وہ اکیلا نہیں تھا۔ وہ بے حد مطمئن، بے حد پرسکون تھا۔ اس نے میرے پاس کچھ بھی رہنے نہیں دیا تھا اور میں پچھلے سترہ سالوں میں یہ سوچ کر خوش ہوتی رہی تھی کہ میرے پاس سب کچھ ہے اور یہ ”سب کچھ” ہمیشہ کے لئے ہے، مگر یہ سب فریب تھا۔ ثناء کا آسیب ہمیشہ میری زندگی میں رہا تھا اور اس آسیب نے ایک بار پھر میرے وجود کو نگل لیا تھا۔
”عمر! میں تمہارے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔ تم مجھے طلاق دے دو، اتنا بڑا دھوکا کھا کر میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔”
میں نے پتا نہیں یہ کہنے کا حوصلہ کہاں سے پیدا کیا تھا۔
”مجھے تمہیں طلاق دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ خوشی ہوگی لیکن تم اچھی طرح اس بات کے بارے میں سوچ لو اور پھر مجھے اپنے فیصلے سے آگاہ کر دینا۔ میں ارم اور اقصیٰ کو تم سے نہیں چھینوں گا۔ وہ تمہارے پاس ہی رہیں گی۔ میں انہیں شٹل کاک بنانا نہیں چاہتا لیکن تم یہ ضرور سوچ لو کہ تمہارے اس فیصلے سے ان دونوں کے ذہن اور زندگی پر کیا اثر ہو گا تمہیں کچھ سالوں کے بعد ان دونوں کی شادی بھی کرنی ہے اور کسی مطلقہ کی بیٹی کو بیاہ کر لانے سے پہلے لوگ ہزار بار سوچتے ہیں پھر بھی اگر تم طلاق ہی چاہتی ہو تو ٹھیک ہے۔ میں تمہیں طلاق دے دوں گا لیکن بہتر ہے تم اچھی طرح اس بارے میں سوچ لو۔”
وہ یہ کہہ کر بڑی لاپروائی سے اپنا بریف کیس اٹھا کر چلا گیا اور میں تب سے اسی کرسی پر جھول رہی ہوں۔ چیزوں کو بنتے ہوئے کتنے مہینے کتنے سال لگ جاتے ہیں مگر جب وہ ختم ہونے لگتی ہیں تو پھر سب کچھ لمحوں میں ختم ہو جاتا ہے۔ میں کرسی پر جھولتے ہوئے سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے مرر میں اپنے وجود کو دیکھ رہی ہوں۔ مرر مجھے سبز کپڑوں میں ملبوس تراشیدہ بالوں والی ایک فربہی مائل چالیس سالہ عورت کا عکس دکھا رہا ہے جس کا ماضی ایک فریب تھا اور مستقبل ایک خواب رہا ہے۔ جس کا خوب صورت چہرہ اس مرد کے دل کو نہیں جیت پایا تھا جسے اس نے سب سے زیادہ چاہا تھا۔
”میں یہ نہیں مانتی کہ مرد کے لئے قربانی دی جائے اور وہ اسے بھول جائے۔ اس کا کوئی صلہ نہ دے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ بندہ جو آپ کا شوہر ہے، آپ سے محبت کرتا ہے، آپ اس کے لئے کچھ کریں تو وہ اسے بھلادے۔ اس کے نزدیک اس کی کوئی وقعت ہی نہ ہو اور پھر ہم دونو ں میں تو ذہنی ہم آہنگی ہے۔ ہمیں تو اپنی بات ایک دوسرے تک پہنچانے کے لئے بعض دفعہ لفظوں کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ کم از کم عمر حسن وہ واحد شخص ہے جس کے بارے میں میں کہہ سکتی ہوں کہ وہ احسان فراموش نہیں ہے۔”
بہت سال پہلے ایک بار ثناء نے اپنی کسی دوست سے کہا تھا۔ اس کی آواز میرے کانوں میں لہرا رہی تھی۔ ہاں عمر حسن، احسان فراموش نہیں تھا۔ اس میں وہ خوبیاں تھیں جو عام مردوں میں نہیں تھیں اور ان خوبویوں کی وجہ سے ہی میں اس کی محبت میں گرفتار ہو گئی تھی مجھ میں اس جیسی کوئی خوبی نہیں تھی۔ پھر بھی میں نے اس کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش کی تھی۔
ہم نامکمل لوگ مکمل لوگوں کے ساتھ کبھی نہیں چل سکتے، کبھی ہمارا سانس پھول جاتا ہے اور کبھی وہ ہمیں بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔
میرے ساتھ یہ دونوں باتیں ہوئی تھیں۔ مجھے اپنے کسی فعل پر کوئی شرمندگی، کوئی افسوس نہیں ہے۔ میں نے جو ٹھیک سمجھا، اسے حاصل کرنے کے لئے کیا۔ میں انسان تھی کوئی فرشتہ نہیں اور پھر سب یہی کرتے ہیں۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا، اگر میری وجہ سے ثناء کو تکلیفیں اٹھانی پڑیں تو میں کیا کرسکتی ہوں۔ یہ سب اس کی قسمت میں تھا پھر عمر حسن مجھے ان سب چیزوں کا ذمہ دار کیسے ٹھہرا سکتا ہے۔ میں نے سترہ سال کے دوران سب کچھ پالیا تھا۔ دولت، گھر، بچے، سکون، میں نے سوچا تھا، اب دنیا میں کچھ اور پانے اور حاصل کرنے کے لئے باقی نہیں رہا، مگر مجھے یہ پتا نہیں چلا تھا کہ عمر حسن، ہاں بس عمر حسن میرا نہیں ہوا۔ میں نے اس کو اتنا چاہا تھا کہ اس کے عشق میں اپنے وجود کو آگ بنا ڈالا تھا اور اس آگ نے کتنوں کو جلایا۔ مجھے کبھی اس کا احساس نہیں ہوا۔
اب یہاں اس کمرے میں کرسی پر جھولتے ہوئے میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں کیا کروں۔ اس سے طلاق لے لوں تو اس عمر میں اپنے چہرے، اپنے ماتھے پر یہ داغ کیسے سجالوں۔ اپنی بیٹیوں کو میں کیا بتاؤں کہ میں عمر حسن سے طلاق کیوں لے رہی ہوں۔ اپنے ماضی کے کارنامے کو ان کے سامنے کیسے رکھ دوں۔ وہ تو پھر بہت سے سوال کریں گی میرے بارے میں، عمر حسن کے بارے میں اور ثناء کے بارے میں اور میں انہیں کوئی جواب نہیں دے سکتی اور اگر انہیں مطمئن کر بھی دوں تو ان لوگوں کو کیسے مطمئن کروں گی جو میری بیٹیوں کا رشتہ لینے آئیں گے اور اور اگر میں طلاق نہ لوں تو زندہ کیسے رہوں؟ پچھلے سترہ سال جس فریب، جس سراب کے ساتھ رہی ہوں، اس کے ساتھ آگے کیسے رہوں۔ اس کی بے اعتبار نظروں اور اجنبی لہجے کو کیسے برداشت کروں جو میرا خون کر دیتے ہیں اور یہ کیسے برداشت کروں کہ وہ اسی شہر میں ایک گھر میں اس عورت کے پاس بھی جاتا ہے جسے وہ سب سے زیادہ چاہتا ہے۔ یہ کیسے برداشت کروں کہ میرے لئے اس کی نظروں میں نفرت اور اس کے لئے محبت ہو۔ میں دوراہے پر کھڑی ہوں اور جانتی ہو ں کہ منزل دونوں ہی رستوں پر نہیں ہے پھر بھی مجھے ایک رستہ چننا ہے اور میں انتخاب نہیں کرپا رہی۔
اور اب میں آپ سے پوچھ رہی ہوں۔ مجھے بتائیں میں کیا کروں کون سا رستہ چنوں۔ مجھے یہ بتانے کی طرورت نہیں ہے کہ میں نے اچھا کیا یا برا۔مجھ پر نیکی او ربدی کا فتویٰ جاری مت کیجئے۔ میں سب جانتی ہوں، صرف یہ نہیں جانتی کہ مجھے کیا فیصلہ کرنا چاہئے اس لئے آپ سے آپ کی مدد چاہتی ہوں۔ شاید آپ مجھے اس برزخ سے نکال لیں جس میں، میں اپنی مرضی سے گری ہوں مجھے بتائیں اگر آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟
…***…
One Comment
فائنلی۔۔۔۔ یہ پڑھنا ہے اب