جب سے میں عمر کے گھر آئی تھی، اس کا کاروبار پھیلتا ہی گیا تھا۔ روپیہ بارش کی طرح ہم پر برس رہا تھا۔ خالہ ہر ایک سے کہتیں کہ میں ان کے گھر کے لیے بہت خوش قسمت ثابت ہوئی ہوں۔ میری وجہ سے گھر میں روپیہ آرہا ہے، میری وجہ سے کاروبار ترقی کر رہا ہے۔ میں ان کی باتوں پر بے حد مسرور ہوتی۔
مجھے بے حد فخر ہوتا۔
”ہاں یہ سب میری وجہ سے ہی ہے۔ میں یہاں نہیں تھی تو یہاں کیا تھا مگر اب میں ہوں تو جیسے سب کچھ ہے۔”
میں دل ہی دل میں سوچتی اور یہ کوئی خوش فہمی نہیں تھی۔ اس کا کاروبار دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ اس کا ثبوت وہ بڑی بڑی رقوم تھیں جو وہ مجھے اور خالہ کو خرچ کرنے کے لیے دیا کرتا تھا، کم از کم اس معاملے میں مجھے اس سے کوئی شکایت نہیں تھی۔
شادی کے بعد اس نے کبھی مجھے کسی چیز کی تنگی کا شکار نہیں ہونے دیا تھا۔ مجھے شروع سے ہی روپیہ پانی کی طرح بہانے کی عادت تھی اور میری یہ عادت شادی کے بعد بھی قائم رہی، وہ مجھے جتنے روپے دیتا، میں ایک بار شاپنگ پر جاتی اور خرچ کرآتی۔ پھر میں ا سے اور روپے مانگتی اور وہ ایک لفظ کہے بغیر میرا مطالبہ پورا کر دیتا۔
اس نے کبھی مجھ سے نہیں پوچھا تھا کہ میں اتنے روپوں کا کیا کرتی ہوں میں خود ہی اپنا ہر نیا لباس، ہر نیا زیور بڑے شوق سے اسے دکھاتی اور وہ کسی دلچسپی کے بغیر اسے دیکھتا اور میرے پوچھنے پر سرسری انداز میں تعریف کردیتا۔ میرے لیے یہ بھی کافی تھا۔
میں ہر وقت خود کو سجا سنوار کر رکھتی تھی۔ میں جانتی تھی کہ عمر حسن کو سادگی پسند ہے اسے زیادہ میک اپ اور بھاری بھرکم بھڑکیلے لباس پسند نہیں ہیں۔ لیکن یہ سب مجھے پسند تھا اور خالہ بھی یہی چاہتی تھیں کہ میں خوبصورت ہوں اور مجھے سج سنور کر رہنا چاہئے، اس طرح میں اس کے دل میں اپنی جگہ بنالوں گی۔
عمر نے بھی کبھی مجھے اس سے نہیں روکا نہ ہی اس نے کبھی مجھ سے کہا کہ اسے یہ سب پسند نہیں ہے، بس وہ مجھے سراہتا نہیں تھا مگر میں خود ہی اس سے پوچھتی رہتی کہ میں کیسی لگ رہی ہوں اور وہ کہہ دیتا۔
”اچھی لگ رہی ہو۔” اور میں اس کی بات پر جیسے ہواؤں میں اڑنے لگتی۔
ان دنوں زندگی بے حد خوبصورت تھی۔ میں ماں بننے والی تھی اور مجھے یقین تھا کہ میرا بچہ عمر کو بھی بدل دے گا۔ اس کی خاموشی توڑ دے گا۔ میرے ہاں شادی کے ڈیڑھ سال بعد بیٹی پیدا ہوئی لیکن عمر کی خاموشی نہیں ٹوٹی۔ وہ بیٹی سے محبت کرتا تھا۔ اسے بے تحاشا چیزیں لا کر دیتا تھا۔ اسے گود میں بھی اٹھا لیتا لیکن پھر بھی وہ افسردگی ختم نہیں ہوتی تھی جس نے اس کے وجود کو گھیرا ہوا تھا۔ مگر اب میں مطمئن تھی۔ میری پوزیشن اولاد ہونے کے بعد بہت مضبوط ہو چکی تھی۔
مجھے اب کوئی اس گھر سے ثناء کی طرح نہیں نکال سکتا تھا۔ عمر ویسے بھی اب بہت مصروف رہنے لگا تھا کیونکہ وہ فیکٹری بنوا رہا تھا۔ اس کے پاس فرصت اب بہت کم ہی ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ وقت گزرتا جارہاتھا۔ خالہ سے بھی میرے تعلقات اب اتنے خوشگوار نہیں رہے تھے۔ کچھ عرصے تک تو انہوں نے میرے بڑے ناز اور لاڈ اٹھائے تھے مگر پھر انہیں میری بہت سی باتوں پر اعتراض ہونے لگا تھا۔
میں بازاروں میں بہت جاتی ہوں، میں گھر کے معاملات میں ان کی رائے نہیں لیتی، میں کہیں جانے سے پہلے ان سے اجازت نہیں لیتی، میں اپنے گھر اتنے چکر کیوں لگاتی ہوں، میں بہت فضول خرچ ہوں، میں گھر کے کاموں کو ہاتھ نہیں لگاتی، میرے مزاج آسمان پر رہتے ہیں، میں نے عمر کو ان سے بالکل جدا کر دیا ہے۔ وہ ان کے پاس آکر بیٹھتا ہی نہیں۔
کوئی ایک شکایت نہیں تھی انہیں مجھ سے۔ انہیں تو بس شروع سے بولنے کی عادت تھی، یہ عادت اب کیسے چھوٹ جاتی مگر میں کوئی ثناء نہیں تھی جو زبان پر ٹیپ لگا کر پھرتی پھر جب میرے شوہر کو میری کسی بات پر اعتراض نہیں تھا تو وہ اعتراض کرنے والی کون ہوتی تھیں۔ عمر کو میں نے ان سے جدا نہیں کیا تھا وہ خود ان کے پاس نہیں بیٹھتا تھا پھر میں اسے کیسے پکڑ پکڑ کر ان کے پاس بٹھاتی اور یہ اچھا ہی تھا۔ ان کے پاس بیٹھ کر اس نے کیا سننا تھا، میری شکایتیں۔
ایک دو بار خالہ سے میرا بہت زیادہ جھگڑا بھی ہوا تھا اور خالہ نے جب عمر سے اس بارے میں شکایت کی تو اس نے بڑی تلخی سے ان سے کہا تھا وہ آئندہ میرے بارے میں اس سے کوئی شکایت کریں نہ ہی وہ ایک لفظ سنے گا۔ خالہ اس کی بات پر جیسے شاک میں آگئی تھیں۔ مگر مجھے بے حد فخر ہوا تھا خود پر اور عمر پر۔ اس کے دل میں میرے لئے کچھ تھا تب ہی تو اس نے میری طرف داری کی تھی۔ اس سے میری محبت میں اور بھی اضافہ ہو گیا تھا۔
…***…
ہماری شادی کو تین سال ہوئے تھے اور پتا نہیں کیوں لیکن یک دم عمر کے رویے میں بہت بڑی تبدیلی آگئی تھی۔ وہ بے حد پریشان رہنے لگا تھا۔ بعض دفعہ رات کو میری آنکھ کھلتی تو وہ سگریٹ پر سگریٹ پھونک رہا ہوتا۔ میں نے اس کی پریشانی کی وجہ جاننے کی کوشش کی تھی مگر وہ خاموش ہی رہا تھا بلکہ کافی بے رخی سے ساتھ مجھے جھڑک دیتا تھا۔ ان دنوں وہ ارم سے بھی کھنچا رہتا تھا۔ میرا خیال تھا کہ شاید وہ کسی کارباری مسئلے کی وجہ سے پریشان تھا۔ مگر اب کاروبار اتنا پھیل چکا تھا کہ میں کم از کم یہ نہیں سوچ سکتی تھی کہ پہلے جیسے حالات لوٹ آئیں گے۔
اس کی یہ کیفیت دو تین ماہ رہی تھی۔ وہ زیادہ وقت گھر میں گزارتا نہ ہی مجھ سے بات کرتا اور اگر میں اس سے بات کرنے کی کوشش کرتی تو وہ کاٹ کھانے کو دوڑتا۔ میں اگر کبھی اس کے کندھے پر بھی ہاتھ رکھ دیتی تو وہ یوں میرا ہاتھ جھٹکتا جیسے میں کوئی غلیظ چیز ہوں۔ اس نے ان دو تین ماہ میں ایک بار بھی ارم کو نہیں اٹھایا نہ ہی اس کے پاس گیا۔ میں اس کے رویے سے بے حد پریشان تھی۔
ان دنوں ایک بار پھر میں نے خلوص نیت سے خدا سے اس کے ٹھیک ہوجانے کی دعا کی تھی اور ایک بار پھر میری دعا قبول ہو گئی تھی۔ دو تین ماہ تک اسی طرح رہنے کے بعد وہ آہستہ آہستہ ٹھیک ہو گیا تھا اور صرف ٹھیک نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے چہرے کی مسکراہٹ بھی لوٹ آئی تھی۔ شادی کے تین سال بعد وہ اس افسردگی سے باہر نکل آیا تھا۔ ثناء کا طلسم ٹوٹ گیا تھا۔ اور میں… میں اس کا دل جیتنے میں کامیاب ہو ہی گئی تھی۔
اب وہ اکثر مجھ سے بات کر لیا کرتا۔ کبھی مجھے کوئی گفٹ بھی لا دیتا، کبھی اپنے ساتھ کہیں گھمانے بھی لے جاتا۔ ارم سے بھی پہلے سے زیادہ محبت کرنے لگا۔ ہاں خالہ کے ساتھ اس کا رویہ ویسا ہی تھا۔ ان کے ساتھ وہ اب بھی کھنچا کھنچا ہی رہتا تھا ہر ماہ وہ کھڑے کھڑے انہیں کچھ رقم تھما دیتا۔ ان کا حال حوال پوچھتا اور چلا جاتا۔
خالہ بعد میں بولتی رہتیں لیکن کوئی ان کی نہیں سنتا تھا۔
…***…
وقت آہستہ آہستہ گزرتا جارہا تھا۔ ہماری شادی کو دس سال گزر گئے تھے ان دس سالوں میں بہت سی تبدیلیاں آگئی تھیں۔ میرے ہاں ایک اور بیٹی ہوئی تھی اور اس بیٹی کی پیدائش پر عمر حسن نے کہا تھا کہ اب وہ مزید کوئی بچہ نہیں چاہتا۔ مجھے بیٹے کی بے پناہ خواہش تھی اور میں نے بہت اصرار کیا تھا کہ کم از کم ایک بیٹا ضرور ہونا چاہئے مگر اس نے بڑی سختی سے میرے اس مطالبے کو رد کر دیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ دو بچے کافی ہیں، وہ ان ہی کی اچھی طرح تعلیم و تربیت کرنا چاہتا ہے۔ دو سے زیادہ بچوں کو وہ وقت نہیں دے سکتا اور بیٹے اور بیٹیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بس اولاد اچھی ہونی چاہئے۔
مجھے اس کی باتوں پر خوشی اور حوصلہ ہوا تھا کہ اس کے نزدیک بیٹیاں بھی بیٹوں کے برابر ہیں لیکن میرے دل میں پھر بھی بیٹے کا ملال ضرور تھا۔ مجھے اس کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ آخر اتنا بڑا کاروبار کل کون سنبھالتا۔ عمر کو اس کی بھی فکر نہیں تھی۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی کو بھی اپنے ساتھ بزنس میں لگایا ہوا تھا۔
اور یقینا وہ سوچتا ہو گا کہ انصر اس کے بعد کاروبار سنبھال سکتا ہے لیکن میں اپنے دل میں کچھ اور منصوبے رکھتی تھی۔ اگر بیٹا نہیں تو پھر میرے دامادوں کو ہی یہ کاروبار سنبھالنا چاہئے۔ میں نے اپنے دل میں طے کر رکھا تھا۔ بزنس تھا کہ وہ پھیلتا ہی جارہا تھا۔ پہلے ایک فیکٹری تھی اب تین فیکٹریاں تھیں اور عمر اب بھی پاگلوں کی طرح رات دن بزنس میں لگا رہتا۔ مہینے میں ایک بار ضرور یا تو اسے کراچی جانا پڑتا یا پھر بیرون ملک اور ہر دفعہ واپسی پر کوئی نہ کوئی نیا کانٹریکٹ ضرور اس کے ساتھ ہوتا۔
میں اس بڑھتے ہوئے بزنس پر بے پناہ خوش تھی۔ اس لئے میں نے کبھی گھر میں کم وقت دینے پر اس پر اعتراض نہیں کیا۔ وہ سب کچھ میرے گھر کے لئے ہی کررہا تھا۔ میرے بچوں کے لئے کر رہا تھا۔ میرے لئے کر رہا تھا۔ میں جانتی تھی پھر مجھے اعتراض کیوں ہوتا۔ ان دس سالوں میں وہ اپنی سب سے چھوٹی بہن کی شادی کر چکا تھا۔ انصر کی بھی شادی ہو چکی تھی۔
شادی کے چھٹے سال ایک حادثے میں چچا کا انتقال ہو گیا تھا۔ اگلے ہی سال ہم اپنے نئے گھر میں منتقل ہو گئے تھے خالہ کو ہم ساتھ نہیں لائے وہ خود بھی آنا نہیں چاہتی تھیں۔ وہ انصر اور اس کی بیوی کے ساتھ اسی پرانے گھر میں تھیں۔ اب ان کا سارا طنطنہ ختم ہو چکا تھا وہ بے حد خاموش رہنے لگی تھیں اور گوشہ نشین ہو گئی تھیں۔
سارا دن وہ اپنے کمرے کے ایک کونے میں تسبیح لئے بیٹھی رہتیں اس عمر میں آکر سب ایسے ہی خاموش ہو جاتے ہیں۔ کسی کو پتا نہیں چلتا کہ اس خاموشی سے پہلے لوگوں نے کیسے کیسے طوفان برپا کئے ہوئے تھے۔ ساری عمر خالہ نے بھی اپنی زبان سے لوگوں کو نشتر کی طرح کاٹا تھا اور اب انہیں اپنی آخرت کا احساس ہوتا ہوگا۔
میں جب بھی خالہ کو دیکھتی مجھے یہی خیال آتا تھا کبھی کبھی جب میں پچھلے دس سال کے بارے میں سوچنے بیٹھتی تو مجھے خیال آتا کہ عمر حسن کو جیتنے کے لئے میں نے کیسی جنگ لڑی تھی۔ کون سا جتن تھا جو میں نے نہیں کیا تھا۔ کون سا حربہ تھا جو نہیں آزمایا تھا۔ لیکن اس کا صول میرے لئے خسارے کا سودا ثابت نہیں ہوا تھا۔ مانتی ہوں میں نے کچھ ناجائز کام بھی کئے تھے لیکن محبت اور جنگ میں سب جائز ہوتا ہے۔ عمر حسن میری محبت تھا اور ثناء سے میری جنگ تھی پھر میں نے وہی کیا جو جائز تھا۔ کم از کم میری نظر میں اور کیا ہوا تھا، کس کا گھر تباہ ہوا تھا، سب کچھ ٹھیک ہو گیا تھا۔
عمر کا گھر تباہ ہوا مگر اس کی شادی مجھ سے ہو گئی اور آج وہ بے حد خوش ہے۔ کون سی چیز ہے جو اس کے پاس نہیں ہے۔ ثناء کا گھر برباد ہوا مگر اس کی بھی شادی ہو گئی۔ وہ بھی اپنے گھر خوش ہو گی۔ میری خواہش عمر حسن تھا۔ مجھے بھی وہ مل گیا۔ میری زندگی بھی برباد ہونے سے بچ گئی۔
”بعض دفعہ ایک گھر توڑنے سے بہت سی زندگیاں سنور جاتی ہیں۔” میں اکثر سوچا کرتی۔
…***…
زندگی اسی طرح رواں دواں تھی۔ میری شادی کو سترہ سال ہونے والے تھے۔ ہم تین سال پہلے ایک بار پھر پہلے سے بڑے گھر میں شفٹ ہوئے تھے۔ زندگی بے حد پرسکون تھی۔ میری بیٹیاں بڑی ہو گئی تھیں اور عمر نے انہیں شہر کے بہترین سکول میں داخل کروایا ہوا تھا۔ وہ ان کی تعلیم کے بارے میں شروع سے ہی بہت دلچسپی لیتا تھا تھا۔ مجھے ان کے بارے میں کبھی بھی زیادہ فکر کرنی نہیں پڑی۔ ویسے بھی مجھے خود تو تعلیم میں کوئی دلچسپی تھی نہ ہی میں اس سلسلے میں ان کی کوئی مدد کر سکتی تھی کیونکہ میں خود صرف مشکل سے ایف اے ہی کر سکی تھی۔ اس لئے ان کی تعلیم کا مسئلہ میں نے عمر کے لئے ہی چھوڑا تھا۔ وہ خود تو انہیں نہیں پڑھاتا تھا مگر اس نے ان کے لئے بہت مہنگے اور بہترین ٹیوٹر لگوا رکھے تھے اس کے پاس ان کو پڑھانے کے لئے وقت ہوتا بھی کہاں۔
پچھلے سترہ سالوں میں اس نے کاروبار کو اتنا پھیلا لیا تھا کہ اب وہ چاہتا بھی تو اس سے جان نہیں چھڑا سکتا تھا۔ انصر بھی بے حد مصروف رہتا تھا۔ عمر پہلے کی نسبت اب زیادہ دنوں کے لئے گھر سے غائب رہتا تھا۔ ہاں اب بعض دفعہ مجھے اس کی کمی محسوس ہونے لگی تھی۔
وہ کبھی بھی کسی فنکشن پر ہمارے ساتھ جانے کے لئے وقت نہیں نکال سکا تھا اور نہ ہی وہ کبھی مجھے یا بچوں کو اپنے ساتھ کسی فنکشن میں لے کر گیا تھا بلکہ اس کے دوست بھی کبھی ہمارے گھر نہیں آئے تھے، نہ ان سے ہمارا ملنا جلنا تھا۔ جب بھی اسے کبھی کسی فنکشن کی دعوت آتی تو یا تو وہ ہمیں بتاتا ہی نا اور اگر کبھی بتا دیتا اور میں ساتھ جانے کی فرمائش کرتی تو وہ لے جانے سے انکار کر دیتا۔ مجھے یہ لگتا کہ شاید اسے پسند نہیں ہے کہ میں اس کے ساتھ اس قسم کی گیٹ ٹوگیدرز میں جاؤں۔ اس لئے میں زیادہ اصرار نہیں کرتی تھی۔ مگر گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی جب بچے بہت اصرار کرتے تو بھی وہ ہم لوگوں کو کبھی اپنے ساتھ کچھ دنوں کے لئے کسی تفریحی مقام پر نہیں لے جاسکا۔
گرمیوں میں اس کے اپنے بیرون ملک کے ٹورز آجاتے تھے۔ وہ ہمیں کہیں جانے سے نہیں روکتا تھا بلکہ ہمارے جانے کے پورے انتظامات کر دیا کرتا تھا اور انصر کی فیملی کے ساتھ ہمیں کہیں نہ کہیں بھجوا دیا کرتا تھا لیکن پھر بھی میرا دل چاہتا کہ وہ ساتھ ہو، کچھ دنوں کے لئے ہم تنہائی میں بیٹھ کر کچھ اچھی باتیں کرتے، جہاں اس کی کوئی مصروفیت آڑے نہ آئے۔ مگر اس کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا تھا بعض دفعہ میں جذباتی ہو کر اسے ایسی بات کہتی توہ بڑی غیر دلچسپی سے کہتا۔
”دیکھو شمائلہ! میں بہت پریکٹیکل آدمی ہوں یہ رومانس وغیرہ نہیں کرسکتا، میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے اور نہ ہی یہ رومانس کی عمر ہے، ہماری بچیاں بڑی ہو رہی ہیں۔ اب ہمیں اپنی خواہشات کے بجائے ان کی خواہشات کے بارے میں سوچنا چاہئے۔”
میرا دل چاہتا، میں اس سے کہوں کہ اس عمر میں کیا، ہم نے تو کسی بھی عمر میں رومانس نہیں کیا۔ اس کے پاس ہمیشہ وقت کم ہوتا تھا۔ اس کو ہمیشہ کوئی نہ کوئی کام ہوتا تھا، بعض دفعہ میرا دل چاہتا میں اس سے پوچھوں کہ تم نے ثناء سے رومانس کیسے کیا تھا۔ کیا تب تم پریکٹیکل آدمی نہیں تھے؟ مگر میں بس چپ ہوجاتی۔
…***…
پھر اچانک میری زندگی میں ایک طوفان آگیا تھا۔ میں کبھی اس کی فیکٹری گئی تھی نہ آفس لیکن اس دن شاپنگ سے واپسی پر قائداعظم روڈ سے گزرتے ہوئے میری گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔ ڈگی میں دوسرا ٹائر بھی نہیں تھا۔ مجھے پتا تھا کہ قائد اعظم روڈ پر ہماری فرم کا ہیڈ آفس ہے، میں نے سوچا کہ میں وہاں چلی جاتی ہو ں اور اگر وہاں ہوا تو وہ اپنے ڈرائیور کو کہہ کر مجھے گھر ڈراپ کروا دے گا۔ میرے ڈرائیور کو بھی اس آفس کا پتا تھا اور جہاں میری گاڑی پنکچر ہوئی تھی، وہاں سے کچھ فاصلے پر ہی وہ آفس تھا۔ ڈرائیور مجھے وہاں تک چھوڑ گیا۔
میں آفس کے اندر چلی گئی تھی۔ کاؤنٹر پر بیٹھی ہوئی ریسپشنسٹ سے میں نے اپنا تعارف کروایا تھا وہ حیرانی سے میرا منہ دیکھنے لگی تھی۔ مجھے اس کی حیرانی سمجھ میں نہیں آئی۔ میں نے عمر کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ آفس میں نہیں ہیں، اس پر میں نے اس سے کہا کہ وہ آفس کی کسی گاڑی پر مجھے گھر ڈراپ کروانے کا انتظام کرے۔ وہ میرے مطالبے پر عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھتی رہی پھر اس نے کہا۔
”دیکھیں، یہ تو میں جانتی ہوں کہ آپ مسز عمر نہیں ہیں لیکن آپ کون ہیں؟ یہ میں نہیں جانتی۔ نہ ہی یہ جانتی ہوں کہ آپ غلطی سے یہاں آئی ہیں یا کسی نے آپ کو بھیجا ہے۔” مجھے اس کی بات پر غصہ آگیا تھا۔
”کیا سمجھ رہی ہو تم مجھے؟ کیا خیال ہے تمہارا کہ میں کون ہوں؟”
”میں مسز عمر کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ وہ عمر صاحب کو کئی بار لنچ پر لینے آتی ہیں اور ویسے بھی کبھی کبھار آتی رہتی ہیں اور آپ مسز عمر نہیں ہیں۔”
اس کی بات مجھے بم کے دھماکے جیسی لگی تھی۔ مجھے ایسا لگا تھا جیسے کسی نے مجھے چار سو چالیس وولٹ کا شاک دیا ہو۔
”او خدایا کیا کہہ رہی ہے؟” میرا دل دھڑکنا بھول گیا تھا۔
”عمر! تم۔” میں آگے کچھ نہیں سوچ سکی۔ میرے تاثرات سے بے خبر وہ کہہ رہی تھی۔
”اگر آپ مسز عمر ہیں تو آپ کو اپنے گھر کا علم ہونا چاہئے آپ اپنے گھر کا ایڈریس بتا دیں؟”
میں نے عجیب سی کیفیت میں اپنے گھر کا ایڈریس دہرا دیا۔ اس کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔
”لیکن عمر حسن صاحب کے گھر کا ایڈریس 104 ڈی بلاک ماڈل ٹاؤن ہے۔ گلبرگ میں ان کے بھائی کا گھر ضڑور ہے مگر اس کا ایڈریس بھی وہ نہیں جو آپ بتا رہی ہیں۔ آپ کوئی بہت بڑی فراڈ۔”
میں نے اس کی بات پوری سننا گوارا نہیں کیا تھا۔ تیز قدموں سے میں آفس سے باہر نکل آئی تھی۔ میں بے حد طیش میں اس جگہ پر آئی جہاں میری گاڑی تھی۔ گاڑی اب بھی وہیں تھی لیکن ڈرائیور نہیں تھا شاید وہ پاس کے کسی دکان سے کسی آدمی کو لینے گیا تھا۔ میں وہیں کھڑی اس کا انتظار کرتی رہی۔ وہ گاڑی کا ٹائر اتار کر پاس ہی کہیں پنکچر لگوانے گیا تھا۔ جب وہ آیا تو میں نے اسے گھر کے بجائے ماڈل ٹاؤن کا ایڈریس بتا کر وہاں چلنے کے لئے کہا۔
وہ مجھے مطلوبہ گھر کے سامنے لے آیا تھا۔ اس گھر کے سامنے میرا گھر ایک جھونپڑی تھا۔ وہ گھر بلاشبہ خوبصورتی کا شاہکار تھا۔
”عمر حسن! میں تمہیں معاف نہیں کروں گی۔ کبھی نہیں۔”
One Comment
فائنلی۔۔۔۔ یہ پڑھنا ہے اب