”میری ماں کے بارے میں بات نہ کریں۔ وہ دوسروں کی زندگیاں آپ کی طرح اجیرن نہیں کرتیں۔ آپ کی طرح لوگوں کے سامنے اپنی داستانیں لے کر نہیں بیٹھتیں۔”
اس کا ہر جملہ میری خوشی میں اضافہ کر رہا تھا تو خدا خدا کرکے یہ کفر ٹوٹ ہی گیا تھا۔
”کیوں نہ بتاؤں تمہارے بارے میں۔ لوگوں سے کیوں نہ کہوں کہ تم بانجھ ہو۔ تم نے اس گھر میں بربادی کے علاوہ اور دیا ہی کیا ہے۔” خالہ یک دم چیخنے لگی تھیں۔
”مجھ سے اس قسم کی بات نہ کریں۔ میں اب برداشت نہیں کروں گی۔”
”برداشت نہیں کر سکتیں تو جاؤ یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ اپنی یہ منحوس شکل لے کر غائب ہو جاؤ پھر یہاں کھڑی کیوں ہو؟”
”میں کیوں جاؤں یہاں سے، یہ میرے شوہر کا گھر ہے، وہ لایا تھا مجھے یہاں پر۔ وہ کہے گا تو جاؤں گی آپ کے کہنے پر نہیں۔”
”یہ تمہارے شوہر کا نہیں، میرے شوہر کا گھر ہے، ان کے نام ہے تمہارے شوہر کی ابھی اتنی اوقات کہاں کہ ایک کمرہ بھی بنا سکے۔”
خالہ بھی اتنی ہی بلند آواز سے چلا رہی تھیں۔ میں نے اس موقع پر تھوڑا ڈراما ضروری سمجھا۔ میں نے خالہ کو چپ کروانے کی کوشش کی۔
”خالہ! آپ چھوڑیں، دفع کریں آپ کیوں اپنا دل دکھاتی ہیں۔”
میں نے خالہ سے کہا تھا اور وہ میری بات پر بھڑک اٹھی تھی۔
”یہ میرا اور ان کا معاملہ ہے تم کون ہوتی ہو دخل اندازی کرنیوالی۔ تمہیں کوئی حق ہی نہیں ہے درمیان میں بولنے کا، بلکہ تمہیں اس وقت یہاں ہونا بھی نہیں چاہیے۔ تم جاؤ یہاں سے یہ میرا اور ان کا معاملہ ہے تمہارا اور میرا نہیں۔”
اس نے بڑے ترش انداز میں اچانک مجھ سے کہا مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ مجھے یوں جھڑک دے گی۔
”یہ میری خالہ ہیں میں بھی ان سے بات کر رہی ہوں، تم سے نہیں اور تم مجھے اس گھر سے نہیں نکال سکتیں۔ یہ تمہارا نہیں میری خالہ کا گھر ہے۔”
میں نے بھی اسے اسی طرح جواب دیا تھا۔ وہ میری بات پر اور مشتعل ہو گئی تھی۔
”فساد کی جڑ تم ہی ہو۔ یہ سب باتیں تم ان کے کانوں میں ڈالتی ہو۔ اگر تم یہا ں نہ آؤ تو اس گھر میں کوئی جھگڑا نہ ہو۔”
اس کی بات سن کر میری آنکھوں میں نمی آگئی تھی (دل میں میں نے سوچا تھا کم بخت نے صحیح اندازہ لگایا ہے مگر بہت دیر سے) میں نے خالہ کی طرف دیکھا اور میری آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے (مجھے اس کے لیے خاصی محنت کرنی پڑی تھی)
خالہ نے یک دم اسے صلواتیں سنانا شروع کر دی تھیں مگر وہ بھی بڑی ثابت قدمی سے اپنے مطالبے پر جمی رہی کہ میں وہاں سے چلی جاؤں۔ ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا تھا۔ تب ہی اچانک عمر آگیا تھا۔ اس کے لیے یہ منظر یقینا حیران کن ہوگا۔ میری آنکھوں سے بہتے آنسوؤں نے بھی اسے یقینا پریشان کیا ہوگا۔
”کیا ہوا ہے؟” اس نے کافی حیرانگی سے پوچھا تھا۔
”کچھ نہیں ہوا بس میں یہ چاہتی ہوں کہ شمائلہ یہاں سے چلی جائے اور دوبارہ یہاں کبھی نہ آئے۔”
وہ اس کی بات پر مزید حیران ہوا اور میں نے اپنے آنسوؤں کی رفتار میں اور اضافہ کر دیا تھا۔
”ثناء کہتی ہے کہ اس گھر میں سارے جھگڑے میری وجہ سے ہوتے ہیں میں فساد کی جڑ ہوں۔ مجھے یہاں سے نکال دینا چاہیے حالانکہ میں تو صرف خالہ کے لیے آتی ہوں۔” ثناء کے بجائے میں نے اس سے کہا تھا۔
”ثنا! یہ سب تم نے کہا ہے؟” اسے یقین نہیں آیا تھا شاید، اس لیے اس نے ثناء سے پوچھا تھا۔
”ہاں، میں نے کہا تھا اور میں پھر کہتی ہوں، اس سے کہو کہ ہمارے گھر سے چلی جائے۔” وہ اب بھی پہلے ہی کی طرح بات کر رہی تھی۔
”احمقانہ باتیں مت کرو اور کمرے میں جاؤ۔” اس نے اسے جھڑک کر کہا مگر ثناء پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
”میں یہاں سے نہیں جاؤں گی کسی قیمت پر یہاں سے نہیں جاؤں گی۔ پہلے اسے یہاں سے نکالو پھر میں یہاں سے جاؤں گی۔”
وہ اپنی ضد پر قائم تھی۔ اس کی بات پر خالہ نے ایک بار پھر بولنا شروع کر دیا تھا، ثناء بھی چپ نہیں رہی تھی۔ خالہ جس قدر بلند آواز سے بول رہی تھیں وہ ان سے بھی بلند آواز میں بات کر رہی تھی۔ عمر کچھ دیر تک ان دونوں کو چپ کروانے کی کوشش کرتا رہا مگر دونوں میں سے کوئی بھی اس کی بات نہیں سن رہا تھا۔ وہ جھنجھلا گیا اور اس نے بلند آوا زمیں ثناء سے کہا۔
”بس ثنائ! اب چپ ہو جاؤ۔ میں تمہارے منہ سے مزید کچھ نہیں سننا چاہتا۔”
”میں چپ نہیں کروں گی۔” اس نے اب بھی اتنی بلند آواز میں کہا تھا اس کے لہجے میں عمر جیسے ٹھنڈے آدمی کو بھی مشتعل کر دیا تھا۔
”میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ تم اپنی زبان بند کر لو۔” وہ چلایا تھا۔
”کیوں، میں ہی کیوں اپنی زبان بند رکھوں۔ تمہاری امی کیوں نہیں؟ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اتنے سال سے میں کیا کرتی آرہی ہوں۔ خاموشی، خاموشی، بس خاموشی۔ کیا میں جانور ہوں۔ لیکن اب میں کچھ برداشت نہیں کروں گی۔ تم اگر مجھے چپ کروانا چاہتے ہو تو اس گھر میں شمائلہ کا آنا جانا بند کرو۔”
”شمائلہ یہاں بچپن سے آرہی ہے،اب بھی آتی رہے گی۔ تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔”
عمر نے تیز آواز میں اس سے کہا تھا اور خوشی کی ایک لہر میرے اندر دوڑ گئی۔
”ہاں۔ تم کیوں چاہو گے کہ وہ یہاں آنا بند کرے۔ تمہارے لیے ہی تو آتی ہے وہ۔”
اس کی بات پر وہ بے حد حیران نظر آیا پھر اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ میں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا تھا۔
”ثنائ! تمہارا ذہن بے حد گھٹیا ہے اور تمہاری سوچ اتنی ہی گندی ہے۔ میں نے تمہیں بہت غلط سمجھا تھا۔ تم بہت عام سی لڑکی ہو۔ تم میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا کہ میں تم سے شادی کرتا۔”
عمر کے کہے گئے ہر لفظ نے میرے کانوں میں امرت گھول دیا تھا۔ مجھے ثناء کی آنکھوں میں بلا کی بے یقینی نظر آئی۔ شاید اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب عمر نے کہا ہے کچھ دیر اسی طرح گم صم رہنے کے بعد اس نے ایک بار پھر بولنا شروع کر دیا تھا۔
”میں گھٹیا نہیں تم گھٹیا ہو، یہ گھٹیا ہے اور میں پھر کہوں گی، بار بار کہوں گی اسے یہاں سے نکالو اس سے کہو کہ یہ یہاں سے چلی جائے۔”
”یہ نہیں جائے گی۔ تم چلی جاؤ تم نکل جاؤ یہاں سے۔” وہ اس کی بات پر دھاڑا تھا۔
”تم مجھے یہاں سے جانے کو کہہ رہے ہو، اس کے لیے؟”
وہ میری طرف انگلی اٹھائے عجب بے یقینی کے عالم میں اس سے کہہ رہی تھی۔
”ایک لفظ مت کہنا، اب ایک لفظ مت کہنا۔ بس یہاں سے چلی جاؤ، یہاں سے نکل جاؤ۔ میں تمہاری شکل دیکھنا نہیں چاہتا۔” عمر کی آنکھوں میں جیسے خون اترا ہوا تھا۔
”میں نہیں جاؤں گی۔ میں کبھی نہیں جاؤں گی۔ مجھے کیسے نکال سکتے ہو تم، کیسے کہہ سکتے ہو، مجھ سے کہ میں یہاں جاؤں۔ میں نے تمہارے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ میں نے اس گھر کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ عمر حسن! میری وجہ سے تم اپنے پیروں پر کھڑے ہو۔ میں سہارا نہ دیتی تو تم کہاں ہوتے۔ میں اگر…”
وہ اس سے کہہ رہی تھی مگر اس نے دانت پیستے ہوئے اس کی بات کاٹ دی تھی۔
”تم… یہاں…سے… جاؤ… تم… میرے… گھر… سے… نکل… جاؤ۔”
میں نہیں جاؤں گی۔ کبھی نہیں جاؤں گی۔ یہ میرا بھی گھر ہے اور میں تمہاری بیوی ہوں۔ مجھے تم نکال نہیں سکتے۔ اس طرح تو کبھی نہیں نکال…”
”تو پھر ٹھیک ہے پھر میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔”
”عمر نے جو کہا تھا، اس کی توقع کسی کو نہیں تھی۔ مجھے نہ خالہ کو نہ ثناء کو اور… اور نہ ہی شاید عمر حسن کو۔ سب کچھ غصے میں ہوا تھا مگر سب کچھ ہو گیا تھا۔ مجھے لگا تھا جیسے کسی نے میرے وجود کی آگ کو ٹھنڈے پانی سے بجھا دیا تھا۔
خالہ کے چہرے پر بھی عجیب سا سکون اور ٹھہراؤ تھا۔ ہاں وہ… وہ عمر حسن کو بس دیکھتی جارہی تھی۔
اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا مگر اس کی آنکھوں میں بے یقینی تھی، بلا کی بے یقینی اور عم حسن اب بھی سرخ آنکھوں اور سرخ چہرے کے ساتھ اس کے جانے کا منتظر تھا۔ میں بھی اب وہاں نہیں رہنا چاہتی تھی جو ہونا تھا وہ ہو چکا تھا۔ اب اس ڈرامے سے میری Exit ہو جانی چاہیے تھی۔ میں اسی طرح بہتے آنسوؤں کے ساتھ چہرہ چھپاتی تقریباً بھاگتی ہوئی اپنے گھر آگئی تھی۔
بعد میں کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ ہاں خالہ نے بتایا تھا کہ ثناء کچھ کہے اور کچھ لیے بغیر وہاں سے اسی خاموشی سے چلی گئی تھی۔ اس کے جانے کے کچھ دیر بعد عمر حسن بھی وہاں سے چلا گیا تھا اور پھر ساری رات واپس نہیں آیا تھا۔
اس نے دوسرے دن تحریری طور پر بھی اسے طلاق بھجوا دی تھی۔ اب ان دنوں کے درمیان مصالحت کا کوئی امکان نہیں رہا تھا۔ پتا نہیں کیوں لیکن ثناء کے گھر سے کوئی اس کا جہیز کا سامان لینے بھی نہیں آیا تھا۔ عمر ایک دن خود ہی ساری چیزیں اکٹھی کرکے ان کے گھر پہنچا آیا تھا۔ خالہ نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے ثناء کے ابو سے کہا تھا کہ جو چیزیں وہ بیچ چکا ہے اور جو روپیہ اس نے ثناء سے لیا تھا، وہ انہیں دو تین ماہ تک واپس کر دے گا۔
میرے راستے کی ہر رکاوٹ دور ہوتی گئی۔ میں نے اپنے کارڈز بڑی مہارت کے ساتھ کھیلے تھے۔ میں صرف خالہ کے گھر ہی نہیں روئی تھی، گھر آکر بھی میں نے امی کو اسی طرح روتے ہوئے سب کچھ بتایا تھا کہ کس طرح ثناء نے مجھ پر عمر کے ساتھ تعلقات کا الزام لگایا ہے۔ میں نے اپنی طرف سے بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا تھا۔
امی اور خالہ نے کوشش کی تھی کہ اس جھگڑے میں کہیں میرا ذکر نہ آئے لیکن میں چاہتی تھی ایسا ہو۔ میں نے اپنی ہر کزن، ہر دوست کو یہ سب بتایا تھا کہ یہ طلاق میری وجہ سے ہونے والے جھگڑے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ میں چاہتی تھی کہ ہر جگہ میرا نام عمر حسن کے نام کے ساتھ آئے ہم دونوں کی بدنامی ہو اور پھر امی مجھے اس سے بیاہ دیں اور شاید اس سب کے بغیر عمر حسن بھی مجھ سے کبھی شادی نہ کرتا۔
ویسا ہی ہوا تھا جیسا میں نے چاہا تھا۔ دو تین ماہ میں پورا محلہ اور پورا خاندان ہمارے رشتے کے بارے میں چہ میگوئیاں کرنے لگا تھا۔ میں نے خالہ کے گھر جانا چھوڑ دیا۔ میں ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ ثناء کی وجہ سے میں بدنام ہو گئی ہوں۔ میری زندگی برباد ہو گئی ہے۔ خالہ بہی مجھ سے شرمندہ تھیں وہ جب بھی آتیں ان کے سامنے میں پہروں روتی ان کے سامنے اپنی قسمت کی دہائیاں دیتی۔ ان کے دل کا بوجھ اور بڑھ جاتا۔ انہوں نے عمر حسن کی طرف سے بھی مجھ سے معافی مانگی تھی وہ شرمندہ تھا کہ اس کی بیوی کی وجہ سے میرے خلاف لوگوں میں اس قسم کی باتیں ہو رہی ہیں۔
امی بڑی محنت سے دن رات میرے رشتے کی تلاش میں مصروف تھیں۔ دو تین جگہ انہوں نے میری بات طے کرنے کی کوشش کی اور جب بات طے ہونے لگی تو میں کسی نہ کسی طرح اس سارے معاملے کی خبر ان لوگوں تک پہنچا دیتی۔ نتیجہ ان کے انکار کی صورت میں ہوتا میرے ماں باپ اس صورتِ حال سے بے حد پریشان تھے لیکن میں نہیں تھی۔
پھر میں نے امی سے کہہ دیا تھا کہ میں بدنام تو اس کے ساتھ ہو چکی ہوں بہتر ہے کہ وہ وہیں میری شادی کر دیں۔ شروع میں امی کو میری اس بات پر شاک لگا اور انہو ں نے صاف انکار کر دیا تھا لیکن جب میں نے ان سے کہا کہ اگر کہیں اور میری شادی ہو بھی گئی اور بعد میں ان لوگوں کو اس معاملے کے بارے میں پتا چلا تو کیا ہوگا میری زندگی تو ایک بار پھر خراب ہو جائے گی۔
امی میری اس بات پر سوچنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔ انہوں نے خالہ سے بات کی تھی وہ تو پہلے ہی تیار تھیں عمر حسن شادی پر رضا مند نہیں تھا لیکن میرے ماں باپ اور خالہ اور خالو نے پتا نہیں اسے کیا کیا واسطے دئیے۔ کیا کیا دلیلیں دیں کہ وہ مجبور ہو گیا تھا۔
…***…
ثناء کو طلاق دینے کے پورے ساڑھ چار ماہ کے بعد اس سے میری شادی ہو گئی اور شادی بے حد دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ خالہ نے اپنے سارے ارمان نکالے تھے اور ہمارے گھر کی بھی یہ پہلی شادی تھی۔ عمر حسن میرا کیا ہوا تھا، مجھے لگا تھا، دنیا میری ہو گئی ہے۔ کسی نے محبت میں اتنے صبر آزما لمحات نہیں گزارے ہوں گے جتنے میں نے گزارے تھے۔ کسی نے کسی کو پانے کے لیے اتنی دعائیں نہیں کی ہوں گی جتنی میں نے کی تھیں اور میں نے اسے پا ہی لیا تھا۔ وہ شادی پر بجھا بجھا تھا۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ اس نے شادی کی رات کو مجھ سے معافی مانگی تھی کہ اس کے اور ثناء کے جھگڑے کی وجہ سے مجھے اتنی پریشانی اٹھانی پڑی۔
میرا دل چاہا میں اس سے کہو ں کہ مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی جو واحد پریشانی تھی، وہ ساڑھے چار ماہ پہلے جا چکی تھی۔ مگر میں نے اس سے کچھ نہیں کہا۔ میں بے حد خوش تھی۔ بہت مسرور تھی۔ اس کے کمرے میں آنے کے خواب پتا نہیں میں نے کب سے دیکھنے شروع کیے تھے اور میں وہاں آہی گئی تھی۔ اس کی بیوی بن کر۔
لوگوں کا عشق شادی کے بعد ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے، میرا اور بڑھنے لگا تھا۔ میرا بس نہیں چلتا تھا کہ میں خود کو اس کے قدموں میں بچھا دوں۔ میں اس کا ہر کام اپنے ہاتھوں سے کرتی تھی، وہ اگر دن کو رات کہتا تو میں بھی رات ہی کہتی۔ بس میں یہ چاہتی تھی کہ اسے کبھی بھی ایک لمحے کے لیے بھی ثناء یاد نہ آئے وہ اس کے بارے میں نہ سوچے۔ وہ کہیں میرا اور اس کا موازنہ نہ کرنے لگے۔ مگر پتا نہیں کیا بات تھی۔
میں اس کے معاملے میں جتنی پر جوش ہوتی گئی وہ اتنا ہی سرد ہوتا گیا۔ کزن کی حیثیت سے وہ مجھ سے جتنی باتیں کیا کرتا تھا، اب اتنی گفتگو بھی نہیں کرتا تھا۔ بس خاموش رہتا تھا اس کی خاموشی سے میرا دل ڈوبنے لگتا۔ عجیب طرح کے وہم میرے دل میں آنے لگتے تھے۔ کہیں یہ ثناء کے بارے میں تو نہیں سوچ رہا، کہیں اسے وہ یاد تو نہیں آرہی۔ میں سوچتی اور مجھے ہول اٹھنے لگتے۔
میں نے اس گھر سے ثناء کی ہر نشانی ختم کر دی تھی۔ اپنے بیڈ روم کے کلر سکیم بدلوا دی تھی گھر کے ہر کمرے کی ڈیکوریشن بدل دی تھی۔ ہر وہ چیز جس کے بارے میں مجھے علم تھا کہ یہ ثناء خرید کر لائی تھی وہ میں نے اٹھا کر بیچ دی تھی یا پھینک دی تھی۔
میری شادی کو چھ سات ماہ گزرے تھے، جب مجھے پتا چلا تھا کہ ثناء کی بھی شادی ہو گئی ہے۔ اس خبر نے میرے دل کو ایک عجیب سا سکون دیا تھا، ایک عجیب سے تحفظ اور خوشی کا احسا ہوا تھا مجھے۔ میں کسی کا بھی برا نہیں چاہتی تھی۔ میں ثناء کا برا بھی کبھی نہیں چاہتی لیکن مصیبت یہ تھی کہ وہ عمر حسن کی زندگی میں آگئی تھی جو میری زندگی تھا اور اب جب وہ اس کی زندگی سے نکل گئی تھی تو مجھے اس سے کوئی شکوہ نہیں رہا تھا۔ میری خواہش تھی کہ اس کی بھی کسی اچھی جگہ شادی ہو جائے اور وہ بھی خوش رہے اور اب اس کی شادی کی خبر نے مجھے پرسکون کر دیا تھا۔
بہت دنوں تک میں عمر حسن کے چہرے کو بڑے غور سے دیکھتی رہی میں اس کے چہرے پر پتا نہیں کیا ڈھونڈنا چاہتی تھی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ ثناء کی شادی سے کہیں وہ پریشان تو نہیں مگر میں اس کے چہرے پر کچھ بھی تلاش نہیں کر پائی وہ ویسا ہی تھا جیسا پہلے تھا۔ افسردہ، خاموش۔ کسی تیسرے احساس کا اظہار نہیں تھا نہ چہرے پر نہ باتوں میں۔ میں مطمئن ہو گئی تھی۔
”سب کو ٹھیک ہو جائے گا۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔” میں خود کو تسلیاں دیتی رہتی۔
…***…
One Comment
فائنلی۔۔۔۔ یہ پڑھنا ہے اب