میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے — عمیرہ احمد

شروع میں میرے ساتھ بھی ثناء کا رویہ بے حد گرم جوش تھا لیکن میں اس سے زیادہ بات کرنا پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ اگر کبھی مجھے کوئی چیز کھانے کے لئے لاکر دیتی تو میں اسے ہاتھ تک نہ لگاتی۔ وہ مجھ سے کوئی بات پوچھتی تو میں اس کی بات کا جواب دینے کے بجائے خالہ کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو جاتی۔
وہ میرے پاس بیٹھی رہتی اور میں ایک بار بھی اس کی طرف دیکھنا پسند نہ کرتی۔ رفتہ رفتہ اسے میری ناپسندیدگی کا احساس ہو گیا تھا اور اس نے خود ہی میرے پاس بیٹھنا ختم کر دیا۔ اب میرے جانے پر وہ پہلے کی طرح میرا حال بھی نہیں پوچھتی تھی اور میں یہی چاہتی تھی۔ اس نے عمر حسن کو مجھ سے چھینا تھا اور یہ نقصان اتنا بڑا تھا کہ میں کسی صورت بھی اسے معاف کرنے کو تیار نہیں تھی۔ وہ اگر عمر حسن کی زندگی میں نہ آتی تو یہ میں تھی، جسے وہ چاہتا۔ جو اس گھر میں ہوتی مگر اس نے عمر حسن پر ایسا جادو کیا تھا کہ وہ اس کا ہو گیا۔
کبھی جب میں شام کو خالہ کے گھر جاتی تو وہ سج سنور کر پھر رہی ہوتی میری آنکھیں دھواں دھواں ہونے لگتیں۔ میرا دل چاہتا، میں اس کے بال نوچوں، اس کے کپڑے پھاڑوں۔ اس کا چہرہ اپنے ناخنوں سے بگاڑ دوں۔
”اور کتنے حربے آزمائے گی تو چڑیل! اور کتنے حربے آزمائے گی۔ اس کی دل میں تو پہلے ہی بسی ہے، اب یہ چلتر کس لیے کر رہی ہے۔”
میرا دل چلاّتا میری سانس تیز ہو جاتی اور میں رکے بغیر خالہ سے باتیں کرتی رہتی اور میں کیا کرتی۔
…***…
ثناء سے نفرت میں، میں اکیلی نہیں تھی۔ خالہ مجھ سے بھی زیادہ نفرت کرتی تھیں اور وہ اپنی باتوں سے اس کا اظہار بھی کرتی رہتی تھیں جو شاید میں نہیں کر سکتی تھی۔ انہوں نے شروع سے ہی ثناء سے کسی التفات کا اظہار نہیں کیا تھا بلکہ اپنی باتوں کے ذریعے انہوں نے اس گھر میں اس کی حیثیت سے اسے آگاہ کر دیا تھا۔ ثناء کو اس کے ماں باپ نے بہت اچھا جہیز دیا تھا ضرورت کی کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو انہوں نے نہ دی ہو لیکن خالہ نے پھر بھی جہیز پر بہت سے اعتراضات کیے تھے اور نقص نکالے تھے۔
لیکن عمر شاید پہلے ہی ثناء کو خالہ کے رویے کے بارے میں آگاہ کر چکا تھا۔ اس لیے خالہ کسی بھی طعنے اور بات پر وہ ناراض ہوتی نہ کچھ کہتی بلکہ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی جاتی اور میرے اور خالہ کے غصے میں اور اضافہ ہو جاتا تھا کیونکہ ہماری خواہش ہوتی تھی کہ وہ جواب میں کچھ کہے، اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے اور بات بڑھے لیکن وہ کبھی اس کا موقع نہیں دیتی تھی۔
”یہ پڑھی لکھی لڑکیاں بڑی میسنی اور گھنی ہوتی ہیں۔ بڑے فریب آتے ہیں انہیں۔ یہ ابھی تو آپ کے سامنے معصوموں کی طرح منہ بند کرکے پھرتی ہے مگر بعد میں ضرور عمر کو سب کچھ بتاتی ہو گی۔”
میں ہر دفعہ خالہ کے گھر جانے پر ان کے کان میں کچھ نہ کچھ ضرور انڈیل کر آتی۔ خالہ کو میری ہر بات پر یقین آجاتا اور ثناء سے ان کی نفرت اور بڑھ جاتی۔
…***…





ثناء کی عادتیں اور مزاج بے حد عجیب تھا۔ وہ بے حد ٹھنڈے مزاج کی مالک تھی۔ وہ ایک بڑے گھر سے چھوٹے گھر میں آئی تھی لیکن پھر بھی اس میں نہ نخرا تھا نہ غرور اور نہ ہی اسے کسی بات پر شکوہ ہوتا تھا۔ وہ خاموشی سے خالہ کی باتیں سنتی اور کسی رد عمل کا اظہار نہ کرتی۔
شادی کے کچھ ہی عرصہ کے بعد خالہ نے اسے گھر کے کاموں پر لگا دیا تھا۔ اس نے گھر کا کام کرنا شروع کر دیا تھا لیکن وہ صرف ایک وقت کا کھانا پکاتی تھی، برتن اور کچن صاف کرتی تھی اور صحن اور ڈرائنگ روم کی ذمہ داری اس نے اپنے سر لی تھی۔ خالہ کی لاکھ چیخ و پکار اور نندوں کے بسورے ہوئے چہروں کے باوجود اس نے پورے گھر کی ذمہ داری نہیں لی تھی۔ وہ خالہ کی باتیں سن لیتی تھی لیکن پھر بھی کام وہ صرف اتنا ہی کرتی تھی جتنا اس نے کہا تھا۔
خالہ کو اس پر بے حد طیش آتا تھا ایک ہفتہ تک وہ عمر کے کان بھی کھاتی رہیں کہ ثناء گھر کے کام میں دلچسپی نہیں لیتی لیکن اس کے پاس ایک ہی جواب تھا۔
”امی! میں اسے نوکرانی بنا کر نہیں لایا ہوں۔ وہ اس گھر کی ایک فرد ہے۔ جتنا کام اسمائ، زیب اور یاسمین کرتی ہیں، اتنا ہی کام وہ کرتی ہے۔ ظاہر ہے وہ ان سے زیادہ تونہیں کرسکتی۔ پھر آپ کو کس بات پر اعتراض ہے۔ اب اگر وہ سب لوگوں کے کپڑے نہیں دھوتی تو ٹھیک ہے۔ وہ اپنے اور میرے کپڑے دھو لیتی ہے۔ آپ کے اور ابو کے بھی دھو سکتی ہے لیکن باقی لوگ اپنی ذمہ داری خود اٹھا سکتے ہیں۔ اور مجھے تو اس سے یہ کہتے ہوئے بھی شرم آئے گی کہ وہ میری بہنو ں اور بھائی کے کپڑے دھوئے۔”
وہ بڑے اطمینان سے کہہ دیتا اور خالہ کے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔ مگر عمر پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ وہ بھی ثناء کی طرح امی کی باتیں سنتا اور چپ رہتا۔
امی ان دنوں بڑے زور و شور سے میرے لیے رشتہ ڈھونڈ رہی تھیں۔ بعض رشتے انہیں کسی نہ کسی وجہ سے پسند نہ آتے اور جو انہیں پسند آتے، انہیں میں ٹھکرا دیتی۔ میں شادی کرنا ہی نہیں چاہتی تھی کیونکہ جو جگہ میں عمر حسن کو دے چکی تھی وہ اب کسی اور کو نہیں دے سکتی تھی۔ مگر میں یہ بات ان سے نہیں کہہ سکتی تھی ہاں جو کام میں کر سکتی تھی، وہ کر رہی تھی۔
…***…
خالہ نے اسماء کی شادی طے کر دی تھی۔ اس کی شادی عمر جتنی سادگی سے تو نہیں ہوئی تھی مگر زیادہ دھوم دھڑکے سے بھی نہیں ہوئی۔ خالہ نے اپنے زیورات کا ایک حصہ اسے دے دیا تھا کچھ چیزیں اس کے جہیز کے لیے خالہ نے پہلے سے تیار کرکے رکھی ہوئی تھیں۔ باقی چیزوں کا انتظام عمر نے کیا تھا۔ خالہ نے بھی ضرورت کی ہر چیز اسماء کو دی تھی بلکہ بعض غیر ضروری چیزیں بھی۔ عمر نے دبی زبان سے اس پر اعتراض کیا تھا مگر خالہ نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ وہ یہ سارے اخراجات ضد میں کر رہی تھیں۔
”اگر اپنی شادی کے لیے تمہارے پاس پیسہ آسکتا ہے تو کیا بہن کے لیے نہیں آسکتا۔ اس وقت تو بڑا کہہ رہے تھے کہ ہر ذمہ داری پوری کروں گا اب کیا بیوی کی نصیحتیں یاد آنے لگی ہیں۔”
عمر کا چہرہ ان کی بات پر سرخ ہو گیا مگر وہ خاموشی سے وہاں سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔ میں تب خالہ کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی اور چچا اور زیب بھی پاس ہی تھے۔ خالہ اس کے جانے کے بعد بھی بڑ بڑاتی رہیں عمر نے اس کے بعد دوبارہ کسی چیز پر اعتراض نہیں کیا تھا وہ بس خاموشی سے خالہ کے احکامات سرانجام دیتا رہا۔ خالہ نے جہیز پر کافی روپے خرچ کر دیے تھے مگر انہیں اس لیے اس کا زیادہ احساس نہیں ہوا کیونکہ انہوں نے اپنے پاس سے بہت کم روپے خرچ کئے تھے۔ کچھ رقم چچا نے دی تھی جبکہ باقی ساری رقم عمر نے دی تھی۔
اسماء کی شادی کے تین ماہ بعد ہی عمر کے ایک دوست کی معرفت زیب کا رشتہ بھی طے ہو گیا تھا۔ ان لوگوں کو بھی شادی کی جلدی تھی۔ ایک بار پھر خالہ نے اسماء کی شادی کی طرح زیب کی شادی کی تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ عمر نے پہلے کی طرح خالہ کو کچھ رقم دی تھی مگر خالہ کے لیے وہ رقم بہت کم ثابت ہوئی۔ انہوں نے تین بار عمر سے اور رقم مانگ لی۔ اس نے بڑی خاموشی سے ان کا مطالبہ پورا کر دیا۔ زیب کی شادی میں، میں نے ثناء کو نئے زیورات پہنے ہوئے دیکھا تھا اور میں نے خالہ کی توجہ بھی اس طرف مبذول کروائی تھی۔
”ہاں، بیوی کو عیاشی نہیں کروائے گا تو کیا ماں بہنوں کو کروائے گا۔ بیوی کے لیے نیا سیٹ بھی بن گیا ہے۔ چوڑیاں بھی بن گئی ہیں اور اسے اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ بہن کو ایک انگوٹھی ہی ڈال دیتا۔ میں نے ہی اپنا زیور اسے دیا ہے اور پھر ثناء کے پاس زیور کی کون سی کمی تھی۔ تین سیٹ اور بارہ چوڑیاں تو اسے اپنے میکے سے ملے تھے اور ایک سیٹ ہماری طرف سے دیا گیا تھا پھر بھی دیکھو، اس نواب زادے کو کیسے چپ چپاتے بیوی کو زیور لے کر دے دیا ہے۔”
خالہ کافی ناراض تھیں اور زیب کی رخصتی کے فوراً بعد انہوں نے سب کے سامنے ہی عمر سے اس ناراضگی کا اظہار کر دیا تھا۔ ثناء خاموشی سے اٹھ کر اندر چلی گئی جبکہ وہ سر جھکائے بیٹھا رہا لیکن اس کے چہرے پر غصے کے آثار نمایاں تھے۔ جب خالہ کی ڈانٹ ڈپٹ اور طعنے زیادہ ہو گئے تو وہ بھی اٹھ کر اندر چلا گیا تھا۔ خالہ کی ناراضگی میں اور اضافہ ہو گیا۔
…***…
عمر کی شادی کو ڈیڑھ سال ہو رہا تھا لیکن ابھی تک ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ لیکن ان دونوں کو دیکھ کر لگتا تھا جیسے انہیں اس کی زیادہ پرواہ ہے بھی نہیں۔ جب بھی خالہ کبھی پوتے پوتیوں کا ذکر چھیڑتیں اور ثناء کو کچھ کہتیں تو وہ تو چپ رہتی لیکن عمر اس ذکر کو بڑی لاپروائی سے ٹال دیتا۔
بعض دفعہ مجھے ثناء ایک جادوگرنی کی طرح لگتی تھی۔ اس نے پتا نہیں عمر پر کیا منتر پھونکا ہوا تھا کہ اس کی کوئی کمزوری عمر کو نظر آتی ہی نہ تھی۔ وہ خالہ کی باتوں پر کان دھرتا تھا نہ گھر والوں کی شکایتوں پر اور اس کی عادت نے میرے حسد کو اور بھڑکا دیا تھا۔
پتا نہیں کیا ہوا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس کا کاروبار بڑھنے کے بجائے گھٹتا ہی گیا تھا۔ باہر سے ایکسپورٹ کے آرڈرز ملنا پہلے سے کم ہوئے اور پھر آہستہ آہستہ بند ہی ہو گئے۔ ان دنوں میں جب بھی خالہ کے گھر جاتی، ان کے ہونٹوں پر کاروبار کا ہی ذکر ہوتا۔
”اچھا بھلا کام چل رہا تھا۔ مگر جب سے یہ چڑیل گھر میں آئی ہے آہستہ آہستہ کاروبار ختم ہی ہو گیا ہے۔”
وہ اب بلند آواز سے ثناء کو کوسنے دیا کرتی تھیں اور تب پہلی بار میں نے اسے پریشانی میں دیکھا اور یہ احاس میرے دل کو بے حد تقویت پہنچا رہا تھا کہ اب وہ تکلیف میں وقت گزارے گی۔ اب وہ لڑے گی، چیخے گی، چلائے گی۔ آخر وہ انسان تھی اور پچھلے ڈیڑھ سال سے وہ عیش ہی تو کر رہی تھی۔ مجھے عمر حسن سے ہمدردی تھی۔ اگر یہ حالت ثناء سے شادی سے پہلے ہوتی تو میں اپنا سب کچھ اس پر نچھاور کر دیتی۔ میں اپنے ابو کو مجبور کرتی کہ وہ اس کی مدد کریں، لیکن اب نہیں۔ اب میں اس کی مدد نہیں کرسکتی تھی۔ اب میں اسے بھی تکلیف میں دیکھنا چاہتی تھی۔ اسے بھی تو پتا چلنا چاہیے تھا کہ جب مٹھی میں جکڑی ہوئی چیزیں پھسل جاتی ہیں اور لاکھ کوشش کرنے کے باوجود ہاتھ میں نہیں آتیں تو کیسا لگتا ہے۔
اس کو بھی معلوم ہونا چاہیے تھا کہ جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہو اور وہ آپ کے پاس نہ رہے تو کیا ہوتا ہے۔ میں ان کے گھر جاتی رہتی تھی۔ میں چہرے دیکھتی رہتی تھی۔ پہلے وہ بہت مصروف ہوتا تھا اور بہت کم ہی گھر پر نظر آتا تھا مگر اب وہ اکثر گھر پر نظر آیا کرتا تھا۔ پچھلے کئی سالوں سے اس کے چہرے پر جو رونق رہتی تھی، وہ غائب ہونے لگی تھی۔ میں جانتی تھی وہ پریشان ہے اور بعض دفعہ میرا دل چاہتا، میں بھاگ کر اس کے پاس جاؤں اور کہوں۔
”مجھے بتاؤ۔ تمہیں کیا چاہیے تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے، مگر تم مسکراؤ۔”
مگر پھر وہ آجاتی ہمیشہ کی طرح اور میرے سارے جذبات بھک سے اڑ جاتے۔
ان دنوں خالہ بھی بہت پریشان تھیں اور وہ اپنی پریشانی کا اظہار وقتاً فوقتاً جھگڑوں سے کرتی رہتی تھیں۔ ان جھگڑوں کا نشانہ ثناء بنتی اور اب تو خالہ، عمر کو بھی طعنے دینے لگی تھیں۔ وہ اسے کئی دفعہ بہت غصے سے کہتیں کہ ”گھر چلانا اب اس کی ذمہ داری ہے اور وہ محنت کرنے کے بجائے کام چوروں کی طرح ادھر ادھر پھر کر شام کو گھر آجاتا ہے۔ اسے فکر ہی نہیں ہے کہ گھر میں کچھ پکانے کے لیے ہے یا نہیں اور گھر کا خرچ کہاں سے چل رہا ہے۔”
بعض دفعہ خالہ میرے سامنے ہی یہ سب کچھ کہتیں اور وہ سرخ چہرے کے ساتھ وہاں سے چلا جاتا اگر ثناء وہاں ہوتی تو مجھے خالہ کی یہ ڈانٹ پھٹکار بہت اچھی لگتی اگر وہ نہ ہوتی تو مجھے اس پر بے اختیار ترس آتا۔ وہ چند ماہ سے خالہ کو گھر کے خرچ کے لیے پیسے نہیں دے رہا تھا اور خالہ کو چچا کی پنشن میں ہی گزارا کرنا پڑ رہا تھا اور وہ رقم اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھی کہ با آسانی گھر کا خرچ چلایا جاسکے۔ مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ان کے پاس کیا ہوتا ہے یا کیا نہیں۔ میں تو صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ ثناء کے صبر کا پیمانہ کب لبریز ہوتا ہے یا عمر کب ان حالات سے تنگ آکر فرسٹریشن کا شکار ہوتا ہے اور اس سے جھگڑنا شروع کرتا ہے۔
مگر ایسا نہیں ہو رہا تھا۔ وہ دونوں بہت بڑے فریبی تھے۔ یا پھر شاید ایکٹر تھے۔ انہیں اپنے جذبات چھپانا بہت اچھی طرح آتا تھا اور پتا نہیں انہیں ایک دوسرے کے وجود سے الجھن کیوں نہیں ہوتی تھی۔ مجھے ثناء پر زیادہ حیرت ہوتی تھی۔ آخر عمر میں تھا ہی کیا جو اس نے اس کا انتخاب کیا اور اب کیا رہا تھا جو وہ اس کے ساتھ رہ رہی تھی۔
وہ گھر کا خرچ نہیں چلا پارہا تھا تو اسے کیا دیتا ہوگا اسے وحشت نہیں ہوتی ہو گی اس گھر کے ماحول سے۔ اسے چلے جانا چاہیے وہاں سے۔ میں نے سوچا اور سوچتی ہی رہی۔ مگر پتا نہیں وہ کس مٹی سے بنی تھی۔ گھر چھوڑ کر جانے کے بجائے ایک دن مجھے پتا چلا کہ اس نے کہیں جاب کر لی ہے۔ ہمارے خاندان میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ کسی نے جاب کی ہو۔
خالہ نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔ انہوں نے عمرکو ہر طعنہ دے ڈالا اور یہ صرف ایک دن نہیں ہوتا تھا۔ یہ ان کا روز کا معمول تھا۔ وہ جب بھی ان کے سامنے آتا وہ اسے طعنے دیتیں بعض دفعہ مجھے اس پر بے حد رحم آتا مگر خالہ کو رحم نہیں آتا تھا عمر نے سب کچھ سننے کے باوجود ثناء کو نوکری سے نہیں روکا تھا۔
مجھے ذاتی طور پر ثناء کی جاب پر بے حد خوشی ہوئی تھی۔ یہ پہلا ایسا قدم تھا جو چھٹکارے کی طرف تھا۔ میں جانتی تھی کام کرنے والی عورتیں زیادہ دیر تک نکھٹو شوہر برداشت نہیں کرتیں اور عمر کے پاس اب کچھ بھی نہیں تھا اس کا دفتر تقریباً بند ہو چکا تھا اور ان دنوں وہ خود جاب کی تلاش میں رہنے لگا تھا ثناء کے نوکری کرنے سے یہ ہوا کہ عمر نے ایک بار پھر سے گھر میں خرچ کے لیے پیسے دینا شروع کر دئیے۔
ظاہر ہے کہ پیسے ثناء کی تنخواہ کے ہی ہوتے تھے اور خالہ ان دونوں کو درجنوں طعنے اور گالیاں دینے کے باوجود بھی وہ پیسے لے لیتی تھیں۔ انہیں پتا تھا کہ صرف پنشن سے گھر نہیں چل سکتا۔ چچا نے بھی ایک پارٹ ٹائم جاب ڈھونڈلی تھی اور کم از کم یہ ضرور ہو گیا تھا کہ اب خالہ ہر دوسرے چوتھے روز امی کے پاس ادھار مانگنے نہیں آیا کرتی تھی کچھ وقت اور اسی طرح گزر گیا تھا میری امیدیں ابھی بھی قائم تھیں۔
”یہ رشتہ ختم ہو جائے گا رہنے والا نہیں ہے۔ بس دیکھو کہ اور کتنا وقت لگتا ہے۔”
میں خود کو تسلیاں دیتی رہتی اس کے علاوہ ان دنوں میرے پاس کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔
…***…

اندر سے آوازیں صاف آرہی تھیں، کیونکہ کھڑکی کے پردے ہٹے ہوئے تھے میں نے کھڑکی کے سامنے آکر اندر جھانکنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ اس طرح کوئی بھی مجھے دیکھ سکتا تھا، بس کھڑکی کے ایک طرف کھڑے ہو کر کان اندر لگا دئیے۔
”دل کیوں نہیں چاہتا؟ چاہتا ہے دل، لیکن اب کیا کیا جاسکتا ہے۔ ساری زندگی دل کی خواہشوں کے تحت تو نہیں گزاری جاسکتی۔ کچھ برداشت، کچھ صبر بھی کرنا پڑتا ہے اور میں آج کل وہی کر رہی ہوں اور رابعہ! یقین کرو میں ناخوش نہیں ہوں۔”
میں نے ثناء کی آواز پہچان لی تھی۔ وہ کسی چیز کے بارے میں بات کر رہی تھی۔
”پھر بھی ثنائ! گھر چلانا تمہاری ذمہ داری نہیں ہے یہ عمر کی ذمہ داری ہے یا تمہارے سسرال والوں کی۔ تمہاری نہیں۔”
اس کی دوستوں میں سے کسی نے کہا تھا میں بڑے غور سے اس کا جواب سننے لگی۔
مجھے اس کی باتوں سے جلن ہونے لگی تھی وہ ابھی بھی ناامید نہیں تھی۔




Loading

Read Previous

آؤ ہم پہلا قدم دھرتے ہیں — عمیرہ احمد

Read Next

کوئی بات ہے تیری بات میں — عمیرہ احمد

One Comment

  • فائنلی۔۔۔۔ یہ پڑھنا ہے اب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!