مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

”میری اماں کہاں ہیں بابا؟” میں نے سکتے کے عالم میں پوچھا۔ بابا میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گھر سے باہر لے گئے۔ میری ماں مٹی اوڑھے سکون سے سو رہی تھی۔
”آٹھ ماہ ہو گئے ہیں اسے بچھڑے، جب تجھے پیغام بھجوایا تھا تب بہت بیمار تھی۔ ہونٹوں پر بس تیرا ہی نام تھا۔ میں نے کہا بھی کہ وہ بہت دور ہے۔ بہت کام ہیں اس کے پاس، آنا مشکل ہے ۔ پگلی بولی کہ اپنی اماں سے بڑھ کے بھی کچھ ہوتا ہے کیا۔”بابا کی بات پر میں پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ الفاظ ختم ہو گئے تھے۔ بس آنسو تھے۔ میں ایسا بد نصیب بیٹا جو اپنی ماں کی خدمت تو دور، آخری دیدار بھی نہ کر سکا۔ جس عمر میں انہیں خدمت کی ضرورت تھی، میں آزاد شہر میں اپنی رنگین زندگی میں مگن تھا۔ بابا نے سادگی سے مجھے میری اوقات بتا دی۔ میرے لیے سب کچھ اہم تھا، سوائے میرے آسمان کے۔ پھر میں ہوش وحواس کی دنیا سے بے گا نہ ہو گیا۔
بڑے تو سمندر جیسے ہوتے ہیں ، وسیع اور کشادہ ۔ جو اپنے اندر دنیا جہان کے دُکھ سمیٹ کر بھی اپنے فیض سے محروم نہیں کرتے ۔ اپنا وسیع دامن سب کے لیے یکساں پھیلائے رکھتے ہیں۔ نفرت ، غصہ ، نا فرمانی اور طنز کے بدلے بہت خاموشی سے محبت ، عزت ، پیار اور خیال کے پھولوں سے زندگی کی راہیں مہکاتے رہتے ہیں۔ تپتی دھوپ میں ایک گھنے سایہ دار پیڑ کے مانند۔ ماں باپ کے روپ میں جیسے مکمل آسماں بن کر سر پر سایہ فگن رہتے ہیں، لیکن بدقسمت اولاد یہ سمجھنے میں دیر کر دیتی ہے۔
ماں باپ سیڑھی نہیں ہوتے کہ جن پر چڑھ کر ہم بلند ہو جائیں اور انہیں فراموش کردیں۔ ماں باپ بچوّں کی ڈھال ہوتے ہیں ۔ ایک ایسا درخت جو بوڑھا ہو کر پھل نہ بھی دے لیکن سایہ ضرور دیتا ہے۔
ایسا سایہ جو زمانہ کے سردو گرم میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ آسمان کی صورت سر پر چھایا رہتا ہے۔ کاش یہ میں وقت پر سمجھ جاتا ۔ اس وقت میں خود سے نظریں ملانے کے قابل نہ رہا جب سخاوت انکل کے کاروبارمیں نقصان کے بعداُن ہی کی زبانی پتا چلا کہ بابا نے میری تعلیم کے لیے اپنی پرکھوں کی زمین بیچ کر مجھے تعلیم دلائی اور میں کم عقل سمجھتا رہا کہ وہ سب سخاوت انکل کی مہربانی ہے ۔ بھلا کوئی کسی غیر کے لیے اتنا کیوں کرے گا ؟ اتنی سی بات میری سمجھ میں نہ آئی۔
”میں ہاشم ولی محمد ، شہر کا مشہور وکیل جس کی زبان کے ایک لفظ سے فیصلے بدل جاتے تھے، جو منٹوں میں بازی الٹ پلٹ کرنا جانتا تھا، آج ہار گیا ۔ اپنی جنت اپنے ہاتھوں سے کھو کر میں خالی ہاتھ رہ گیا۔ دعاکرنے والے ہاتھ نہ رہے تو زندگی میں صرف سانسیں رہ گئیں۔ میں زندہ تو تھا لیکن جیسے ایک زندہ لاش کی صورت ۔ سارا دن دیوانوں کی طرح اماں کی قبر پر بیٹھا ان سے باتیں کرتا رہتا۔ مجھے لگتا وہ میری باتیں سن رہی ہیں۔ بابا مجھے کھانا وہیں کھلا جاتے۔
شام کو اٹھا کے گھر لے جاتے ۔ میرے کپڑوں سے مٹی جھاڑتے، میرا منہ دھلاتے، لیکن میرے دل پر جمی دھول وہ کیسے دھو سکتے تھے؟ا پنی خواہشات کے پیچھے سر پٹ بھا گتے میں نے اپنی زندگی کی سب خوشیاں کھو دیں۔
آج ا س سرگوشی نے میرے دل میں ایک بار پھر خوف ڈال دیا تھا۔ میرا مکمل آسمان بادلوں میں چھپ گیا ہے لیکن جو باقی ہے، مجھے اسے اپنی محبت اور خدمت سے سجانا ہے۔ میرے بابا بوڑھے ہو گئے ہیں اور مجھے ان کا سہارا بننا ہے۔ بابا کے بوڑھے نورانی چہرے کو دیکھتے ہوئے میں نے خود سے عہد کیا۔ جنت گنوا دی تھی، لیکن رب کو راضی کرنے کی ایک آخری کوشش ابھی باقی تھی۔
رات بیت چکی تھی۔ آسمان پر تارے جھلملا تے ننھی کر نوں کا انتظار کر رہے تھے۔ ساکن ماحول میں گائوں کی اکلوتی مسجد سے اذان فجر بلند ہوئی۔ ایک نور کا ہالہ زمین سے آسمان کی طرف بلند ہوا اور پورے آسمان پر چھا گیا۔ اس نور کی روشنی سے آسمان آج مکمل ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!