مکمل آسمان — سیدہ فرحین جعفری

سخاوت انکل کے توسط سے میں شہر کے ایک نام ور وکیل کے پاس اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگا، لیکن یہ میری منزل نہیں تھی۔ مجھے خود ایک نام ور وکیل بننا تھا۔ وقار ہمدانی سے وکالت کے دائو پیچ سیکھ کر جلد ہی میں ان کی گڈ لسٹ میں آگیا۔ وہ مجھے اپنا رائٹ ہینڈسمجھتے تھے ۔ ان ہی کی بہ دولت لوگ مجھے پہچاننے لگے۔ آہستہ آہستہ میں آگے بڑھنے لگا۔ میرا نام میری پہچان بن گیا ۔ میں جس کیس میں ہاتھ ڈالتا، وہ جیت جاتا۔ لوگ ہاشم ولی کو جیت کا نشان ماننے لگے،لیکن انسان میں ہوس اور لالچ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ پیسے کی میرے پاس کمی نہ تھی۔ وقار ہمدانی کے کہنے پر میں مزید کورسز کے لیے انگلینڈ چلا گیا اور اماں بابا، وہ کہیں بہت پیچھے رہ گئے۔ میری کام یابی صرف میری محنت کا نتیجہ ہے، میرا ذہن مجھے اسی بات کی ترغیب دیتا رہتا ۔ میں بھول ہی گیا تھا کہ میرے سر پر میرامکمل آسمان میرے اماں بابا کا سایہ ہے، ان کی دعائیں ہیں جن کی بہ دولت میں کام یابی کا سفر تیزی سے طے کر رہا ہوں۔




میں بھول گیا تھا کہ اپنے بوڑھے ماں باپ کا میں واحد سہارا ہوں۔
”تیری اماں بہت بیمار ہے ہاشم! تیرا راستہ دیکھ رہی ہے۔”
میں وکلا کے اعزازمیں دی گئی ایک پارٹی سے لوٹا، تو مجھے اپنے گائوں کے دوست سلمان کی میل ملی۔ میں نے اسے چند ضروری ہدایات دیں جیسا کہ ڈاکٹر کے پاس لے جائو ، شہر لے جا کر علاج کروا لو ، پیسے کی فکر نہ کرنا جیسی رسمی باتوں کے ساتھ اس میل کا جواب دے دیا ۔ میں سب کچھ بھلا کر اپنی زندگی اور آزاد ملک کی آزاد ہوائوں میں مگن ہو گیا۔دوبارہ کوئی میل بھی تو نہیں آئی تھی ۔ میں وہاں اپنی زندگی میں مست رہا ۔ پاکستا ن سے میرا رابطہ بالکل کٹ گیا تھا۔ وقار ہمدانی کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہو گیا ۔ ان کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے ایک سال نو ماہ بعد میں وطن لوٹا تھا۔ وقار ہمدانی کی ساری ذمہ داری مجھ پر آن پڑی اور میں واقعتا مصروف ہو گیا ۔ میرا آسمان کہیں کھو گیا تھا۔
٭…٭…٭
بابا نے سچ کہا تھا کہ جو لوگ اپنی پہچان بھول جاتے ہیں، وہ خود کو بھی کھو دیتے ہیں۔ میں مکمل طور پر بدل گیا تھا، سر سے لے کر پائوںتک۔ ایک پینڈو سے شہری بابو تک کا سفر آسان نہیں تھا۔ جو چاہا حاصل کر لیا لیکن کیا کھویا تھا، اس کا احساس مجھے وقت نے کروادیا تھا۔
اپنے خوب صورت بیڈ روم میں نیند کی گولی کھا کر میں لیٹا ہوا تھا۔مجھے بے خوابی کی شکایت ہوگئی تھی۔ کمرے میں اے سی کی وجہ سے ہلکی سی خنکی تھی۔ میں سکون سے سونا چا ہتا تھا، مگرغنودگی کی حالت میں اماں کی آواز آرہی تھی۔”
ہاشم پتر آگیا تُو! بڑی دیر کر دی۔ میں کب سے تیری راہ دیکھ رہی تھی۔”
وہ دکھائی نہیں دے رہیں تھیں۔ میں کسی پرانی قبر کے پاس کھڑا تھا۔ میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ کمرے میں اے سی کے باوجود میں پسینے میں شرابور تھا۔ یہ کیسا خواب تھا؟ نیند کی گولیوں کا اثر زائل ہو چکا تھا۔ ایک ہفتہ میں مختلف بہانوں سے خود کو سمجھاتا رہا، لیکن کسی طور سکون نہ ملا ۔
انسان اپنے اصل کی طرف لوٹ ہی جاتا ہے۔ میں بھی بے چین ہو کر گھر کی طرف لوٹا۔ سارے راستے الفاظ جمع کرتا رہا جن سے اماں سے معافی مانگنی تھی۔ بابا کے سینے سے لگ کے بہت سارا رونا تھا۔ دل عجیب سے انداز میں دھڑک رہا تھا۔ کسی ان ہونی کی پیش گوئی کر رہا تھا۔ اڈے پر اتر کر پیدل ہی اپنی زمینوں کی طرف سے گھر کی جانب چل دیا۔ دوپہر کا وقت تھا، ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ کسان دوپہر کا کھانا کھا کے شاید سستا رہے تھے ۔ میں تیز تیز قدم اٹھاتا گھر کی جانب بڑھنے لگا۔ دور سے گھرکا دروازہ نظر آتے ہی میرا دل بھرآیا۔ اتنے سالوں میں پہلی بارمیں اپنے گھر، اپنے اماں بابا کے آشیانے کی طرف خوشی سے لپک رہا تھا ۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ بڑے سے آنگن میں جہاں میں اماں کی انگلی پکڑ کے چلتا تھا، خاک اُڑ رہی تھی۔
”اماں !اماں !” میں بے قراری سے آواز یں دینے لگا۔
”کون؟ سامنے والے کمرے سے بابا آنکھیں سکیڑے باہر نکلے۔
”ہاشم!” ان کے لبوں سے سرگوشی نکلی۔ وہ کافی کم زور اور بوڑھے ہوگئے تھے اور قدم بھی سست پڑ گئے تھے۔
”آجا!اندر آ جا ۔”وہ ہاتھ تھام کر مجھے کمرے میں لے گئے ۔ ایک سکون سا رگوں میں اترگیا ۔
تیز دھوپ میں گھنے سائے کے جیسے ساری رنجشیں بھول کر اپنے سینے سے لگائے وہ سسکنے لگے۔ میں بھی ان کے سینے سے لگا چپ چاپ آنسو بہاتا رہا۔ چھوٹے بچوں کی طرح ان کا بوڑھا وجود سختی سے بھینچے میں جیسے گزرے وقت کی تلافی کرنا چاہتا تھا۔
”بہت دیر کر دی تو نے آنے میں، تیری ماں اتنا انتظار نہ کر سکی۔ دروازے میں نظریں جمائے ہی گزر گئی۔” ان کے الفاظ میرے اندیشوں کو سچ ثا بت کر رہے تھے۔ میں بے یقینی سے ان سے الگ ہوا۔
”نہیں !کہا ں ہیں اماں؟” میں نفی میں گردن ہلاتا انہیں آوازیں دینے لگا۔
”اماں ! اماں دیکھو آپ کا ہاشم لوٹ آیا ہے ہمیشہ کے لیے۔ اماں! مجھے پتا ہے آپ مجھ سے ناراض ہیں۔ میں کان پکڑ کر معافی مانگ لوںگا۔ کہاں ہیں آپ ؟” میں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں اُن کو ڈھونڈتا رہا۔ میں پاگلوں کی طرح اماں کو آوازیں دے رہا تھا۔ با با دروازے پر کھڑے آنسو بہا رہے تھے۔
”اماں!” میں بے بس ہوکر وہیں کچے فرش پر گر گیا۔ بابا نے مجھے سہارا دیا۔




Loading

Read Previous

کیمرہ فلٹرز — فریحہ واحد

Read Next

امربیل — قسط نمبر ۱۳

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!