”ہاشم …” اس پکار میں گہراکرب چھپا تھا۔
”چل پتر! گھر چل۔” شام کے سرمئی اندھیرے میں قدرے ایک پرانی قبر کے پاس بے ترتیب پڑے وجو د میں پکا ر کے باوجود حرکت نہ ہوئی، جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو۔ گائوں کے اس اکلوتے قبرستان میں اس وقت بھی لوگوں کی آ مدروفت جاری تھی۔ ایک پگڈنڈی قبرستان کے بیچ سے آبادی کی طرف جا رہی تھی۔ آبادی بھی زیادہ دور نہ تھی۔ گائوں کے تھکے ہارے کسان کھیتوں سے اب گھروں کو لوٹ رہے تھے اور اُن دونوں کو افسوس بھری نظر سے دیکھتے گزر گئے۔ پکارنے والے کا جھریوں زدہ چہرہ اس کے عمر رسیدہ ہونے کا پتا دے رہا تھا۔ دو بوڑھے ہاتھوں نے مضبوطی سے مٹی پر بے ترتیب پڑے اس وجود کو اٹھایا۔ اپنی صحت مند جوانی گزارنے کے بعد عمرِ گزشتہ جیسی طاقت و توانائی، قصۂ پارینہ بن چکی تھی جو ایک صحت مند جوان کو سنبھالنے کے لیے ناکافی تھی۔
اس نوجوان کی ساکت آنکھیں ہر احساس سے عاری تھیں۔ بوڑھے نے اس کے اجلے کپڑوں سے ماضی کی گرد جھاڑنی چاہی، لیکن ہمیشہ کی طرح ناکام رہا۔ وہ جس سمت میں کھڑا تھا، اسی طرف چلنے لگا۔ اس کے کم زور ہاتھوں نے تیزی سے اس کا ہاتھ تھام کر رخ موڑا ۔ وہ بغیر حیل و حجت چلنے لگا۔ بوڑھا بڑی ہمت سے اس جوان کو سنبھالتا اونچے نیچے راستے پر بڑھ رہا تھا۔
ان کی سست چال ان کی عمر کی پر مشقت مسافت کی گواہ تھی۔ طویل راہ اور محنت سے وہ کم زور وجود ہانپنے لگا، لیکن ہمت نہ ہارا تھا۔ بڑے سے صحن میں بچھی دو چارپائیوں میں سے ایک پر اُسے بہت احتیاط سے بٹھا یا۔ کونے پر رکھے مٹکے سے گلاس میں پانی لیا اور اس کا منہ دھونے لگا۔ وہ چپ چاپ منہ صاف کرواتا رہا۔ بوڑھے نے منہ دھونے کے بعد کندھے پر دھرے رومال سے اس کا منہ صاف کیا۔
”ایک دن تو اسی مٹی میں ملنا ہی ہے پتر، تو پھر کیوں خود کو ابھی سے مٹی میں رول رہا ہے؟ مٹی میں جانے کے تو میرے دن ہیں۔”بوڑھے نے کم زور لہجے میں نم آنکھوں سے کہا۔ وہ جوان خالی آنکھوں سے اُسے دیکھتا رہا۔ کندھے پر رکھے رومال سے اپنی بوڑھی آنکھیں رگڑتا وہ بوڑھا وجود اب برآمدے سے کمرے کی طرف چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو ہاتھ میں چنگیر تھی۔ اپنے ہاتھوں سے اس جوان کو کھانا کھلاتے ہوئے وہ بوڑھا بار بار اپنی آنکھیں رگڑتا۔ خیالوں میں کوئی ننھا وجود کلکاریاں بھرتا ابھرنے لگا۔ کھانے کے بعد اس نے جوان کو چارپائی پر لٹادیا۔ وہ بوڑھا اب اس کے بالکل برابر میں رکھی چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگا۔ وہ جوان آسمان پر آنکھیں جمائے خلا میں نہ جانے کیا تلاش کر رہا تھا۔
”ہاشم پتر! اس بوڑھے جسم میں اب اتنی طاقت نہیں کہ تیرا بوجھ اٹھا سکے۔ اپنی سانسیں ٹوٹنے سے پہلے تجھے جیتے دیکھنا چاہتا ہوں۔ لوٹ آ پتر، لوٹ آ…” بوڑھا وجود دھیرے دھیرے لرزنے لگا۔
”اے میرے مالک! رحم فرما دے۔ اچھا ہوا تیری ماں یہ دیکھنے سے پہلے مر گئی۔ وہ تو جیتے جی مر جاتی اپنی اکلوتی اولاد کو اس حال میں دیکھ کر۔” نم آنکھوں سے آسمان کی جانب دیکھ کر اس نے ایک بار پھر آنکھوں کو رگڑا۔
”میرے مولا! تیرا شکر ہے جس حال میں بھی رکھے ۔” وہ جیسے تھک کر خو دبھی چارپائی پر ڈھے سے گئے ۔ برابر میں لیٹا ان کا اکلوتا چشم و چراغ آنکھیں بند کیے دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو چکا تھا۔
ایک آس کی ڈوری سے بندھے وہ روزانہ صبح اسے اٹھاتے۔ اللہ کی رحمت سے وہ مایوس نہیں تھے، لیکن عمر کے اس حصے میں اب محنت اور صدمہ برداشت کرنا ان کی ہی ہمت تھی۔ روز رات کو لیٹتے جوان اولاد کی تکلیف سے دو آنسو بہت خاموشی سے آنکھوں سے سفر کرتے تکیے میں جذ ب ہو جاتے ۔ نیند کی دیوی مہربان نہ ہوتی تو شاید تکیہ پوری رات بھیگتا رہتا۔
رات گہری ہوچکی تھی، ہرسو گہرا سکوت چھایا ہوا تھا۔ جھینگروں کی ہلکی سی آوازیں ماحول میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔ آسمان بالکل صاف اور ستاروں سے سجا ہوا تھا۔ موسم میں ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے ہلکی ہلکی خنکی تھی ۔ گائوں کی راتیں اپنے اندر ایک انوکھا طلسم رکھتی ہیں۔ اس نے اپنے دائیں جانب دیکھا۔ بوڑھے نورانی چہرے پر آنکھوں کے کنارے آنسوئوں کی لکیر نمایاں تھی۔
اُس کی اپنی آنکھوں سے ایک آنسو نکل کر اس کے چہرے پر ٹھہر گیا۔
”میرے بابا!” اُس کے منہ سے اک آہ نکلی تھی ۔ وہ آسما ن کو دیکھتے ہوئے رونے لگا۔
”ہاشم ولی محمد کس سے بھاگ رہے ہو؟” بہت پاس سے اسے سرگوشی سنائی دی۔
”میں؟ میں کس سے بھاگ رہا ہوں ؟” اس نے خود سے سوال کیا۔
”میں بچھڑ جانے والوں کی سنسان سرگوشیوں سے اکتا گیا ہوں۔ میں اس دل سے بھاگ رہا ہوں جو اپنوں کی جدائی کا صدمہ اٹھا لینے سے انکاری ہے۔”
”کب تک بھاگو گے ہاشم؟” سر گوشی بلند ہوئی۔