محمد علی ۔ شاہکار سے پہلے

1954ءکی ہی ایک خنک صبح تھی جب کاسئیس نے اپنی بائیسکل پر سیر کی غرض سے دوست کے ہم راہ بازارکا رخ کیا۔ وہ دونوں بائیسکل ایک درخت کے ساتھ لگا کر بازار کی رونقوں میں کھو گئے۔ پاپ کارن کھاتے اور سٹالز دیکھتے دیکھتے جب وہ تھک گئے تو انہوں نے واپسی کا ارادہ کیا، تاہم واپسی پر یہ دیکھ کر کاسئیس کے ہوش و حواس اڑ گئے کہ جس درخت کے ساتھ اس نے اپنی بائیسکل کھڑی کی تھی، وہ اب وہاں موجود نہ تھی۔ کاسئیس نے بوکھلاہٹ کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھنا شروع کیا مگر جلد ہی اسے یقین ہو چکا تھاکہ اس کی بائیسکل چوری ہو چکی ہے۔ مایوسی اور اُداسی کے مارے کاسئیس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے۔ اس کی من پسند بائیسکل یوں کوئی چھین کر لے جائے گا، اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ کاسئیس روتا دھوتا جو مارٹن کوڈھونڈنے نکل پڑا جو ایک پولیس آفیسر ہونے کے ساتھ باکسنگ کلب کا مالک بھی تھا۔ خوش قسمتی سے جو اپنے کلب پر ہی موجود تھا۔کاسئیس نے اسے اپنی ساری روداد سنانے کے بعد کہا کہ چور پکڑے جانے کے بعد وہ اس کی زبردست پٹائی کر کے اسے سبق سکھانا چاہتا ہے۔ بارہ تیرہ برس کے اس بچے کی آنکھوں میں غصے اورانتقام کے لہراتے سائے دیکھ کر جو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور پوچھا کہ کیا وہ اپنے سے بڑے چور کو بغیر کسی مہارت اور ٹریننگ کے شکست دیناآسان سمجھتا ہے؟ کاسئیس کی سوالیہ نظروں کے جواب میں جو نے اسے چور کی پٹائی کرنے کے لیے تربیت دینے کی پیش کش کر ڈالی۔ یوں اگلے روزکاسئیس جو کے ہم راہ باکسنگ رنگ میں کھڑا تھا۔ جوایک مشاق ٹرینر تھا۔ اس کی جوہر شناس نظروں کو کاسئیس کی اندرونی صلاحیتوں کا اندازہ لگانے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس نے کاسئیس کو باکسنگ کے گر سکھانا شروع کئے۔ محض چھے ماہ کی قلیل مدت میں ہی جو کی اعلی تربیت اور کاسئیس کی قوتِ ارادی کے نتائج سامنے آنے لگے۔ وہ درجنوں مقامی میچز کے دوران بہت سے گولڈن ٹائٹلز اپنے نام کر چکا تھا۔ باکسنگ کی فیلڈ میں اس کا نام جانا پہچانا جانے لگا تھا۔ کاسئیس کی ملاقات بائیسکل چور سے تو کبھی نہ ہو سکی، تاہم اس کا کہنا تھا کہ اگر وہ چور کبھی اس کے سامنے آجائے تو کاسئیس اس کے ہاتھ چوم کر شکریہ ادا کرے گا کیوں کہ اسی کی بدولت وہ اپنی زندگی کا مقصدپانے میں کام یاب ہو پایا۔
مقامی و قومی سطح پر بے شمار ٹائٹلز اپنے نام کرنے کے بعد کاسئیس کی نظریں اب 1960ءکے اولمپکس پر تھیں۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ باکسنگ کے میدان میں عظیم ترین کام یابیاں سمیٹنے والے کاسئیس کو ہمیشہ ہوائی جہاز میں بیٹھ کر جہاز کے ہزاروں فٹ بلندی سے نیچے گرنے کا خوف دامن گیر رہا۔اس نے زندگی کا بیشتر حصہ اس خوف میں گزارا۔ جب روم اولمپکس میں اس کا نام لائٹ ہیوی ویٹ ڈویژن کے لیے منتخب کیا گیا اور اس نے جہاز میں سوار ہونے سے انکار کرنا چاہا تو اس موقع پر بھی اس کے محسن اور کوچ جو نے اس کی حوصلہ کی۔ یوں اٹھارہ سالہ کاسئیس نے روم اولمپکس کے چاروں باکسنگ میچز میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ باآسانی انہیں جیت لینے کے بعد سونے کا تمغہ اپنے نام کیا تو دنیا اس کی صلاحیتوں کی معترف ہو گئی اور امریکہ بھرمیں اسے خوب پزیرائی حاصل ہوئی۔ تاہم یہ وہ دور تھا جب سفید فام امریکی اپنے سیاہ فام ہم وطنوں کے لیے دل میں نفرت اور تعصب کے جذبات رکھتے تھے۔ اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتنے کے بعد وطن واپسی پر کاسئیس کا خیال تھا کہ امریکی ہر جگہ اسے محبت اور عزت سے نوازیں گے لیکن اس کا یہ خیال محض ایک مذاق ہی ثابت ہوا۔
اس نے اپنے شہر کے ایک سفید فام ریستوران کا رخ کیا اوروہاں ہاٹ ڈاگ اور کافی آرڈر کی۔ ویٹر مینیجر سے چہ مگوئیوں کے بعد کاسئیس کی ٹیبل پر آیا اور اسے کہا کہ وہ سیاہ فاموں کو سرو نہیں کرتے۔ کاسئیس نے اس کی بات کو مذاق میں ٹالنے کے لیے حاضر جوابی سے کام لیا اور کہا کہ وہ بھی سفید فام کھانا پسند نہیں کرتا۔ مذکورہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کاسئیس نے اپنے متعدد انٹرویوز میں اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ ناانصافی پر مبنی اس رویے پر اس قدر دل برداشتہ ہوا کہ اس نے اپنا اولمپک گولڈ میڈل دریائے ہڈسن کے سپرد کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا کیوں کہ اسے اپنا آپ ایک چلتے پھرتے مردہ شخص کے طور پر محسوس ہونے لگا تھا۔ شایداس کی زندگی میں پیش آنے والے یہی ناانصافیوں پر مبنی واقعات و حالات تھے جنہوں نے ایک جانب اسے عیسائیت اور سفید فام امریکیوں سے متنفر کیا تو دوسری جانب ان رویوں کی بہ دولت اسے پہلے سے زیادہ جنون اور طاقت کے ساتھ آگے بڑھنے کا حوصلہ ملا۔
1964ءاس کی نجی و پیشہ وارانہ زندگی کے حوالے سے انتہائی اہم اور یادگار برس رہا۔ اسی سال وہ کاسئیس سے محمد علی بنا۔ اس نے اسلامی شعائر اور تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں اسلام قبول کرنے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا :
”بہ طور عیسائی اسے نسلی بنیادوں پر ہمیشہ تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا رہا جب کہ بہ طور مسلمان اس نے کبھی اس قسم کے رویے کا سامنا نہیں کیا اور وہ برابری کے اس نظریے سے بہت زیادہ متاثر ہوا ہے۔“

Loading

Read Previous

معین اختر:صدائے ظرافت اب نہ آئیں گے پلٹ کر۔۔۔ ۔ شاہکار سے پہلے

Read Next

حضرت داؤد علیہ السلام ۔ قرآن کہانی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!