محبت نام ہے جس کا —– محمد حارث بشیر

یوسف نام کی مٹھاس ابھی تک برقرار تھی ۔ وہ اب بھی اسی طرح خوبصورت تھا، مگر اب اسے ”سائیں ”نام میں پہلے سے زیادہ کشش محسوس ہوتی تھی ۔یہ نام اب واقعی زیادہ پُر اثر تھا۔ سائیں کی زندگی کا اٹھارواں برس جاری تھا۔ وہ اپنے والدین کی توقعات سے بندھا ہواتھا ۔ فاطمہ اور حکمت علی اسے ترقی کرتا دیکھنا چاہتے تھے ۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی صبر وشکر کے ساتھ گزاری تھی ۔ وہ اپنے سپوت کو بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق بنانا چاہتے تھے ، ایسا کہ وہ دنیا اور آخرت دونوں میں ان کا نام روشن کرے ، مگر ان کی ساری توقعات اس وقت مٹی میں مل گئیں جب وہ مرضِ عشق میں مبتلا ہو کر خود سے بھی بے گانہ ہوچکا تھا ۔
وہ اس کی پہلی ہی نظر کا فسوں تھا، جو اس کے سر پر بھوت کی طرح غالب ہوگیا۔یہ ان دنوں کی بات تھی، جب وہ اسکول سے فراغت پا کر گلیوں، چوراہوں ، پگڈنڈیوں اور ندی کنارے بے خود ہو کر پھرا کرتا تھا ۔ وہ بچپن کی معصومیت اب بھی قائم تھی ۔ وہ اب بھی لوگوں سے کٹ کر رہنا پسند کرتاتھا ۔اس کی الگ سی دنیا قدرتی مناظر کے گرد گھومتی تھی ۔
وہ اپنا وقت لوگوں میں بیٹھنے کے بجائے قدرت کے دل کش نظاروں کو دیکھنے میں صرف کرتا تھا ۔ اسے ندی کے بہتے پانی کا شور ، پرندوں کا چہچہانا ، صبح سویرے پودوں پر گہرے شبنم کے قطرے بڑے دلکش لگتے تھے ۔ وہ اس گاؤں میں رہتے ہوئے بھی گویا کسی پرستان میں تھا۔پھر ایک دن اس ‘پرستان’ میں اسے سچ مچ کی ایک پری نظر آگئی۔دفعتاً بے خود ہو کر وہ اس کے پیچھے چل پڑا تھا ۔اپنے گھر سے کئی میل دوراب وہ اس پری کے دربار کے باہرآن پہنچا تھا، گویا اسی شہزادی کے دربار میں فریادی بن کر کھڑا وہ پہلی نظر کے عشق میں مبتلا ہوچکا تھا ۔
وہ اپنے کھیل میں محو تھی ،اس بات سے بے خبر کہ کوئی اک نظر دیکھنے کے بعد اس کے پیچھے ہی چلا آیا ہے ۔اپنے خوب صورت بال پھیلائے اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی، پھرپلک جھپکنے میں ہی وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ وہ اکیلی نہیں گئی تھی ، وہ یوسف کا پرستان بھی پانی کے بلبلے کی طرح مٹا کر چلی گئی تھی ، مگر وہ پہلی نظر کی محبت گزرتے دن کے ساتھ اس پر حاوی ہونے لگی تھی، ایسی کہ وہ ہر روز گھر سے بھاگ کر اس جگہ پہنچتا جہاں وہ اسے نظر آئی تھی ۔ اسے اپنا ہوش رہا تھا نہ گھر والوں کا ، وہ کچی عمر کی محبت تھی جو رفتہ رفتہ پروان چڑھ رہی تھی۔
وہ اپنی خاموش طبیعت کی وجہ سے سائیں مشہور ہوا تھا اور اب سچ مچ کا سائیں نظر آنے لگا تھا ۔ وہ صاف ستھرے کپڑوں میں نظر آنے والا اب میلے پہناوے ملبوس کیے سڑکوں کی خاک چھانتا نظر آتا تھا۔ بکھرے بال کسی گھونسلے کی طرح سر پر سجائے وہ گلیوں گلیوں بھٹکتاخودکلامی کرتا پھرتا تھا۔ اپنی انگلیوں کی پوروں سے فضا میں شکلیں بناتا کبھی ایک جگہ ٹھہرجاتا یا پھر کہیں کھڑا ہی رہتا ۔ کبھی دیوانہ وار بھاگنے لگتا۔ وہ دلِ مضطر لیے مرض ِعشق میں مبتلا ہو کر دیوانہ سا ہوگیا تھا ۔ وہ محبوب کے دیدار کا طالب ، بالکل مجنون کی مانند … گاؤں والوں کو لگتا تھا اس پر کسی جن بھوت کا سایہ ہے ۔ اسے بھی یہی لگتا تھا بس وہ اسے بھوت نہیں پری پکارتا تھا ۔





فاطمہ اور حکمت علی اس سے پوچھ پوچھ کر تھک جاتے، مگر وہ منہ سے ایک لفظ نہ نکالتا ،بوڑھے والدین اس کی حالت دیکھ کر بس آنسو بہاتے رہتے ۔ وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی ، دل و جان سے پیاری… وہ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتے تھے ،مگر یوسف کو اب شاید خود بھی نہیں معلوم تھا کہ اسے کیا چاہیے تھا۔ پھر ایک دن انہونی ہوگئی ،اس کی پری اسے دوبارہ نظر آگئی اور اسے لگا اس کی زندگی ریگستان سے نخلستان بن گئی ہے ۔یہ سب کچھ پہلی نظر کی محبت کے عین چھے ماہ بعد ہوا تھا ۔
اپنی پری کو دوبارہ دیکھتے اسے احساس ہوا کہ وہ اس پری کو صرف دیکھنے کا طالب ہی نہیں، بلکہ اسے ہمیشہ کے لیے پانے کا آرزومند بھی ہے ۔ وہ واقعی اپنا دل ہاربیٹھا تھا ۔ وہ پہلی نظر کی محبت دوسری نظر میں مزید زور پکڑ گئی تھی ۔دل میں چاہت کا ایک ایساجہان آباد ہوا کہ وہ خود کو روک نہیں پایا۔ دھیرج سے وہ والدین کو ساری بات بتاچکا تھا ۔ حکمت علی نے جہاں تاسف سے سر ہلایا تھا ،وہیں فاطمہ خوشی سے نڈھال ہوگئی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کی خوشی کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار تھی۔
اماں فاطمہ جس دن اس پری کے گھر گئیں، اسے وہ لمحات ،وہ دن زندگی کا حسین ترین دن محسوس ہورہا تھا ۔ خوشیوں بھرا … بچوں کی ضد پوری ہونے پرانہیں ملنے والی خوشی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔اس دن چھے ماہ بعد اسے اپنا کھویا ہوا پرستان پھر سے مل گیا تھا جس میں وہ اپنی اس پری کے سنگ تھا۔ وہ اس خواب کی تکمیل چاہتا تھا ۔ لیکن یہ خوشی بہت جلد پھر سے آرزو میں بدل گئی ۔ وہ پری جسے سب زلیخا کے نام سے جانتے تھے کسی اور کی امانت تھی ۔ وہ یوسف کی زلیخا نہیں تھی ۔ اسے کسی اور کے نام منسوب کیا جاچکا تھا۔ یہ خبر یوسف کے لیے صور پھونکے جانے سے زیادہ ہولناک تھی ۔
وہ کسی طور پر اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھا ۔ کچھ دن کی خوشی پھر سے دیوانگی میں بدلنے لگی ۔ وہ سنہرے بالوں والا یوسف پھر سے خاک ہونے لگا تھا ۔ اسے عشق نے دیوانہ کیا تھا ۔ فاطمہ اور حکمت علی کو بیٹے کی اس حالت نے مجبورکیا، توایک بار وہ پھر سے اس دربار کی چوکھٹ پر فریادی بنے اپنے بیٹے کی محبت مانگ رہے تھے ۔ وہ بیٹا،جوان کی کل کائنات تھا۔ جو اب زلیخا کے لیے ان کو بھی بھلا بیٹھا تھا ۔
فاطمہ دوسری بار بھی خالی ہاتھ لوٹی تھی ۔ وہ لوگ زلیخا کا رشتہ یوسف کے ساتھ کرنے پر بالکل بھی رضا مند نہ تھے ۔ ان کے نزدیک یہ عزت کا سوال تھا ۔ فاطمہ کے لیے یہ یوسف کی زندگی کا سوال تھا ۔ مگر سائل تو سائل ہوتاہے ۔بے اختیار ہوتا ہے ، مگر حیرت کہ یوسف بھی سائل تھا لیکن اپنی من پسند شے سے کم پر راضی نہیں تھا ۔ وہ بچپن میں باپ کا دیا درس کہ” جو مانگو خدا سے مانگو … مل جائے تو صد شکر نہ ملے تو صرف صبر۔” بھی بھول بیٹھاتھا ۔ اس کی حالت کو دیکھتے ایک دن اس کا باپ حکمت علی بھی اس کے سامنے ہاتھ جوڑ بیٹھا تھا۔
” دیکھ پُتر…تیرے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں تُو کیوں ہمیں تکلیف دے رہا ہے ۔ بس چھوڑ دے یہ ضد … خدا پر بھروسا کر … وہ بہتر صلہ دے گا ۔” اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر تب اس نے غور سے ان کا چہرہ دیکھا اور بھونچکا کر رہ گیا ۔ اس کا باپ یوں تو نہ تھا ۔ چند ماہ پہلے تک تو ایسا بالکل نہ تھا۔ وہ بچپن کا بھولا سبق باپ کے آنسوؤں نے یاد دلا دیا تھا۔ زلیخا کے نہ ملنے کو خدا کی حکمت سمجھ کر چُپ ہو جانا بھی ممکن نہ تھا۔ پہلی بار وہ دو محبتوں کے درمیان پھنسا تھا ۔
آخر وہ ایک فیصلے پر پہنچ گیا پھر اس فیصلے کے بعد وہ بالکل خاموش ہو گیاتھا۔ نہ جانے کب اور کیسے غزل کا ایک مصرع اسے ذہن نشیں ہوگیا۔
”جب وقتتیرا ڈھل جائے گا۔”
پھرایک روز اس نے وہ غزل اور اپنا حالِ دل لکھ کر اپنی ماں کے ہاتھ زلیخا کے پاس بھیجا۔ خود بھی وہ غزل کا پہلا مصرع بار بار دہراتا رہتا۔ وہ یوسف عرب کے قیس کی طرح اپنی زلیخا کے عشق میں مجنوں بنا ہوا تھا۔ پھر ایک دن وہ گھر سے نکلا ۔شاید کبھی واپس نہ آنے کے لیے …اس کے بوڑھے والدین اس کی راہ تکتے رہے ،مگر دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوتے رہے ۔یوسف کی ماں اوراس کا باپ اپنے بیٹے کی جدائی میں آنسو بہا بہا کر آنکھیں خشک کرچکے تھے ۔شایدوہ کہیں گم گشتہ منزلوں کا راہی بن گیاتھا ۔ گاؤں والے بھی اُس کی گم شدگی پر حیران اور پریشان تھے۔
٭…٭…٭





تاریک کمرے میں اس صندوق کے سامنے بیٹھے وہ لڑکی نو سال بعد بھی صرف ایک سطر ہی پڑھ پائی تھی ۔
”جب جوبن تیرا ڈھل جائے گا۔”
اس سے آگے پڑھنے کی آج بھی اس میں ہمت نہ تھی ۔کاغذ کو دوبارہ صندوق میں رکھ کر وہ وہیں بیٹھی رہی۔ آنسوؤں سے لبریز چہرے کے ساتھ، اُجڑا ہوادل لیے جب اس نے گزری ہوئی زندگی پر نظر دوڑائی تو صرف خسارہ ہی نظر آیا ۔وہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہنے والی خوش باش ، بیپروا، بھولی بھالی لڑکی تھی ۔ سہیلیوں کے جھرمٹ میں رہنے والی ، شرارتیں کرنے والی…!
وہ سولہ برس کی تھی جب اپنے ماں باپ کے گھر سے بیاہ کر اپنے شوہر کے گھر آگئی تھی ۔ وہ خوش تھی جیسے عام لڑکیاں ہوتی ہیں۔آنکھوں میں بے پناہ سپنے لیے ، ایک خوشگوار زندگی کی امید لیے …یہ اس کی شادی سے چند ماہ پہلے کا قصہ ہے جب اس نے ”یوسف ” نام کی گردان سنی تھی ۔ اس کی ماں کو اپنے گھر میں کھڑے اس کا رشتہ مانگتے دیکھا تھا ۔
یہ زلیخا ہے جویوسف سے بالکل انجان تھی ۔ اس کی حالت سے ناواقف، اس کی محبت سے بے خبر، اس کے لیے پہلے بھی کئی رشتے آچکے تھے ۔ یوسف کا رشتہ بھی ان میںویسا ہی تھا اور اس کے لیے انکار بھی ۔ پہلی بار جس چیز نے اسے متوجہ کیا وہ یوسف کی ماں کے آنسو تھے۔ وہ خوف میں مبتلا ہوگئی تھی ، اس کی شادی سے چند دن قبل وہ دوبارہ آئی تھیں ۔ ہاتھ میں کاغذ کا ٹکڑا دبوچے، وہ زلیخا کے پاس آگئی تھی ، پھر اس کا ماتھا چومنے اور گلے سے لگانے کے بعداسے کاغذ کا وہ ٹکڑا تھما گئی تھی ۔ اس وقت زلیخا کچھ سمجھنے سے قاصر تھی۔وہ اس کاغذکی پہلی سطر سے آگے کبھی نہیں پڑھ سکی تھی، اس ڈر سے کہ کہیں یہ بددعاہی نہ ہو اور آج نو سال بعد جب وہ اس کاغذ کو دوبارہ دیکھ رہی تھی تو اُسے یقین ہوگیا کہ واقعی یہ کوئی بد دعا ہی تھی، جو اس کی زندگی بر باد کر گئی ۔ وہ طلاق یافتہ بن کر واپس اپنے ماں باپ کے گھر آچکی تھی ۔
اسے یوسف میں کبھی دلچسپی نہیں رہی تھی ۔ ہو بھی کیسے سکتی تھی جس شخص کو اس نے کبھی دیکھا نہیں تھا، وہ اس کے لیے دلچسپی کا سامان کیسے ہوسکتا تھا ؟یوسف کا نام یا ا س کا حوالہ اسے کبھی یاد بھی آیا تھا تو صرف اس ایک سطر کی وجہ سے … اسے اس سطر سے وحشت سی ہوتی تھی۔کچھ اوریاد رہا، تووہ شوہر کا دیا جانے والا دکھ تھا ۔
شادی کے اتنے سال بعد بھی اس کے ہاں اولاد نہیں ہوئی اور اسی بات پراس کا شوہر دوسری عورت گھر لے آیا تھا۔ زلیخا شاید اس بات پر صبر کر لیتی، مگراس دوسری عورت کو اس کا وجود بھی اس گھر میں برداشت نہ تھا اور اس کا شوہر دوسری بیوی کی محبت میں اتنا اندھا ہوا کہ اس نے آنسو دیکھے نہ التجا سنی ،بس اُسیطلاق دے کر گھر سے رخصت کر دیا ۔
اب جب وہ اس تاریک کمرے میں بیٹھی تھی، تو اسے اپنی زندگی بھی اتنی ہی تاریک لگ رہی تھی اب برے اور ڈراؤنے خوابوں کے علاوہ اس کی زندگی میں بچا ہی کیا تھا ۔وہ اپنی قسمت پر آنسو بہا بہا کر خود کو ہلکان کرتی رہتی تھی ۔ نیند میں خواب اور جاگتے میں خیالات اسے کوئی پل چین سے نہ بیٹھنے دیتے تھے۔ یہ اس کی زندگی کا چھبیسواںبرس تھا۔
٭…٭…٭
وقت اپنی فتار سے گزرتا رہا ۔ایک زمانہ بیت گیا۔ ڈھلان گاؤں کا باسی یوسف عرف سائیں اب گاؤں میں موذن اور” نکے امام” کے مراحل طے کرتا ہوا” مولوی جی ” کی مسند پر فائز ہوچکا تھا۔پنڈ سروہا کی وہی کچی مسجد ،ویسے ہی صبح شام…وہی مناظر،بس کردار بدل گئے تھے ۔
وہ جو عشقِ میں مٹی ہوا تھا ،اب چہرے پر نور اور ڈاڑھی کی رونق سجائے ہوا تھا ۔ فاطمہ کو گزرے عرصہ بیت چکا تھا اور حکمت علی بس بستر کے ہوکر رہ گئے تھے ۔
زلیخا کی شادی کے ایک سال بعد وہ گھر سے غائب رہا ۔ بالکل منظر سے غائب … وہ عرصہ اُس نے قریبی علاقے کے ایک گورکن کے ساتھ قبرستان میں گزارا تھا ۔ بشیر جان ایک عمر رسیدہ پٹھان تھا ، جو قبرستان کی نگرانی پر معمور تھا ۔ اس نے یوسف کو ہوش سے بے گانہ دیکھ کر اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔
وہ عرصہ اس پر زندگی کی حقیقت واضح کرنے کے لیے کافی تھا ۔ وہ مہینے میں کئی جنازے دیکھتا۔ خوبصورت حسین لوگوں کے … خوش وخرم ، لاابالی زندگی گزارنے والے، جن کو موت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔وہ ان کو خاک میں اترتے دیکھتا تو خود میں رہ جانے والے غرور ، انا ، نافرمانی کو بھی دفن کر دیتا۔ اس نے کئی معصوم بچوں کے جنازے بھی دیکھے تھے ۔ وہ ہر بار تدفین کے بعد قبر کنارے بیٹھ کر اپنا جائزہ لیتا، تو خود کو عطا کی جانے والی نعمتوں پر صد شکر ادا کرتا ۔
بشیر جان اچھا انسان تھا ۔ طبیعت کا تھوڑا سخت تھا، مگر اسے اس کی سخت طبیعت نے ہی یوسف کونارمل کیا تھا ۔ اس عرصے نے اس کی زندگی کو مکمل طور پر بدل دیا تھا ۔ زندگی کا یہ ایک دوسرا رخ تھا جو وہ دیکھ رہا ہے جس کے بارے میں آج سے پہلے اس نے سوچا بھی نہیں تھا ۔ اس پر زندگی کی حقیقتیں آشکارا ہورہی تھیں ۔ بہت سی بند گرہیں کھل گئی تھیں ۔بہت سی اُلجھنیں دم توڑ گئی تھیں ۔
ایسا نہیں کہ اب اسے زلیخا سے محبت نہ رہی تھی ۔وہ اب بھی پہلے جیسی تھی ۔ ایک روشن دیے کی مانند گھپ اندھیرے میں راہ دکھانے والی … ہاں یہ ہوا تھا کہ اب وہ محبت اسے بے چین نہیں کرتی تھی ۔ زندگی کا جو رخ وہ اب دیکھ رہا تھا اس نے اسے حقیقی رب سے محبت کرنا سکھایا تھا ۔ وہ جس نے زندگی اوریہ سانسیں عطا کی تھیں ۔ وہ جس کی محبت سب محبتوں سے اوپر ہے ۔ اس میں زیادہ ہاتھ بشیر جان کا بھی تھا۔ وہ روشن دل کے ساتھ واپس آیا تھا ۔ دین دار ہو کر …اللہ سے لَو لگا کر …!!
زندگی کے تیسویں برس مولوی یوسف پر ایک اور امتحان آیا ۔ وہ شادی نہیں کرنا چاہتے تھے ، بالکل ایسے جس طرح کبھی وہ زلیخا کو کھونا نہیں چاہتے تھے ، مگر یہ حکمت علی کی ضد تھی ۔ فاطمہ کو فوت ہوئے چار برس بیت گئے تھے ۔وہ کئی بار یوسف سے اس کی شادی کا ذکر کرتی مگر ہر بار یہ بات ٹال دی جاتی ۔ حکمت علی کی چند برس کی ضد اور جدوجہد کے بعد بالآخر وہ شادی کیے لیے رضامند ہوگئے ۔
عین نکاح کے لمحات میں انہوں نے دل میں پختہ ارادہ کیا کہ وہ اپنے ماضی کو بھول جائیں گے جہاں کبھی زلیخا بستی تھی ،اب اس دل میں نئی آنے والی مہمان کو جگہ دیں گے ۔زلیخاکی ہر یاد کو بھلا کر زندگی اس کے نام کریں گے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر ان کی زندگی میں آرہی ہے ۔ یہ مشکل کام تھا، مگر نیت اوّلین شرط ہے اور وہ شرط پوری کر چکے تھے ۔
وہ ایک طلاق یافتہ سے شادی کر رہے تھے اور یہ ان کی شادی کیے لیے رضا مندی کی شرط بھی تھی ۔ مگر نکاح نامے پر دستخط کرتے وقت انہیں لگا وہ کبھی بھی زلیخا کو ،اُس پری کو نہیں بھول پائیں گے ۔ وہ ان کی زندگی میں ان دونوں کے درمیان ہمیشہ رہے گی ، کیوں کہ نکاح نامے پر ان کی نئی آنے والی زوجہ کا نام بھی ”زلیخا” ہی لکھا ہوا تھا ۔وہ جان گئے اس نام کی بدولت اب وہ کبھی بھی پرانی یادوں سے پیچھا نہ چھڑا سکیں گے ۔ نکاح کے بعد بیوی کو پہلی بار دیکھنے کے بعد وہ غش کھا کر نہیں گرے اس کے علاوہ اور کوئی کسر باقی نہیں رہی تھی ۔ حیرت ہی حیرت تھی ۔ انہیں اپنا گھر ایک حیرت کدہ لگا تھا ، بے یقینی کے عالم میں وہ کبھی خودکو اور کبھی دلہن کو تکتے جارہے تھے ۔مجنوں یوسف اپنی اسی زلیخا کے سامنے کھڑا تھا اوروہی پری زاد دلربا زلیخا اب یوسف کے روبروتھی ۔
انہوں نے نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے ”زلیخا ” کو اپنی شریک حیات کے طور پر قبول کیا تھا، یہ جانے بغیر کہ یہ وہی زلیخا ہے جس کے پیچھے وہ قیس ہوئے تھے ۔ پرستان پھر سے لوٹ آیاتھا ۔زندگی کے وہی رنگ ،وہی جوبن ایک بار پھر اس کے سامنے تھے ۔
زلیخا کو اس بات کی خبر ہوئی تھی کہ یہ وہی یوسف ہے جس کی ماں بیٹے کی محبت مانگنے ان کے در پہ آیا کرتی تھی ، وہ دَنگ رہ گئی۔ کبھی خیال بھی نہیں گزرا تھا کہ کئی سال بعد وہ اسی مجنوں یوسف کی منکوحہ ہو گی ۔ طلاق پھر یوسف سے نکاح … خدا کی حکمت کو بھلاکو ن سمجھے ۔
پہلی شادی سے قبل یوسف کی ماں اسے ایک کاغذ دے گئی تھی ۔ تب صرف اس نے پہلی سطر ہی پڑھی تھی ۔ اسے زندگی میں سب سے زیادہ ڈر بددعا سے لگا اور اسی ڈر کی وجہ سے وہ کبھی آگے نہ پڑھ پائی کہ کوئی بددعا نہ ہو ۔ کوئی ایسی بات جو ان کے اگلی آنے والی زندگی پر اثر انداز نہ ہو ۔
یہ مہ جبین کی پیدائش کے بعد جب پہلی بار زلیخا نے وہ کاغذ نکال کر پڑھا تھا ۔ پہلی سطر ” جب وقت تیرا ڈھل جائے گا ” کے بعد دوسری سطر پھر تیسری … وہ ایک ایک کر کے بے ربط سے انداز میں پڑھے جاتی اور یوسف کی محبت اس کے رگ و پے میں سرایت کرتی جاتی تھی ،آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ۔
تب یہ بات اس کی سمجھ میں آئی کہ ایسی کون سی چیز تھی جس نے اتنے سال بعد اسے ایک شوہر سے چھین کر یوسف کی زندگی میں شامل کیا تھا، جو وجہ اس کے سامنے تھی وہ صرف یوسف کی ” سچی محبت ” تھی۔یوسف ہی نہیں،زلیخا کو بھی سچی محبت کی حقیقت کا راز اب معلوم ہوا تھا ۔زلیخا کو بھی مولوی یوسف کی سنگت راس آگئی تھی ۔ ایسی محبت کہ جس سے آنکھوں میں ایک خاص چمک پیدا ہوتی ہے ۔ اور وہ چمک زندگی کی ہر چیز کو خیرہ کردیتی ہے۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

بڑی آنٹی —– زرین جوشیل

Read Next

قرآن کہانی —– جالوت اور حضرت طالوت علیہ السلام

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!