لوہ پور کا شہزادہ
حافظ محمد دانش عارفین حیرت
لوہ پور کے قیام کے بعد یہ شہر کئی صدیاں ہندوؤں کے زیر تحت رہا، پھر کئی سو سال بعدشہاب الدین غوری نے 1186ء میں لاہور کو فتح کیا۔بعد ازاں یہ شہر خاندان غلاماں کے ہاتھوں میں آ گیا۔1290ء میں خلجی خاندان نے اس پر قبضہ کیا۔1320ء میں تغلق خاندان، 1414ء سید خاندان 1451ء لودھی خاندان کے تحت رہا۔ 1526ء میں ظہیر الدین بابر مغل حکمران نے ابراہیم لودھی کو شکست دی اور یوں سلطنت مغلیہ وجود میں آئی۔مغلوں نے اپنے دور میں یہاں عظیم الشان عمارات تعمیر کروائیں، کئی باغات لگوائے۔اکبر بادشاہ نے شاہی قلعہ کو از سر نو تعمیر کیا۔ شاہ جہان نے شالامار باغ تعمیر کروایا ۔1646ء میں شہزادی جہاں آراء نے دریائے راوی کے کنارے چوبرجی باغ تعمیر کروایا،جس کا بیرونی دروازہ آج بھی موجود ہے۔1673ء میں اورنگزیب عالم گیر نے شاہی قلعہ کے سامنے بادشاہی مسجد تعمیر کروائی۔ 1857ء میں آخری مغل بادشاہ کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو ہندوستان انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔ البتہ لاہور کو ہر دور میں خاص اہمیت حاصل رہی۔
صدیوں قبل شری رام چندر نامی ہندئووں کے ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں۔ ہندئووں کے نزدیک شری رام چندر کا بہت بڑا مقام ہے۔ وہ بادشاہ دشرتھ کے بیٹے تھے۔ شری رام خود تو بادشاہ نہ تھے، لیکن ان کی حیثیت بادشاہ سے کم بھی نہ تھی۔ ان کا چھوٹا بھائی بھرت بادشاہ اپنے بھائی رام چندر کی بہت عزت کرتا تھا۔ بھرت ریاست اُودھ کا حکمران تھا۔ اس کی سلطنت خاصی وسیع تھی۔ اردگرد کے مہاراجے ان سے جلتے اور اس کے علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے حملے کیا کرتے۔ جنگجو دریائے راوی کے کنارے سے آتے تھے۔ اس زمانے میں راوی بہت بڑا دریا تھا۔
بھرت اِن حملوں کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ اُس نے اپنے بڑے بھائی شری رام چندر سے اس کا ذکر کیا۔ شری رام چندر بھی ان حملوں سے بہت نالاں تھے۔ ان کے دو بیٹے تھے۔ ایک کانام لوہ، دوسرے کا نام قوہ تھا۔ دونوں شہزادے نہایت ہونہار تھے۔ ان حملوں کا جواب دینے کے لیے شری رام چندر کی نظر اپنے بیٹوں کی طرف گئی۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا: ”تم دونوں جانتے ہو کہ ہماری ریاست پر اردگرد کے علاقوں سے حملے ہوتے رہتے ہیں۔ ان حملوں سے ہماری رعایا کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔ تم دونوں بہادر ہو، رعایا کی حفاظت کرنا تمہارا بھی فرض ہے۔ کیا تم دشمنوں کے حملے سے بچاؤ کے لیے کوئی تدبیر دے سکتے ہو؟”
”اباجان!” آپ بھرت چاچا سے کہہ کر اس علاقے میں سپاہی متعین کروا دیں۔ ہمارے سپاہی وہاں ہوں گے تو دشمنوں کو حملے کا فوری اور بھرپور جواب دیں گے۔”
شہزادوں نے ادب سے کہا۔
”سپاہی پہلے ہی سے وہاں موجود ہیں مگر اس کے باوجود حملہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ تم دونوں مل کر وہاں جاؤ اور دشمنوں کے حملے کا منہ توڑ جواب دو۔ اگر راجہ یا شاہی خاندان کا کوئی فرد فوج کے ہمراہ ہو تو سپاہی ہمت نہیں ہارتے بلکہ دشمن کو منہ توڑ جواب دیتے ہیں۔ تم دونوں کی اس حوالے سے کیا رائے ہے؟” شری رام چند نے بیٹوں سے پوچھا۔
”ہم اس کے لیے تیار ہیں۔” دونوں شہزادوں نے شاہی آداب کے مطابق جھک کر جواب دیا۔
”اچھی بات ہے۔ جاؤ اور جلدی اس سفر کی تیاری کرو۔” شری رام نے کہا۔
”جی ابا حضور!” دونوں شہزادوں نے سعادت مندی سے جواب دیا۔
شری رام چندر نے چھوٹے بھائی بھرت کو تمام بات کہہ سنائی۔ بادشاہ بھرت یہ سن کر خوش اور مطمئن ہوگیا۔ دونوں شہزادوں یعنی قوہ اور لوہ کے درمیان طے پایا کہ لوہ دریائے راوی کے کنارے فوج کے پاس ہوگا جب کہ قوہ کچھ فاصلے پر فوج ایک دستہ لیے رکے گا۔ جیسے ہی کوئی حملہ ہو گا ،تو لوہ فوری طور پر حملے کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ پیچھے قوہ تک بھی پیغام پہنچا دے گا کہ شہر پر دشمنوں نے حملہ کردیا ہے۔ قوہ جلدی سے کمک لوہ تک روانہ کرے گا۔
تازہ دم کمک پہنچتے دیکھ کر دشمن گھبرا کر بھاگ جائے گا۔ اس طرح اُن کی دھاک بیٹھ جائے گی۔ چناں چہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ کچھ عرصہ تو دونوں بھائی ایسے ہی شہر کی حفاظت کرتے رہے لیکن کب تک اس طرح کھلے آسمان تلے رہتے۔ دونوں بھائیوں نے آپس میں مشورہ کیااور اپنے والد کو پیغام بھیجا: ”ہم یہاں پر شہر آباد کرنا چاہتے ہیں، آپ کی اجازت چاہیے۔”
ان کے والد نے خوشی سے اجازت دے دی بلکہ چاچا بھرت بادشاہ نے شہر بسانے کے لیے تما م خرچ قومی خزانے سے ادا کیا۔ چناں چہ قوہ نے ایک چھوٹا سا شہر بسایا جسے آج قصور کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اِدھر لوہ نے دریائے راوی کے کنارے مزدور بلائے اور شہر کی تعمیر شروع کروا دی۔ شہر کے گرد ایک بڑی سی دیوار کھڑی کی گئی۔ اس دیوار میں ایک خفیہ راستہ اور بارہ دروازے بنائے گئے۔
یہ دروازے شہر میں داخل ہونے اور دشمنوں سے بچاؤ کا کام دیتے تھے۔ جب بھی کوئی حملہ ہوتا شہر کے دروازے بند کر لیے جاتے اور تیر انداز شہر کی دیوار پر سے دشمنوں پر تیر برساتے۔ یہ دروازے مختلف شہروں کی طرف کھلتے تھے۔ اس نسبت سے ہی ان دروازوں کے نام رکھے گئے۔ ہندو مہاراجاؤں کے ہاں ایک خاص مقام شاہی خاندان کی رہائش کے لیے بنایا جاتا تھا۔
اس علاقے میں عام لوگوں کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے شہر کے اندر لوہ نے شاہی خاندان کے لیے ایک قلعہ تعمیر کروایا اور اپنی رعایا کی حفاظت کرنے لگا۔ یوں شہر کی بنیاد رکھنے سے شری رام چندر اور بھرت کو شہر پر ہونے والے حملوں سے نجات مل گئی اور رعایا عیش و آرام سے زندگی بسر کرنے لگی۔
یہ شہر چوں کہ لوہ نے بسایا تھا، اس لیے اُسے ” لوہ پور” کہا جانے لگا۔ یہاں سب سے پہلے حکومت بھی لوہ نے کی۔ اسی شہر کی نسبت سے اُسے لوہ پور کا شہزادہ کہا جانے لگا۔ بعد میں یہاں حکومت کرنے والے راجپوت اس شہر کو ”لوہ کوٹ” کے نام سے پکارنے لگے۔ دنیا کے مشہور سیاح ”الادریسی ” نے اسے ”لہاور” کا نام دیا۔ مختلف وقتوں میں مختلف ناموں سے پکارے جانے کے بعد آخر یہ لاہور بن گیا۔
٭…٭…٭