لال کتاب — حنا یاسمین

”لالہ! اتنے پیسوں سے کام چل جائے گا؟”
حکیم صاحب نے پیسے ہاتھ میں پکڑے انہیں گنا اور مایوسی سے سر ہلایا۔
”بڑے ہسپتالوں میں تو بیٹا داخلے داخلے میں ہی اتنی رقم نکلوا لیتے ہیں۔ ان سے کام نہیں بنتا…”
پائل کے چہرے کی خوشی یک لخت بجھ گئی۔ آسمان سے دن کا اجالا سر کا اور اماوس کی کالی راتوں کی بجائے چمکتے چاند کی چمکیلی ٹھنڈی روشنی نے دل پر اپنا کوئی طلسم نہ چھوڑا۔ ابّا کی بیماری نے تینوں بہنوں کو اس دنیا میں تنکے جتنی پھونک سے بھی ہلکا بنا دیا تھا۔ آسمان پر کتنی دیر سے وہ تینوں ابا کے قریب چارپائیاں بچھائے ستارے شمار کرنے لگی ہوئی تھیں۔ ستارے گنتے گنتے بھی تھکاوٹ ہو رہی تھی۔ تھکاوٹ وجود سے پائوں کی طرف پھسلی۔ نہ پرستان کے سپنے آرہے تھے نہ ہی راج کمار کی ہمدردی۔ خوابوں کے شہزادے اور خوش گوار زندگی کا سحر سب کھو گیا۔ ابّا کی کراہیں… کھانسی اور درد نے اردگرد کی ساری دنیا میں تکلیف دہ ببول اُگا دیئے۔ ایک تکلیف کا کانٹا وہ صاف کرنے کی کوشش کرتیں تو اس جیسے ہزاروں اور کانٹے نظر آتے۔ نظر فریب تھی اور دل خالی… جھولی کشکول کی مانند درگا دیوی کے سامنے فریاد کناں تھی۔ آنکھوں کا کاجل کالی دھاریاں بناتا چمپا کی آنکھوں کے کناروں سے باہر اُمڈ رہا تھا۔ پائل کی زبان گنگ تھی اور ہونٹ اُس نے اتنی سختی سے پیوست کر رکھے تھے، جیسے کچھ بھی بولنے سے زمین ٹوٹ جائے گی یاسر سے آسمان اُڑ جائے گا۔ البتہ چھوٹی سسی ان کے مقابلے میں ہچکیوں میں رو رہی تھی۔ آہ وبکا ایک کراہ کی صورت میں دہائیاں دیتی۔ ابّا کی آواز گھر کے ساکن دالانوں سے ہو کر کچی مٹی میں اُگی چھوٹی چھوٹی گھاس میں چُھپ گئی۔





”دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو میرے ابّا کا دُکھ مٹا دے…” سسی نے چیخ کر بہنوں سے پوچھا جیسے ابّا کی تکلیف میں اُن دونوں کا کوئی ہاتھ ہو۔
”کوئی سامری جادوگر جادو کی پڑیا ابّا کو کھلا دے…”
وہ بہنوں کی سنائی کہانیوں کے کرداروں کو دُہرا کر امداد طلب کرنے کے موڈ میں تھی۔
”درگا دیوی اور کالی ماتا کے ست رنگی پھولوں نے بھی کوئی کمال نہ دکھایا۔ میں نے سارے بھجن پڑھ ڈالے…” وہ سسکیاں بھر کر روہانسی ہوتے ہوئے بولی۔
”ہاں… ایک چیز ابّا کا دُکھ ختم کر سکتی ہے… وہ دنیا کی ہر تکلیف ختم کر سکتی ہے…”
پائل کی آواز جیسے کسی کھائی سے آرہی تھی۔
”بھلا کون سی چیز…” مارے اشتیاق کے سسی اُچھل کر چارپائی پر بیٹھی۔ جھلنگا چارپائی پر چی چی … چو… چو کی آوازوں نے ایک تار باندھی… جب کہ چمپا نے حیرت میں بس اتنا ہی پوچھا… ”بھلا وہ کون سی چیز ہے…؟”
”نور باجی کی ”لال کتاب…” وہ اب بھی کھوئی کھوئی حالت میں بول رہی تھی۔ آنکھیں آسمان کی وسعتوں سے بھی پرے کچھ تلاش کرنا چاہ رہی تھیں۔ ”تو لے آئو نہ وہ کتاب…” سسی نے اپنے کتنی ہی بار کے دھوئے دوپٹے کے کچے حصے سے منہ پر دھاریاں بناتے آنسو صاف کیے۔ نازک سا کپڑا ہلکی سی رگڑائی سے تھوڑا پھٹ گیا۔
سسی نے افسوس سے چھوٹے سوراخ بناتے دوپٹے کو دیکھا۔ جو اب دو تین بار کی دھلائی کی ہی برداشت کرسکتا تھا۔
”وہ کتاب اُن کی مقدس کتاب ہے۔ اُسے صرف مُسلے ہی ہاتھ لگا سکتے ہیں…”
پائل کی آنکھوں میں افسوس ناچ رہا اور مایوسی لڈیاں ڈال رہی تھی۔
”تم ان سے مانگ لو۔ تمہیں تو وہ بہت پسند کرتی ہیں۔ شاید تمہیں دے دیں…” چمپا کی آنکھوں میں جُتی آس کی جوت ابھی جوں کی توں موجود تھی۔
”اچھا… میں صُبح سویرے ہی سانول کو پیغام بھجواتی ہوں۔ ساری رات ابا کراہتا رہا… پر صبح کی سفیدی خوشی کی نوید لانے کے لیے کافی تھی۔ ایک نئی اُمید تینوں بہنوں نے باندھ لی تھی۔ نور باجی کی لال کتاب ابّا کو سیٹ کر دے گی۔ ابا بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔ سانول کا تانگہ ہوا سے باتیں کرتا آیا۔ وہ اسے اُڑنے والے جہاز سے تشبیہ دیتا تھا۔ تھوڑی سی ریگ زاری کو ہفتِ اقلیم کی دولت سمجھتا۔ وہ تھوڑا، آسان اور سادہ کھانے پر صبر کرنے والوں میں سے تھا۔ موج مستی کرنا اور اپنے آپ میں خوش رہنا… پائل یکے پر بیٹھ لال کتاب کے تصور میں کھو گئی۔
پتا نہیں نور باجی وہ کتاب دیتی بھی ہیں کہ نہیں… وہ تھوڑا پریشان بھی تھی اور فکرمند بھی…
”سانول جلدی سے یکہ چلائو…”





وہ چِلائی۔ حالاں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ پہلے ہی ہوا سے باتیں کر رہا تھا۔ کچی پکی پگڈنڈیوں پر پڑی گھاس پھونس… پتوں کو گھوڑے کی سم روندتے ہوئے آگے کی طرف ٹاپ… ٹاپ کر رہی تھی۔ گھاگھرے کے دوپٹے سے وہ فکرمندی کا پسینہ صاف کر رہی تھی۔ وہ بھگوان سے پُرامید تھی کہ نور باجی وہ لال کتاب لازماً اسے کچھ وقت کے لیے دے دیں گی۔ ہوا کے جھونکوں… پتوں… پھولوں… درختوں… جھاڑیوں شاخوں کو پیچھے چھوڑتا سانول کا تانگہ سنگِ مر مر کی اس حویلی کے عقب میں پہنچ کر رُک گیا۔ پائل نے نیچے چھلانگ لگائی اور بھاگتی ہوئی کُھلے گیٹ سے اندر داخل ہو گئی۔ سانول کو آج اس کملی لڑکی پر افسوس ہوا جو جلدی میں کرایہ دینا بھی بھول گئی۔ ”سانول لالہ! جانا نہ میں نے جلدی واپس جانا ہے…” وہ تانگے کا رُخ موڑ ہی رہا تھا جب اس نے پھولی پھولی سانسوں سے آواز لگاتی اس کملی لڑکی کو سنا۔ اس نے اسی وقت گھوڑے کو روکے رکھنے والی ضرب لگائی۔ سمجھ دار گھوڑا وہیں رُک گیا۔ گھوڑا گاڑی چلانے والا… گاڑی چلانے والے سے زیادہ سمجھ دار ہوتا ہے۔ وہ بیک وقت جان دار اور بے جان چیز کو قابو میں رکھنے کی استطاعت رکھتا ہے جب کہ گاڑی چلانے والا تو صرف گاڑی کو بے جان سمجھ کر اور ریڈی میڈ پرزوں سے کام چلا کر بڑھائے چلے جاتا ہے۔
”نور باجی… نور باجی…” اندر جاتے ہی اُس نے نور باجی… نور باجی کی گردان شروع کر دی۔ رسوئی سے نکلتی خالہ ثمینہ نے مُسکرا کر اُس کا چہرہ دیکھا۔ احاطے میں کپڑوں کے ڈھیر دھوتی حاجرہ بھی بھاگی آئی۔ پیپل کے پتوں سے کھیلتی سنبل اور خالہ ثمینہ سے نظر بچا کر برآمدے کے پچھلے دروازے میں چھپ کر بیٹھی دیا، املی کھاتے وہیں سے بھاگی آئی۔ پائل کی بے صبری آواز پہلی دفعہ اس حویلی میں گونجی تھی۔
”خیر تو ہے پائل!”
خالہ ثمینہ نے ہی سب سے پہلے پوچھا۔
”نور باجی سے ضروری کام ہے…” وہ جلدی سے بولی۔
”وہ اوپر اپنے کمرے میں ہے۔”
املی سے انصاف کرتی دیا نے اطلاع دی۔ وہ سیڑھیوں پر تقریباً بھاگتے ہوئے چڑھی۔ سب نے مارے تجسس کے اور اچنبھے سے اُس کو دوڑتے ہوئے دیکھا۔ ”بھلا کیا ضرورت پڑ گئی تھی؟”
پھر واپس ساری اپنے کام کاج کی جانب بڑھیں ہاں املی کھاتی دیا کو خالہ ثمینہ نے دیکھ لیا تھا… اسی لیے اب اس کی طرف متوجہ ہو کر اس کی درگت بنانے لگی۔ پائل کو نور باجی کے پاس پہنچنے میں کچھ ہی وقت لگا۔ وہ کوئی قالین بچھائے کچھ پڑھ رہی تھیں۔ کتنے ہی لمحے بیت گئے۔ وہ انتظار کرتی رہی۔
سانول نہ چلا جائے یہ بھی فکر لاحق تھی۔ ابا بھی سخت بیمار یہ بھی پریشانی… نور باجی کے کمرے کی صفائی کے لیے آئی حلیمہ نے بتایا کہ باجی جلدی اپنی عبادت ختم نہیں کریں گی۔ وہ کوئی وظیفہ پڑھ رہی ہیں۔ پائل کے چہرے کی مایوسی اور افسردگی بڑھنے لگی۔ کمرے کی کھڑکی سے نیچے دیکھا۔ سانول میلے صافے سے منہ پر آیا پسینہ پونچھ رہا تھا۔ اُس نے بھی بے اختیار اوپر دیکھا۔ پائل پر نظر پڑی تو اُسے اشارے سے بتایا کہ وہ مزید کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اسے جا کر دوسری سواری بھی پکڑنی ہے۔ پائل کا دل بھرنے لگا۔ کوئی بھی اس کی تکلیف نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ اس دیا کو صرف اپنی پڑی تھی۔ ابا تکلیف میں تھا… سانول چلا جاتا تو کون چھوڑنے جاتا… ریگ زاری بھی ختم… دل کی برداشت ختم ہو گئی۔ احساسات کا پیالہ چھلکا اور ایک سیل رواں آنکھوں کی دہلیز سے اُتر کر گالوں کو گیلا کرتا گیا۔ روتے ہوئے اسے سامنے لکڑی کی الماری میں وہ ”لال کتاب” نظر آئی۔ وہ بے اختیار اس کی طرف بڑھی اور اسے دونوں ہاتھوں سے دبوچ کر خوشی سے اپنے سینے سے لگایا۔ یہ ”لال کتاب” ابا کی ساری تکلیف ختم کر دے گی۔ وہ مزید نورباجی کا انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ گویہ ایک بری حرکت تھی۔ ایک گناہ تھا کہ نور باجی سے پوچھے بغیر ان کی کتاب لے کر جا رہی تھی پر سمے بہت کم تھا۔ وہ سیڑھیوں کی جانب بھاگی اور سیڑھیاں چڑھتی حلیمہ سے ٹکرائی… اس نے اس کے ہاتھ میں لال چیز دیکھی اور اسے روکنے لگی۔ ”ارے اے چھوکری! ذرا آرام کر… کدھر جا رہی ہے…” اس نے حلیمہ سے بازو چھڑایا اور نیچے بھاگی۔ اس کا رخ گیٹ کی طرف تھا۔ حلیمہ نے شور ڈال دیا… ”ذرا دیکھو یہ کیا چیز لے کر جا رہی ہے۔ حاجرہ نے کپڑے وہیں چھوڑے اور اس کی طرف بھاگی… ثمینہ نے بے اختیار دیا کی جان چھوڑ کر دوبارہ حیرانی سے اس انوکھے منظر کو دیکھا۔
گھوڑوں کے لیے چارے کا انتظار کرتا رحموا صطبل سے باہر آیا وہ بھی پیچھے دوڑا… پائل کا دل دھک دھک اور چیخیں منہ سے نکلنے کے لیے بے قرار… مالی … چوکی دار… گھر کے دیگر نوکر چاکر سب پائل کے پیچھے بھاگے… کسی ایک کے ہاتھ میں اس کا دوپٹہ… کسی نے اس کی قمیص پکڑی… کسی نے دھکا دے مارا… کسی نے کتاب کھینچی… ”قرآن مجید” کو سب نے جب دیکھا تو… پائل پر گھونسوں… مکّوں… تھپڑوں اور ٹھڈوں کی بہتات ہو گئی تھی… کچے کپڑے کی آستین پھٹی… قمیص کندھوں سے اور دامن سے تار تار ہو گئی۔ ہونٹ پھٹا… آنکھ سوجی… بال بکھرے… مار مار کر ادھ موا کر دیا گیا… کسی نے یہاں تک کہا کہ سالی کو پٹرول چھڑک کر جلا دیا جائے… گندی ہندنی… ہمارے قرآن پاک کے ساتھ پتا نہیں کیا کرنے جا رہی تھی۔ اتنے بپھرے ہوئے لوگوں کو کسی کی گرج نے روکا… تو وہ نور باجی تھیں۔ جنہوں نے سب سے پہلے پائل کے برہنہ ہوتے وجود کو ڈھانپنے کے لیے صحن میں لٹکے مرغیوں کے ڈربے کے آگے لہراتے پردے کو کھینچا اور اسے پائل پر ڈالا… لوگ مشتعل تھے۔ جان کے دشمن… پائل مار کھا کھا کر نیم مردہ وجود کے ساتھ نور باجی کی طرف دیکھ کر رونے لگی۔ ”باجی! یہ لال کتاب… ابا بیمار ہے… آپ نے کہا تھا یہ ہر تکلیف دور کرتی ہے… پیسے نہیں… ابا بیمار… بڑا ہسپتال…” وہ ٹوٹے ٹوٹے لفظوں میں بتا رہی تھی اور تکلیف سے بڑھتی ٹیسوں پر اپنی ہمت کا بوجھ لاد رہی تھی۔
”باجی! قرآن کی بے حرمتی کرنے جا رہی تھی سالی…”
گلو مالی نے موٹی سی گالی دے کر اسے مزید مارنے کے لیے آگے بڑھنا چاہا۔
”بس کردو… تم سب… تم لوگوں کو کتنا ”قرآن” کا خیال ہے مجھے معلوم ہے۔ طاقچوں میں سجا کر گرد کے سپرد کر کے قرآن گھروں میں رکھے بیٹھے ہو۔ تم لوگوں کی غیرت یہ ہے کہ بغیر تصدیق کے کسی مظلوم پر ظلم کرو۔ قرآن تمام انسانیت پر اُترا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کی میراث نہیں۔ شرم آنی چاہیے مسلمان کہلوانے پر… مسلمان تو ظلم نہیں کرتا… تم لوگ کیوں منصف بن بیٹھے؟ قرآن کے احکامات پر عمل کرتے نہیں ہو اور مشتعل ایسے ہو رہے ہو جیسے پتا نہیں خود کو کتنے بہادر مسلمان کہلوانے کا اعزاز حاصل کر لو گے۔ اصولاً تو تم لوگوں کو جان سے مارنا چاہیے، جس رب کو پہچانتے ہو اسی کا حکم نہیں مانتے۔ یہ تو ابھی رب کو پہچان نہیں پائی اور جس دن پہچان جائے گی اس دن شاید تم لوگوں سے زیادہ اچھی مسلمان کہلائے اور یا پھر جو حشر تم لوگوں نے اس کا کیا ہے اس کے بعد وہ اس لال کتاب اور مسلمان کے نام سے ہی نفرت کرنے لگ جائے۔
”باجی! آپ اس کی طرف داری کر رہی ہیں…” کچھ سرشرم سے جھکے… کچھ جانے کے لیے پر تولنے لگے اور کچھ ڈھاک کے وہی تین پات کے مصداق… ابھی تک وہیں پر اٹکے تھے۔
”فی الحال یہاں سے دفع ہو جائو… اور حلیمہ تم اِدھر میرے ساتھ آئو… سانول سے کہو کہ دُگنی ریگ زاری لے لے… پائل کو ہسپتال لے کر جانا ہے…”
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

شکستہ خواب — فرحین خالد

Read Next

ارمان رہ گئے — حمیرا نوشین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!