گو کہ امریکا آنے سے پہلے ہی ہمیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ اس حسین دیار کے دلکش باشندے ہمیں ہمیشہ غیر ہی سمجھیں گے، لیکن اپنی قابلِ رحم اور انتہائی دکھی ‘آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے’ حیثیت کا اصل ادراک اس وقت ہوا جب بیٹیاں شادی کی عمروں کو پہنچیں۔ اس وقت اس شک پر اس دھماکے سے مہر ثبت ہوئی کہ ذہن کی نازک چولیں ہل کر رہ گئیں۔
ہمارے ذہن میں وہ بے چارہ جانور آیا، جس کا ہم یہاں ازاراہِ تمیز صرف اشارہ کر رہے ہیں، جو دھوبی کے گھاٹ پر پایا جاتا ہے اور جو اکثر نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا۔
خیر، بات ہو رہی تھی رشتوں کی جنہیں جب ڈھونڈنے نکلے تو ہم پر حیرت ناک انکشاف ہوا کہ ہم اکیسویں صدی کے امریکا میں نہیں بلکہ ساٹھ سال پہلے کے پاکستان میں رہ رہے ہیں۔
اور کہاں ہم اس احمق سی خوش فہمی میں بیٹیوں کو چوبیس اور پچیس سالوں کا کر بیٹھے کہ امریکا میں اس قدر پاکستانی آباد ہو چکے ہیں کہ کسی قسم کے مسئلہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
جس نے بھی کہا ہے درست کہا ہے کہ احمقوں کی، انسانوں کی دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کے لیے ایک باقاعدہ الگ دنیا بنائی گئی ہے، جسے ‘احمقوں کی جنت’ کہتے ہیں ۔ ہمیں شرمندگی کا احساس ہوا کہ رشتوں کے معاملوں میں ہم بھی اسی جنت میں رہ رہے تھے ۔ رشتہ ڈھونڈھنے کی اچانک افتاد نے ہمیں بھی اس حسین جنت سے اٹھا کر ایک تمیز اور تہذیب سے عاری انسانوں کی دنیا میں لا پٹخا ۔
منہ سے فکر مندی کی ہلکی سی بھاپ سب سے پہلے ان دوستوں کے سامنے نکالی جو گھروں میں گھبرو جوان لیے بیٹھی تھیں ۔
“تم فورا ہی کسی رشتہ آنٹی سے بات کرو۔” انہوں نے ہمدردی بھری آنکھوں اور فکر بھرے لہجوں میں مشورہ دیا۔
اسی طرح ایک ایک کر کے دوسری بھی ‘سچی تے کھری’ دوستیوں کا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو گیا۔ ایک دن ایک پرانی یار نے حیرت سے پوچھا:
“تمہاری بیٹیاں کالج پڑھ کر نکل آئیں، وہاں کوئی لڑکا نہیں ملا ان کو؟” ہمارے بھنائے ہوئے ذہن میں ایک سو ایک کرارے جواب آئے لیکن منہ مسوس کر رہ گئے۔ اب ان میڈم سے کون کہے کہ
”بی بی اگر ہماری بیٹی لڑکا خود پسند کر لے تواس کے تیز ہونے پر طویل تبصرے اور منہ بھر بھر طعنے بھی تم ہی لوگ مارو گے۔”
پتے کی بات تو یہ ہے کہ رشتہ ڈھونڈتی اماؤں کی عافیت، داماد کے گھر میں آنے تک زبانوں کو تالے لگائے رکھنے میں ہی ہے۔ دیسی عورتیں ایک دوسرے کی سلگتی ہوئی گفت گو ادھر سے ادھر کرنے میں نام ور غیر ملکی جاسوسی اداروں سے بھی زیادہ بہترین کام کرتی ہیں ۔ ہمارے بھی کرارے جواب بیٹیوں کے رشتوں کی راہ میں موٹے موٹے روڑوں کی طرح اٹک سکتے تھے ۔ ویسے بھی ہم اس بات پر قوی یقین رکھتے ہیں کہ ”دشمنی میں کہاں وہ ہوتے ہیں، دوستی میں جو وار ممکن ہیں۔”
بہ قول چچا غالب، دوستوں کے کوچوں سے بہت بے آبرو ہو کر نکلنے کے بعد اپنی غیرت کی مزید سبکی ہماری نازک طبیعت کو ہرگز منظور نہ تھی ۔ ہم نے فوری طور پر آنٹی رشتہ سے رابطہ کیا ۔
“کیا کرتی ہیں آپ کی صاحبزادیاں؟” ہمارا اداس دل باغ و بہار ہو گیا ۔ پوچھنے کا انداز ایسا تھا گویا کسی ریاست کی شہزادوں کے بارے میں پوچھ رہی ہوں ۔ ہمیں قوی امید ہوگئی کہ شہزادے شاید ہمیں بھی مل ہی جائیں گے۔ ہم نے بے حد اشتیاق سے پوچھا کہ ان کے ‘رشتہ رجسٹروں ‘ میں کتنے لڑکے موجود ہیں۔
“تین!” ان کا بے یقینی کی حد تک مایوس کن اور کورا جواب سُن کر ہماری سانس اکھڑ سی گئی۔ ہماری کیفیت وہی ہو گئی جو بورڈ کے پرچے دیکھ کر ہوتی تھی، یعنی غشی طاری اور ذہن مفلوج۔
“اور… اور لڑکیاں ؟” ساتھ چھوڑتی ہوئی زبان نے بہ مشکل منہ سے آواز نکالی ۔
“پانچ… رجسٹر بھرے ہوئے ہیں لڑکیوں سے۔ آج کل رشتے بڑی مشکل سے ہوتے ہیں۔” آنٹی رشتہ تھیں کہ بم کا گولہ، دو منٹ میں ہماری معصوم امیدوں کے پرخچے اڑا کر ، اس کی دھجیاں ہمارے کانپتے ہاتھوں میں تھما دیں ۔
یعنی کہ لڑکے تین اور لڑکیوں کے پانچ رجسٹر؟ ہم نے فٹا فٹ حساب کتاب لگایا۔ ہماری زندگی کے شاید پہلی دفعہ سو فیصد درست حساب کے مطابق اگر سب لڑکوں کی شادیاں کر دی جاتیں تو بھی لڑکیوں کی کثیر تعداد بیٹھی رہ جاتی یعنی کہ یہ وہ اندھیر نگری تھی جس کا ذکر ابا میاں ملکی سیاست کے ساتھ لازمی کیا کرتے تھے۔
لیکن یہ وقت ابا میاں کو یاد کرنے، ریاضی کی صلاحیتوں پر فخر کرنے ، اور نگریوں کا اندھیرا اجالا ناپنے کا ہرگز نہیں تھا۔
“آپ ہماری بیٹیوں کے کوائف لکھئے اور مناسب لوگوں کو ہمارا نمبر دے دیجئے ۔” ہم نے امیدوں کے ویران چمن سے تین چار پھول نوچ لیے ۔ اگر یہ مسئلہ سیر تھا تو ہم بھی سوا سیر تھے ۔ سو ‘ گرتے ہیں گھڑ سوار ہی میدان جنگ میں’ کے مصادق ہم نے بھی سر پر کفن باندھ لیا۔
زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ بیری پر پہلا کنکر آ کر لگا ۔
“آپ کا نمبر میرے کو مسز خان دیے ۔” ایک نوابی سا لہجہ سماعتوں سے ٹکرایا اور حلق میں کریلے کا ذائقہ چھوڑ گیا۔
“ہمیں لوگاں ہئیں تو حیدرآباد دکن کے پر پاکستان میں رہتے ہئیں۔ اپے اپنی بیٹی کے واسطے لڑکا دیکھ ریں کیا؟” یہاں ہم وضاحت کر دیں کہ ہم تعصب کوایک انتہائی قبیح فعل گردانتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمیں ٹکرنے والا ہر حیدرآبادی ہمیں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔
لیکن کانچ کی گولیاں تو ہم نے بھی نہیں کھیلی تھیں۔ اپنے دوسرے ہم وطنوں کی طرح، ہم نے بھی فٹ سے گدھے کو اپنے بے حد قریبی خونی رشتے دار کے عہدے پر فائز کرتے ہوئے ادب و احترام سے گفت گو آگے بڑھائی ۔ لیکن کیا کیجیے فطرت کا کہ بدل کر نہیں دیتی ہماری نہیں، اگلی خاتون کی جن کا اگلا پرُ غرور جملہ سُن کر ہمارے سر پر لگی اور تلوں پر بجھی۔
مندرجہ ذیل جملوں کو خالص حیدرآبادی لہجے میں اپنی بیٹی پر فٹ کریں، ہم شرطیہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی بھی وہیں لگے گی، اور وہیں بجھے گی۔
“آپ کی بیٹی گوری ہے کیا؟ ہمارے کوبھوت، گورری لڑکی ہونا ۔ ہمیں لوگاں بھوت خوب صوررت اور گوررے ہئیں۔ لڑکی بھی ایسیچ ہونا ۔”
لفظ ”گوری”گورے اور خوب صورت میں ‘ر’ پر زور سن کر ہمارے خون کا فشار بلند ہو چکا تھا۔ کرارے کرارے جواب ذہن سے ہوتے ہوئے منہ تک پہنچ چکے تھے۔ ہم نے انہیں برداشت کی کڑی لگامیں ڈالتے ہوئے دانتوں کی مضبوط باڑ کے پیچھے روکا اور فون پٹخ دیا ۔
یعنی کہ پاکستان سے آئے آدھی صدی سے بھی زیادہ کا عرصہ ہو چکا لیکن اندر سے نواب نہیں نکلا۔
اگلی بیری بھی کچھ کم و بیش اسی بدتمیز نوعیت کی تھی اور سیدھی اپنے پنجاب سے آئی تھی ۔ بیری کا ابتدائی جوش ہمارے آبائواجداد کی ہندوستان سے ہجرت کا سن کر ٹھنڈا پڑ گیا ۔ انہیں ”خالص” پنجابی خون درکار تھا، ”اردو سپیکنگ” لڑکی نہیں ۔ ہم نے انہیں سلگتے ہوئے، مٹھاس بھرے لہجے میں بتایا کہ ہماری بیٹی ”اردو سپیکنگ” نہیں ہیں اور صرف ہسپانوی اور انگریزی بھی ”سپیک” کرتی ہیں۔ لیکن اس دفعہ بے مروتی کا مظاہرہ دوسری جانب سے ہوا اور ہم ”ٹوں ٹوں” کی آواز سنتے ، حیران اور اداس کھڑے رہ گئے۔
ایک بیری نے ہماری بڑی امید بندھائی:
“آپ لوگ علی گڑھ کے ہیں” لہجہ بے حد خوش ہو گیا۔ ہم نے اپنی امیدوں کے چمن میں پھول کھلتے محسوس کیے۔
“جی ہاں ہمارے نانا علی گڑھ سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ آپ لوگ بھی اسی ٹائم پر آئے تھے کہ بعد میں؟” ہم نے آواز میں بے انتہا پیار سمویا۔
“جی نہیں! ہم علی گڑھ میں ہی رہتے ہیں۔” بیری کا لہجہ یکایک ہی سوکھا، پھیکا، اور نروٹھا سا ہوگیا۔
“آپ تو پھر پاکستان میں ہی پیدا ہوئی ہوں گی؟ کہاں رہائش ہوتی ہے آپ کی؟” انہوں نے پوچھا۔
ہم نے بیری کے اچانک روکھے ، پھیکے لہجے کو اپنا شک گرداندے ہوئے اپنے لہجے کی لگاوٹ برقرار رکھی:
“جی ہاں، ہم لوگ پاکستان میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔ ہمارا تعلق کراچی سے ہے۔”
“اوہ” لمبے سے ”اوہ” نے معصوم امیدوں کا تیا پانچا کر دیا،
“پھر تو آپ لوگ پاکستانی ہوئے، علی گڑھ کے تو نہیں ہوئے۔ معاف کیجیے گا، لیکن ہمیں علی گڑھ کی ہی لڑکی چاہیے۔”
چلئے چھٹی، پاکستانی کہتا ہے کہ ہم پاکستانی نہیں ۔اور وہ جگہ جہاں سے دربدری کا الم بہادری اور فخر سے تانے ، قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان آئے تھے ، وہ بھی ہمیں اپنا ماننے سے انکاری ہیں ۔ کہتے ہیں ہم پاکستانی ہیں ، ان میں سے نہیں ۔
قصہ مختصر، تف ہوتا ہم پر اگر ہم اب بھی کچھ نہ سیکھتے ۔ سو ہم نے بھی مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ اگلی بیری کو سلام کے بعد ہی بتا دیں گے کہ “بہن ، شادی میری بیٹی نے کرنی ہے اور وہ نہ تو پاکستانی ہے، نہ حیدرآبادی ، نہ علی گڑھ کی، نہ مدراسی، نہ چینی ، اور نہ ہی فرانسیسی ۔ وہ امریکا میں پیدا ہوئی ہے اور وہ ایک اصلی نیلا پاسپورٹ رکھنے والی امریکی ہے۔ آپ نے رشتہ کرنا ہے تو کریں نہیں تو کسی اور کی جان کھائیں۔”
درست کہا نا؟ شادیوں کی نصیبوں سے ہونے والی بات ایک طرف ، لیکن ہماری جان کم از کم اتنی فالتو ہرگز نہیں کہ ہر ایرا غیرا ، نتھو خیرا اس کی تحقیر و تذلیل کرے اور چلتا بنے ۔
اگر ہم پاکستانی بھی نہیں اور کچھ اور بھی نہیں تو ہماری بلا سے نہ صحیح۔ ہم اللہ کے بندے ہی بھلے۔
٭…٭…٭