قرنطینہ ڈائری ۔ سولہواں دن

بدعت کے ذکر سے مجھے وہ بادشاہ یاد آتا ہے جو بچے جنا کرتا تھا۔ چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں کہ تاریخِ اودھ کے عجائبات میں سب سے بڑا عجوبہ غازی الدین حیدر کی بیگم کی بدعات ہیں۔ اس خاتون نے بشمول اور بدعتوں کے ایک اختراع یہ فرمائی کہ شرفا کی خوبصورت اور کمسن بیٹیوں کو گیارہ اماموں سے منسوب کر کے انہیں الگ الگ مکانوں میں رکھا۔ یہ لڑکیاں اچھوتیاں کہلاتی تھیں۔ ہر اچھوتی کی خدمت کے لیے خادمائیں مقرر تھیں اور وہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتی تھیں۔

اچھوتیاں چوں کہ آئمہ سے منسوب تھیں اس لیے شادیاں نہیں کر سکتی تھیں۔ ایک اچھوتی نے اس تنہائی سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک عجیب طریقہ اختیار کیا یعنی ایک مرتبہ پچھلے پہر اٹھ کر رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ محل کی عورتیں جمع ہو گئیں۔ بادشاہ بیگم کو خبر ملی تو وہ بھی آئیں اور پوچھا کیا ہوا؟ اچھوتی نے کہا میں نے خواب میں دیکھا کہ امام علیہ السلام آئے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں جا میں نے تجھے طلاق دی۔ ہائے اب تو دین و دنیا میں میرے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ بادشاہ بیگم نے یہ سن کر اچھوتی کو اس وقت پالکی میں سوار کیا اور سامان سمیت اس کے میکے بھجوا دیا۔

نصیر الدین حیدر جو غازی الدین حیدر کے بعد تخت پر بیٹھا، ان بدعات میں بادشاہ بیگم سے بھی بڑھ گیا۔ وہ صبح دولت نام کی ایک کنیز کے بطن سے تھا لیکن بادشاہ بیگم نے اسے اپنے بیٹوں کی طرح پالا تھا۔ اس لیے بچپن میں جو دیکھا تھا، اس کا نقش ایسا گہرا تھا کہ حکومت ہاتھ آئی تو خود بھی اسی قسم کی حرکتیں شروع کر دیں۔ اس نے بھی گیارہ اچھوتیاں جمع کیں جو گیارہ اماموں سے منسوب تھیں ان کے لیے بھاری بھاری جوڑے اور زیور تیار کرائے۔ جب کسی امام کی ولادت کا دن آتا تھا تو بادشاہ اپنے آپ پر حاملہ عورت کی سی کیفیت طاری کر لیتا۔ اس طرح روتا اور کراہتا کہ گویا سچ مچ دردِزہ میں مبتلا ہے۔ پھر بچہ کی جگہ ایک مرصع گڑیا بادشاہ سلامت کے سامنے رکھ دی جاتی۔ مبارک سلامت کا غل مچتا، زچہ گیریاں گائی جاتیں اور پورے چھ دن بادشاہ زچہ خانے میں رہتا ۔جو مقوی دوائیں اور کھانے زچاﺅں کو دیے جاتے ہیں، وہ سب بادشاہ کو کھلائے جاتے۔ لکھنﺅ میں ایسے موقعوں پر بڑے تکلفات ہوتے ہیں اور بہت سی رسمیں ادا کی جاتی ہیں۔ اس موقع پر یہ ساری رسمیں ادا ہوتیں۔ چھٹے دن بادشاہ غسل کرتا۔ رات ہوتی تو بادشاہ زنانہ لباس پہنے گڑیا کو گود میں لیے لنگڑاتا ہوا تارے دیکھنے نکلتا۔ اب کھانے تقسیم ہوتے، گو یوں کی تانوں اور مبارک سلامت کی صداﺅں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتیں۔

اس رسم سے فراغت ہوتی تو بادشاہ پالکی میں سوار باجے گاجے کے ساتھ شہر سے نکلتا۔ آگے آگے ہاتھی ہوتے۔ ان کے پیچھے سواروں کے پہرے، پیدلوں کی پلٹنیں، پیچھے بادشاہ کی پالکی جس کے دائیں بائیں گھڑ سوار ہوتے تھے، امرائ، درباری اور معززین۔ غرض اس شان سے بادشاہ سارے شہر کا چکر لگا کے پھر شاہی محل میں داخل ہوتا۔

سچ پوچھیے تو ان بدعتوں کے آگے ہمارا شب برا¿ت کا حلوہ تو کوئی بدعت ہی نہیں۔ آپ پکایا، آپ ہی کھایا۔ خلقِ خدا کو خوش کرنے سے خدا بھی خوش ہوتا ہے اور خلق خدا میں سب سے پہلے اپنا ہی نمبر آتا ہے۔ اول خویش بعد درویش۔ لہٰذا اپنا دل خوش کیجئے۔ کسی نے نہیں بھیجا تو کوئی بات نہیں۔ خود پکائیے، کھائیے اور مزے سے دندنایے۔

شام کو سمبا اندر آیا اور اپنی پسندیدہ جگہ یعنی میری لیدر کی کرسی پر جا چڑھا۔ اب جو میری نظر پڑی تو کیا دیکھتی ہوں کہ پوری کرسی گرد مٹی سے سفید ہو رہی ہے۔ نہ جانے کہاں مٹی میں لوٹتا رہا تھا۔ میں نے ابراہیم اور عمر کو بلایا اور فیصلہ کیا کہ سمبا کو نہلایا جائے۔ سمبا پوری سردیاں صرف ایک مرتبہ نہایا تھا۔ بلیوں کو پانی سے نفرت ہوتی ہے اور نہانے سے ان کی جان جاتی ہے۔ پھر وہ ایک مرتبہ کا نہانا بھی یوں تھا کہ عمر نے بالٹی میں نیم گرم پانی اور شیمپوڈالا اور سمبا کو اس میں ڈال دیا۔ پروٹین سے بھری غذائیں کھا کھا کر سمبا میں کسی چیتے جتنی طاقت اور پھرتی آچکی ہے۔ اسے بالٹی میں ڈالنا اور پھر وہیں رکھنا آسان نہیں تھا۔ لیکن عمر بھی پھر عمر ہے۔ اس نے نرم دھاگوں والا Mop اسی مقصد سے پاس رکھ چھوڑا تھا۔ وہ اس Mop سے سمبا کو اندر دھکیلنے لگا۔ نیچے سے سمبا زور لگاتا، اوپر سے عمر۔ کچھ دیر اس زور آزمائی کے بعد آخر جیت سمبا کی ہوئی اور وہ نکل بھاگا۔ لیکن اتنی دیر میں اس کی میل اتر چکی تھی۔ بالٹی کا پانی کالا ہو چکا تھا۔

اب بھی ہم تینوں نے مشورہ کیا کہ سمبا کو نہلایا جائے۔ عمر جو نہلاتے ہوئے سمبا کے ہاتھوں بہت سی کھرونچیں کھا چکا تھا، بولا۔ ”آپ کا یہ شیر اب بڑا ہو چکا ہے۔ اب اس کو لان میں یا بالٹی میں نہیں نہلایا جا سکتا۔ کاٹ کھائے گا نہلانے والے کو۔“

ابراہیم نے کہا۔ ”تو چھوڑیں، نہ نہلائیں، بلیاں تو ویسے بھی خود کو چاٹ کر صاف کر لیتی ہیں۔“

عمر، جو ویسے بھی سمبا کا سب سے بڑا کیئر ٹیکر ہے، بولا: ”نہلانا تو ضروری ہے۔ اس بے وقوف کو کیا عقل کہ ہم اس کا بھلا کر رہے ہیں۔ اس کے پیروں پر جرابیں چڑھا کر رسیاں باندھ دیں گے اور اچھی طرح شیمپو سے نہلا کر صاف کر دیں گے اسے۔ بڑا پیارا نکل آئے گا۔“

اے میرے مہربان رب! تو پاک ہے ، تو پاک ہے، تو پاک ہے۔ کوئی عبادت کے لائق نہیں مگر تو ہی جو تمام مخلوق کا پیدا کرنے والا ہے۔ اے اللہ! تیرے عرش کے نیچے سے لے کر زمینوں کی قرار گاہ کی انتہا تک تیری ذاتِ پاک کے سوا جس چیز کی بندگی کی جاتی ہے سو باطل ہے۔ اے پروردگار! آج کی رات ہمیں بخش دے، ہم گناہوں کی گرد میں اٹے تیرے پاس آتے ہیں، ہمیں اپنی رحمت اور بخشش سے نہلا کر صاف ستھرا کر دے۔ شاید یہ وبا کا خوف اور تکلیف تو نے اسی گرد کو جھاڑنے کے لیے بھیجی ہے۔ لیکن ہم بے عقل ہیں، تیری حکمت کو نہیں جانتے۔ ہم پر رحم کر پروردگار۔ اس وبا کو ہم پر سے ٹال دے۔ ہمیں خوف سے امن دے۔یا اللہ آج کی رات کشادہ اور برکت والی حلال روزی ہمارے نصیب میں لکھ دے اور ہمیں اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر۔ آمین یا رب العالمین۔

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

قرنطینہ ڈائری ۔ پندرہواں دن

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ سترہواں دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!