قرنطینہ ڈائری ۔ سترہواں دن

قرنطینہ ڈائری

(سارہ قیوم)

سترہواں دن:جمعرات 9 اپریل 2020

ڈیئر ڈائری!

آج امی کی سالگرہ ہے۔ وہ پاکستان میں ہوتیں تو میں ان کے لیے کیک بنا کر لے جاتی۔ انہیں گلے لگاتی، ان کے گورے چٹے گالوں پر پیار کرتی اور انہیں تحفے میں ایک اچھا سا سوٹ دیتی۔ وہ یہ سوٹ ”تھینک یو بہت اچھا ہے۔” کہہ کر رکھ لیتیں اور دو دن بعد مجھے فون کر کے کہتیں۔ ”بیٹا سوٹ تو بہت اچھا ہے لیکن میں ایسے رنگ پہنتی نہیں۔ یہ سوٹ میری طرف سے تم رکھ لو۔” اور میں خوشی خوشی وہ سوٹ رکھ لیتی۔

یا پھر شاید میں انہیں اپنے گھر لے آتی۔ یہاں سالگرہ مناتی۔ وہ مجھے کھانا بنانے سے یہ کہہ کر منع کر دیتیں۔ ”اصل میں تم نمک مرچ کم ڈالتی ہو نا، مجھ سے کھایا نہیں جاتا۔ میں کچھ تھوڑا بہت بنا کر لے آئوں گی۔” اور پھر اتنا کچھ اور اتنا زیادہ بنا کر لے آتیں کہ ہمسایوں کو بھیجنے کے باوجود ختم نہ ہوتا اور جب ہم انہیں گھر چھوڑنے جاتے تو اس بہانے سے کسی بیکری پر رک جاتیں کہ کچھ چیزیں خرید لوں کل مہمان آنے والے ہیں۔ اور اس بیکری میں بچے جس چیز پر ہاتھ رکھتے، انہیں لے دیتیں۔

یہ سب کچھ ہوتا اگر وہ پاکستان میں ہوتیں۔ لیکن اب وہ آسٹریلیا میں ہیں اور دو سال ہو گئے ہیں میں نے انہیں نہیں دیکھا، ان کے گلے نہیں لگی، ان کے ہاتھ کا کھانا نہیں کھایا۔ اب اگر میں کوئی جذباتی بات لکھوں گی تو وہ جو یہ ڈائری بڑے شوق سے پڑھتی ہیں، ناراض ہو جائیں گی۔ انہیں ناشکری سے، شکوے شکایتوں سے، میلو ڈرامہ سے اور ان کے اپنے الفاظ میں ”ہیروئن بننے سے” سخت نفرت ہے۔

تو والدہ محترمہ! بعد از سلامِ نیازمندی آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ ہم سب یہاں خیریت سے اور خوش باش ہیں اور آپ کی خیریت اور خوشی نیک مطلوب ہے۔ آپ کو سالگرہ بہت بہت مبارک ہو۔ نیز آپ کو معلوم ہو کہ یہ جو آپ جوش میں آکر کیٹو ڈائٹ سے وزن کم کر رہی ہیں،  یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ یہ نہ ہو کہ آپ اتنی سمارٹ ہو جائیں کہ پاکستان آنے پر میں آپ کو پہچان ہی نہ سکوں۔ ادھر میرا وزن کوارنٹین میں رہ کر ہر وقت کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے سے بڑھ رہا ہے اور آپ کے داماد کا خیال ہے کہ میں بالکل آپ کے جیسی لگنے لگی ہوں۔ کاش ایسا ہی ہو۔

آپ کی نور چشمی

سارہ    

ڈیئر ڈائری، آج میں شکر گزار ہوں ماں کے لیے۔ میں اس ماں کے لیے شکر گزار ہوں جس کی دعائوں کا سایہ میرے سر پر ہے اور میں اس سکھ اور مسرت کے لیے شکر گزار ہوں جو خود ماں بن کر مجھے نصیب ہوئی ۔ نہ اس سے بڑا کوئی رشتہ ہے نہ اس سے بڑھ کر کوئی محبت ۔میری دعا ہے کہ دنیا کی ہر عورت کو ماں بننا نصیب ہو اور ہر اولاد پر اس کی ماں کا سایہ سلامت رہے۔

پرسوں ہمارے  میاں صاحب ایک ٹی وی پروگرام میں مدعو کیے گئے اور مشہور ہو گئے۔ ان کا کرونا پر دیا گیا لیکچر بڑا پاپولر ہوا۔ کچھ یہ بھی کہ ماشا اللہ ہینڈسم آدمی ہیں اور ٹی وی پر آتے ہیں تو ٹی وی سکرین سج جاتی ہے۔ ہم ان کے ٹی وی سٹار بن جانے پر بہت خوش ہوئے۔ آج عمر نے انٹرنیٹ سے horoscpoe نکال کر ابا کو دکھایا اور خوش ہو کر کہا: ”دیکھیں آپ کے horoscpoe میں بھی لکھا ہے کہ اپریل میں آپ کو شہرت ملے گی۔”

 لیجئے! آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج۔ یعنی horoscpoe کی بلبل بولی ہے تو شہرت کی بہار آئی ہے ورنہ اس کی کیا مجال تھی کہ پاس بھی بھٹک جاتی۔ ادھر ایک ہم ہیں کہ جن کو کبھی ایسا horoscpoe نصیب نہ ہوا۔ میرے horoscpoe میں تو بس اس قسم کی باتیں لکھی ہوتی ہیں کہ آج بچے تنگ کریں گے، منگل کو کتا کاٹنے کا امکان ہے۔ دیکھو سفر پر نہ جائیو،پورا ہفتہ ہی منحوس ہے، بتائے دے رہے ہیں ہاں۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ واحد خوشخبری یہ ہوتی ہے کہ شادی کر لیجئے جمعے کا دن سعد ہے ۔ہم دل مسوس کر رہ جاتے ہیں کہ ہماری شادی ہو چکی اور واحد سعد دن ضائع گیا۔

ویسے یہ horoscpoe سب جھوٹ ہے، بکواس ہے ہم نہیں مانتے۔ اگر کبھی سال میں ایک مرتبہ یہ پیش گوئی اس نے کی بھی کہ آج محبوب کن اکھیوں سے دیکھ کر مسکرائے گا تو یا تو اس دن ہم سے محبوب کی قمیص استری کرتے ہوئے جل گئی یا ہمارا اپنا پائوں رپٹ گیا۔ وہ بھی محبوب کے سامنے۔ ان دونوں صورتوں میں محبوب کی مسکراہٹ تو کیا نصیب ہوتی، الٹا شرمندگی اٹھانی پڑی۔

ویسے محبوب کا اور امی کا برج ایک ہے۔ محبوب کو تو شہرت مل گئی دیکھیے امی کو کب ملتی ہے۔ شاید میری اس ڈائری کے ذریعے مل جائے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ امی کو مشہور ہونے کے لیے میری ڈائری کی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے ان کی خوش مزاجی، ان کا حسن اور ان کا سلیقہ کافی ہے۔ وہ اپنے کالج کے زمانے سے لے کر آج تک انہی چیزوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ کالج کی ہیڈگرل تھیں۔ باسکٹ بال کھیلا کرتی تھیں اور کالج کے ڈراموں میں حصہ لیا کرتی تھیں۔ اگرچہ شکل ہیما مالنی سے ملتی تھی لیکن چوں کہ ہیروئن بننے سے تب بھی نفرت تھی اس لیے ڈراموں میں بھی ہیرو بنا کرتی تھیں ۔ میرا خیال ہے تبھی سے عادت پڑی ہے دبنگ ہو کر جینے کی۔ ورنہ جو ذمہ داری سر پر پڑی تھی، کوئی کمزور عورت ہوتی تو ٹوٹ جاتی۔ بھری جوانی میں بیوہ ہوئیں۔ چار چھوٹے چھوٹے بچوں کا ساتھ تھا اور سامنے ایک لمبا سفر۔ یہ لمبا سفر انہوں نے تن تنہا اسی ہمت، شکرگزاری اور زندہ دلی سے طے کیا جس کے لیے وہ مشہور تھیں۔ اور پھر ایک ہوتی ہے عام عورت کی بیوگی اور ایک ہوتی ہے بے حد حسین عورت کی بیوگی۔ دونوں میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ایک بے سائبان حسین عورت کی طرف جتنے ہاتھ بڑھتے ہیں، اتنی ہی انگلیاں بھی اٹھتی ہیں ، اور جو عورت بے سائبانی کا یہ سفر یوں کاٹ لے کہ اس کی طرف ایک بھی انگلی نہ اٹھ سکے، وہ عورت پن کی معراج کو پہنچ جاتی ہے۔

Loading

Read Previous

قرنطینہ ڈائری ۔ سولہواں دن

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ اٹھارواں دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!