قرنطینہ ڈائری ۔ سترہواں دن

ہمارے چچا اکثر ایک قصہ یوں سنایا کرتے ہیں۔ ”بھابھی سے ہماری یوں دوستی تھی کہ لگتا تھا بچپن سے ساتھ ہیں۔ جب میری شادی پر ان کی امی ہمارے گھر آئیں تو بھابھی کو یوں رچا بسا دیکھ کر حیران رہ گئیں۔ جاتے ہوئے انہوں نے کہا، میں یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ عاصمہ کا پورا سسرال کس طرح اس پر فدا ہے۔ بیٹا یہ سب آپ کی امی کے اخلاق کی وجہ سے تھا۔ وہ کسی کو غیر نہ سمجھتی تھیں، ہر کسی سے ہنسی مذاق، ہر کسی سے پیار۔”

سسرال میں ان کی یہ عزت ابو کے جانے کے بعد بھی برقرار رہی۔ آج ابو کو گئے 34 سال ہو چکے ہیں، امی آج بھی نہ صرف اپنے سسرال بلکہ پوری دنیا کے لیے ویسی ہی ہیں۔ ہر کسی سے ہنسی مذاق، ہر کسی سے پیار۔

اگر کبھی ایک دن میں امی جیسی بن سکوں، اگر ان جیسا ذوق، ان جیسی زندہ دلی، ان جیسی حسِ مزاح ان جیسا حوصلہ، ان جیسا ایمانِ کامل مجھ میں آسکے تو میں خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین عورت سمجھوں گی۔ ان کے سلیقے کو تو خیر میں کبھی پہنچ ہی نہیں سکتی۔ بڑے سے بڑے فائیو سٹار ہوٹلوں کے کھانے کا وہ ذائقہ نہیں جو امی کے ہاتھ کا ہے۔ خاص طور پر ان کے ہاتھ کے مونگرے…

ہائے کیا یاد آگیا۔ آج ان مونگروں کی وجہ سے مجھے بہت دکھ پہنچا۔ ہوا یوں کہ کوئی برتن نکالنے کے لیے میں نے کچن کی اوپری الماری کھولی تو ناگوار بدبو نے ناک کا استقبال کیا۔ میں گھبرا گئی۔ یااللہ! یہ یہاں کیا رکھا ہے؟ کرسی پر چڑھ کر الماری میں دیکھا تو ایک لفافہ نظر آیا جس میں ہری ہری کوئی چیز گل سڑ چکی تھی۔ چٹکی میں ناک پکڑ کر لفافہ اٹھایا اور کھول کر دیکھا تو یقین نہ آیا۔ لفافے میں گلے ہوئے مونگرے بھرے تھے۔

تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ چند دن پہلے فریدہ آنٹی نے مونگرے بھیجے تھے جو عمر صاحب نے اس خیال کے تحت چھپا دیے کہ نہ اماں کو نظر آئیں گے نہ و ہ پکائیں گی۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اب وہ مونگرے کچن کی گرمی میں ہوا بند الماری میں پڑے پڑے کھاد بن چکے تھے۔ میں بہت خفا ہوئی۔ خفگی کے عالم میں میں نے کہا: ”تم لوگ ناقدرے ہو۔ جنت کی سبزیاں ہیں یہ۔”

پاس کھڑا ابراہیم بڑبڑایا: ”لگتا ہے انہی کو کھا کے نکلے تھے حضرت آدم جنت سے۔”

عمر نے مچلنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا:” Somebody get me out of here.”

میں بہت ناراض ہوئی اور کوئی جواب دیے بغیر اپنے کمرے میں آگئی۔

تھوڑی دیر بعد عمر کمرے میں آیا۔ بڑی شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولا: ”مونگرے چھن گئے تھے میری بوڑھی ماں کے؟ میری ماں دکھی ہو گئی تھی؟”

میں کچھ نہ بولی۔ بس دکھی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ عمر کے چہرے پر شرمندگی، افسوس اور ہمدردی کے رنگ جھلکے اور اس نے آہستہ سے کہا۔ ”I’ll make it up to you.” یہ کہہ کر چلا گیا۔ مجھے کچن سے کھٹرپٹر کی آوازیں آتی رہیں۔ آدھے گھنٹے بعد ایک پلیٹ میں خوش رنگ چاول لے آیا اور جھک کر مجھے پیش کیے۔ ”یہ آپ کے لیے چکن بریانی بنا کر لایا ہوں۔” میں نے دیکھا تو بون لیس چکن کے بے حد مزے دار مصالحے دار چاول تھے۔ ساتھ ٹھنڈی شکنجین کا گلاس۔ میں خوش ہو گئی۔ عمر نے میرا سر چوما، شفقت سے تھپکا اور چلا گیا۔

مامتا بھی کتنی عجیب چیز ہے۔ کبھی اولاد کو ماں سے ملتی ہے اور کبھی ماں کو اولاد سے۔

شام کو واک کے لیے نکلی تو گھر کے ساتھ والے خالی پلاٹ میں کچھ جانے پہچانے سے پودے پر نظر پڑی۔ غور سے دیکھا تو بھنگ کا پودا تھا۔ تجسس سے میں نے گرین بیلٹ پھلانگی اور آگے گئی تو کیا دیکھتی ہوں پورے پلاٹ میں بھنگ کا کھیت لہرا رہا تھا۔

جس زمانے میں میں اپنی دوست کے ساتھ FCC کالونی کے پارک میں واک کے لیے جایا کرتی تھی، ان دنوں میں ہمیں یہ پودا وہاں نظر آیا تھا۔ میری دوست آرٹسٹ ہے۔ اس کی نظر اس پودے پر پڑی تو بولی: ”کتنا خوبصورت پودا ہے۔ اس کی پینٹنگ بنانی چاہیے۔”

ہم نے مالی کو بلایا اور درخواست کی کہ یہ پودا ہمیں توڑ دے، ہمیں چاہیے۔ جواب میں وہ شرما شرما کر ہنسنے لگا۔ ہم بہت حیران ہوئے اور پوچھا کہ بھئی کیا بات ہے؟اس قدر ہنستے اور شرماتے کیوں ہو؟ کھل کر بتائو، رازِ نہانی ذرا نہ چھپائو۔یہ سن کر مالی نے شرمانا اور ہنسنا بند کیا اور ہمیں بتایا کہ باجی یہ بھنگ کا پودا ہے اور اس سے بھنگ ایسے ہی نہیں بن جائے گی، بڑا لمبا پروسیجر کرنا پڑے گا۔ ہاں اس کے پکوڑے آپ بنا سکتی ہیں۔ البتہ ان سے نشہ نہیں چڑھے گا، بس ہلکا سا سرور ہو گا۔

Loading

Read Previous

قرنطینہ ڈائری ۔ سولہواں دن

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ اٹھارواں دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!