فتور
ماہ وش عدیل کرمانی
”اری نابکار! کچھ تو کام کر لیا کر۔ سارا بوجھ ماں کے کندھوں پر ڈال دیا ہے، کام کی نہ کاج کی دشمن اناج کی، کھا کھا کر مسٹنڈی ہو گئی ہے۔” ماجدہ بیگم چھت کی سیڑھیوں کے ذریعے صحن میں آتا بارش کا پانی خشک کرنے میں مگن ہونے کے ساتھ سا تھ بیٹی کو کوس کر اپنا فرض بھی پورا کر رہی تھیں۔
مگر ان کی صاحبزادی شبانہ عرف شبو صاحبہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر اس طوفانی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھیں۔
”اب چھت پر کھڑی بھیگتی ہی رہے گی کیا؟ نیچے آجائو یسے بھی کالی بھینس ہے پوری، جو بجلی گر پڑی تجھ پر تو سر پر جو چار بال ہیں وہ بھی گر جائیں گے۔” لیکن ان کی باتوں کا کہاں اثر ہونا تھا۔
دراصل چھت پر سیر سپاٹے کی وجہ نہ صرف موسلادھار بارش تھی بلکہ گردو نواح کی چھتوں پر کھڑے دو چار چھڑے چھانٹوں کی موجودگی بھی تھی اور دوسری طرف کے احوال یہ تھے کہ وہ بھی بارش سے زیادہ شبو سمیت مزید کچھ دوشیزاؤں کی بارش کے باعث ”ٹرانسپیرنسی” کے جلوے سے مستفید ہونے میں مصروف تھے۔ اللہ اللہ کرکے بارش رکی اور شبو پکوڑے پکوڑے کے نعرے لگاتے نیچے آئی۔ دوسرے لفظوں میں عرش سے فرش پر آئی اور فوراً اپنا آتشی اور زرد جوڑا نکال کر پہنا، میچنگ کی لپ سٹک لگائی ، خود پر پرفیوم انڈیلا، گیلے بالوں کو شانو پر پھیلائے بے نیازانہ انداز میں دوپٹے کو بے وقعت سی چیز سمجھ کر کندھے پر ڈالا اور پکوڑے کی پلیٹ اٹھا جو کے اماں تل رہی تھیں، یہ جا وہ جا۔
سلیم موبائل پر کوئی رومانی گیت سیٹ کرتے ہوئے بے تابی سے اس کا انتظار کر رہا تھا، کیوں کہ شبانہ اسے پہلے ہی یہ سگنل دے چکی تھی کہ پکوڑوں کے ساتھ اپنے درشن کروانے اس کے غریب خانے پر تشریف فرما ہونے والی ہے۔ لہٰذا سلیم کی باچھیں کھلی جا رہی تھیں اور پھر اسے دیکھ کر بلکہ سجے سنورے دیکھ کر وہ خود بھی کھل گیا۔ وہ کچھ دیر تک سلیم کی بہن اور اپنی نامزد نند فوزیہ سے باتیں کرنے کے بعد شاداں و فرحاں گھر واپس آئی جہاں اس کی والدہ ماجدہ اسے آڑے ہاتھوں لینے کی تیاری کر رہی تھیں مگر ان کی کس نے سننی تھی۔ اس نے جھٹ سے ریڈیو آن کیا جہاں برسات کے گانے اِس کی سماعتوں میں رس گھولنے کے لئے بے تاب تھے جب کہ ماجدہ کی سماعتوں میں زہر گھلنے لگا تھا۔
اس گھر میں کل تین افراد تھے۔ ایک بوڑھی والدہ ماجدہ جو سارا دن بڑبڑاتی رہتیں، ایک ہنسوڑ طبیعت کی شبانہ جس کا دوسرا نام چکنی مٹی کا گھڑا تھا اور اس کا ایک بھائی رشید، جو صبح گھر سے نکلتا اور رات گئے تک لوٹتا، وہ سنار تھا۔
آمدنی اتنی تھی کے گھر کا خرچہ تو کسی طرح پورا ہو ہی جاتا تھا مگر اسے اپنی اور شبانہ کی شادی کی بڑی فکر رہتی تھی اس لئے دن رات ایک کر رہا تھا۔ البتہ سارا دن گھر میں کیا گل کھلتے ہیں اس بات کی کوئی اسے فکر تھی نہ ذکر تھا۔ شبانہ نام کی چڑیا محلے کے ہر آنگن میں چہچہاتی پھرتی اور ہر روز ایک نئی ذائقے کا گرم مسالا اپنی لگائی بجھائی کی مکس پلیٹ پر چھڑک کر سارے محلے میں بانٹتی پھرتی۔
”اری ہڈحرام اُٹھ جا بارہ بج رہے ہیں، سورج منہ کو آ جاتا ہے اور یہ اوندھی پڑی رہتی ہے۔ سارے گھر میں نحوست پھیلا رکھی ہے۔ نہ نماز کی نہ روزے کی۔ بس اپنے حسناپے میں غرق رہتی ہے یا بستر توڑتی ہے۔” ماجدہ نے اسے ہانکا۔
”اماں تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے مصلے سے اٹھتی ہی نہ ہو۔ آئیں بڑی تہجد گزار۔” وہ منہ بسورتی چارپائی سے اٹھی اور اماں کو دو ٹوک سناتی کمرے سے نکل گئی اور اماں حسبِ معمول اس کی اس خوش گفتاری پر کُڑھتی کام میں جت گئیں۔ اپنے ہی ہاتھوں انہوں نے اس پتنگ کو ڈھیل دی تھی پھر کس کے سامنے اپنی پریشانی کا رونا روتیں؟
”اچھا سُن ذرا! ثابت مسور کی دال تو پکا لے۔ دیکھ میں کپڑے دھو رہی ہوں، اس واشنگ مشین کو جانے کیا بیماری لگ گئی ہے اب ہاتھ سے کپڑے دھونے پڑیں گے سارے۔” باورچی خانے میں چائے نکالتے ہوئے شبو نے ناگواری سے اماں کا یہ فرمان سنا۔
”لو اب میں بیٹھ کر ثابت مسور کی دال بنائوں؟ کتنی بار کہا ہے دوپہر کے کھانے کا مجھ سے مت کہا کرو۔” اس کی جلی بھنی آواز اماں کے کانوں سے ٹکرائی۔
”دوپہر کے کھانے کا تو ایسے کہہ رہی ہے جیسے رات کا کھانا بلا نا غہ خود بناتی ہے موئی۔” انہوں نے سوچا اور اٹھ کر برآمدے میں آگئیں جہاں وہ پھسکڑا مار کر بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی۔
”کیوں ری؟ کیا اپنے سسرال میں اپنے ساتھ کوئی غلام لے جائے گی یا مجھے ہی لے جائے گی۔”
”نہیں کوئی نہیں جائے گا میرے ساتھ ہڈیاں تڑوانے کے لیے۔” اس نے اطمینان سے جواب دیا۔
”وہاں جاتے ہی سب کی کھٹیا کھڑی کر دوں گی۔”
”دوسروں کی کھٹیا کھڑی کرے گی؟ صبح اپنی ہی کھٹیا سے اٹھنے میں تجھ کو موت پڑ جاتی ہے۔” اماں بڑبڑائیں۔
”میں تو صاف کہہ دوں گی کہ میرے آنے سے پہلے اس تندور کا عذاب جس کے سر پر تھا وہی سنبھالے گا اور صفائی کوئی تو کرتا ہوگا تو کیا اب اس کو انڈے دینے ہیں میں تو جس کام کے لئے لائی گئی ہوں وہی کروں گی یعنی اپنے مجازی خدا کی دلجوئی۔” مستقبل کی صورتِ حال کا خاکہ بناتے ہوئے اور باقاعدہ ایکٹنگ سے نمونہ اپنی ماں کے سامنے پیش کرنے کے بعد وہ خود کو زبردست داد دیتی ہوئی دوبارہ دن کے ڈیڑھ بجے ناشتے میں مصروف ہو گئی۔
ماجدہ کو تو یہ فکر تھی کہ ان ساری باتوں کی نوبت تو اس وقت آئے گی جب یہ سسرال جائے گی۔ ایک رشتہ آیا بھی تھا اس کا مگر لوگ خاصے شریف تھے۔ اب ظاہر ہے شریف لوگ تھے تو شبو کو کس طرح پسند کر لیتے۔ اس نے بھی تو ان لوگوں کو اپنے وہ جو ہر دکھائے تھے کہ سر پر پیر رکھ کر بھاگے تھے جیسے گولی کی آواز سے گھوڑا بدک جاتا ہے۔ بھلا اس کی ماں کو کیا خبر تھی کہ پڑوس والے سلیم کی آس پر وہ یہ سب کر رہی ہے جس نے اپنی اماں کو منانے کا وعدہ کر رکھا ہے شبانہ سے۔
شبانہ اپنی زندگی کی تیس بہاریں دیکھ چکی تھی جب کہ اس کی اماں اس کی پیدائش کے بعد سے خزاں ہی دیکھ رہی تھیں کیوں کہ شبانہ کے بچپن میں ہی اس کے ابا چل بسے تھے۔ خیر وہ وقت گزر گیا کسی طرح مگر اب شبانہ کی بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ اماں کی فکر میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
چناں چہ وہ اس جنجال کو جلد از جلد اپنے گھر کا کر دینا چاہتی تھیں مگر جو نصیب… مجال ہے جو کوئی ڈھنگ کا رشتہ آجائے۔ بہر حال شبانہ نے اپنی دانست میں ایک کاری گری سرانجام دی تھی کہ اپنی عمر کے حساب سے 5 سے 6 سال چھوٹی لڑکیوں سے دوستی کر رکھی تھی۔ ان کے جھرمٹ میں وہ بھی 24 سے 25 کی لگنے کی پوری کوشش کرتی تھی۔
حاجرہ اس کی اچھی سہیلی اور رازدان تھی۔ شبانہ اسے دھڑلے سے دوچوٹی والی سلیم کی سالی کہہ کر پکارتی تھی یہ فقرہ اس نے خود سکول کے زمانے سے ہی مشہور کر رکھا تھا۔ جب سلیم اور شبانہ کے سفارتی تعلقات کی بحالی کا چرچاعام ہوا تھا اور سالیوں کی تعداد میں اضافہ اور پھر محلے کی ہر محفل میں بھی یہی سالیاں پیغام رسانی کا کام کیا کرتی تھیں۔
پٹ سے دروازہ کھلا، مگر وہاں سلطان راہی مع مولا بخش نہیں بلکہ اماں راشن اٹھائے کھڑی تھیں، اور ان کا خون برآمدے کامنظر ملاحظہ کرتے ہی کھول گیا تھا۔ شبانہ صاحبہ مزے سے کھیرے کی قاشیں آنکھوں پر رکھے تخت پر کسی ملکہ کی طرح لیٹی ہوئی تھیں، ساتھ ہی جگالی بھی کر رہی تھیں شاید کھیرے کے ساتھ بھرپور انصاف کیا جا رہا تھا۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے ایک نظر میں اماں کی آمد کا جائزہ لیا اور پھر پہلے والی پوزیشن سنبھال لی۔ باورچی خانے میں سے کچھ جلنے کی بو اور کھڑ پٹر کی آواز سے اماں سیدھی اس طرف گئیں کہ اللہ جانے کون گھس آیا ہے؟ پر وہاں قدم رکھتے ہیں ان کی مرغی رانی پھڑپھڑاتی ہوئی باہر نکل گئی۔ سارے برآمدے میں رانی کی پھیلائی ہوئی گندگی کے نقش و نگار دیکھ کر ان کا پارہ مزید چڑھ گیا۔
”موئی یہ سب کیا ہے؟” انہوں نے شبانہ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
”اری بد بخت دروازے کی کنڈی لگائے بغیر ہی پڑی ہوئی ہے۔ دیکھتی نہیں زمانہ کتنا خراب ہے اور تو۔”
”افوہ ہ ہ…!”
شبانہ کی ایک طویل سی اف کا مطلب یہ تھا کہ حسبِ معمول وہ تقریر سننے کے موڈ میں نہیں ہے۔
”ایک تو یہ آگئیں۔” وہ بڑبڑائی۔
”اچھا سن! رسید کہاں ہے؟”
ماجدہ نے تخت کے سرہانے رکھی صراحی سے پانی نکالتے ہوئے پوچھا۔
”لو بتائو بھلا میں پچھلے ہفتے کی راشن کی رسید سنبھالے رکھوں گی کیا اب تک؟ پھینک دی میں نے وہ نری نحوست۔” وہ جلے کٹے انداز میں بولی۔
”جسے دیکھ کر تم جلتی کڑھتی رہتی ہو کہ اتنا بھر بھر راشن آتا ہے اور پھر مجھے کوسنے دیتی ہو کہ کتنا کھاتی ہے۔”
”اپنی ہی ہانکے جائے گی بکواسی۔ ماں کا مذاق بناتی ہے بے سرم میں اپنے رسیدے کا پوچھ رہی ہوں ابھی تک نہیں آیا؟ انہوں نے ادھر ادھر جھانکتے ہوئے کہا۔”
”صبح تو کہہ کر گیا تھا کہ آج جلدی آئے گا اماں رشید بھائی کو تم نے رسید بنا کر رکھ دیا ہے۔”
شبانہ ہنسی دباتے ہوئے بولی۔ اسی دوران رشید بوتل کے جن کی طرح نمودار ہوا۔
”آہا…! آگیا میرا رسیدہ۔” گھر میں گھستے ہی اماں اس کی بلائیں لینے لگیں۔
”اماں تمہارا رسیدا اب عمر رسیدہ ہوتا جا رہا ہے کچھ سوچو بھی اس کے بارے میں؟”
رشید کی اس بات پر شبانہ کھی کھی کرنے لگی اور اماں نے لاحول بھیجا۔
”اؤئے مرد اور گھوڑے کبھی بوڑھے ہوئے ہیں؟ اللہ بخسے اپنے باپ کو نہیں دیکھا تو نے؟ سٹھیانے کے قریب تھا مگر دوسری سادی کے لئے پر تول رہا تھا جو ابھی حیاتی باقی رہ جاتی اس کی تو دو چار کھوتے اس گھر میں ہماری زندگی جہنم بنا رہے ہوتے۔” وہ ناممکن واقعات کی منظر کشی کرنے لگیں۔
”لو یہ تم بھی کہاں پہنچ گئیں اماں؟” رشید کے دبے ہوئے غصے میں ہلکی سی کھول آئی۔
”ہائے پرانے لوگ صحیح کہہ گئے وکھت ہی کھوٹا ہو جائے ہے لونڈا مرا جا رہا ہے سادی کرنے کو۔ اب خود بیل منڈھیر چڑھنا چاہے تو کوئی کیا کرے؟” اماں سر پہ ہاتھ رکھے بولے جا رہی تھیں۔
”اماں تم گھوڑے اور بیل کو رہنے دو رشید کی شادی کا سوچونا۔” اس بار شبانہ بھی اماں کی مخبوط الحواسی پر چڑگئی۔
رشید کے لئے ایک لڑکی تو ان کی نظر میں پہلے ہی جچ گئی تھی۔ سو رشید کی بے قراری کے پیشِ نظر جھٹ پٹ رشتہ طے کر دیا گیا۔
رشتہ طے کرنے کے دو ماہ بعد ہی رشید نے شادی کی رٹ لگا لی۔ شبانہ نے روز ریڈیو پر شادی کے گانے لگانے شروع کر دئیے کہ اسی طرح اماں کی طرف سے پیش رفت ہو گی شادی کی تیاری میں۔
اور وہ دن بھی آگیا جب شادی کی تاریخ طے کرنے جانا تھا۔
”ہائے میں مر گئی. یہ کیا ہے سبو؟”
چمکیلی سی دوپہر میں بھڑکیلی سی شبانہ کو دیکھ کر اماں سینے پر ہاتھ دھرے رہ گئیں۔
”تیری بارات تو نہیں آ رہی پھر یہ سب کیا ہے موئی؟ اتنا گہرا اورنج کلر کا جوڑا چڑھا لیا غضب کی دھوپ میں دھکتا ہوا کوئلہ لگ رہی ہے ارے تجھے کس نے مسورہ دیا تھا کہ یہ پہن لے؟
وہ اسے بے نقط سنانے کے موڈ میں تھیں۔
”ابھی نہیں پہنوں گی تو کیا تمہاری عمر میں پہنوں گی ؟ ہمیشہ ٹوکتی رہنا مجھے بس اپنی خنس نکالنے کے لئے ہی تو۔ پیدا کیا تھا تم نے ؟ پہلے اپنی لال لگام دیکھ لو۔”
وہ اماں کے سراپے کو اوپر سے نیچے تک دیکھتی اور ہاتھ ہلا ہلا کر بولتی رہی۔
”کوئی خوشی کا موقع ہو مجھے گالیاں دیئے بغیر تو تمہارا کھانا ہضم نہیں ہوتا کلیجہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے مجھے ذلیل کرکے تمہارا۔”
زہر آلود لہجے میں بولتی ہوئی صراحی سے ٹکراتی کمرے کے اندر چلی گئی اور پھر آدھے گھنٹے بعد باقی ماندہ بنائو سنگھار کے ساتھ برآمد ہوئی۔
چند ایک رشتہ دار خواتین بھی آچکی تھیں اور ماں بیٹی کی مہابھارت کا نظارہ دیکھ رہی تھیں۔ ماجدہ بیگم کو اپنے ہی گھر میں منہ چھپانے کے لئے جگہ نہیں مل رہی تھی۔ بہر حال منہ چھپاتے چھپاتے ہی جانے کی تیاری مکمل کی۔ اسی دوران رشید نے اندر آکر سوزوکی کی آمد کا اعلان کیا اور شبانہ پھرتی سے مٹھائی کا ٹوکرا سنبھالے اماں کے پاس آئی۔
”اماں وہ… سلیم کے گھر والوں کو نہیں پوچھا تم نے کیا؟”
”آئے ہائے… آج کیا سادی ہے جو انہیں بلاوا دیتی؟ ویسے بھی وہ بلاوا دینے پر بھی نہیں آتے ہیں۔” انہوں نے چپل پاؤں میں اڑستے ہوئے کہا۔
”کیوں نہ آتے وہ لوگ؟” شبانہ پوچھے بغیر کہاں رہ سکتی تھی بھلا؟
فوجی (فوزیہ) کے سسرالی آرہے ہیں نا آج بلکہ اس کی ماں تو یہ کہہ رہی تھی کے فوجی (فوزیہ) کی نند سے سلیم کا رستہ (رشتہ) بھی ڈال دیا ہے۔ بات وات پکی ہو جائے گی آج۔” اماں جانے اور کیا کیا کہہ رہی تھی مگر اسے کہاں سنائی پڑتا۔ مٹھائی کا ٹوکرا وہیں اماں کے پاؤں پر چھوڑ دیا۔ وہ بلبلا کر رہ گئیں اور وہ سب چھوڑ چھاڑ دندناتی ہوئی کمرے میں واک آؤٹ کر چکی تھی۔
”کیا پخراٹ ڈالی ہے تم لوگوں نے؟” رشید غصہ دباتا ہوا اماں کی طرف آیا۔
”ارے دیکھ اس نامراد کو ؟ پہلے تو ایسے تیار ہوئی تھی جیسے رکھستی (رخصتی) ہے اس کی اور اب اچانک رونا دھونا نہ جانے کس کی میت کا سوگ منانے لگی ہے یہ۔”
”لاحول ولا… یہ کیسی نحو ست والی باتیں کر رہی ہو تم اس وقت۔” رشید نے قدرے جل کر کہا۔
”وہ تو ہے ہی ایسی رہنے دو تم اسے، تم جاؤ میں ہوں نا یہاں۔” وہ ان کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے باہر لے گیا۔ سوزوکی میں بٹھاکر گھر آیا تو اندر سے اٹھا پٹخ کی آوازیں آرہی تھیں۔ ایسے عذاب میں وہ کہاں بیٹھ سکتا تھا بھلا۔ دوبارہ چلا گیا گھر میں۔
کچھ ہی دیر میں شبانہ کمرے سے باہر آئی۔ گھر حسبِ توقع خالی تھا اور گلی میں بھی کوئی خطرہ نہ پا کر اس نے سلیم کے پاس جانے کا سوچا، پھر کچھ خیال کر کے رک گئی اور گلی میں کھیلتے ہوئے ایک بچے کو بھیج کر سلیم کو بلوایا۔ کچھ ہی دیر بعد سلیم اپنے گھر کے دروازے پر موجود تھا۔ اس کے گلے میں گلاب کا ہار لٹکتا دیکھ کر شبانہ کے دل میں کانٹے چبھے۔ اس نے سلیم کو گھر کے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ سلیم نے منع کیا تو وہ گھر سے نکلنے لگی۔ مارے خوف کے سلیم کو خود ہی آنا پڑا کہ کہیں وہ لڑکی ہنگامہ ہی نہیں کردے۔
”کیا بے چینی ہے تمہیں؟”
شبانہ اور وہ ایک دوسرے کو غیر معمولی تیاریوں پر اوپر سے نیچے تک دیکھ رہے تھے۔
”یہ میں کیا سُن رہی ہوں سلیم؟ تمہاری بات طے ہو رہی ہے آج؟” وہ شیرنی کی طرح دھاڑی۔
”شبو! اماں نے زبردستی مجھے اپنی جان کی قسم دے دی ہے۔ تمہارے لئے وہ کسی صورت راضی نہیں ہودے گی۔”
”بھاڑ میں گئیں تمہاری اماں اور ان کی قسمیں…” وہ دانت پیستے ہوئے کہہ رہی تھی۔
چپ ہو جا! ایک لفظ نہیں سنوں گا میں اپنی ماں کے خلاف۔ تمہاری زبان اور باتیں شروع سے ہی بے لگام ہیں۔ شاید اسی لئے میری اماں جی نے…” سلیم کہتے کہتے رکا۔
شبانہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ سلیم یوں اسے آئینہ دکھا سکتا ہے۔ جس طرح کھڑے کھڑے اس نے ذلیل کیا تھا سے شبانہ کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہنسی ہنسی میں دیئے گئے جھانسے پر سلیم جیسے بھتنے کا سر توڑ دے۔
”ایسا نہیں کر سکتے تم پھسڈی کہیں کے۔” وہ جانے کے لئے مڑا تبھی شبانا نے اس کا ہاتھ پکڑ کے کہا۔
”دیکھو شبو! ہماری عزت اسی میں ہے گو کہ میں میں نے بہت کچھ سنا تھا تمہارے بارے میں پھر بھی اس پر یقین نہیں کیا اور اماں جی سے تمہارے لئے ضد کی مگر تمہارے متعلق انہوں نے بس اتنا ہی کہا کہ جس لڑکی نے کبھی اپنی ماں کو سکھ نہیں دیا وہ کسی اور کی زندگی میں کیا سکھ لائے گی میں جانتا ہوں وہ میری خوشی چاہتی ہیں، مگر نا جانے کیوں تمہارے لئے راضی نہیں ہوتیں اور میں خود غرض نہیں ہوں مجھے ہر حال میں تم سے زیادہ اپنی جنت عزیز ہے۔” سلیم نے اپنے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آخری الفاظ کہے۔
”چھوڑوں گی نہیں، زندگی عذاب کر دوں گی میں تمہاری۔” وہ چلائی تھی۔
”کیا کرو گی؟”