عکس — قسط نمبر ۱۰

”ہاں یار تھکن ہے کافی… ابھی ابھی لاہور سے آیا ہوں… سارا دن بڑی مصروفیت رہی۔” شیر دل نے اسے ٹالنے کے بجائے جھوٹ بولنا زیادہ بہتر سمجھا تھا۔
”اچھا تو سوجاتے پھر بلکہ ابھی سوجاؤ۔” شہر بانو نے فور ی طور پر جیسے اپنے شوہر کی فکر کی۔
”ہاں سوجاؤں گا ابھی۔” شیر دل نے اسے ٹالنے کی کوشش کی۔ نیند تو آج اسے مر کر بھی نہیں آنے والی تھی۔ خالی گھر میں ماضی کی بازگشتوں کے گرداب میں چکرانے سے شہر بانو اور مثال سے باتیں کرتے رہنا بہتر تھا کم از کم عارضی طور پر ہی سہی لیکن وہ خود کو کچھ پرسکون رکھ پارہا تھا۔
”سوجاؤ۔” شہر بانو نے ایک بار پھر اسے ہدایت کی۔
”سوجاؤں گا۔” شیر دل نے پھر ٹالا اور تبھی اس نے شرمین کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا۔
”ممی سے بات کروگے؟” شہر بانو کو ایک دم پتا نہیں کیا خیال آیا۔ شیر دل فوری طور پر ”نہیں” کہنا چاہتا تھا لیکن کہہ نہیں سکا۔




”ہاں کروادو۔” اس نے اپنے لہجے میں کچھ گرم جوشی پیدا کرنے کی کوشش کی جو اس کے اور شرمین کے درمیان کبھی بھی نہیں رہی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ شرمین کے لیے اس کی ممی کی ناپسندیدگی تھی۔ان کی شادی کے اتنے سال بعد بھی شرمین اور اس کی فیملی میں عجیب سی غیریت اور اجنبیت کی دیواریں تھیں اوریہ دونوں طرف سے تھیں اور دونوں طرف سے ہی اسے گرانے کی کوشش نہیں کی گئی تھی۔ شیر دل کی فیملی خاص طور پر اس کی ماں شرمین کو اپنے اکلوتے بھائی کی موت کا ذمے دار سمجھتی تھی… شیر دل کی رائے اس بارے میں بالکل محفوظ تھی۔ وہ نیوٹرل تھا یا نہیں لیکن اس نے شہباز کی موت کے حوالے سے ہونے والی کسی گفتگو میں کبھی حصہ نہیں لیا تھا۔ کبھی کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ شادی سے پہلے اس کی خاموشی کی وجوہات اور تھیں۔ شادی کے بعد ان وجوہات میں شہر بانو کی اپنے باپ سے attachment اور کسی تبصرے سے اس کی ممکنہ طور پر ہرٹ ہوجانے کی وجہ بھی شامل ہوگئی تھی۔ شہر بانو اور شیر دل کے درمیان اتنے سالوں میں شہباز کا ذکر بہت کم آیا تھا بلکہ نہ ہونے کے برابر آیا تھا۔شیر دل جانتا تھا شہباز اپنی اکلوتی بیٹی کے بارے میں جنون کی حد تک پوزیسو تھے اور شہر بانو بھی شہباز کی شیر دل سے خاص attachment کے حوالے سے تھوڑی بہت یادیں رکھتی تھی اس کے باوجود ان دونوں نے کبھی شہباز کو ڈسکس نہیں کیا تھا۔
”کیسے ہو بیٹا؟” شرمین نے علیک سلیک کے بعد شیر دل سے وہی رسمی سوال کیا۔ شیر دل نے ہمیشہ والی تمیز اور احترام کے ساتھ جواب دیتے ہوئے ان سے ان کا حال پوچھا۔ چند منٹ دونوں کے درمیان بات چیت ہوتی رہی پھر شہر بانو کو ایک بار پھر شیر دل کے آرام کا خیال آگیا تھا۔ اس بار شیر دل نے ا سے ٹالنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اسے خداحافظ کہہ کر آف لائن ہوگیا تھا۔
شرمین شیر دل سے بات کرنے کے بعد بھی وہیں بیٹھی رہی تھی۔ ایک عجیب سی تکلیف اور اذیت تھی جو ہر بار اسے شیر دل کو دیکھتے ہی ہوتی تھی۔ وہ شکل وصورت اور قد کاٹھ میں شہباز سے بہت مماثلت رکھتا تھا اور ہر بار اسے دیکھتے ہوئے اسے شہباز یاد آتا تھا۔ اتنے سال گزرجانے کے بعد بھی… ایک دوسرے شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کے باوجود بھی… اور شہباز کے گھناؤنے روپ کے بارے میں جاننے کے بعد بھی وہ شہباز سے نفرت نہیں کرسکی تھی۔ بس اس نے اسے زندگی سے نکال دیا تھا کیونکہ اس کے ساتھ رہنا شرمین کے لیے ناممکن تھا۔ وہ اس سے بیک وقت محبت اور نفرت کررہی تھی اور اس سے پہلے کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھودیتی وہ اس کی زندگی سے نکل آئی تھی۔
”کیا سوچ رہی ہیں ممی؟” وہ شہر بانو کی آواز پر یک دم چونکی تھی۔
” کچھ نہیں… شیر دل پہلے سے زیادہ اسمارٹ ہوگیا ہے۔” شہر بانو نے مسکرا کر اپنے ہینڈسم میاں کے بارے میں ماں کا تبصرہ فخریہ انداز میں سنا۔ وہ جانتی تھی شیر دل سے شادی کی شدید مخالفت کرنے کے باوجود شرمین شیر دل کو پسند کرتی تھی اور شادی کے اتنے سال گزرنے کے بعد یہ پسندیدگی بہت بڑھ گئی تھی۔ شیر دل نے شہر بانو کو بہت خوش رکھا ہوا تھا اور شرمین کے لیے اس سے زیادہ مطمئن کرنے والی کوئی اور چیز نہیں ہوسکتی تھی۔
”تم اس کے ساتھ بہت خوش ہونا؟” وہ شرمین کے سوال پر مسکرادی تھی۔
”بہت ایک ایسا لفظ ہے جو میری خوشی کے لیے بہت چھوٹا ہے ممی۔ میں جانتی ہوں آپ کہیں گی آئیڈیل کچھ نہیں ہوتا لیکن میں اس کے ساتھ ایک آئیڈیل زندگی گزاررہی ہوں۔ ویسی زندگی جیسی کبھی میں پاپا کے ساتھ گزارتی تھی۔ ”وہ یہ مثال نہیں دینا چاہتی تھی لیکن شہر بانو کو احساس بھی نہیں ہوا کب اس کے لاشعور نے اسے دھوکا دے دیا تھا۔ شرمین کے چہرے پر مسکراہٹ یک دم غائب ہوگئی تھی۔ لاؤنج میں کچھ دیر کے لیے ایک عجیب مجرما نہ سی خاموشی چھائی رہی پھر شرمین نے کہا۔
”اللہ نہ کرے تم کبھی اس کے ساتھ ویسی زندگی گزارو جیسے میں نے تمہارے پاپا کے ساتھ گزاری تھی۔ اللہ نہ کرے شیر دل کبھی تمہارے پاپا جیسا نکلے۔”
”داؤد آج آرہا ہے؟” شہر بانو نے یک دم ماں کی بات کاٹ دی تھی ۔شرمین جانتی تھی وہ اس کا احتجاج تھا وہ شہباز کے بارے میں اگر کوئی اچھی بات نہیں سنتی تھی تو پھر کوئی بری بات بھی نہیں سن سکتی تھی۔ شہباز حسین ان کے درمیان خاموشی کی ایک بڑی اونچی دیوار کھڑی کر دیتا ہے جس کے پار ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے بھی وہ ایک دوسرے کو نہیں دیکھ پارہی تھیں۔
”ہاں آج رات کو ڈنر پر انوائیٹڈ ہے یہاں، پرسوں کی فلائٹ سے ڈلاس جارہا ہے۔” شرمین نے موضوع بدل کر جیسے اس کے احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیکے تھے۔
Divorce” ہوگئی ہے اس کی ؟” شہر بانو نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”دو ہفتوں تک ہوجائے گی۔” شرمین نے بتایا ۔داؤد شرمین کے دوسرے شوہر فاروق کا بھانجا تھا۔ شہر بانو اور وہ ہائی اسکول تک کلاس فیلو رہے تھے اور شیر دل سے شادی کے تنازعے پر اس کے لیے جس most eligible bachelor کا نام آیا تھا وہ اسی کا تھا۔ وہ شرمین کا چہیتا تھا۔ شہر بانو کویہ ماننے میں عار نہیں تھا کہ داؤد کسی کا بھی چہیتا ہوسکتا تھا۔ شیر دل اگر اس کی زندگی میں نہ آیا ہوتا تو وہ داؤد جیسے لڑکے کے ساتھ خوشی خوشی شادی کرلیتی ۔ان دونوں کی آپس میں اتنی واضح ذہنی مطابقت تھی لیکن شیر دل اس کی زندگی میں بڑے صحیح وقت پر آیا تھا۔ وہ شادی ہوجانے کے بعد بھی کبھی داؤد سے نوک جھوک میں یہ بات کہہ دیتی تھی اور داؤد جواباً اسے کہا کرتا تھا۔”صحیح وقت پر یا غلط وقت پر؟” اس بار بڑے لمبے عرصے کے بعد داؤد سے اس کی ملاقات ہونے والی تھی۔




”مجھے کبھی اندازہ نہیں ہوا کہ داؤد جیسے شخص کی شادی بھی ناکام ہوسکتی ہے۔” شہر بانو نے کہا۔ ”قصور کس کا تھا؟” اسے جیسے عجیب سی کرید ہوئی تھی۔
”شادی کبھی بھی صرف ایک شخص کی وجہ سے ناکام نہیں ہوتی زارا اور اس کی اچھی نبھ رہی تھی۔ پھر پتا نہیں کیا ہوااچانک سے ہم لوگوں نے جھگڑوں کے بارے میں سننا شروع کردیا اور پھر یک دم پتا چلا کہ زارا divorce کے لیے کیس فائل کردیا۔” شرمین نے اسے تفصیلات بتانی شروع کیں۔
”داؤد پچھلے کئی سالوں میں کچھ زیادہ ہی کیریئر اور ینٹڈ ہوگیا تھا اس کا اثر اس کی شادی پر پڑنا ہی تھا خاص طور پر اگر بیوی بھی اسی طرح کی ہائی پروفائل جاب پر ہو تو… ”شہر بانو اس کی بات سنتے ہوئے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی تھی۔ شرمین کچھ عرصے پہلے ہی کیلی فورنیا کے اس علاقے میں شفٹ ہوئی تھی اور شہر بانو، فاروق اور شرمین کے اس نئے اور بے حد وسیع وعریض گھر میں پہلی بار آئی تھی۔قد آدم کھڑکیوں سے باہر برسنے والی اس بارش سے وہ بے حد عجیب انداز میں محظوظ ہورہی تھی۔
شرمین اب مثال کی طرف متوجہ ہوگئی جوایک گیم پکڑے اس کے پاس کچھ دکھانے آئی تھی ۔شرمین نے اس کا چہرہ چومتے ہوئے اسے گود میں بٹھالیا۔
”اس کی شکل بالکل تم سے ملتی ہے جب تم چار سال کی تھیں تو تم بھی بالکل مثال کی طرح لگتی تھیں۔” شرمین نے مثال کے اصرار پر TV آن کرتے ہوئے شہر بانو سے کہا۔ شہر بانو مسکرادی۔
”شیر دل بھی یہی کہتا ہے… وہ تو کہتا ہے مثال اور میں اب بھی بالکل ایک جیسی لگتی ہیں اسے… بلکہ اسے لگتا ہے مثال مجھ سے زیادہ سمجھدار ہے۔ ” شرمین شہربانو کے پیار بھرے شکوے پر ہنس دی۔ٹی وی پر بچوں کے چینلزپر مثال کے لیے کوئی موزوں کارٹون پروگرام ڈھونڈتے ہوئے وہ ایک چینل پر چلنے والی سنو وائٹ اور سات بونوں کی animated فلم پر رک گئی تھی۔ مثال گیم چھوڑ کر ٹی وی کی طرف متوجہ ہوگئی۔ کھڑکیوں سے باہر جھانکتی ہوئی شہر بانو نے بھی سنو وائٹ کے کسی جملے پر گردن موڑ کر ٹی وی دیکھا اور پھر اسے جیسے یک دم کچھ یاد آیا تھا۔
”ممی آپ کو پتا ہے ہماری پچھلی پوسٹنگ جہاں تھی اس گھر میں بونے تھے… real life dwarfs ”شرمین کا چہرہ منٹوں میں زرد پڑگیا تھا۔
”کس گھر کی بات کررہی ہو تم؟” شہر بانو نے بے حد حیرت سے ماں کا چہرہ دیکھا۔ اس نے ماں کے چہرے پر جو تاثرات دیکھے تھے وہ انہیں کبھی بھول نہیں سکتی تھی۔
”آپ کو بتایا تو تھا میں نے شیر دل کی پچھلی پوسٹنگ کے بارے میں۔”
”تم نے کہا تھا تم لوگ ریسٹ ہاؤس میں رہوگے جب تک متبادل انتظام نہیں ہوجاتا۔” شرمین فق رنگت کے ساتھ اس سے کہہ رہی تھی۔
”ہاں لیکن پھر ہم اسی سرکاری گھر میں شفٹ ہوگئے تھے۔ شیر دل نے مجھے کہا تھا کہ میں آپ سے جھوٹ بول دوں کہ ہمیں کوئی اور گھر مل گیا ہے رہنے کے لیے۔” شہر بانو کو بات کرتے ہوئے اندازہ ہوا کہ شرمین عجیب گم صم حالت میں اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے اس کی بات سن رہی تھی۔
”کیا ہوا؟” وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔
”کچھ نہیں… میں اس گھر کے بارے میں سب جانتی ہوں۔” شہر بانو نے یک دم شرمین کو بڑ بڑاتے ہوئے سنا۔ اسے ماں کی بات پر جھٹکا لگا تھا۔
”آپ کیسے جانتی ہیں؟” اس نے بے ساختہ ماں سے پوچھا اور پھر ماں کے کچھ کہنے سے بھی پہلے اسے جواب مل گیا تھا۔
”پاپا وہاں پوسٹڈ رہے تھے کیا؟” اس نے سرسراتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
شرمین نے جواب نہیں دیا تھا لیکن شہر بانو نے اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک سیلاب دیکھا تھا۔
……٭……




Loading

Read Previous

ہم آہنگ — حنا نرجس

Read Next

عکس — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!