عکس — قسط نمبر ۱۰

اپنے تنے ہوئے جسم کو حتی الامکان ریلیکس کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایبک نے پہلی بار اس آئینے کو دیکھا… وہ اب بھی ویسے ہی وہاں کھڑا تھا… اپنے اسی استقبالی ،خیر مقدمی انداز میں… اسی غرور اور طنطنے کے ساتھ… اسی پراسراریت میں لپٹے جس نے پہلی بار ایبک کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا۔ برآمدے میں قدم بڑھاتے ہوئے اس نے آئینے پر ایک نظر اور دوڑائی تھی۔
اس گھر میں اس کی آمد 26 سال بعد ہوئی تھی اور ان 26 سالوں کو اس نے جیسے ایک مونو سیکنڈ میں کیلکولیٹ کرلیا تھا۔ گھر کے اندر ونی دروازے کو اس کے انتظار میں کھڑے ملازم نے کھولتے ہوئے اسے سلام کیا تھا۔ اس نے سانس روک کر اس دروازے سے اندر قدم رکھا تھا۔ اس کا ماتحت عملہ اس کے ہمراہ تھا۔ اس کا پی اے اس گھر کی تفصیلات سے اسے آگاہ کررہا تھا۔ایک لمحے کے لیے ایبک کا دل چاہا وہ اسے روک دے… اسے اس گھر کے تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ گھر اس کی یادداشت کا وہ انمٹ حصہ تھا۔ جسے کھرچ کھرچ کر مٹادینے کی ہر کوشش ناکام رہی تھی۔




ہال میں پہنچ کر چند لمحوں کے لیے اس کے قدم فریز ہوگئے تھے۔ وہ سیڑھیاں اب اس کے سامنے تھیں۔ سیڑھیاں چیخیں اور…
”وہ وہاں کچن کا دروازہ ہے۔” پی اے کا جملہ اسے جیسے کرنٹ کی طرح لگا تھا جو اسے حال میں واپس لے آیا تھا۔ اس نے چونک کر ان سیڑھیوں سے نظریں ہٹائیں اور پی اے کو دیکھا۔
”پانی مل سکتا ہے؟ اپنے اعصاب اور حواس پر بیک وقت قابو رکھنے کی کوشش میں اس نے لگا تار بولتے ہوئے پی اے کو ٹوکا۔ پی اے فوری طور پر اس کی پیاس بجھانے کے انتظامات میں مصروف ہوگیا۔ اسے اپنے گرد جو خاموشی چاہیے تھی وہ چند منٹوں کے لیے ہی سہی لیکن مل گئی تھی۔ جسم میں سے گزرتی خوف کی ایک لہر کو اس نے جیسے خود کو ساکت رکھتے ہوئے earth کیا۔ غیر محسوس انداز میں اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچتے ہوئے اس نے ایک نظر اپنی کلائی پر ڈالی …اس کے رونگٹے کھڑے ہورہے تھے۔ اسی غیر محسوس انداز میں ہاتھ جھٹکتے اور نظریں چراتے ہوئے اس نے پانی کا وہ گلاس تھاما جو اس کے سامنے ایک ٹرے میں پیش کیا گیا تھا۔ اس نے ایک سانس میں وہ گلاس خالی کیا تھا۔ وہ گھر ایبک کو کس طرح ہیبت زدہ کرنے والا تھا یہ اس کے لیے کوئی اچنھبے کی بات نہیں تھی… اس نے وہاں پوسٹ نہ ہونے کی مقدور بھر کوشش کی تھی مگر کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ وہ آسیب زدہ گھر 26 سالوں کے بعد جیسے اسے ایک بار پھر اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔
”مجھے اس گھر کو ایک نظر دیکھنے دیں۔” اختر نے اس کے پانی کا گلاس رکھتے ہی دوبارہ بولنا شروع کیا ہی تھا جب اس نے اسے ٹوک دیا اور قدم آگے بڑھادیے۔ ماتحت عملے نے کچھ حیران نظروں کا تبادلہ کیا لیکن پھر کچھ کہے بغیر اس کے ہمراہ ہولیے۔
گھر بہت تبدیل ہوچکا تھا لیکن وہاں موجود پرانی چیزوں میں سے کوئی بھی ایسی نہیں تھی جسے ایبک نے ایک ہی نظر میں نہ پہچان لیا ہوا۔ اسے رہائشی عمارت کا جائزہ لینے میں زیادہ دیر نہیں لگی تھی۔ اس گھر نے اس کی زندگی میں ideal اورidealism نام کی چیز کو چھین لیا تھا اور بہت سارے سوال دے دیے تھے جنہیں اس کا دماغ بہت سالوں تک کھوجتا رہا… الجھتا رہا… ناکام ہوتا رہا… اور پھر جب بالآخر اسے جواب ملا تھا تو بے یقینی کی ایک عجیب سی کیفیت نے اگلے کئی سال اسے اپنے حصار میں رکھا اور بے یقینی وہ واحد شے نہیں تھی جو بہت عرصے اس کے ہمراہ رہی تھی… ایک ناقابل بیان اذیت بھی… شرم اور دکھ کا ایک عجیب احساس بھی اور ان تمام احساسات کے درمیان چڑیا کا چہرہ بھی جو اپنی آنکھوں میں خوف اور دہشت لیے اسے دیکھ رہا تھا… صرف چند سیکنڈز کے لیے ملنے والی وہ نگاہ جس کا تصور بھی اسے ٹھنڈے پسینے دلانے کے لیے کافی تھا۔
اوپر والے فلور کے تقریباً تمام کمرے لاکڈ تھے۔ اس نے کسی کمرے کو نہیں کھلوایا… وہاں اب ایسا کچھ نہیں تھا جسے دیکھنے کی اسے خواہش تھی۔ اس گھر کا ماسٹر بیڈ روم بھی لاکڈ تھا اور صرف وہ واحد کمرا تھا جس کے دروازے کے باہر اس کے قدم چند لمحوں کے لیے فریز ہوئے تھے۔ ایک لمحے کے لیے اس کمرے میں جانے کی شدید خواہش نے اسے آن گھیرا تھا پھر اس نے اسی رفتار سے اس خواہش کو جھٹک دیا تھا۔
”باہر چلتے ہیں۔” اس نے جیسے منٹوں میں عمارت کے اندرونی جائزے کو مکمل کرتے ہوئے کہا۔ وہاں اندر کھڑے بہت سی چیزوں اور یادوں کا ایک سیلاب تھا جو اسے بہائے لیے جارہا تھا۔ اس نے اپنے وجود کو غرق ہونے سے بچانے کی جیسے ایک اور کوشش کی تھی۔




عمارت کے ارد گرد موجود لان پہلی نظر میں اسے ویسا ہی لگا تھا… اور دوسری نظر نے اسے وہ خار دار جھاڑیاں ،کھوکھلے ہوتے تنے اور سوکھے ہوئے پیڑ پودے دکھانے شروع کردیے تھے جو بظاہر اس تراش خراش کے دم پر کھڑے تھے جو کو یقینا اس کی آمد سے ایک دن پہلے کی گئی تھی۔ 26 سال پہلے وہ لان اس حالت میں نہیں تھا… نہ وہ لان نہ وہاں کے درخت اور پودے اور نہ ٹینس کا وہ کورٹ جس پر آخری میچ یقینا سالوں پہلے کھیلا گیا تھا… سب کچھ بوسیدہ اور خستہ حال تھا ان تکلیف دہ یادوں کی طرح جو اس کے اندر سر کنڈوں کی طرح سر نکالے ہمہ وقت موجود رہنے کے باوجود ایک لمبے عرصے سے وہ کاٹ اور چبھن کھوچکی تھیں جس نے اس کے بچپن کے ایک بڑے حصے کو بے حد بے رحمی سے لہولہان اور مسخ کیا تھا۔
”اس طرف سرونٹ کوارٹرز ہیں۔” پی اے نے اسے کسی رہنمائی کا انتظار کیے بغیر لان کے عقبی حصے میں کسی سدھائے ہوئے جانور کی طرح جاتے ہوئے دیکھ کر کچھ حیرانی کے ساتھ کہا۔ اس کو ایبک کے انداز میں اس عمارت کے لیے ایک عجیب سی fqmiliarity مانوسیت ،واقفیت نظر آرہی تھی۔
”پتا ہے۔” اس کے انداز میں واقعی ایک عجیب سی مانوسیت تھی اس گھر کے لیے… کوئی اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دیتا تب بھی اس کے لیے عمارت کے عقبی حصے میں آس جگہ جانا دشوار نہ ہوتا… اس کے قدم اب جس رستے پر تھے وہاں اس کی زندگی کی بہترین اور بد ترین یادیں بکھری تھیں۔
کچن کے عقبی دروازے سے کئی فرلانگ دور… عمارت کے بالکل عقب میں… وہاں اب وہ کوارٹر نہیں تھا… چند لمحوں کے لیے اس نے اپنے آپ کو اسی شاک اور بے بسی کی حالت میں پایا جوا س نے 26 سال پہلے اس رات محسوس کی تھی۔ وہ closure اب بھی نہیں ہوا تھا جس کی خواہش اسے وہاں تک لے آئی تھی… وہ آسیب اب بھی اس کے وجود کے اندر ہی رہنے والا تھا۔
……٭……
شیر دل پورا راستہ ایک پلان بی ڈھونڈتا آیا تھا اس آسیب سے لڑنے کے لیے جو اتنے سال ایک وہم نما خوف کی صورت میں اس کے وجود کے اندر پلتے رہنے کے بعد اب یک دم اس کے مد مقابل آگیا تھا… ایک بھیانک خواب کی صورت میں… وہ شاکڈ تھا… اسے شاکڈ ہی ہونا چاہیے تھا۔ بے یقینی کے عالم میں تھا… وہ بھی فطری بات تھی لیکن اس صدمے اور اذیت کی کیفیت کو وہ سمجھ نہیں پارہا تھا جس نے یک دم اسے جکڑ لیا تھا۔ اس کی فیملی ایک بہت بڑے کرائسس کا سامنا کرنے والی تھی اور اس کرائسس کی تمام جڑیں اس کی اپنی طرف جاتی تھیں۔
واپسی کا پورا رستہ وہ ماضی کے بارے میں سوچتا آیا تھا۔ لوگ کہتے ہیں دنیا گول ہے اور دنیا اس کے لیے واقعی گول ثابت ہوئی تھی۔
عکس مراد علی… اس ایک نام سے آگے وہ کچھ سوچ نہیں پاتا۔ اس کے ساتھ سالوں گزارنے کے بعد وہ اتنا بے وقوف کیسے ثابت ہوا تھا کہ اسے کبھی پہچان نہیں سکا۔ اس کے ایجنڈے کو کبھی نہیں جان سکا۔ا یجنڈا؟ وہ شاید اس کے لیے ایک بہت سخت لفظ استعمال کررہا تھا لیکن اس کے پاس جیسے اسے اپنا دشمن سمجھنے کے علاوہ وقتی طور پر کوئی آپشن ہی نہیں تھا… اس عورت کو اپنا دشمن سمجھنا جسے وہ بے انتہا چاہتا تھا ۔اس کا دل کچھ اور بوجھل ہوگیا تھا۔
گھر میں داخل ہوتے ہوئے اس کے سیل فو ن پر شہر بانو کا ٹیکسٹ آیا تھا۔ وہ اسے skype پر آنے کے لیے کہہ رہی تھی۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا ۔جسمانی طور سے زیادہ یہ ذہنی تھکن تھی جو اسے بے حال کیے ہوئے تھی اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو شہر بانو سے بات کرنے سے نہیں روک سکا۔کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ اپنا لیپ ٹاپ لے کر اپنے بیڈ پر آکر بیٹھ گیا تھا۔ اسکرین پر شہر بانو کا چہرہ دیکھتے ہی شیر دل کو ایک عجیب سی تکلیف ہوئی تھی۔ وہ کافی کا ایک مگ پکڑے لاؤنج کے ایک وسیع وعریض صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی پھر اس نے لیپ ٹاپ سینٹر ٹیبل پر رکھ دیا تھا۔ شیر دل اس کے عقب میں کھڑکی کے شیشوں پر بارش کی بوندیں دیکھ رہا تھا۔ کیلی فورنیا میں اس وقت بارش ہورہی تھی شہر بانو کو بارش پسند تھی۔ شیر دل جانتا تھا کہ وہ اب گھنٹوں کھڑکی کے سامنے اسی طرح کافی کا ایک مگ تھامے بیٹھی رہ سکتی تھی۔ شہر بانو اب مثال کو پاس لے آئی تھی۔ شیر دل کا دل اپنی اولاد کو دیکھ کر جیسے کسی پرندے کی طرح خوشی سے پھڑ پھڑایا تھا۔مثال بڑے ایکسائٹڈ انداز میں اسے امریکا میں اپنی مصروفیات کے بارے میں بتارہی تھی۔ وہ سارا دن کیا کرتی تھی، وہ اور اس کی ممی کہاں کہاں گئیں، کون کون ان سے ملنے آیا، کس کس نے اسے کیا کیا تحفہ دیا… اور یہ کہ ان سب کے باوجود وہ شیر دل کو مس کررہی تھی اور چاہتی تھی کہ باپ فوراً اس کے پاس آجائے۔ اپنی چار سالہ بے حد خوب صورت اور معصوم بیٹی کی باتیں سنتے ہوئے شیر دل کو کوئی اور یاد آیا تھا… ایک اور ایسا ہی خوب صورت چمکتا، کھلکھلاتا وجود… اس کے دل پر کسی نے منوں برف ڈالی تھی۔ ملال کسی بارش کی پھوار کی طرح اس کے وجود کو بھگو گیا تھا۔ وہ اپنی بیٹی کی کھلکھلاہٹ میں چڑیا کی چہچہاہٹ سن رہا تھا۔ اس کی بیٹی کی عمر میں اور چڑیا کی عمر میں چار سال کا فرق تھا۔ شاید پانچ سال کا فرق۔ وہ کسی میکانکی انداز میں نہ چاہتے ہوئے بھی چڑیا کے بارے میں سوچتا جارہا تھا۔ مثال سے اس کا موازنہ کرنے لگا تھا۔ وہ یہ بھی نہیں کرنا چاہتا تھا، کوئی اس کی بیٹی کو نقصان پہنچانے کی کوشش بھی کرتا تو شیر دل اس کو شوٹ کردیتا۔ یہ ایک چیز تھی جس پر شیر دل کی ڈکشنری میں کسی کے لیے کوئی معافی نہیں تھی اور یہی ایک چیز تھی جس کا خوف عجیب طرح سے اسے اپنے حصار میں لیے رہتا تھا۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟” وہ شہر بانو کے سوال پر بری طرح چونکا تھا۔
”ہاں کیوں؟ کیا ہوا؟” وہ اسکرین پرمثال کو دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ اسے اندازہ بھی نہیں ہوا کہ شہر بانو کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ مثال اب لاؤنج میں ادھر سے ادھر کچھ toys پکڑے و قتاً فوقتاً آتی جاتی ہوئی نظر آرہی تھی اور ہر بار اس کی جھلک نظر آنے پر شیر دل کی نظر عجیب طرح سے اس کے تعاقب میں جاتی تھی۔
”تم بہت تھکے ہوئے اور پریشان لگ رہے ہو۔” شہر بانو نے بے ساختہ کہا۔ ہزاروں میل کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے ایک کیمرے کی آنکھ سے شیر دل کو Scan کرلیا تھا۔شیر دل نے مسکرا نے کی کوشش کی ۔




Loading

Read Previous

ہم آہنگ — حنا نرجس

Read Next

عکس — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!