عکس — قسط نمبر ۱۰

فاطمہ بہت الجھے ذہن کے ساتھ مسز سلطان کے آفس سے واپس آئی تھی۔ اسے ایک عجیب سی صورت حال میں ڈال دیا تھا انہوں نے۔ ایک طرف جہاں اسے مسز سلطان کی بات پر بے حد خوشی ہوئی تھی دوسری طرف وہ ایک عجیب ذہنی کشمکش کا شکار بھی ہوگئی تھی۔ پتا نہیں یہ سب ٹھیک تھا یا نہیں۔ پتا نہیں یہ سب اسے کرنا بھی چاہیے تھا یا نہیں۔ وہ خیر دین سے یہ مسئلہ ڈسکس کرنا چاہتی تھی لیکن وہ متامل تھی۔ اسے خیر دین کے جواب کا اندازہ تھا اور کہیں نہ کہیں چڑیا خیر دین سے وہ جواب نہیں چاہتی تھی لیکن خیر دین سے مسئلہ ڈسکس کیے بغیر اس مسئلے کا کوئی حل بھی نظر نہیں آرہا تھا۔




”تمہیں میری بات پر یقین کیوں نہیں آرہا… خاص طور پر اب جب ممی کے منہ سے تم نے سن لیا ہے کہ وہ بھی یہ رشتہ ختم کرنا چاہتی ہیں۔” اگلے دن ایبک بڑے معمول کے انداز میں بے تکلفی سے اس سے آکر ملا تھا اور اس نے ہمیشہ کی طرح اس سے بڑے گرم جوش انداز میں بات چیت کا آغاز کیا تھا ۔نہ چاہنے کے باوجود چڑیا اس سے بات کرنے لگی تھی لیکن اس کے انداز میں ایسا کچھ ضرور تھا جس نے کچھ دیر کے بعد ایبک کو زچ کردیا تھا۔
”ایبک مجھے یوں لگ رہا ہے میں کسی کی زندگی کے ساتھ کھیل رہی ہوں۔” فاطمہ نے بے حد سنجیدگی سے ایبک سے بالا خر اپنی ذہنی کیفیت شیئر کی تھی۔ وہ جیسے حیران رہ گیا۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ کس کی زندگی کے ساتھ کھیل رہی ہو تم؟”
”تمہاری منگیتر کی… اور جانتے بوجھتے۔”ایبک اس کے احساس جرم پر قہقہہ مار کر ہنسا تھا۔
”تم بھی بہت عجیب ہو، اس ساری صورت حال میں تم کہاں سے قصور وار ہو گئی ہو۔”
”میں درمیان میں نہ آتی تو تمہیں اس منگنی پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ ” فاطمہ نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
”تم میری زندگی میں ناجیہ سے پہلے آئی تھیں۔ناجیہ سے پہلے سے ہو پھر تم اس طرح کیوں سوچ رہی ہو؟”ایبک نے جیسے اسے تسلی دینے کی کوشش کی تھی۔فاطمہ مطمئن نہیں ہوئی تھی۔ وہ بچی نہیں تھی کہ اس معاملے کی نزاکت کو نہ سمجھ پاتی اور کہیں نہ کہیں ایبک سے محبت کرنے کے باوجود اسے اندازہ تھا کہ ایبک اس معاملے میں بے حد خود غرضی کا مظاہرہ کررہا تھا۔ پہلے اس نے بزدلی کا مظاہرہ کیا تھا جب اس نے اپنی فیملی کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے فاطمہ کے ساتھ اپنے تعلق کو مکمل طور پر فراموش کرتے ہوئے ناجیہ سے منگنی کرلی تھی اور نہ صرف اس نے منگنی کرلی تھی بلکہ اس نے اس منگنی سے اس کو مکمل طور پر بے خبر بھی رکھا تھا اور اب وہ اس کے ساتھ اسی طرح کے تعلقات استوار رکھے ہوئے اس لڑکی کی زندگی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔
”ناجیہ جانتی ہے کہ تم یہ رشتہ ختم کرنا چاہتے ہو اور کہیں اور انٹرسٹڈ ہو؟” فاطمہ نے یک دم بے حد سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔ ایبک ایک بار پھر جواب دینے میں متامل ہوا پھر بالآخر اس نے کہا۔
”ہاں وہ جانتی ہے، میں نے اسے تمہارے بارے میں بتادیا ہے اور وہ تمہارے بارے میں جاننے کے بعد خود بھی اس رشتے میں زیادہ انٹر سٹڈ نہیں ہے۔ یہ اب صرف دو فیملیز کی انا کا زیادہ مسئلہ ہے اور کچھ نہیں… اسی لیے تو میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ بس تم تھوڑا وقت دے دو مجھے۔ یہ رشتہ ختم ہوجائے گا کیونکہ میں اور ناجیہ دونوں خود بھی ا س رشتے کو قائم رکھنے میں انٹر سٹڈ نہیں ہیں۔”ایبک نے اسے بے حد تفصیل سے بتایا۔
”فاطمہ بے اختیار پرسکون ہوئی۔ ایک عجیب سا بوجھ تھا جو اس کے دل اور کندھوں سے ہٹا تھا۔ ناجیہ اس ساری صورت حال سے واقف تھی… مطلب فاطمہ کسی ایسے کھیل کا حصہ نہیں تھی جس میں ناجیہ کی زندگی خراب ہوتی۔ وہ ایبک کا انتظار کرسکتی تھی۔ اسے موقع دے سکتی تھی کہ وہ اس تمام مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرلے ۔ اس دن کالج گراؤنڈ میں ایبک کے ساتھ بیٹھے اس نے یہی فیصلہ کیا تھا۔ زندگی ایک بار پھر اسی پرانی ڈگر پر آگئی تھی … وہی خواب… وعدے… خواہشات، یقین دہانیاں، خوش گمانیاں… فاطمہ ایک بار پھر اپنے مستقبل کو انہی سارے دھاگوں سے بننے لگی تھی ۔ خیر دین کو اگلے کئی ہفتوں تک ایبک کے ساتھ اس کے patch up کے بارے میں پتا نہیں چلا لیکن پھر آہستہ آہستہ فاطمہ نے ایک بار پھر خیر دین کو باور کروانا شروع کردیا تھا کہ وہ اور ایبک ایک بار پھر سے اکٹھے ہوگئے تھے۔ خیر دین شروع میں اس سے یہ نہیں پوچھ سکا کہ وہ صرف دوستی تھی یا… اسے توقع تھی کہ یہ صرف دوستی ہی ہوسکتی تھی۔ چڑیا ایبک کی منگنی ہوجانے کے بعدکیسے اس کے ساتھ کوئی جذباتی تعلق بحال کرسکتی تھی۔ خیر دین بہت دیر سے سہی فاطمہ سے یہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکا تھا اور فاطمہ کے جواب نے اسے بھی اسی طرح الجھا ہوا چھوڑا تھاجس طرح فاطمہ خود شروع میں الجھی تھی۔ فاطمہ سے اس نے بہت سارے سوال جواب کیے تھے اور فاطمہ نے بہت مدافعانہ انداز میں ایبک کا دفاع کرتے ہوئے اس کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی۔ خیر دین فاطمہ کے جوابوں میں دکھنے والے پیوندوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی باتیں سنتا اور سر ہلاتا رہا تھا۔ وہ کچی عمر کی پہلی محبت تھی اور وہ اپنی نواسی کو بے رحمی اور بے حسی سے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ دنیا بہت ظالم ،خود غرض اورجھوٹی ہوتی ہے… فریب در فریب کے جال بنتی اور پھینکتی رہتی ہے… اور یہ کہ لوگوں کی زبانوں کے مکھن میں بہت ساز ہر ہوتا ہے جو سنکھیا نہیں ہوتا کہ فوری اثر کرے لیکن مارنے ہی کے لیے ہوتا ہے۔دنیا کی ایک بھیانک تصویر اس کی نواسی بچپن میں دیکھ چکی تھی ۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی دنیا کو ایک بار پھر کالے اور گہرے رنگوں سے خراب کرے۔ خیر دین چڑیا کا اعتبار رشتوں، دوستوں ،انسانوں سے نہیں اٹھانا چاہتا تھا… پر اب اس کے لیے پریشانی یہ تھی کہ وہ اپنی عزیز نواسی کو کسی آنے والی تکلیف کی طرف بڑھتے دیکھ کر کیسے بچائے۔
”ایک بات بتاؤ چڑیا… اگرایبک کی منگنی ختم نہیں ہوئی تو؟” فاطمہ خیر دین کی بات پر حیران رہ گئی تھی۔
”ایسا نہیں ہوسکتا نانا… میں نے آپ کو بتایا ہے وہ اور اس کی منگیتر دونوں یہ رشتہ ختم کرنا چاہتے ہیں۔” اس نے بے حد یقین سے کہا۔
”ایک سال سے وہ یہ کوشش کررہے ہیں ابھی تک تو ختم نہیں کرسکے۔” وہ کچھ دیر خیر دین کی بات کا جواب نہیں دے سکی۔
”لیکن وہ کوشش کررہے ہیں۔” اس نے مدافعانہ انداز میں کچھ دیر کے بعد کہا۔
”ہاں لیکن وہ کوشش ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی۔ بعض کوششیں کبھی کبھار کامیاب نہیں بھی ہوتیں۔” اس نے دھیمے لہجے میں اسے آگے آنے والے گڑھے سے خبر دار کیا۔”تم نے یہ سوچا ہے اگر یہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہوئی تو تم کیا کروگی؟” فاطمہ الجھے انداز میں خیر دین کو دیکھتی رہی۔
”میں کیا کروں گی ؟” اس نے جیسے حیرانی سے خیر دین کے سوال کو دہرایا تھا۔
”زندگی میں ہمارے پاس ہمیشہ ایک پلان بی ہونا چاہیے۔ ہر بڑی ناکامی کے بعد زندگی میں آگے بڑھتے رہنے کے لیے ایک متبادل راستہ… اگر ہم زندگی میں وہ نہ پاسکیں یا وہ نہ کرسکیں جو ہمارا ٹارگٹ ہے تو پھر ہمارے پاس ایک دوسرا آپشن ہونا چاہیے اس صورت حال سے نبٹنے کے لیے۔” فاطمہ نے خیر دین کی بات بڑی لچسپی سے سنی تھی۔وہ دنیا کا پہلا نانا تھا جو اپنی نواسی کو محبت میں ناکامی کے بعد ایک متبادل آپشن ڈھونڈھ کر رکھنے کی ہدایت دے رہا تھا۔ فاطمہ ہنس پڑی تھی ایک typical محبت زدہ لڑکی کی طرح جسے یقین تھا کہ کم سے کم زندگی میں اسے کسی متبادل آپشن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ خیر دین اس کے ہنسنے پر مسکرا دیا تھا اسے اس سے اس عمر میں اس مسئلے پر اسی غیر سنجیدگی کی توقع تھی۔
”زندگی میں ہم نقصان کسی بھی کام میں ناکام ہونے کی وجہ سے نہیں اٹھاتے… ایک اچھا پلان بی نہ ہونے کی وجہ سے اٹھاتے ہیں۔” خیر دین اسے سمجھانے لگا تھا۔ وہ خیر دین کی بات بغور سنتی رہی تھی۔ ایبک کے معاملے پر وہ فارمولہ اپلائی کرتی نہ کرتی زندگی کی اور بہت سی چیزوں پر وہ فارمولہ لگ سکتا تھا۔فاطمہ بڑی روانی سے وہی گھسا پٹا جملہ خیر دین سے بولنا چاہتی تھی… نانا ایبک ایسا نہیں ہے لیکن پھر وہ رک گئی تھی۔ ایبک ایسا نہیں تھا اس کے باوجود ایک سال پہلے اس نے چپ چپاتے اپنی کزن سے منگنی کرلی تھی۔ ایک سال میں ایک بار بھی فاطمہ کو اس بات کا علم ہونے نہیں دیا تھا… نہ ایبک نے نہ ہی مسز سلطان نے… وہ نہ چاہتے ہوئے بھی واہموں کی ڈور سے الجھ گئی تھی۔
”آپ کیا چاہتے ہیں نانا؟” اس نے مبہم انداز میں خیر دین سے پوچھا۔
”میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم کسی دوسرے کی ناکامی اور کوتاہی کے لیے خود کو کبھی مجرم مت ٹھہرانا۔ زندگی ان ہونیوں اور معجزات کا دوسرا نام ہے۔” فاطمہ خیر دین کا چہرہ دیکھتی رہی تھی۔ اس کے الفاظ اس رات اس کے ذہن میں گردش کرتے رہے تھے۔
صبح ہونے تک اس نے خیر دین کی تنبیہہ کم نصیحت کو بھلا دینے کی کوشش کی تھی لیکن عجیب بات یہ تھی کہ ایبک کا چہرہ دیکھتے ہی خیر دین کے الفاظ اس کے کانوں میں گونجنے لگتے تھے ۔اسے یقین نہیں آتا تھا کہ اسے اس شخص کے لیے خیر دین کی ہدایات کی ضرورت تھی۔ وہ خیر دین کو اس شام کہنا چاہتی تھی کہ اندھی محبت واحد چیز ہوتی ہے جس میں ناکام ہونے کے بعد کوئی پلان بی کام نہیں آتا… اور در اصل محبت کرتے وقت بھی انسان کوئی پلان بی نہیں رکھتا… اندھی محبت زندگی میں انسان کو صرف ایک بار ہوتی ہے…بعد میں گزارہ ہوتا ہے بعض دفعہ عادت اور زیادہ تر ضرورت …لیکن پھر اندھی محبت نام کی شے انسان کو عقل سے پیدل نہیں کرتی۔




Loading

Read Previous

ہم آہنگ — حنا نرجس

Read Next

عکس — قسط نمبر ۱۱

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!