ایبک سلطان کو میڈیکل کے آخری تمام سال کے دوران وہ صرف اسی ترازو میں تولتی رہی تھی۔ کیا اسے اس سے اندھی محبت تھی…؟ کیا وہ اس کے بغیر زندہ رہ سکے گی اس طرح جس طرح رہتی آئی تھی؟ کیا وہ اس کے بعد کسی دوسرے مرد کو اپنی زندگی میں قبول کرسکے گی؟ کسی ایک سوال کا جواب اسے واضح نہیں مل پاتا تھا۔ کوئی ایک کانٹا تھا جو خیر دین کے لفظوں نے اس کے اندر گاڑ دیا تھا اور اس سے اٹھنے والی ٹیسیں اسے حواس سے باہر نہیں ہونے دیتی تھیں۔
وہ دونوں ہاؤس جاب کررہے تھے جب تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد با لآخر فاطمہ نے ایک بار پھر ایبک سے اپنے اور اس کے رشتے کے حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ کرنے کے لیے کہا تھا اور اس کے جواب نے فاطمہ کو سن کر دیا تھا۔ اس کے اور ناجیہ کے نکاح کی تاریخ طے ہوچکی تھی اور ایبک نے بے حد معذرت خواہانہ انداز میں اس سے کہا تھا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتا۔ فاطمہ کو اس بار پہلے سے زیادہ بے یقینی ہوئی تھی کیونکہ اس بار ایبک کے لہجے میں کوئی پریشانی کوئی اضطراب نہیں تھا۔ وہ بے حد مطمئن اور پرسکون تھا یوں جیسے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ ایک عجیب سی ہتک محسوس کی تھی فاطمہ نے اس کے انداز سے۔ اس نے ایبک سلطان سے کوئی اگلا سوال جواب نہیں کیا تھا۔ کوئی بحث ومباحثہ نہیں ۔نہ وہ اس پر چلائی تھی نہ اس نے ایبک سلطان کو برا بھلا کہا تھا۔ وہ شل ہوتے اعصاب کے ساتھ ہاسٹل واپس آگئی تھی۔
اسے زندگی میں کبھی شادی کی خواہش تھی نہ ہی کوئی جلدی… ایبک سلطان نے ہی اس کے اندر شادی کی خواہش پیدا کی تھی اور خیر دین اور اس کی ماں کے بار بار کے تقاضوں اور دباؤ سے شادی کی جلدی کا مطالبہ … اور اب سب کچھ ختم ہوگیا تھا صرف تکلیف کا ایک عجیب سا احساس تھا جو باقی رہ گیا تھا۔ ڈیڑھ سال پہلے کی طرح وہ دنوں نہیں روئی تھی نہ ہی اس نے پہلے کی طرح خیر دین کو پریشان کیا تھا۔ اس نے ایبک سلطان اور اس کے ساتھ تمام یادوں سے اپنے آپ کو cut off کرنا شروع کردیا تھا۔ وہی مینٹل بلاک جو اس نے بچپن کے اس حادثے کو بھلانے کے لیے اپنے آپ پر لگایا تھا وہ اب بھی کام آیا تھا… لیکن یہ کام آسان نہیں تھا۔ خاص طور پر اس صورت میں جب وہ ہر روز ایبک سلطان سے ملتی تھی۔ اس سے بات بھی کرتی تھی اور اس نے بڑے تحمل کے ساتھ اس سے اس کے نکاح کی تقریب کا دعوت نامہ بھی لے لیا تھا۔
”میں تو سمجھ رہی تھی تم دونوں committed ہواور وہ تم سے شادی کرے گا ۔”اس کی روم میٹ فائزہ نے ایبک سلطان کے نکاح کی خبر سننے پر جیسے بے حد شاک کے عالم میں فاطمہ سے کہا تھا۔
”نہیں… ایسی کوئی بات نہیں تھی… ہم صرف دوست تھے۔” اس نے بڑے تحمل کے ساتھ بات کو گول مول کیا تھا۔ وہاں کسی کے ساتھ بیٹھ کر اپنی تکلیف اورتذلیل شیئر کرنے کا مطلب ہاسٹل کی دیواروں پر اپنا اشتہار لگانا تھا اور فاطمہ کو اس ”ناموری” کی خواہش نہیں تھی۔
”تم نے اس کے لیے بہت کچھ کیا ہے… اگر ایبک کی کوئی پوزیشن آتی ہے تو یہ صرف تمہاری وجہ سے ہوگی۔” اس نے فائزہ کو ٹوک دیا۔
”نہیں، میں نے اس کے لیے کچھ نہیں کیا… وہ خود بہت لائق ہے۔”
”ہوگا لیکن ایبک سلطان پیرا سائٹ ہے اس نے ساری زندگی یہی کیا ہے، اسکول میں تھا تو سب سے لائق لڑکی کے ساتھ فرینڈشپ کروائی ہوئی تھی اس کی ماں نے… کالج کے دو سال ایک اور لڑکی کے ساتھ چپک کر گزارے اس نے… اور پھر میڈیکل کے پانچ سالوں کے لیے تو تمہاری شکل میں اس کی لاٹری نکل آئی۔” وہ بے حس وحرکت فائزہ کی شکل دیکھتی رہی۔ اسے کچھ دیر کے لیے اس کی بات کی سمجھ ہی نہیں آئی تھی۔
” اس کا بھائی میری بہن کا کلاس فیلو تھا اور اس کا بھی یہی طریقہ تھا۔ مسز سلطان نے اپنی اولاد کو پیرا سائٹس کی طرح پالا تھا… جونکیں نہیں ہوتیں جو دوسروں کا خون چوس چوس کر پلتی ہیں بالکل ویسے دوسروں کی قابلیت کا خون چوس چوس کر اپنی اولاد کو قابل بنایا ہے انہوں نے۔” اس نے آج پہلی بار فائزہ کو بولتے سنا تھا۔
”اب وہ فیملی کی امریکن نیشنل لڑکی مل گئی ہے۔ اس کے سر پر امریکا میں ریزیڈنسی اور اسپیشلائز یشن ہوگی۔” فاطمہ، فائزہ کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا تھا۔
”تم ایبک کی فیملی کو کیسے جانتی ہو؟”اس نے بہ مشکل اس کو ٹوکتے ہوئے کہا تھا۔
”اس کی فیملی کو… میں تو ان کی سات پشتوں کو جانتی ہوں اور خاص طور پر مسز سلطان کو… ان کی شفقت محبت اور نرم مزاجی کے سارے ڈھکوسلوں سے واقف ہوں میں۔ میری کزن کے ساتھ تین سال ایبک کے چھوٹے بھائی کا افیئر رہا تھا… topper تھی وہ بھی اور اس نے اپنا بیڑا غرق کرلیا تھا ایزد سلطان کے چکر میں… دونوں بیکن میں تھے… اب ایزد صاحب تو اطمینان سے علامہ اقبال میڈیکل کالج میں پہنچ گئے ہیں اور میری کزن کو بہ مشکل فیصل آباد میں ایڈمیشن ملا ہے اور اب ایزد صاحب کا ایک اور topper لڑکی کے ساتھ افیئر زوروں پر ہے اور میری کزن نے بریک اپ کے بعد خود کشی کی بھی کوشش کی اور ایزد صاحب اب اس سے چھپتے پھرتے ہیں۔” فائزہ بڑی تلخی سے کہہ رہی تھی۔
”مسز سلطان اے لیولز تک میرے خالو کی فیملی کو یہی جھانسادیتی رہیں کہ انہوں نے ایزد کی شادی نگین سے ہی کرنی ہے بس ذرا ایزد میڈیکل میں چلا جائے پھر دونوں کی منگنی یا نکاح کردیں گے اور میڈیکل میں ایزد کے پہنچتے ہی انہوں نے میری کزن پر ہر طرح کے الزام لگانے شروع کردیے۔ یوں جیسے میری کزن کوئی بڑی بد کردار لڑکی تھی جس نے ان کے پانچ وقت کے نمازی بیٹے کاکردار اور ایمان خراب کردیا… انتہائی گھٹیا خاندان ہے مسز سلطان کا۔”فاطمہ ہونقوں کی طرح فائزہ کی شکل دیکھ رہی تھی۔
”تم نے پہلے کبھی مجھ سے یہ سب ڈسکس نہیں کیا۔” ایک لمبی خاموشی کے بعد فاطمہ نے بالآخر اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔ اس کے گلے کو عجیب گرہ لگ گئی تھی۔
”میں نے چند بار تم سے ذکر کیا تھا لیکن تم نے ایبک کے بارے میں یا مسز سلطان کے بارے میں کسی قسم کی بات چیت میں دلچسپی نہیں لی تو پھر میں نے بھی سوچا کہ میں کیوں خوامخواہ تمہارے سامنے یہ قصے لے کر بیٹھوں… ویسے بھی اگر تمہاری کوئی ایموشنل انوالومنٹ نہیں تھی اس کے ساتھ تو پھر تمہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا… لیکن میں پھر بھی سمجھتی ہوں کہ تم نے ایبک کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔”
زندگی میں وہ پہلا موقع تھا جب فاطمہ کو اپنے آئی کیو لیول پر شبہ ہوا۔ اپنی ذہانت صرف ایک وہم لگی اور اپنا آپ چغد اور احمق۔ فائزہ غلط نہیں کہہ رہی تھی اس نے ایبک کے لیے واقعی ضرورت سے بڑھ کر کیا تھا۔ ایک دوست کی طرح نہیں… وہ اسے اپنا مستقبل سمجھ کر اپنا ہونے والا جیون ساتھی سمجھتے ہوئے اسے مدد دینے کی کوشش کرتی تھی۔ ایبک سلطان نے پانچ سال اسٹڈیز کے معاملے میں اپنا سارا بوجھ فاطمہ پر ڈالے رکھا تھا۔ فاطمہ کو اب یاد آرہا تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ اس کا بیسٹ فرینڈ ہمیشہ ایک ٹاپر ہی رہا ہے۔ فائزہ نے ٹھیک کہا تھا ۔وہ اسکول میں عائشہ نامی ایک لڑکی کے بہت قریب رہا تھا اور کالج میں ربیعہ نامی ایک اور لڑکی کے ساتھ… فاطمہ نے اکثر اس کے منہ سے ان کا ذکر سنا تھا ۔وہ اس کے لیے جو جو کیا کرتی تھیں اس نے ان کے قصے بھی سنے تھے لیکن وہ دونوں لڑکیاں میڈیکل کے پانچ سالوں میں ایبک کی زندگی میں کبھی بھی نمودار نہیں ہوئیں۔ وہ اس کی بیسٹ فرینڈز تھیں۔ اور ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی کنگ ایڈورڈ تک نہیں پہنچ سکی تھی اور ایبک کے لیے ان کی یوٹیلٹی ختم ہوگئی تھی۔ میڈیکل کے پانچ سال اس نے فاطمہ کو ٹشو پیپر کے طور پرا ستعمال کیا تھا اور اسے کبھی اندازہ نہیں ہوا وہ اسے محبت سمجھتی رہی۔ پتا نہیں یہ خوش فہمی کی حد تھی یابے وقوفی کی۔ ایبک سلطان کا معما اس نے بہت دیر سے حل کیا تھا۔ اس نے زندگی میں کبھی کوئی گتھی سلجھانے میں پانچ سال نہیں لیے تھے۔ ایک ہوتی ہے محبت میں ناکامی …ایک ہوتا ہے محبت کے نام پر الوبننا… وہ محبت میں ناکام نہیں ہوئی تھی الوبنی تھی۔ اس نے ایک بار کسی سے سنا تھا دنیا میں سب سے کارگر اور بدترینexploitation محبت کے نام پر ہوتی ہے اور اسے پہلی بار اپنی زندگی کے ایک تلخ تجربے نے سمجھایا تھا کہ یہ کیسے ہوتا تھا۔
خیر دین کا تجربہ ایک بار پھر جیت گیا تھا۔ چڑیا کے یقین کو ایک بار پھر مات ہوئی تھی اور اس مات نے ایک بار پھر چڑیا کو خیر دین کی نصیحت پر غور کرنے پر مجبور کردیا تھا…” پلان بی” اسے اب ایک پلان بی کی ضرورت تھی۔
……٭……