آئینے میں ابھرنے والے عکس نے چڑیا کو روک لیا تھا۔ کسی پرانے ،مہربان واقف حال، غمگسار دوست کی طرح اس کے دل اور قدموں دونوں پر بیک وقت کمند ڈالی تھی… ایسا دوست جس نے اس گھر میں اس کی زندگی کے بہترین دن اور بد ترین رات دیکھی تھی۔
چڑیا بہت دیر تک نم آنکھوں کے ساتھ اس آئینے میں عکس کو دیکھتی رہی۔ آخری بار اس نے یہاں کھڑے ہو کر اس آئینے میں ایک پنک فراک والی ایک ریشمی سیاہ بالوں والی سانولی چمکدار آنکھوں والی ایک پری کو دیکھا تھا وہ اس حادثے سے ایک شام پہلے کی بات تھی۔ اس دن اس نے اپنا دودھ کا تیسرا دانت گنوایا تھا اور اس آئینے میں وہ اور ایبک ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے ہنس ہنس کر بے حال ہوگئے تھے۔ وہ جانتی تھی ایبک اس کے دانت کا خلا دیکھ دیکھ کر ہنس رہا تھا لیکن وہ ایبک کو اس طرح ہنستا دیکھ کر اپنے دانتوں کی مضحکہ خیز حالت بھول گئی تھی۔
اس آئینے میں وہ بونوں کو ڈھونڈا کرتی تھی۔ آج اس نے اس آئینے میں اپنے بچپن کو کھوجنے کی کوشش کی تھی۔ آئینہ اب اسے ایک سفید کوٹ کالر ڈ اے لائن لانگ شرٹ، سیاہ چوڑی دار پاجامہ اور سیاہ جیکٹ میں ملبوس بے حد اسمارٹ اور ویل ڈریسڈ لڑکی دکھا رہا تھا جس کے کانوں کے ڈائمنڈاسٹٹذاو ر سفید شرٹ کے کھلے کالرز سے بہت نمایاں طور پر ابھری ہوئی کالر بون کے درمیان سنہری زنجیر میں چمکتا ایک ڈائمنڈ پینڈنٹ کسی بھی پرائس ٹیگ کے بغیربھی اس کے متمول ہونے کا اعلان کررہا تھا۔ اس عکس میں اس سستے پنک فراک اور کسی ریڑھی سے دو روپے میں ملنے والے ایک اتنے ہی سستے تتلیوں والے پنک ہیر بینڈ والی اس آٹھ سالہ بچی کو ڈھونڈنا مشکل تھا۔ صرف وہ تھی جو اس ” عکس”میں ”چڑیا” کو کھوج رہی تھی اور کھوج پارہی تھی ۔ صرف وہ تھی جو اس آئینے میں وہ دیکھ رہی تھی جو دوسرا کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
اس آئینے میں اس نے وہ بونا دیکھا تھا جسے دیکھنے کی تمنا میں وہ گھنٹوں اس میں جھانکتی رہتی تھی اور پہلی بار وہ بونا نظر آجانے پر وہ خوف سے فریز ہوگئی تھی۔ وہ اس کی بد صورتی سے ڈر گئی تھی۔ زندگی نے اسے سکھایا تھا کہ ظاہری بد صورتی خوف کھانے والی شے نہیں ہوتی ۔یہ انسان کے اندر کی بد صورتی ہوتی ہے جس سے ڈرنا چاہیے۔ اس آئینے میں اسی دن اس نے انسان نام کا ایک بے حد خوب صورت بونا بھی دیکھا تھا جس سے خوف اور گھن نام کی کوئی شے اسے محسوس نہیں ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود اس بونے نے اس کی زندگی تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ زندگی میں بعض ولن ہیرو کی شکل میں اور بعض ہیرو ولن کی شکل میں نمودار ہوتے ہیں لیکن ہم ان کی شناخت بہت دیر سے کر پاتے ہیں۔
چڑیا نے اس آئینے میں نظر آنے والے اس بد صورت بونے کو اس گھر میں دوبار دیکھا تھا۔ ایک بار اس آئینے میں جب وہ اسے دیکھ کر خوف کے عالم میں ہل بھی نہیں سکی تھی اور دوسری بار اس بونے نے کسی اور کو فریز کر کے…
چڑیا نے یک دم آئینے سے نظر ہٹائی تھی۔ وہ سات بونے یک دم اتنے سالوں کے بعد اسے اپنے پاس اپنے گھر میں دیکھ کر خوشی سے جیسے پاگل ہوگئے تھے کنٹا اس ہیل والے بند جوتے پر چھلانگ مار کر چڑھا تھا اور اس کی پنڈلی سے لپٹ گیا تھا۔ وہ اپنی خوشی کا اظہار ہمیشہ ایسے ہی کرتا تھا۔ منٹا اچھل کر اس کی جیکٹ کی آستین سے لٹک گیا تھا۔ اسے ہمیشہ اس طرح جھولنے میں مزہ آتا تھا۔ سب سے موٹا بونا ٹوکو اپنے تھر تھراتے ہوئے پیٹ کے ساتھ اور پھولے سانس کے ساتھ اس کے ارد گرد ناچتا پھر رہا تھا۔ آنکھیں گھمانے والا کٹو خوشی سے بے حال اپنی ہی جگہ دروازے کی دہلیز پر پھرکی کی طرح ایک ہی جگہ گھومتا جارہا تھا۔ ٹنٹو نے اس کے دوسرے جوتے پر چڑھنے کی کوشش میں چھینک چھینک کر خود کو بے حال کرلیا تھا۔ ٹوفو بھاگتے ہوئے اپنی عینک کہیں گرا بیٹھا تھا اور اپنے بازو پھیلائے چڑیا کو ڈھونڈنے کی کوشش میں ادھر ادھر چیزوں سے ٹکراتا پھررہا تھا… اور چڑیا کا فیورٹ ڈیڈو وہ بس اس کے پیروں میں کھڑا بچوں کی طرح بلک بلک کر روتا ہی جارہا تھا… سب کچھ وہیں تھا جہاں وہ چھوڑ کر گئی تھی یا اسے جانا پڑا تھا… ایلس اپنے ونڈرلینڈ میں لوٹ آئی تھی۔
……٭……
وہ ایبک کی بات پر اس کے قریب سے گزرتے گزرتے جیسے واپس لوٹ آئی تھی۔ اس کی اطلاع نے فاطمہ کو جیسے اسی طرح حیران کیا تھا۔
”آنٹی مجھ سے کیوں ملنا چاہتی ہیں؟” اس نے کالج کے کاریڈور کی دیوار سے ٹکے ایبک کو دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ خلاف توقع بہت سنجیدہ تھا۔
”یہ تو تمہیں ممی ہی بتاسکتی ہیں، مجھے تو انہوں نے صرف تمہیں یہ میسج دینے کے لیے کہا تھا۔” فاطمہ کچھ دیر الجھی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتی رہی۔ اس کے اور ایبک کے درمیان اتنی سی بات بھی کئی دنوں کے بعد ہورہی تھی۔ وہ کالج میں ایبک کو مکمل طور پرنظر انداز کیے ہوئے تھی اور اس کی اس کوشش نے ایبک کو جیسے بری طرح زچ کردیا تھا اور اب یک دم وہ اس کے سامنے یہ مطالبہ لے کر آگیا تھا کہ مسز سلطان اس سے ملنا چاہتی تھیں۔
الجھے ہوئے ذہن کے ساتھ وہ اگلے دن مسز سلطان کے آفس میں آئی تھی ۔وہ ہمیشہ کی طرح اس سے انتہائی گرم جوشی اور شفقت کے ساتھ ملی تھیں۔
”کتنے دن ہوگئے تم سے ملاقات ہوئے… میں نے کئی بار ایبک سے تمہارے بارے میں پوچھا لیکن اس نے کہا تم اس سے کچھ خفا ہو۔” وہ اپنے آفس میں اپنے ٹیبل سے اپنی فائلز سمیٹتے ہوئے بولیں۔ چند لمحوں کے لیے فاطمہ کو عجیب سی شرمندگی ہوئی۔ اسے بالکل توقع نہیں تھی کہ ایبک اپنی ماں سے اس کی خفگی کو اتنے کھلے طریقے سے شیئر کرے گا۔
”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔” وہ گڑ بڑا کر صفائی دینے والے انداز میں بولی۔
”تو پھر تم دونوں نے کمبائنڈ اسٹڈی کیوں بند کردی… آپس میں ملنا جلنا کیوں چھوڑ دیا؟ ایبک تمہارے اس رویے کی وجہ سے بے حد اپ سیٹ ہے اور اسی وجہ سے میں نے سوچا کہ میں تم سے خود بات کروں۔” فاطمہ کو بڑی مشکل ہوئی مسز سلطان کے سوالوں کا جواب ڈھونڈنے میں ۔وہ کبھی مسز سلطان سے اپنے اور ایبک کے تعلق کا اعتراف نہیں کرسکتی تھی۔ خاص طور پر اب جب ایبک کی زندگی میں اس کی فیملی کی منتخب کردہ ایک اور لڑکی آچکی تھی لیکن اس کی مشکل کو مسز سلطان نے خود ہی حل کردیا تھا۔
”ایبک تمہیں بہت پسند کرتا ہے اور یہ پسندیدگی ایک کلاس فیلو اور دوست کی حیثیت سے نہیں ہے۔” فاطمہ نے چونک کر انہیں دیکھا۔ جو آخری شے وہ مسز سلطان سے توقع کرسکتی تھی وہ بات تھی جو انہوں نے ابھی کی تھی۔
”ایبک نے مجھ سے اس پسندیدگی کو کبھی نہیں چھپایا لیکن کچھ فیملی پرابلمزایسی ہوگئیں کہ ایبک کی بات طے کرنی پڑی مجھے… لیکن بیٹا ہم لوگ کوشش کررہے ہیں کہ خوش اسلوبی کے ساتھ یہ معاملہ ختم ہوجائے۔ ایبک اور میری بھتیجی میں کسی قسم کی کوئی compatability نہیں ہے اگر فیملی کا معاملہ نہیں ہوتا تو یہ رشتہ بہت پہلے ختم کردیتی میں کیونکہ مجھے اپنے بچوں کی خوشی سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز نہیں ہے لیکن بس فیملی کی کچھ مجبوریاں ہیں جن کی وجہ سے یہ رشتہ لٹک ہی گیا ہے۔” فاطمہ بے یقینی کے عالم میں مسز سلطان کی باتیں سن رہی تھی۔ آسمان اس کے سر پر گر جاتا تو اسے اس قدر شاک نہیں پہنچتا جتنا ابھی پہنچ رہا تھا۔ مسز سلطان اس کے اور ایبک کے بارے میں پہلے ہی سارے اندازے اور قیاس لگائے بیٹھی تھیں جو سو فی صد ٹھیک تھے اور اب وہ اسے اس پچھتاوے سے آگاہ کررہی تھیں جو اس رشتے کی صورت میں انہیں ہوا تھا۔
”بیٹا میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم اور ایبک اپنی دوستی پہلے کی طرح رکھو، اکٹھے پڑھو… ساتھ گھومو پھرو جیسے پہلے تھے۔ میں تمہیں یقین دلارہی ہوں کہ ہاؤس جاب ختم ہونے تک یہ معاملہ ختم ہوجائے گا۔ میں ایبک کی شادی وہیں کروں گی جہاں وہ چاہتا ہے اور میں جانتی ہوں کہ وہ کہاں شادی کرنا چاہتا ہے۔” انہوں نے آخری جملہ بے حد معنی خیز انداز میں کہا۔ ایک عجیب اچنبھے کے عالم میں فاطمہ اس دن ان کے آفس سے اٹھ کر آئی تھی۔ مسز سلطان نے اسے صرف یہی نہیں کہا تھا۔ انہوں نے اس سے اور بھی بہت سی باتیں کی تھیں۔ بہت ساری یقین دہانیاں ،خوش گمانیاں، بہت ساری تسلیاں اور آخر میں بار بار ایک ہی ریکویسٹ کہ وہ ایبک کے ساتھ کمبائنڈ اسٹڈیز جاری رکھے۔ وہ اس کی عدم توجہی کی وجہ سے اپنی اسٹڈیز پر فوکس نہیں کرپارہا تھا اور مسز سلطان کے لیے یہ بہت تکلیف دہ اور ناقابل برداشت بات تھی خاص طور پر اس صورت میں جب وہ ایبک کو آگے اسپیشلائزیشن کے لیے باہر بجھوانے کا ارادہ رکھتی تھیں۔