عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

”عورت، مرد اور میں” میری پہلی غیر مطبوعہ تحریر ہے جو کسی ڈائجسٹ میں شائع ہونے کی بجائے پہلی بار ایک کتاب میں شائع ہو رہی ہے۔ اپنی اس تحریر میں میں نے عورت، مرد اور شیطان کی مثلّت اور ان کے باہمی تعلق کو روائتی انداز کی بجائے ایک نئے انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

عمیرہ احمد
*******************
عورت

میں ایک عورت ہوں… یہ میری وہ شناخت ہے جس پر سب متفق ہیں… مگر بعض دفعہ مجھے بہت سے رشتوں کے حوالے سے بھی پکارا جاتا ہے جیسے ماں، بہن، بیٹی، بیوی، بہو، ساس وغیرہ وغیرہ… میرے لیے استعمال ہونے والے لفظوں کا ذخیرہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا… طوائف، کال گرل اور گرل فرینڈ جیسے لفظ بھی میرے لیے ہی مخصوص ہیں… اور ہاں بعض دوسرے لفظ بھی ہیں جن سے مجھے پکارا جاتا ہے۔ مثلاً فساد کی جڑ، مصیبت، نحوست، فتنہ، پاؤں کی جوتی، اللہ میاں کی گائے، لعنت وغیرہ وغیرہ… بعض ایسے لفظوں سے بھی مجھے پکارا جاتا ہے جن کا اظہار کرنا اور انھیں یہاں تحریر کرنا مناسب نہیں ہوگا… تحریر کرنے کی ضرورت بھی کیا ہے اگر آپ مرد ہیں تو یقینا آپ ان القابات سے واقف ہی ہوں گے جن سے آپ گھر سے باہر والی عورت کو پکارتے ہیں… اس عورت کو جس سے آپ کا دور یا نزدیک کا کوئی رشتہ نہیں ہوتا… بس آپ اسے کہیں دیکھ لیتے ہیں… ہوٹل میں، پارک میں، سڑک پر، یونیورسٹی میں، آفس میں… کہیں بھی… اور اگر آپ ایک عورت ہیں تو بھی آپ ان تمام الفاظ سے واقف ہی ہو ںگی کیونکہ زندگی میں کبھی نہ کبھی آپ گھر سے باہر ضرور گئی ہوں گی اور پھر آپ نے اپنے لیے ایسا کوئی لفظ سنا ہی ہو گا۔
اب تک آپ یقینا میرا ایک امیج بنا چکے ہوں گے (ان سب الفاظ، القاب اور ناموں کی روشنی میں)… بہرحال ایک لفظ جو میرے لیے کبھی صحیح معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا اور جس لفظ کے حوالے سے میری شناخت کبھی نہیں ہوئی وہ ”انسان” کا لفظ ہے… مجھے ہمیشہ یہ حسرت رہی ہے کہ کاش کبھی مجھے کوئی ”تم عورت ہو” کہنے کی بجائے ”تم انسان ہو” کہے… کبھی ایک بار… بھول چوک سے۔
حیران ہو رہے ہیں نا آپ… کہ آخر انسان لفظ میں ایسی کیا بات ہے کہ میں اپنے لیے یہ لفظ استعمال کروانا چاہتی ہوں… انسان لفظ اشرف المخلوقات کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اگر کبھی کسی نے میرے لیے یہ لفظ استعمال کیا ہوتا تو میں بھی خود کو دوسری مخلوقات سے برتر اور افضل سمجھتی… چند لمحوں کی خوشی ملتی… کچھ دیر سکون رہتا… دوسری مخلوقات سے میری مراد جانوروں اور کیڑوں سے ہے… اور ہاں درختوں اور پودوں کو بھی ان میں شامل کر لیں… تو میں بس خود کو ان چیزوں سے بہتر سمجھتی… مگر… مگر آپ کبھی بھی یہ مت سوچیں کہ میں ان مخلوقات میں مرد کو بھی شامل کر رہی ہوں… میں نے بتایا ناکہ میں خود کو صرف جانوروں، کیڑوں اور پودوں سے ہی برتر سمجھتی… جانوروں میں خاص طور پر کتے سے… کیڑوں میں خاص طور پر چیونٹی سے… اور پودوں میں خاص طور پر گھاس سے… مگر میں آپ کو ایک بار پھر یاد دہانی کروا رہی ہوں کہ میں مرد کو ان مخلوقات میں شامل نہیں کر رہی… میں ایسا کرنے کی جرأت ہی نہیں کر سکتی۔
عورت اللہ کی ایک ایسی تخلیق ہے۔ جس سے اس کی پوری زندگی میں کوئی بھی خوش نہیں ہوتا… خوش رہنا تو درکنار کوئی اسے پسند تک نہیں کرتا… مگر اس کے باوجود اسے برداشت کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کی ضرورت پڑتی رہتی ہے… بالکل ویسے ہی جیسے زمین کتنی ہی بنجر، گرم اور کھردری کیوں نہ ہو کوئی بھی یہ خواہش نہیں کرتا کہ پیروں تلے سے زمین غائب ہو جائے کیونکہ قدم جمانے کے لیے پیروں کے نیچے کسی نہ کسی چیز کی ضرورت تو ہوتی ہے، چاہے وہ بنجر، گرم اور کھردری زمین ہی کیوں نہ ہو… اس بنجر، گرم اور کھردری زمین پر کوئی خوشی سے پاؤں رکھے یا ناراضگی سے… بہرحال پاؤں تو رکھنا ہی پڑتا ہے… اور میں بھی پیروں کے نیچے آنے والی ایسی ہی چیز ہوں۔





آج سے بہت سال پہلے اللہ نے انسان کو بنایا یعنی مرد کو… اس وقت اللہ نے مجھے اس کے ساتھ نہیں بنایا… صرف مرد ہی کو بنایا… پھر مرد کو علم عطا کیا اور سارے فرشتوں کو اسے سجدہ کرنے کو کہا… میں اس وقت بھی نہیں تھی… مجھے اللہ نے اس کے کافی دیر بعد بنایا اور عجیب بات یہ ہے کہ مرد کو اللہ نے مٹی سے بنایا۔ بے جان مٹی سے، بے رونق مٹی سے، ایسی مٹی جس میں خوشبو تک نہیں تھی لیکن مجھے اللہ نے مرد کی پسلی سے پیدا کیا۔ عجیب بات ہے ناکہ مجھے اس نے ایک ایسی چیز سے بنایا جسے اللہ نے علم کی طاقت دی جسے اللہ نے فرشتوں سے سجدہ کروایا۔ جس کو سجدہ کرنے سے انکار پر ابلیس ہمیشہ کے لیے معتوب قرار دے دیا اور جسے اللہ نے زمین پر اپنی خلافت کے لیے منتخب کیا۔ کیسی عجیب بات ہے نا کہ مرد کے لیے استعمال ہونے والا میٹریل بالکل عام اور معمولی تھا مگر مجھے بنانے کے لیے لیا جانے والا میٹریل اتنا اعلیٰ تھا۔ پھر بھی زمین پر مجھے کبھی وہ عزت، قدر اور اہمیت حاصل نہیں ہوئی جو مرد کو حاصل ہوئی۔
بہرحال جنت میں اپنی تخلیق کے بعد میں تو اس بات پر ہی بہت نازاں تھی کہ مجھے اللہ نے ایسے اعلیٰ میٹریل سے بنایا ہے اور مجھے اس مخلوق کا ساتھی بنایا ہے جسے اللہ نے زمین پر خلافت کے لیے منتخب کیا ہے۔ مجھے بنانے کا مقصد آرام اور سکون تھا عجیب بات ہے نا کہ میرے جیسی مخلوق کی تخلیق کا مقصد ہی آرام اور سکون تھا یعنی اللہ تعالیٰ نے تکلیف کا عنصر ہی میرے وجود میں نہیں رکھا تھا۔ میرے لیے یہ بہت فخر کی بات تھی۔
میں جنت میں اس مرد کی ہمراہی میں بہت خوش اور مسرور تھی جس کے لیے مجھے تخلیق کیا گیا تھا اور جسے زمین پر اپنی خلافت کے لیے اللہ نے منتخب کیا تھا۔ میں آپ کو بتا چکی ہوں کہ میری تخلیق کا مقصد ہی آرام اور سکون پہنچانا تھااور جنت میں اپنے قیام کے دوران میں نے پوری کوشش کی کہ اپنے ساتھی کو آرام اور سکون پہنچاؤں۔ اس کے لیے ایک اچھا ہم راز ثابت ہو سکوں۔ ایک اچھا ساتھی بن پاؤں۔ میرا خیال ہے میں اپنی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب تھی کیونکہ میرے ساتھی کو کبھی مجھ سے شکایت نہیں ہوئی اور اس نے ہمیشہ مجھ سے پیار اور محبت کا سلوک کیا وہاں پہلی بار مجھے محسوس ہوا کہ وہ میری عزت بھی کرتا ہے اور اسے میری ضرورت بھی تھی اور اس احساس نے میرے اعتماد کو اور بڑھا دیا۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور بات قابل فخر ہو سکتی ہے کہ کوئی آپ سے محبت اور عزت کا سلوک کرتا ہے اور کسی کو آپ کی ضرورت بھی ہے۔ ان دنوں میں واقعی بہت خوش ہوا کرتی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ ہم دونوں ہی بہت خوش ہوا کرتے تھے نہیں شاید یہ کہنا صحیح نہیں ہے کیونکہ مرد تو آج بھی بہت خوش ہے… ہاں اگر کسی کی خوشی میں کمی آئی ہے تو وہ میں ہوں…
نہیں میرا خیال ہے آپ اس جملے کو اس طرح پڑھیں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اگر کسی کی خوشی ختم ہو گئی ہے تو وہ میں ہوں۔
بہرحال میں آپ کو بتا رہی تھی کہ ان دونوں میں بہت خوش تھی۔ ہم دونوں جنت کے باغوں میں پھرا کرتے۔ وہاں کی خوبصورتی کو سراہتے اور وہاں کی آسائشوں سے لطف اندوز ہوتے اور پھر اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتے جس نے ہم پر اپنا اتنا رحم و کرم نازل کیا تھا۔ ہم دونوں کا خیال تھا کہ ہماری ساری زندگی اسی طرح پرُسکون گزرے گی۔ کہیں کوئی مشکل نہیں آئے گی مگر یہ ہماری خوش فہمی تھی۔ ہم اپنی خوشیوں میں مگن ہو کر ابلیس کو بھول ہی گئے تھے۔
ابلیس کو تو آپ جانتے ہی ہیں یہ وہی تھا جس نے اللہ کے کہنے کے باوجود میرے ساتھی کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جب میری تخلیق کی گئی تو مجھے اس قصہ کا بھی پتہ چلا اور آپ یقین کریں کہ مجھے ابلیس کو دیکھے بغیر ہی اس سے شدید نفرت ہو گئی۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بھلا میری نفرت کی وجہ کیا تھی۔ آخر ابلیس نے مجھے سجدہ کرنے سے تو انکار نہیں کیا تھا۔ آپ صحیح سوچ رہے ہیں لیکن کیا نفرت کی یہ وجہ مناسب نہیں ہے کہ اس نے میرے ساتھی کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس ساتھی کو جسے اللہ نے علم سے نوازا تھا اور جسے زمین پر اپنی خلافت سونپی تھی اور… اور جس سے میں شدید محبت کرتی تھی۔ ابلیس نے اسے سجدہ کرنے سے انکار کر کے اسے تکلیف پہنچائی جس کے آرام اور سکون کے لیے مجھے تخلیق کیا گیا تھا اور ان سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ مجھے حیرانی ہوئی تھی کہ کوئی اپنے خالق کی نافرمانی کیسے کر سکتا ہے۔
ہزاروں سال ابلیس اپنے خالق کے پاس رہا اس کی مہربانیوں اور عنایات سے مستفید ہوتا رہا اس کی حمد و ثناء بھی کرتا رہا اور پھر اللہ نے اسے ایک معمولی سا کام کرنے کے لیے کہا اور اس نے نہ صرف انکار کر دیا بلکہ یہ قسم کھائی کہ وہ ازل تک انسان کو بھٹکائے گا، گمراہ کرے گا اور اللہ کی نافرمانی پر اکسائے گا۔ ایسی نافرمانی پر جیسی نافرمانی پر وہ خود مغضوب ہوا تھا۔ کسی چیز سے نفرت کے لیے کوئی اس سے زیادہ وجوہات تو پیش نہیں کر سکتا۔ بس انہی سب باتوں کی وجہ سے مجھے ابلیس سے بے حد نفرت ہو گئی اور میں نے یہ بھی طے کیا تھا کہ میں اس کے جھانسے میں نہیں آؤں گی۔ میں کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کروں گی اور آپ یقین کریں کہ جہاں تک مجھ سے ممکن ہوا۔ میں نے اس کے فریب میں نہ آنے کے لیے اپنی پوری کوشش کی مگر ابلیس اتنا کمزور نہیں تھا جتنا میں نے اسے سمجھ لیا تھا۔ وہ جو اس نے خدا سے کہا تھا کہ میں ان پر بار بار وار کروں گا تو اس نے ایسا ہی کیا اور مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ کب میں اس کے فریب میں آ کر گمراہ ہو گئی۔
اس میں میرا بھی اتنا قصور تو نہیں تھا اگر میرے ساتھی جیسا باعلم انسان اس کے فریب میں آ سکتا ہے تو پھر میں کہاں بچ سکتی تھی پھر آپ خود سوچیں کہ یہ کام میرے ساتھی کا تھا کہ وہ مجھے شیطان کے فریب میں آنے سے بچاتا آخر یہ وہی تو تھا جسے خدا نے علم کی نعمت سے نوازا تھا اور اپنا نائب بنایا تھا پھر میری نگہبانی کا ذمہ بھی تو اسی کے سپرد کیا گیا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ مجھے شیطان کے چنگل سے چھڑانے کے بجائے وہ خود بھی شیطان کے فریب میں آ گیا۔
پھر ہم دونوں نے مل کر اللہ کی صریح نافرمانی کی جس درخت کے پاس جانے سے اللہ نے ہمیں منع فرمایا تھا ہم دونوں نہ صرف اس کے پاس گئے بلکہ اس کا پھل بھی کھایا پھر اللہ ہم سے ناراض ہو گیا اور سزا کے طور پر اللہ نے ہم دونوں کو زمین پر بھجوا دیا۔
یہ ہم دونوں کی وہ غلطی تھی جس کی ساری ذمہ داری مرد نے مجھ پر عائد کر دی اور یہ ایسی غلطی تھی جس کے لیے خدا نے مجھے معاف کر دیا مگر مرد نے آج تک معاف نہیں کیا۔ کتنی صدیاں گزر چکی ہیں مگر آج بھی مرد مجھے مورد الزام ٹھہراتا ہے کہ میرے بہکاوے میں آ کر اس نے اللہ کی نافرمانی کی… آپ خود سوچیں میرے جیسی بے علم کیا اتنی طاقتور ہو سکتی تھی کہ وہ مرد جیسے باعلم کو فریب دے سکتی؟ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ مرد ابلیس کے بجائے اس غلطی کے لیے مجھے الزام کیوں دیتا ہے میں نے تو کبھی اسے الزام نہیں دیا کہ مجھے شیطان کے بہکاوے میں آنے سے بچانے کے لیے اس نے اپنے علم کی طاقت کو استعمال کیوں نہیں کیا۔ مگر وہ کسی طرح بھی مجھے بخشنے پر تیار نہیں ہے اس کا خیال ہے کہ اگر میں اسے نہ بہکاتی تو اسے کبھی زمین پر نہ آنا پڑتا وہ ہمیشہ جنت میں ہی رہتا۔
کیا آپ اس کی اس بات پر یقین کر سکتے ہیں؟ ہو سکتا ہے آپ کو اس کی اس بات پر یقین آ جائے مگر کیا آپ نے یہ سوچا ہے کہ خدا نے اسے زمین پر اپنا نائب کیسے بنا دیا جب مرد کے بقول اگر میرے بہکاوے میں نہ آنے پر وہ ہمیشہ جنت میں ہی رہتا تو؟ ہاں سوچیں کہ خدا نے اسے جنت میں اپنا نائب کیوں نہیں بنایا۔ آخر زمین پر ہی اسے اپنا خلیفہ اور نائب کیوں کہا؟ شاید آپ اس سوال کا جواب نہ پا سکیں تو چلیں۔ میں آپ کو بتا دیتی ہوں جواب بہت آسان ہے اللہ نے فرشتوں سے اس کا تعارف یہ کہہ کر کروایا تھا کہ میں نے اسے زمین پر اپنا خلیفہ اور نائب بنایا ہے۔
اس کا مطلب تھا کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آتا یا نہ آتا اس درخت کا پھل کھاتا یا نہ کھاتا۔ بہرحال ایک دن ایسا ضرور آنا تھا جب خدا نے اسے زمین پر بھیج دینا تھا۔ اسے بنایا ہی زمین کے لیے گیا تھا جنت کے لیے نہیں تو آخر پھر وہ مجھ پر الزام کیسے عائد کر دیتا ہے؟
زمین پر آنے کے ایک عرصہ بعد تک ہم دونوں ایک دوسرے سے بہت دور رہے مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ زمین پر کہاں ہے نہ ہی اسے یہ پتا تھا کہ میں کہاں ہوں۔ میں بہت عرصے تک اسے تلاش کرتی رہی اور پھر بالآخر وہ مجھے مل ہی گیا ایک بار پھر سے ہم دونوں اکٹھے زندگی گزارنے لگے۔
زمین پر جنت جیسی آسائشیں نہیں تھیں مگر مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی میرے لیے یہ کافی تھا کہ میں اس کے ساتھ ہوں اور اس کا دکھ اور سکھ شیئر کر سکتی ہوں اسے آرام اور سکون پہنچا سکتی ہوں۔ آخر مجھے اللہ نے اسی لیے تو بنایا تھا اور مجھے اس کے علاوہ اور کسی چیز میں دلچسپی تھی بھی نہیں۔ وہ خدا کی پسندیدہ مخلوق اور میں خدا کی پسندیدہ مخلوق کے لیے منتخب ساتھی۔
مگر پتا نہیں کیوں زمین پر اس کے ساتھ رہنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ اس کے دل میں میرے لیے پہلی جیسی قدر اور محبت نہیں ہے۔ کوئی چیز تھی جو ہم دونوں کے درمیان دیوار بن گئی تھی۔ اس نے مجھے معاف نہیں کیا تھا۔ میں نے بہت بار یہ جاننے کے باوجود کہ غلطی صرف میری نہیں تھی۔ وہ بھی اس میں برابر کا شریک تھا۔ یہ جاننے کے باوجود میں نے اس سے بہت بار معافی مانگی۔ اتنی التجا تو میں نے شاید اللہ سے بھی نہیں کی ہوگی جتنی مجھے اس سے کرنی پڑی، ہر بار وہ یہی کہتا کہ اس نے مجھے معاف کر دیا تھا مگر میں کبھی مطمئن نہیں ہوئی۔ اس نے دل سے مجھے کبھی معاف نہیں کیا۔ آج تک نہیں۔ عجیب بات ہے نا اللہ آپ کو معاف کر دیتا ہے مگر انسان نہیں۔
اس وقت پہلی بار میں بہت دل گرفتہ ہوئی مجھے یوں لگنے لگا کہ میں اسے آرام پہنچانے کے بجائے تکلیف پہنچانے لگی ہوں۔ مگر میں کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ زمین پر بھیجنے کا فیصلہ اللہ کا تھا۔ میں اللہ کے فیصلوں میں دخل اندازی نہیں کر سکتی تھی۔
وقت گزرتا رہا میں اپنی ناکردہ غلطی کی تلافی کے لیے دل و جان سے اس کی خدمت کرتی رہی مگر میری دل گرفتگی اور رنجیدگی میں کمی نہیں آئی۔ میری خدمت اس کا دل جیتنے میں ناکام کیوں تھی۔ تب پہلی بار میں نے خدا سے شکوہ بھی کیا میں نے خدا کو وہ سب کچھ بتایا جو میں محسوس کرتی تھی۔ اللہ کی سب سے بہترین صفت یہ ہے کہ وہ ہماری ہر بات سنتا ہے۔ خاموشی کے ساتھ، سکون کے ساتھ، پیار کے ساتھ، اس وقت بھی جب ہم مشتعل ہوتے ہیں اور ایسی باتیں کہہ رہے ہوتے ہیں جو ہمیں کہنا زیب نہیں دیتا تب بھی اللہ ہماری باتیں سن رہا ہوتا ہے۔ اللہ کی دوسری بہترین صفت یہ ہے کہ وہ ہمارے زخموں پر مرہم رکھتا ہے میرے ساتھ بھی اللہ نے ایسا ہی کیا۔ اللہ نے صرف ایک مرد بنایا پھر تخلیق کا یہ کام مجھے سونپ دیا کس قدر بڑی بات ہے یہ کہ اللہ زمین پر نسل انسانی کو آگے بڑھانے کا عمل میرے سپرد کر دیا۔
میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا میرے لیے یہ اعزاز کی بات تھی کہ خدا نے مجھے اتنی بڑی ذمہ داری سونپ دی ہے۔ میرا خیال تھا اب مرد یقینا میری عزت اور قدر کرے گا کیونکہ اب میں بہت اہم ذمہ داری انجام دے رہی ہوں مگر ایسا نہیں ہوا دن بدن میں اس کی نظروں سے اور گرتی گئی۔ خدا کی جانب سے سونپی جانے والی اس بڑی ذمہ داری کے باوجود وہ میرے لیے اپنے دل میں کوئی خاص جذبات پیدا نہیں کر سکا پہلے کی طرح مجھے حقیر اور بے کار ہی سمجھتا رہا۔ میری خوشی آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئی۔ مجھے یوں لگنے لگا کہ میں جو چاہے کر لوں۔ وہ مجھ سے کبھی خوش نہیں ہوگا۔
میں صبر شکر سے اپنی زندگی گزار رہی تھی۔ اس کے علاوہ میں اور کچھ نہیں کر سکتی تھی اور تبھی اچانک ایک اور حادثہ ہو گیا۔ آپ ہابیل اور قابیل کو تو جانتے ہی ہوں گے۔ میری وجہ سے دونوں میں جھگڑا ہو گیا۔ میں بہت حیران تھی اگر مرد مجھے ناپسند کرتا تھا۔ اسے مجھ سے محبت نہیں تھی۔ اسے میری ضرورت نہیں تھی تو پھر میری ملکیت کے معاملے پر اسے اس طرح لڑنے کی بھی کیا ضرورت تھی۔ جس چیز کو آپ ناپسند کرتے ہیں۔ اس سے تو آپ جان چھڑا لینا چاہتے ہیں۔ اسے اپنے پاس رکھنے کے لیے لڑتے تو نہیں۔
مگر وہ میرے لیے نہ صرف لڑتا رہا بلکہ اسی لڑائی میں اس نے ایک دوسرے مرد کو قتل بھی کر دیا میرے لیے یہ ایک بہت بڑا شاک تھا۔ زمین پر ہونے والا پہلا قتل… اور وہ بھی میری وجہ سے… اور اگر میں پھر آپ سے یہ کہوں کہ اس میں بھی میرا کوئی قصور نہیں تھا تو کیا آپ مان لیں گے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں۔ بہرحال میرا واقعی اس میں کوئی قصور نہیں تھا لیکن مجھے پچھتاوا اور خوف ضرور تھا کہ میری وجہ سے ایک بار پھر مرد نے ایک گناہ کیا ہے۔
قتل کرنے کے بعد مرد ایک بار پھر پچھتانے لگا۔ مجھے کوسنے لگا۔ میرے لیے اس سے تکلیف دہ بات کیا ہو سکتی تھی کہ وہ پہلے کی طرح اب بھی مجھے یہی اس گناہ کا مؤجب قرار دے رہا ہے۔ اب بھی وہ شیطان کی بجائے مجھے اس کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ ابلیس کا ایک اور وار کامیاب ہو گیا تھا۔
اس بار بھی غلطی میری نہیں تھی مگر اس بار بھی میں نے اللہ سے بہت توبہ کی۔ صرف اللہ سے توبہ ہی نہیں کی بلکہ مرد سے بھی معافی مانگی۔ نتیجہ کیا ہوا ہمیشہ کی طرح اللہ نے مجھے معاف کر دیا اور مرد کے دل میں پڑنے والی گرہوں میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا۔
اس کے بعد زندگی میرے لیے کبھی بھی آسان نہیں رہی۔ مرد نے میرے لیے حتی المقدور مشکلات کھڑی کیں۔ جی بھر کر ذلیل اور رسوا کیا۔ اپنی ہر غلطی کو میرے ذمہ لگاتا رہا اور میں ہر بار یہ سوچ کر حیران ہوتی رہی کہ وہ اپنے علم کی طاقت کو استعمال کیوں نہیں کرتا۔ ہر بات کو میرے سر کیوں منڈھ دیتا ہے۔
خدا نے اس کو زمین پر حکومت کرنے کے لیے بھیجا تھا اس نے زمین پر حکومت کرنے کے بجائے صرف مجھ پر حکومت کرنا اپنا فرض سمجھا اور یہ حکومت اس نے اپنے ہر روپ میں کی ہے چاہے وہ باپ کا روپ ہو یا بیٹے کا بھائی کا روپ ہو یا شوہر کا ہر روپ میں اس نے میرے لیے زندگی کو تکلیف دہ بنا دیا ہے۔
میری وہ ساری خوبیاں جو کبھی اسے پسند تھیں اب وہ ان کا مذاق اڑاتا ہے۔ میرے ہر روپ میں اسے خود غرضی اور بے وفائی نظر آتی ہے۔ اس کا خیال ہے مجھے اگر کسی چیز میں دلچسپی ہے تو وہ روپیہ ہے اور یہ روپیہ اس کے پاس ہے اس لیے وہ اس سے مجھ سمیت میرا ہر جذبہ خرید سکتا ہے۔
میں حیران ہوتی ہوں کہ وہ کیسا خلیفہ اور خدا کا نائب ہے جو ایسے کام کر رہا ہے جنھیں خدا ناپسند کرتا ہے۔
کسی دور میں مجھے یہ فخر تھا کہ مجھے ایک ایسی مخلوق کے لیے چنا گیا ہے جو خدا کی پسندیدہ ترین ہے مگر اب اسی مخلوق کو دیکھ کر میں سوچتی ہوں کہ کیا اب بھی یہ مخلوق خدا کی پسندیدہ ترین ہے۔ فخر اور غرور کا وہ جذبہ بھی ختم ہو گیا ہے۔
دنیا پر اور کوئی مخلوق نہیں ہے جس نے مرد کی میرے جتنی خدمت اور اطاعت کی ہو اور دنیا پر اور کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جس سے مرد نے میرے جتنی نفرت کی ہو۔ میں نے اس کی اطاعت اور خدمت میں اپنے وجود کو مٹی بنا ڈالا ہے مگر اس کے باوجود وہ مجھ سے خوش نہیں ہے۔ اسی خدمت اور اطاعت کے جوش میں میں نے اس کی ذمہ داریاں بھی اپنے کندھوں پر لینی شروع کر دی ہیں اور آج میں نے مرد کے حصے کی آدھی سے زیادہ ذمہ داریاں بھی اپنے سر لے لی ہیں۔ صرف اس لیے کہ وہ آرام اور سکون سے رہے مگر اس کے باوجود وہ خوش نہیں ہے۔ مجھ سے آرام اور سکون حاصل کرنے کے باوجود وہ مجھے بے کار اور حقیر سمجھتا ہے اور صرف یہی نہیں میری تحقیر کے لیے وہ نت نئے القابات مجھے دیتا رہتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ زمین پر ہونے والے ہر جھگڑے میں میں کسی نہ کسی طرح شامل ہوں وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اگر میں زمین پر نہ آتی تو زیادہ بہتر تھا پھر زمین پر ہونے والے فساد میں بہت کم آ جاتی۔
میرا خیال تھا کہ وہ کم از کم ایک ماں کے روپ میں تو میری عزت کرے گا کیونکہ تب اس کی تخلیق میں میرا کردار بھی شامل ہوتا ہے مگر ایسا نہیں ہوا، ماں کے روپ میں بھی اس نے میری کسی خدمت اور اطاعت کو نہیں سراہا بلکہ تب بھی ان چیزوں کو اپنا حق ہی سمجھا۔ بیٹا بن کر بھی وہ مجھے ایک ناقص العقل چیز ہی سمجھتا رہا۔ میری محبت اور شفقت کو میری کمزوری ہی سمجھتا رہا بیٹا بن کر بھی اس کے خیال میں میں کبھی بھی بے وفائی کی مرتکب ہو سکتی ہوں اور تب یہ اس کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ اس خطا پر مجھے قتل کر دے۔ آپ نے ایسی کتنی خبریں پڑھی ہوں گی جن میں بیٹے معمولی سی خطا پر ماں کو مار دیتے ہیں ماں بن کر بھی مجھے اس کی زندگی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ میں فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہوں اور آپ میری محبت کا عالم دیکھیں کہ میں ماں ہوتے ہوئے بھی بیٹی کا حق چھین کر اسے دیتی رہتی ہوں۔ بچپن سے جوانی تک میں ہر چیز میں اسے بیٹی پر ترجیح دیتی ہوں اچھی خوراک سے اچھے لباس تک ہر چیز اسی کا حق بنتی ہے اور میں تو اس وقت بھی اسے روکنے کی کوشش نہیں کرتی جب وہ اپنی بہن پر ہاتھ اٹھاتا ہے یا اسے جھڑکتا ہے۔ بیٹی کے ساتھ ہر چیز میں بے انصافی کرتی ہوں اور یہ سب ایک مرد کے لیے کرتی ہوں۔ اس کے باوجود میں اس کے لیے کبھی اہمیت اختیار نہیں کرتی۔ وہ ساری عمر مجھے اموشنلی بلیک میل کرتا رہتا ہے۔
اور بہن کے روپ میں بھی وہ میرے ساتھ یہی کرتا ہے۔ بہن کے روپ میں بھی وہ مجھ پر اپنی حاکمیت جتانے کے جتن کرتا رہتا ہے۔ اس روپ میں بھی وہ ہر معاملے میں مجھ سے قربانی چاہتا ہے اور اس سب کے باوجود بھی ایک معمولی شک کی بناء پر وہ مجھے قتل کرنے سے نہیں چوکتا، تب بھی اسے میرا کوئی ایثار، کوئی خدمت کوئی اطاعت یاد نہیں رہتی۔
اور پھر اگر وہ باپ ہو تو تب بھی میرے لیے اس کے اصولوں اور قوانین میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کسی زمانے میں وہ مجھے پیدا ہوتے ہی زمین میں زندہ گاڑ دیا کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مجھ سے نجات پانے کا یہ بہترین طریقہ ہے پھر اس نے یہ طریقہ چھوڑ دیا اور کچھ نئے طریقے اپنا لیے۔ اس کی ہمیشہ یہی خواہش ہوتی ہے کہ میں اس کے گھر میں بیٹی کے روپ میں کبھی نہ آؤں اور اگر بدقسمتی سے ایسا ہو ہی جائے تو پھر وہ بچپن سے بار بار مجھے مختلف طریقوں سے یہ جتاتا رہتا ہے کہ اس نے اپنے گھر میں رکھ کر مجھ پر کتنا بڑا احسان کیا ہے۔ تب بھی وہ اسی پر اکتفا نہیں کرتا بیٹے کو مجھ پر ترجیح دیتا ہے۔ اسے ہر چیز میں مجھ پر فوقیت دیتا ہے۔
میں بچپن سے باپ پر جان نثار کرتی رہی ہوں۔ اس کے گھر میں آنے سے لے کر جانے تک میں بھاگ بھاگ کر اس کا ہر کام کرتی رہتی ہوں صرف محبت کی ایک نظر اور شفقت سے بولے گئے چند لفظوں کے لیے مگر اسے کبھی اس کا خیال ہی نہیں آیا۔ وہ میری پوری زندگی کو اپنے طریقے سے گائیڈ کرنا چاہتا ہے اور میں صرف اس کی خوشی کے لیے ہر بار اپنا دل مار لیتی ہوں۔ مگر پھر بھی خاندان کی غیرت پر آنے والی زد کے شبہ پر وہ کبھی بھی کہیں بھی مجھے قتل کر سکتا ہے اور اس کام پر کوئی اس کا ہاتھ نہیں روکتا بلکہ ہر کوئی اس کی پیٹھ ٹھونکتا ہے۔
اور اگر میں بیوی ہوں تو پھر تو شاید مرد کو مجھ پر ظلم کرنے کا لائسنس مل جاتا ہے۔ ایک عورت جسے اس کے تصرف میں دیا گیا ہے۔ وہ آخر اس پر ظلم کیوں نہ کرے۔ صبح سے لے کر رات تک کی جانے والی مشقت کا نتیجہ اکثر وہ الفاظ ہوتے ہیں جو مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
مرد ہمیشہ یہ سمجھتا ہے کہ میں گھر میں رہ کر اس کے کمائے جانے والے روپے پر عیش کرتی ہوں۔ آپ سوچیں کیا گھر کے اندر رہ کر عیش ہو سکتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ دنیا کا سب سے مشکل کام روپیہ کمانا ہے اور یہ مشکل کام وہ کرتا ہے عورت نہیں۔ وہ تو صرف اس روپیہ کو بے دردی سے خرچ کرنا جانتی ہے۔ مگر جو چیز وہ کبھی نہیں سوچتا وہ یہ ہے کہ میں وہ روپیہ کس پر خرچ کرتی ہوں اس گھر پر جس میں وہ رہتا ہے۔ ان بچوں پر جو اس کی اولاد ہیں اس خوراک پر جو وہ استعمال کرتا ہے۔ بیوی بن کر بھی میں ہر طرح اسے خوش کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں مگر وہ خوش نہیں ہوتا۔ ناراض ہو تو ایک دوسری عورت کو میری جگہ دے دیتا ہے۔ دوسری شادی کر کے بہت خوش ہو تو بھی میرے سامنے ایک باہر والی عورت ضرور شریک رکھتا ہے۔ عجیب بات ہے نا وہ عورت سے ناخوش ہے اسے عورت بے کار اور حقیر لگتی ہے۔ اسے عورت بے وفا لگتی ہے۔ اسے عورت روپیہ کی بھوکی لگتی ہے۔ اسے عورت فساد کی جڑ لگتی ہے مگر پھر بھی وہ اپنی زندگی میں عورتوں کو تبدیل کرتے رہنے کا عادی ہے اور جتنی زیادہ عورتیں ہوں اتنا ہی خوش رہتا ہے۔ وہ میری بے وفائی پر مجھے قتل کرنے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرے گا مگر طوائف کے پاس یہ جاننے کے باوجود جائے گا کہ وہ بے وفا ہے۔ اس پر یہ جاننے کے باوجود روپیہ خرچ کرے گا کہ وہ روپیہ کی بھوکی ہے۔ عجیب بات ہے نامگر یہی سچ ہے۔
کیا اتنی ناقدری دنیا میں کسی اور چیز کی ہو سکتی ہے۔ میں اگر اس کی نہیں تو اس کے بچوں کی وفادار بن جاتی ہوں۔ آدھی زندگی مرد کی اطاعت میں برباد کرتی ہوں باقی کی زندگی اولاد کی خدمت میں اولاد کو بھوک سے بچانے کے لیے مجھے گھر سے باہر نکل کر سڑکوں پر آنا پڑتا ہے۔ مرد تب بھی میرا مذاق اڑاتا ہے مجھ پر آواز کستا ہے۔ اس کا خیال ہے یہ بھی میرا ایک ڈھونگ ہے آپ خود سوچیں کبھی بھوک بھی ڈھونگ ہو سکتی ہے اور بھوک بھی اگر بچوں کی ہو تو پھر؟ رزق کمانے کا کام مجھے اللہ نے کبھی نہیں سونپا۔ مرد نے اسے بھی میرے ذمے لگا دیا پھر رزق کمانے کے لیے اس نے مجھے طوائف اور کال گرل بھی بنایا۔ بیٹی بن کر میں نے بھائیوں اور باپ کے لیے اپنی پوری زندگی بھی ضائع کی اور ماں بن کر بچوں کے لیے پوری عمر کا جوگ بھی لیا مگر کہیں بھی میری کوئی قربانی ایسی نہیں جسے مرد نے سراہا ہو۔ اس نے میرے ہر روپ کو اس امیج کے سامنے کھڑا کر دیا جو اس کے ذہن میں فیڈ ہے۔
دنیا میں کسی دوسری مخلوق کو اتنا بے قدر نہیں کیا گیا جتنا مجھے کیا گیا ہے اور دنیا کی کسی دوسری مخلوق نے اپنے کندھے پر اتنی ذمہ داریاں نہیں اٹھائیں جتنی میں نے اٹھائی ہیں۔ میں نے تو چیونٹی سے بھی بڑھ کر بوجھ اٹھایا ہے۔ اولاد کی پیدائش سے پرورش مرد کی خدمت و اطاعت اور گھر سے باہر تک کا ہر کام مجھے کرنا پڑا ہے اور میں نے کیا ہے۔ اس کے باوجود مجھے سراہا نہیں جاتا۔ اس کے باوجود کہ مرد کو خوش رکھنے کے لیے میں نے اپنے آپ کو اپنے مقام سے گرا دیا ہے۔ پھر بھی کوئی مجھ سے خوش نہیں ہے۔
پیغمبروں کی ماں ہونے کے باوجود مجھے ناقابل اعتبار سمجھا جاتا ہے۔
دنیا میں کوئی ایسا نہیں ہے جو مجھ سے خوش ہو۔ حتیٰ کہ اللہ بھی! مگر میں کسی کے سامنے اپنی کیا صفائی پیش کروں۔ میرے پاس تو کوئی وضاحت کوئی صفائی ہے ہی نہیں۔
میں اکثر سوچتی ہوں کہ آخر میری زندگی کا مقصد کیا ہے کیا صرف دوسروں کو آرام و سکون دینا اور دوسرے بدلے میں میرے لیے کیا کرتے ہیں؟ اور تب مجھے اللہ سے شکوہ ہوتا ہے کہ اس نے شاید واقعی مجھے اتنا حقیر بنا دیا ہے کہ زمین پر موجود انسان کو میری قدر ہی نہیں ہے۔ مگر شکوہ کرنے سے آخر ہوتا کیا ہے۔ شکوہ کرنے سے اللہ کی ناراضگی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
آپ ہی سوچیں کیا کوئی مخلوق میرے جیسی ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی ہر ایک کو ناراض کرتی پھرے۔ مگر آخر آپ بھی کیوں سوچیں عورت کے بارے میں کوئی سوچتا تھوڑی ہے۔
*…*…*




Loading

Read Previous

زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

Read Next

میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

4 Comments

  • ?Iska 2nd part bhi hai kiya

  • you represented the absolute truth

  • Bohat hi umdah tehrer hai

  • Awesome
    Effort

Leave a Reply to ghulam aisha Cancel reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!