عورت، مرد اور میں — عمیرہ احمد

میں

میں ابلیس ہوں… ویسے اس نام سے مجھے کم لوگ ہی جانتے ہیں، زیادہ تر لوگ مجھے شیطان کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی میرے اور بہت سے نام ہیں۔ آپ تو جانتے ہی ہیں ہر روز لغت میں کتنے الفاظ کا اضافہ ہوتا رہتا ہے، اسی اعتبار سے میرے ناموں میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بہرحال مجھے ان ناموں میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے کیونکہ میں نام کی بجائے کام میں دلچسپی رکھنے والوں میں شامل ہوں… ویسے بھی نام ایک بے معنی شے ہے اہم چیز تو کام ہے اور وہ کیا کہتے ہیں گلاب کو جس نام سے بھی پکارو وہ گلاب ہی رہتا ہے۔ میں بھی اسی سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتا ہوں۔
بہرحال یہ تو ایک بے مقصد سی بحث ہے جو میں نے خواہ مخواہ ہی چھیڑ دی حالانکہ مجھے تو تعارف کروانے کی ضرورت ہی نہیں تھی… میرا تو نام ہی میری پہچان ہے مگر پھر بھی بعض دفعہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اپنے بارے میں بات کی جائے، لوگوں کو اپنی تاریخ سے آگاہ کرتے رہنا چاہیے۔ اس طرح وہ بہت سی باتوں سے واقف رہتے ہیں۔ تو آج میں بھی کچھ ایسے ہی موڈ میں ہوں۔
نام تو میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں، کام سے بھی آپ بخوبی واقف ہیں مگر پھر بھی میں اس پر آگے چل کر روشنی ڈالوں گا مگر ابھی آغاز کرتے ہیں میری تاریخ سے۔
یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ میں خدا کی مخلوق میں شامل تھا۔ اس مخلوق میں جسے اس نے صدیوں سے اپنے پاس جنت میں رکھا ہوا تھا۔ اس مخلوق میں جو انسان کی آمد سے پہلے اسے سب سے زیادہ عزیز تھی۔ تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ میرا قیام شروع سے ہی جنت میں تھا۔
جب تک میں جنت میں رہا، دن رات خدا کی عبادت کرتا رہا۔ مجھے اس کے علاوہ اور کوئی کام تھا ہی نہیں اور یقین کریں کہ اگر کوئی اور کام ہوتا بھی تو بھی میں ہر کام چھوڑ کر خدا کی عبادت کرتا۔ ان دنوں مجھے خدا سے کچھ ایسا ہی عشق تھا۔ عبادت تو جنت میں موجود اور بھی مخلوقات کرتی تھیں مگر مجھے ہمیشہ یونہی لگتا تھا کہ جتنی محبت، عقیدت اور جانفشانی سے میں اللہ کی عبادت کر رہا ہوں کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔
مجھے یاد نہیں کہ میں نے کتنا عرصہ خدا کی عبادت کی۔ یہ یاد رکھنے والی بات ہی نہیں آپ خود سوچیں آپ اپنے خالق کے پاس ہوں۔ اس کی عبادت کر رہے ہوں تو پھر آپ وقت کا حساب کیسے لگا سکتے ہیں تو کچھ یہی حال میرا تھا۔ مجھے بھی یاد نہیں کہ میں نے کتنے سیکنڈ، کتنے منٹ، کتنے گھنٹے، کتنے دن، کتنے ہفتے، کتنے مہینے، کتنے سال، کتنی صدیوں اور کتنے زمانے اللہ کی عبادت کی اور صرف عبادت ہی نہیں کی، ڈوب کر اللہ کی عبادت کی۔ اپنا دل و جان لگا کر اس سے محبت کی۔
میرا خیال تھا کہ میری اس عبادت کی وجہ سے اللہ کے نزدیک میرا ایک خاص مقام بن گیا ہو گا۔ آپ خود سوچیں اتنی عبادت کے بعد میں اگر یہ توقع کر رہا تھا تو کیا غلط کر رہا تھا۔ آپ بھی تو یہی کرتے ہیں پانچ وقت کی نماز بھی پڑھ لیں تویہی توقع کرنے لگتے ہیں کہ اب آپ اللہ کے برگزیدہ بندوں میں شامل ہو گئے ہیں تو میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ میں بھی یہ توقع کرنے لگا تھا کہ میں اب خدا کے نزدیک اہمیت اختیار کر گیا ہوں مگر یہ میری سب سے بڑی بھول تھی لیکن اس وقت یہ بات میں نہیں جانتا تھا۔
تو خیر میں آپ کو بتا رہا تھا کہ میں نے صدیوں اللہ کی عبادت کی اور جب میں یہ سوچ رہا تھا کہ اب میں اللہ کے نزدیک اہمیت اختیار کر گیا ہوں اللہ نے مجھے ایک جھٹکا دیا۔
جی ہاں… زبردست جھٹکا… اور وہ جھٹکا آپ کی صورت میں دیا تھا یعنی انسان کی صورت میں۔





مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب اللہ تم کو میرے سامنے اور سب کے سامنے لایا تھا اور اللہ نے ہم سب کو بتایا تھا کہ یہ انسان ہے اور اسے اللہ نے زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم سب ہکا بکا رہ گئے تھے۔ ہم سب سے مراد جنات اور فرشتے۔ ہمیں توقع نہیں تھی کہ ہمارا پروردگار اتنا بڑا فیصلہ یوں اچانک کرے گا۔
بہت دیر تک سکتے میں رہنے کے بعد بالآخر فرشتوں نے پہل کی اور اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ کیا وہ اس انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجے گا جو وہاں فساد پھیلائے گا۔ میں فرشتوں کی اس بات پر بڑا خوش ہوا کیونکہ یہ ایک بہت اہم پوائنٹ تھا۔ میرا خیال تھا۔ شاید اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ بدل دے گا مگر ایسا نہیں ہوا۔ اللہ نے جواب میں فرمایا کہ تم وہ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں پھر اللہ نے ہم سے کچھ چیزوں کے نام پوچھے۔ اب مجھ سمیت سب سوچ میں پڑ گئے۔ وہ سوال اتنا انوکھا اور عجیب تھا کہ ہم جواب دے ہی نہیںسکتے تھے۔ ہمیں تو صرف عبادت کرنی آتی تھی۔ مگر اس دن جو کچھ اللہ ہم سے پوچھ رہے تھے وہ تو ہمیں آ ہی نہیں سکتا تھا ہم نے سوچنے کی بہت کوشش کی کہ شاید کہیں سے کوئی جواب بن پڑے۔ آخر کو اللہ نے ہم سے ایک سوال پوچھا تھا۔ جواب دینا تو ہمارے لیے ضروری تھا۔ خود میں نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے مگر جواب ندارد۔
کچھ شرمندہ ہو کر فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ ہم اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتے جو تو نے ہمیں سکھایا ہے۔ اس پر اللہ نے فرمایا کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے پھر اللہ نے خاموش کھڑے اس انسان سے بھی انہی چیزوں کے نام پوچھے۔
اس وقت میرا دل بے اختیار قہقہے لگانے کو چاہ رہا تھا۔ میں بے تحاشا خوش تھا۔ جن چیزوں کے نام آگ اور نور سے بنی ہوئی ہمارے جیسی مخلوق نہیں بتا سکتی تھی ان کا نام مٹی سے بنایا گیا انسان کہاں دے سکتا تھا۔ میں یہ سوچ کر خوش تھا کہ جب اسے بھی جواب نہیں آئے گا تو پھر اللہ تعالیٰ اسے زمین پر اپنا نائب کبھی نہیں بنائیں گے اور اسے دوبارہ مٹی بنا کر زمین پر بکھیر دیں گے۔
مگر ایسا نہیں ہوا اس وقت ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی اور منہ کھلے کے کھلے رہ گئے جب اس مٹی سے بنے انسان نے بہت اطمینان اور سکون کے ساتھ بڑی روانی سے ان تمام سوالات کے جواب دے دیے۔ میں آپ کو سچ بتاؤں ایک لمحے کے لیے تو میرا سانس رک گیا تھا۔ کیا یہ ممکن تھا کہ مٹی سے بنا ہوا ایک انسان ان سوالوں کے جواب دے دے جن سوالوں کے جواب نور اور نار سے بنی ہوئی مخلوق بھی نہ دے سکی ہو۔
مگر یہ حیرت صرف ایک لمحہ کے لیے رہی تھی۔ دوسرے ہی لمحہ میں جان گیا تھا کہ ان سوالوں کے جواب دینے کی صلاحیت انسان کے اپنے پاس نہیں تھی یہ اللہ کا خاص تحفہ تھا جو اسے عنایت کیا گیا تھا۔ یہ تو مجھے بہت بعد میں پتہ چلا کہ اس تحفہ کو علم کہتے ہیں مگر اس وقت مجھے انسان سے بے تحاشا حسد ہوا کہ اللہ نے کتنی آسانی سے اسے ایک اتنا بڑا تحفہ عطا کر دیا ہے۔
اس وقت میرا دل چاہ رہا تھا۔ میں پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔ اتنی عبادت کرنے کے بعد بھی مجھے کچھ نہیں ملا اور انسان کو… ایک منٹ ٹھہرئیے میں ذرا اپنے غصہ پر قابو پا لوں…
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اس وقت مجھے انسان سے نفرت ہو گئی تھی۔ شاید میں اس نفرت کا اظہار کبھی نہ کرتا مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا اس نے تو مجھے آپے سے باہر کر دیا۔
آپ سوچ سکتے ہیں کہ اللہ نے آگ سے بنے ہوئے جنات اور نور سے بنے ہوئے فرشتوں کو مٹی سے بنے ہوئے انسان کے سامنے سجدہ کرنے کے لیے کہا… مٹی سے بنے ہوئے انسان… آخ تھو… میرا تو دل خراب ہوتا ہے یہ سوچ کر کہ مٹی سے بنے ہوئے…
خیر چھوڑیں میں آپ کو آگے بتاتا ہوں۔ تو جب خدا نے ہم سب کو مٹی سے بنے ہوئے انسان کے سامنے سجدہ کرنے کے لیے کہا تو میں غصہ اور حسد سے پاگل ہو گیا۔ آج تک میں خدا کو سجدہ کرتا آیاتھا۔ آپ کو تو اندازہ ہی نہیں کہ سجدہ کیا ہوتا ہے سجدہ تو وہ تھا جو میں خدا کو کیا کرتا تھا پورے دل و دماغ سے یہ مان لیا کرتا تھا کہ اللہ ہی میرا رب ہے اور اس کے سوا دوسرا کوئی نہیں ہے جو اس کی ذات یا صفات میں شریک ہے پوری یکسوئی، پوری توجہ… اور ہاں… آپ مانیں یا نہ مانیں پوری محبت سے میں اللہ کو سجدہ کیا کرتا تھا اور اب اللہ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں انسان کو سجدہ کروں۔
ٹھیک ہے اللہ چیزوں میں تفریق نہیں کرتا اس کے نزدیک سب برابر ہیں چاہے وہ آگ ہو پانی ہو نور ہو یا مٹی۔ وہ کسی قسم کے اسٹیٹس میں دلچسپی رکھتا ہے نہ چیزوں کو اس کے مطابق کیٹگرائز کرتا ہے۔ مگر میں یہ کیسے بھول جاتا کہ میں آگ سے بنایا گیا ہوں جو ہر حال میں مٹی سے برتر ہے۔ ٹھیک ہے اللہ کو ان چیزوں کی پرواہ نہیں کیونکہ وہ سبھی چیزوں کا خالق ہے مگر میں تو مخلوق میں شامل تھا میں کیسے ان چیزوں کی پرواہ نہ کرتا آپ اپنے آپ کو دیکھ لیں۔ یہ جو آپ امیری غریبی کے مسئلے پر خود کو برتر اور دوسروں کو کمتر سمجھتے ہیں تو وہ میرے والا مسئلہ بھی کچھ اسی قسم کا تھا۔ اس زمانہ میں اس میٹریل پر اسٹیٹس کی بنیاد ہوتی تھی جس میٹریل سے آپ کو بنایا گیا ہو۔
خیر تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ میں غصہ سے پاگل ہو گیا۔ صدیوں اللہ کی عبادت کرنے کے بعد اللہ نے زمین کی خلافت انسان کو دے دی۔ میں نے صبر کیا۔ علم کی نعمت دے دی میں کچھ نہیں بولا مگر اب اس کو سجدہ جیسی چیز میں شریک کر لیا میرا دل غم سے پھٹا جا رہا تھا۔ مجھے اپنی عبادت پر بڑا ناز اور گھمنڈ تھا۔ آپ کہیں گے کہ عبادت پر ناز اور گھمنڈ نہیں ہونا چاہیے… نہیں ہونا چاہیے مگر مجھے تھا۔ میں نے آپ جیسی عبادت نہیں کی تھی واقعی عبادت کی تھی اور اس کا نتیجہ انسان کی شکل میں میرے سامنے کھڑا تھا۔
میں نے خدا سے صاف انکار کر دیا کہ میں اسے سجدہ نہیں کروں گا کبھی سجدہ نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کو میرے انکار پر بہت غصہ آیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت سے نکلنے کا حکم دے دیا۔ ساتھ ہی میرے لیے عذاب کا اعلان کر دیا۔
تب میں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ وہ مجھے اتنی اجازت دے کہ میں ابد تک انسان کو بھی اسی طرح نافرمانی پر مجبور کرتا رہوں جس طرح انسان کی وجہ سے میں نافرمانی پر مجبور ہو گیا تھا۔ اللہ نے میری درخواست قبول کر لی۔
اس وقت میں نے اللہ سے کہا کہ میں انسان پر بار بار وار کروں گا۔ اس کے آگے سے آؤں گا، پیچھے سے آؤں گا، اوپر سے آؤں گا، نیچے سے آؤں گا، دائیں سے آؤں گا، بائیں سے آؤں گا اور میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ بھی کہا کہ جب میں ایسا کروں گا تو تو ان میں سے زیادہ تر کو نافرمان پائے گا اور تب اللہ نے فرمایا تھا کہ جونافرمانی کریں گے۔ وہ تیرے ساتھ ہی دوزخ میں جائیں گے مگر جو میرے بندے ہوں گے وہ تیرے کسی فریب میں نہیں آئیں گے۔
آپ یقین نہیں کر سکتے کہ میں اللہ کے اس فرمان پر حسد سے کس طرح جلا بھنا تھا۔ اللہ کو کس قدر اعتبار اور اعتماد تھا انسان پر اور کتنی محبت سے اللہ نے کہا تھا۔ میرے بندے… اُف میں بتا نہیں سکتا کہ کیسے میں اس وقت انسان کا خون کر دینا چاہتا تھا۔ میں صدیوں اس کی عبادت کر کے اس قابل نہیں ہو سکا تھا کہ وہ مجھ پر اعتبار کرتا اور انسان چند لمحوں میں اپنی تخلیق کے بعد اس کے اتنا قریب ہو گیا تھا کہ اللہ اس پراپنے اعتماد کا ذکر یوں کر رہا تھا۔
میں نے اسی وقت طے کر لیا تھا کہ میں نے انسان پر خدا کے اس اعتماد کو ختم کرنا ہے اور اس دن سے لے کر آج تک میں انہی کوششوں میں مصروف ہوں۔
اللہ نے اس دن انسان کی تخلیق کا سلسلہ صرف مرد پر ہی ختم نہیں کیا بلکہ اس کے بعد اس کے ساتھی کے طور پر عورت بھی بنائی۔
وہ دونوں جنت کے باغوں میں پھرا کرتے اور میں انھیں گمراہ کرنے کے لیے منصوبے بناتا رہا۔ مگر اپنے کسی بھی منصوبے پر عمل کرنے سے پہلے میں نے ایک لمبے عرصے تک ان دونوں کو اپنی نظروں میں رکھا۔ ان کی ایک ایک عادت، ایک ایک حرکت نوٹ کرتا رہا۔ انھیں کون سی چیزیں خوش کرتی ہیں اور کون سی پریشان کر دیتی ہیں۔ کون سی چیز ان کی کمزوری ہے اور کون سی چیز ان کی مضبوطی۔ میں ہر چیز، ہر بات نوٹ کرتا رہا۔
ان دونوں کے درمیان اس زمانے میں اتنی دوستی نظر آتی تھی کہ مجھے حسد ہونے لگا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ یک جاں دو قالب ہوں اور ویسے یہ ٹھیک بھی تھا۔ آخر عورت کو مرد کی پسلی سے ہی تو پیدا کیا گیا تھا۔
پہلی بار عورت کی تخلیق کے بعد جب میں نے عورت کو دیکھا تھا تو میں دنگ رہ گیا تھا۔ اس سے زیادہ خوبصورت مخلوق میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی اور میرے غم و غصہ میں یہ سوچ سوچ کر اضافہ ہوتا گیا کہ یہ خوبصورت مخلوق مرد کے ساتھی کے طور پر تخلیق کی گئی ہے۔
پہلے میں عورت کی خوبصورتی سے متاثر ہوا تھا پھر آہستہ آہستہ مجھے اس میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبیاں نظر آنے لگیں۔ وہ رحم دل تھی، مہربان تھی، فیاض تھی، قربانی کے جذبے سے معمور تھی، سراپا ہمدردی تھی، ایثار کا پیکر تھی مگر یہ سب کچھ صرف اور صرف مرد کے لیے تھا۔ میرے حسد میں دن بدن اضافہ ہوتا گیا۔ آپ خود سوچیں آخر اللہ نے انسان پر نعمتوں کے ڈھیر کیوں لگا دیے اور ہر نعمت پہلے سے برتر، پہلے سے بہتر… اور ایک میں تھا جس کا اللہ کو کبھی خیال نہیں آیا حالانکہ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ میں نے اللہ کی کتنی عبادت کی تھی۔
جب میں نے ان دونوں کا بہت اچھی طرح جائزہ لے لیا تو ایک دن میں ان کو پھانسنے کے لیے کسی ایک منصوبے کو سوچنے لگا۔ آخر کس طرح میں ان دونوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوتا؟
سب سے پہلے مجھے ان دونوں کے باہمی اعتماد کو ختم کرنا تھا انھیں ایک دوسرے سے بدگمان کرنا تھا۔ اس کام کے لیے میں نے بہت سے منصوبے بنائے اور بالآخر ایک منصوبہ میرے دل کو بھا گیا۔
میں جانتا تھا جنت میں ایک درخت ایسا ہے جس کے قریب جانے سے اللہ نے انسان کو منع فرمایا ہے اور میں نے سوچا تھا کہ میں انسان کو بہکا کر اسی درخت کے پاس لے جاؤں گا نہ صرف وہاں لے جاؤں گا بلکہ اس درخت کا پھل بھی کھانے پر مجبور کر دوں گا اور میں نے یہ سوچا تھا کہ یہ کام دونوں سے کرواؤں گا اور اس طرح کرواؤں گا کہ گناہ کرنے کے بعد دونوں ہی اپنے آپ کے بجائے دوسرے کو اس غلطی کے لیے قصور وار سمجھے اور پھر اس طرح دونوں کے درمیان موجود اعتماد اور دوستی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتی۔
منصوبہ طے کرنے کے بعد میں نے دل و جان سے اس پر عمل درآمد شروع کر دیا۔ شروع شروع میں مجھے ناکامی ہوئی وہ دونوں کسی طور بھی میرے جھانسے میں آنے پر تیار نہ تھے مگر میری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ میں مستقل مزاج اور ثابت قدم ہوں، جو طے کر لیتا ہوں وہ ہر قیمت پر کر گزرتا ہوں۔
تو میں نے اس معاملے میں بھی ہمت نہیں ہاری۔ ایک داؤناکام ہوتا تو دوسرا آزماتا۔ دوسرا کارگر ثابت نہ ہوتا تو تیسرے داؤ کو کام میں لاتا اور آخر کار میری محنت رنگ لانے لگی۔ وہ انسان جو پہلے میری بات سننے پر بھی تیار نہ تھا اب آہستہ آہستہ نہ صرف میری بات سننے لگا تھا بلکہ میری بات اس کے دل پر اثر بھی کرنے لگی تھیں۔ پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب میں مکمل طور پر ان دونوں کے ذہنوں کو اپنے زیر اثر لے آیا تھا۔ دونوں وہی کر رہے تھے جو میں کہہ رہا تھا وہ کہہ رہے تھے جو میں چاہتا تھا اور پھر انھوں نے وہی کیا جس کا منصوبہ میں نے بنایا تھا۔ دونوں نہ صرف اس درخت کے پاس گئے بلکہ اس درخت کا پھل بھی کھایا۔ اس وقت میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی میں چھلانگیں لگا رہا تھا، چیخیں مار رہا تھا۔ میں نے انسان کو نافرمانی پر مجبور کر دیا تھا۔ اس انسان کو جسے خدا نے زمین پر اپنا نائب بنایا تھا۔
اب میں چاہتا تھا کہ اللہ ان کو بھی اسی طرح سزا دے جس طرح اس نے نافرمانی پر مجھے سزا دی تھی اور ایسا ہی ہوا۔ اللہ نے ان کی نافرمانی پر انھیں جنت سے نکال دیا۔ مجھے اس سزا پر بڑی مایوسی ہوئی کیونکہ مجھے یہ سزا بہت کم لگی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ خدا انسان سے زمین کی خلافت بھی چھین لے مگر ایسا نہیں ہوا اللہ نے انھیں صرف زمین پر بھیج دیا۔
میں بھی ان دونوں کے ساتھ ہی زمین پر آ گیا۔ میں نے طے کر لیا تھا کہ ان کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا۔ ایک بار پھر انھیں کسی ایسی نافرمانی پر مجبور کر دوں گا جس کی سزا کے طور پر اللہ انسان کو زمین کی خلافت سے محروم کر دے۔
زمین پر آنے کے بعد مجھے یہ دیکھ کر بڑی کوفت ہوئی کہ مرد اور عورت دونوں اللہ سے معافی مانگ رہے ہیں، توبہ کرنے میں مصروف ہیں۔ میں نے ان دونوں کی توجہ دوسری چیزوں کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کی مگر میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
اللہ نے ان دونوں کو زمین پر بھیجتے ہوئے ایک دوسرے سے الگ الگ بھیجا تھا اور وہ ایک دوسرے سے بہت دور تھے۔ مجھے اس وقت بڑی ہنسی آتی جب دونوں اللہ سے توبہ کرتے ہوئے آنسو بہا رہے ہوتے اور ساتھ ہی ان کو ایک دوسرے کا خیال آ جاتا۔ ایک بات پر مجھے بڑا اطمینان تھا کہ میں مرد کے دل میں بدگمانی کا بیج بونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ کم از کم اب وہ عورت پر کبھی بھی اعتماد نہ کرتا۔ ایک قابل اعتماد اور جان نثار ساتھی سے میں نے اسے محروم کر دیا تھا۔ اس کے دل میں اچھی طرح یہ بات بٹھا دی تھی کہ مرد کسی قسم کی غلطی سے پاک ہے یہ صرف عورت تھی جس کے بہکاوے میں آ کر وہ خدا کی نافرمانی کر بیٹھا ورنہ اس جیسی مخلوق جو علم کی دولت سے مالا مال تھی وہ غلطی کیسے کر سکتی تھی۔ ہر بار جب اسے میرا خیال آتا تو میں اسے اچھی طرح تسلیاں دے کر مطمئن کر دیتا کہ مرد میرے فریب میں آ ہی نہیں سکتا میں تو صرف عورت کو آلہ کار بناتا ہوں کیونکہ وہ کمزور اور ناقص العقل ہے۔ رفتہ رفتہ اسے یہ یقین ہو گیا کہ واقعی یہ عورت ہی ہے جو میری آلہ کار بنی ہوئی ہے۔
دوسری طرف میں عورت کے ذہن میں یہ بھی خیال پختہ کرتا گیا کہ مرد کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ اسے بے کار سمجھتا ہے اور اسے اپنے گناہ کے لیے ذمہ دار سمجھتا ہے۔
زمین پر کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان دونوں کو ملا دیا بلکہ انھیں معاف بھی کر دیا مگر میرے لیے ابھی یہ صرف ابتداء تھی۔ کچھ عرصہ تک دونوں پرُسکون طریقے سے رہے۔ میری تمام کوششوں کو ناکام بناتے رہے اور زمین پر نسل انسانی کی پیدائش کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔
بہت سی ناکامیوں کے بعد بالآخر ایک بار پھر میرے ہاتھ ایک موقع لگا کہ میں مرد کو گناہ پر اکساؤں اور میں نے ایسا ہی کیا۔ عورت کو بنیاد بنا کر ہابیل اور قابیل میں جھگڑا کروایا اور ایک کو دوسرے کے ہاتھ سے قتل کروا دیا۔ عورت کو اس بار بھی انوالو کرنا اس لیے ضروری تھا تاکہ مرد کے ذہن میں یہ خیال پختہ ہو جائے کہ عورت ہی اصل فتنہ ہے اور وہ فساد کی جڑ ہے اور میں ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا۔
قتل کرنے کے بعد ایک بار پھر مرد نے پچھتانا شروع کر دیا۔ مگر خیر پھر تو میں وار پر وار کرتا گیا۔ پہلے میں سو وار کرتا تھا تو کہیں ایک وار جا کر کامیاب ہوتا تھا مگر ایک وقت وہ آ گیا کہ سو میں سے صرف ایک وار ہی ناکام ہوتا ہے۔
میں نے انسانوں سے وہ کچھ کروایا ہے جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ مگر آپ دیکھ لیں کہ تصور نہ کرنے کے باوجود بھی انسان وہی کچھ کرتا ہے جو میں کروانا چاہتا ہوں۔
میری کامیابی کی بنیادی وجہ تو میری پلاننگ ہی تھی اور میری پلاننگ ہمیشہ سے یہی تھی کہ میں عورت اور مرد کا باہمی رشتہ کمزور کروں، دونوں کے درمیان اعتماد ختم ہو جاتا اور شک اس کی جگہ لے لیتا تو میرا کام بہت آسان ہو جاتا اور میرا کام تو آپ جانتے ہی ہیں ناں۔
اس کے بعد تو کامیابیوں کا ایک طویل سلسلہ تھا جو میرے حصے آیا اور اب تک آ رہا ہے لیکن صرف کامیابیاں ہی نہیں کچھ ناکامیاں بھی میرے حصے میں آئی ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جن پر میں نے بڑا زور مارا مگر اللہ کی نافرمانی… یہ کام انھوں نے نہیں کیا۔
پیغمبروں نے مجھے جتنا ذلیل و نامراد کیا کسی اور نے نہیں کیا۔ آپ کو یاد ہی ہے نا حضرت ابراہیم علیہ السلام… میں کیا بتاؤں کس کس طرح میں نے انھیں اپنے بیٹے کی قربانی سے روکا تھا مگر وہ کسی طرح میرے فریب میں نہیں آئے اور پھر ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام… انھوں نے میرے ساتھ کیا کیا۔ پھر انھیں کی نسل میں سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم… یقین کریں پیغمبر تو اور بھی بہت سے تھے جنھیں میں نے بہکانے کی کوشش کی اور جنھوں نے مجھے دھتکارا مگر جس طرح انھوں نے دھتکارا… وہ تو مانا پیغمبر تھے مگر ان کے تو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ ان لوگوں کو بھی بہکاتے ہوئے مجھے دانتوں تلے پسینہ آ گیا مگر مجال ہے جو وہ ٹس سے مس ہو جائیں اور انھیں میں سے ایک حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جنھیں دس فٹ دور سے دیکھ کر میں بھاگ جایا کرتا تھا۔
عورتوں کی بات کروں تو میری ناکامیوں کی فہرست وہاں بھی مختصر نہیں ہے۔ کہیں مجھے حضرت مریم علیہا السلام کا سامنا کرنا پڑا تو کہیں رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا کا… کہیں حضرت آسیہ علیہا السلام میرے سامنے آئیں تو کہیں حضرت ہاجرہ علیہا السلام اور پھر امہات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ ہر جگہ مجھے کامیابی نہیں ملی بعض جگہ ناکامی بھی میرے سامنے آتی رہی مگر ناکامی نے میرے حوصلے کو پسپا نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مجھے انسان پر چاہے وہ مرد ہو یا عورت پورا غلبہ حاصل ہے۔ ایسا غلبہ کہ میں جو چاہے ان سے کروا لوں۔
مرد کے دل میں مسلسل عورت کے خلاف زہر بھرتا رہتا ہوں، عورت کے دماغ کو مرد سے بدگمان کرتا رہتا ہوں۔ مرد کے ہاتھوں عورت کی بے حرمتی کرواتا رہتا ہوں، عورت کے ہاتھوں مرد کی بے عزتی کرواتا رہتا ہوں۔ باقی سارے کام بڑی آسانی سے ہو جاتے ہیں کیونکہ ایک ہی مخلوق سے تعلق رکھنے والے یہ مرد اور عورت اگر ایک دوسرے کے ویسے ساتھی بن جاتے جیسے اللہ نے انھیں بنانا چاہا تھا تو شاید میں اتنا کامیاب نہ ہوتا مگر میں نے سب سے پہلے ان کے اس رشتے پر ہی وار کیا اور آپ خود دیکھ لیں کہ آج میں کتنا کامیاب ہوں۔ شوہر اور بیوی آپس میں خوش نہیں ہیں، بہن اور بھائی کے درمیان جھگڑا ہے، ماں اور بیٹا آپس میں الجھ رہے ہیں، باپ اور بیٹی کو آپس میں شکایتیں ہیں اور یہ سلسلہ چلتا ہی جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ میں نے تو سڑک پر چلنے والے ایک دوسرے سے انجان مرد اور عورت کے درمیان بھی غلط فہمی اور نفرت کے بیج بو دیے ہیں۔
مرد گھر سے باہر نکلنے والی عورت کی تحقیر کرتا ہے اور میں گھر سے باہر نکلنے والی عورت کے ذہن کو کچھ اس طرح بنا دیتا ہوں کہ وہ اسی حلیے میں گھر سے باہر آتی ہے جو اسے اور قابل تحقیر بنائے، پھر آگے میں کچھ نہیں کرتا، سب کچھ خود بخود ہی ہو جاتا ہے۔
صدیوں پہلے انسان کو زمین کا خلیفہ دیکھ کر حسد اور جلن کی جو آگ میرے اندر بھڑکی تھی وہ آج بھی روشن ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ اب یہ آگ میرے دامن کو نہیں جلا رہی، انسان کو بھی راکھ کرتی جا رہی ہے۔ اللہ نے ایک بار فرمایا تھا کہ آگ کا عذاب اس کے علاوہ اور کوئی نہیں دے سکتا۔ مگر میں نے انسان کے ہاتھوں… جی بالکل آپ کے ہاتھوں یہ عذاب بھی دوسرے انسانوں کو دیا ہے۔ آپ بھولے تو نہیں ہوں گے نا جہیز کے مسئلے پر جلائی جانے والی عورتیں۔ مجھے کتنی ہنسی آ رہی ہے میں آپ کو کیا بتاؤں۔ انسان کو اللہ نے اب بھی اپنی خلافت سے نہیں ہٹایا مگر میں سچ بتاؤں انسان میں اب ایسی کوئی خوبی نہیں رہی ہے جو اسے خلافت کا اہل ثابت کر سکے اور یہ بات خود انسان بھی جانتا ہے۔ خود سوچیں جو مرد ایک خاندان کی نگہبانی صحیح طرح سے نہیں کر سکتا، وہ خلافت کیا کرے گا۔
مگر خیر چلیں۔ انسان کو ابھی بھی اسی خوش فہمی کا شکار رہنے دیں کہ وہ ابھی بھی اللہ کا پسندیدہ ہے اور وہ جو چاہے کرے اللہ اسے معاف کر دے گا۔ میں آپ کو بتاؤں اللہ ہر بار معاف نہیں کرتا اس کی ایک مثال تو میری صورت میں آپ کے سامنے ہے۔
تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ میری زندگی جتنی بامقصد مجھے آج محسوس ہوتی ہے، پہلے کبھی نہیں تھی۔ مجھے اپنی زندگی میں کسی خلا کا احساس نہیں ہوتا۔ میرا وجود اللہ نے آگ سے بنایا تھا اور میں نے یہ آگ اس کے پورے شر کے ساتھ آگے انسان کو منتقل کر دی ہے اور مسلسل کر رہا ہوں اور میرا ہر عمل مجھے پرُسکون کر رہا ہے۔ مگر مرد اور عورت کو میں نے زندگی کے خالی اور بے مقصد ہونے کا فریب اور جھانسا دیا ہے۔ پھر ان خلاؤں کو پرُ کرنے کے لیے وہ کیا کیا کرتے ہیں۔ وہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ آخر آپ بھی تو انسان ہیں۔
مگر اس سب کے باوجود کبھی کبھی مجھے خوف آتا ہے، اتنا خوف کہ میں راتوں کو سو نہیں سکتا اور وہ خوف صرف ان لوگوں کے بارے میں سوچ کر آتا ہے جنھیں اللہ نے ”میرے بندے” کہا تھا اور میں جانتا ہوں بات میں اللہ سے بڑھ کر سچا کوئی اور نہیں۔ میں یہ بھی علم رکھتا ہوں کہ دنیا میں وہ بندے اب بھی ہیں۔ میری لاکھ کوششوں کے باوجود بھی اور اگر… اگر… وہ بندے بڑھنا شروع ہو گئے تو کیا ہوگا؟ کیا ہوگا؟ کیا ہوگا؟ بس پھر… میرا خوف مجھے راتوں کو بے خواب اور دن میں بے قرار رکھتا ہے۔
مگر پھر مجھے آپ سب کا خیال آتا ہے ”آپ سب کا” اور پھر میں ایک گہری سانس لے کر آرام اور سکون سے سو جاتا ہوں۔
آپ کے لیے بہت سی بددعاؤں اور نفرت کے ساتھ۔
آپ کا اپنا شیطان
*…*…*




Loading

Read Previous

زندگی گلزار ہے — عمیرہ احمد

Read Next

میری ذات ذرّہ بے نِشاں — عمیرہ احمد

4 Comments

  • ?Iska 2nd part bhi hai kiya

  • you represented the absolute truth

  • Bohat hi umdah tehrer hai

  • Awesome
    Effort

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!